عالمی ادارۂ صحت کا انتباہ

عالمی ادارۂ صحت(WHO) نے کورونا وائرس کی تباہ کاری اور اس کے پھیلائو کے بارے میں دنیا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن ممالک اور علاقوں میں کمی کا تاثر پایا جاتا ہے وہاں وبا کی اگلی لہر کا خطرہ موجود ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ کے مطابق دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد 91 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ پونے پانچ لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ نے اس وبا کے مقابلے کے حوالے سے جس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے وہ یہ ہے کہ وبائی بحران سے اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحرانوں نے بھی جنم لیا ہے، لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی قیادت بیدار نہیں ہوسکی ہے، دنیا بھر میں قیادت کی سطح پر ذہنی تقسیم موجود ہے، اور ایک منقسم دنیا اس وبا کو شکست نہیں دے سکے گی اور اس سے نمٹنے کی جدوجہد میں مشکلات پیش آئیں گی۔ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے یہ انتباہ دبئی میں منعقد ہونے والے ایک عالمی فورم کے ذریعے جاری کیا گیا ہے۔ یہ انتباہ اس تناظر میں جاری کیا گیا ہے کہ فرانس اور نیوزی لینڈ میں وبا کے خاتمے پر جشنِ مسرت منایا گیا، فیسٹیول منعقد کیے گئے، بچوں کے لیے اسکول کھول دیے گئے، دیگر یورپی ممالک میں بھی پابندیاں نرم کی گئیں اور لاک ڈائون کو نرم کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ کے انتباہ کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اس وبا کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے، جن علاقوں میں بظاہر کمی یا خاتمے کا تاثر موجود ہے وہاں اس وبا کی دوسری لہر کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں وبا کی تباہ کاری بڑھ رہی ہے، جبکہ یورپ میں صورتِ حال بہتر ہونے کا تاثر موجود ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ کی اس بات میں وزن ہے کہ عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں عالمی قیادت پیدا نہیں ہوسکی ہے۔ نہ حکومتیں عالمی سطح پر کوئی یکجہتی قائم کرسکی ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں سیاسی اور علمی قیادت کے درمیان اتفاق اور ہم آہنگی پیدا ہوسکی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی ادارے… چاہے وہ اقوام متحدہ ہو، مالیاتی ادارے ہوں، صحت سے متعلق ادارے ہوں… دنیا کی رہ نمائی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس سلسلے میں عالمی قیادت کے درمیان جو مسئلہ اختلاف کا سب سے بڑا سبب بنا ہے وہ یہ ہے کہ صحت سے متعلق ماہرین اور اداروں کی رائے یہ ہے کہ وبا کی تباہ کاری کو روکنے کا واحد علاج یہ ہے کہ شہروں اور آبادیوں کو مکمل طور پر بند کردیا جائے، جبکہ سیاسی قیادت کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ شٹ ڈائون، لاک ڈائون کورونا سے بھی بڑی تباہی ہے۔ چونکہ ماہرینِ صحت ابھی تک اس وبا کے اسباب کا تعین نہیں کرسکے ہیں، یا انھوں نے دنیا کو بے خبر رکھا ہے جس کی وجہ سے مدت کا تعین نہیں ہوپایا ہے کہ کب تک بستیوں اور شہروں کو بند رکھنا ہے اور اس کی کیا قیمت دینی ہوگی۔ اس سلسلے میں رہنمائی کے لیے عالمی ادارۂ صحت بھی اپنا کردار ادا نہیں کرسکا۔ اپنے تازہ انتباہ میں اس ادارے کے سربراہ نہ کوئی طریقہ کار بتاسکے، نہ کوئی یقین دہانی کرا سکے، نہ کسی مدت کی پیش بینی کرسکے، وہ صرف اس بارے میں خبردار کررہے ہیں کہ عالمی قیادت میں یکجہتی کا فقدان ہے۔ عالمی تعاون کی ضرورت کا احساس پاکستان میں برّی فوج کے سالارِاعلیٰ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دلایا ہے، اُن سے چین کی فوج کے ڈاکٹروں کی دس رکنی ٹیم نے جو پاکستان کے دورے پر ہے، کورونا کی وبا کے حوالے سے ملاقات کی۔ اس وبا کا آغاز چین سے ہوا تھا۔ چین اور پاکستان نے وبا کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے باہمی تعاون کیا جو ابتدا میں مؤثر رہا ہے۔ چینی فوج کے ڈاکٹروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے چین کے تعاون کو سراہا اور کہاکہ دنیا ابھی تک کوویڈ19- کا علاج ڈھونڈ رہی ہے۔ وبا پر قابو پانے اور معیشت پر اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی تعاون اہم ہے۔
ان تمام بیانات کے باوجود تعاون کا فقدان اور انتشار کا عالم ہے۔ عالمی سطح پر سپر پاور اور اعلیٰ ترین سائنسی اور ٹیکنالوجیکل طاقت امریکہ کے صدر نے عالمی ادارۂ صحت سے ہی جنگ چھیڑ دی۔ نہ صرف عالمی ادارۂ صحت بلکہ اپنی حکومت کے ارکان اور اداروں سے محاذ آرا ہوگئے، ساتھ ہی چین امریکہ سرد جنگ کے تناظر میں چین کو وبا کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ ہمارے ملک کا حال تو اور زیادہ برا ہے۔ جتنی غیر ذمہ دارانہ باتیں ہر سطح پر ہوئی ہیں اس کی ماضی میں کم ہی مثال ملے گی۔ اب عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ کا یہ انتباہ سامنے آیا ہے کہ جشن مت منائو، وبا کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی چارہ سازوں کو یا تو اس وبا کے اسباب اور علاج کا علم نہیں ہے یا وہ اصل حقائق اب تک دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حقائق کے بیان نہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ جن کے پاس دنیا کی قیادت ہے وہ خدا سے غافل ہیں، اس لیے ان کا علم علمِ نافع نہیں بن سکا ہے۔ عہدِ جدید کی ساری علمی، سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی انسانیت کُشی کے لیے ہی استعمال ہوئی ہے۔ ارتکازِ دولت کو افراد اور قوموں کا اصل نصب العین قرار دے کر ’’جاہلیت‘‘ کی تاریکی میں بھٹکنے کے چھوڑ دیا گیا ہے، اس لیے وہ ابھی تک اس وبا کی ہلاکت کی معنویت کا تعین بھی نہیں کرسکے ہیں۔