امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے پیٹرول کی حالیہ قلت کے بارے میں پتے کی بات کی تھی کہ ’’پوری دنیا میں پیٹرول کو خریدار نہیں مل رہا لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خریدار کو پیٹرول نہیں مل پا رہا۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں پیٹرول کی عدم دستیابی نے ثابت کردیا ہے کہ آئل کمپنیاں حکومت سے زیادہ طاقت ور اور اپنی مرضی کی مالک ہیں۔ دراصل سراج الحق جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں زمین سے آلگی ہیں اور مال دار دنیا کمزور ترین شرائط پر تیل فراہم کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان میں بھی تیل اور پیٹرول وافر مقدار میں موجود ہے لیکن آئل کمپنیاں اپنا منافع کم کرنے کو تیار نہیں، اور پیٹرول پمپ مالکان بھی اسی روش پر چل رہے ہیں۔ دراصل یہ حکومت کی نااہلی ہے کہ اس نے ایک طریقۂ کار کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی تو اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ آئل کمپنیاں اور پیٹرول پمپ مالکان اس کمی کو مسترد کرسکتے ہیں، اور ایسی صورت میں کس طرح انہیں بغیر تعطل کے عوام کو پیٹرول کی فراہمی جاری رکھنے کا پابند بنایا جاسکتا ہے! چنانچہ جب ایسا ہوا اور عوام نے پریشان ہوکر احتجاج کیا تو حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور وہ تقریباً 4 دن کے بعد پیٹرول کی فراہمی بحال کرا سکی۔ پیٹرول نہ ملنے پر مایوس افراد یا پیٹرول پمپوں کی لمبی قطاروں میں لگے ہوئے رکشے، کاروں، موٹر سائیکلوں اور سائیکل رکشہ کے مالکان سوال کرتے رہے کہ آخر حکومت کہاںہے؟ اس کی رٹ کہاں ہے کہ پوری حکومتی مشینری نہ پیٹرول پمپ کھلوا سکی ہے اور نہ آئل کمپنیوں کو پیٹرول کی بلاتعطل فراہمی جاری کرنے کا پابند بنا سکی ہے۔ یہی بات اپوزیشن رہنما بار بار کہتے چلے آرہے ہیں کہ ملک میں کہیں حکومت نظر آتی ہے نہ اس کی رٹ۔ ہر طرف افراتفری ہے، جس کا جو زور چلتا ہے وہ کیے جارہا ہے۔ کورونا کے دوران یہ سوال ہر سطح پر اٹھا۔ سیاسی حلقے، دانشور، رفاہی تنظیمیں، سماجی حلقے اور صحافتی دنیا بار بار یہ سوال کرتے رہے کہ آخر حکومت کیوں کہیں نظر نہیں آرہی؟ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس وبائی آفت کے دوران حکومت نہ صرف ہر جگہ نظر آتی بلکہ اپنی رٹ کے ذریعے صورتِ حال کو کنٹرول کرتی۔ لیکن ایک طرف تو حکومت اس وبا کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی کہ وہ خود ہی یک سو نہیں تھی کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، پھر اس وبا کے دوران مختلف طبقوں نے جو من مانیاں کیں اور جس طرح عوام کو بار بار رُلایا اس میں تو حکومت کا کہیں وجود ہی نظر نہیں آیا۔ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن عملی صورت میں وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ ہاں اگر کہیں نظر آرہی ہے تو وہ میڈیا کا میدان ہے جہاں وہ اپوزیشن کے ہر روز لتے لیتی ہے، اس کو مطعون کرتی ہے، یا پھر سندھ حکومت کے ساتھ مسلسل حالتِ جنگ میں نظر آتی ہے۔
کورونا کا آغاز ہوا تو حکومت کی ذمہ داری تھی کہ ایک طرف اس وبا سے نجات کے انتظامات کرے اور دوسری جانب وبا کا شکار ہونے والوں کا فوری اور ضروری علاج کرے۔ پہلے کام میں تو اس کی ناکامی اس لیے واضح تھی کہ وہ سخت لاک ڈائون کی مخالف تھی، لیکن پھر اچانک لاک ڈائون کردیا گیا جہاں پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ لاک ڈائون کس نے کروایا ہے؟ وزیراعظم تو چند گھنٹے قبل تک (بلکہ اب تک) اس کے مخالف ہیں۔ اُس وقت یہ تاثر عام تھا کہ یہ حکومت کا فیصلہ نہیں کسی اور کا فیصلہ ہے، اور اس فیصلے میں حکومت نظر نہیں آرہی۔ لاک ڈائون کے دوران حکومت نے کہیں ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔ اس دوران بھی یہی سوال اٹھتا رہا اور عید کے دنوں میں جب لاک ڈائون اٹھا لیا گیا اور لوگ جوق در جوق مارکیٹوں اور بازاروں میں امڈ آئے، اُس وقت نہ تو متعینہ قواعد و ضوابط یعنی ایس او پی پر عمل درآمد کرایا، نہ اس کے لیے تاجر تنظیموںکو پابند کیا، اور نہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو متحرک کیا۔ چنانچہ ہر شہر اور قصبے میں حفاظتی تدابیر کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور کورونا بے قابو ہوکر موجودہ صورتِ حال تک پہنچ گیا۔ حکومت تو امدادی رقوم اور امدادی سامان تقسیم کرتے وقت بھی ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرا سکی، اور عوام دیکھتے رہے کہ وہاں کہیں حکومت نظر نہیں آرہی۔ امدادی رقوم کی تقسیم میں اہلکاروں نے مستحقین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا مگر حکومت کہیں نظر نہ آسکی۔ یہی صورتِ حال امدادی سامان کی تقسیم میں ہوئی۔ کورونا بے قابو ہوا تو حکومت نے اعلان کیا کہ متاثرین حکومت کے دیے ہوئے نمبروں پر فون کرکے رہنمائی حاصل کریں یا مریضوں کو داخل کرائیں۔ یہ تمام کے تمام نمبر دن اور رات کے اوقات میں کہیں اٹینڈ نہیں ہوتے اور شکایات کے باوجود حکومت کچھ نہیں کرسکی۔ حکومت ہر روز اعلان کرتی ہے کہ اسپتالوں میں اتنے بستر اور اتنے وینٹی لیٹر خالی پڑے ہیں۔ آپ اس دعوے کے ایک منٹ بعد فون کریں اور وہ خوش قسمتی سے اٹینڈ ہوجائے تو یہی جواب ملے گا کہ بیڈ خالی ہے نہ وینٹی لیٹر۔ لاہور میں بی بی سی کی ایک خاتون رپورٹر اپنے تمام تر تعلقات استعمال کرکے اپنے ایک عزیز کے لیے اُس وقت بیڈ اور وینٹی لیٹر حاصل کر پائی جب اس کی زندگی کے صرف تین گھنٹے باقی بچے تھے۔ چنانچہ یہ ساری کوششیں بھی رائیگاں ہی گئیں۔ کورونا وائرس کے دوران سرکاری اسپتالوں نے دوسرے امراض کے مریض لینے سے انکار کردیا، چنانچہ ان میں سے بہت سے بے موت ہی مارے گئے، جو کسی طرح اسپتال پہنچ گئے انہیں کورونا کے شک میں مار دیا گیا اور اقربا کی دہائیوں کے باوجود کچھ نہیں ہوسکا۔ اس پورے عرصے میں غریب آبادیوں اور محلوں میں قائم سرکاری ڈسپنسریوں اور دو چار بیڈز کے سرکاری اسپتالوںکے ڈاکٹروں اور عملے کو کورونا ڈیوٹی پر بلا کر ان صحت گاہوں کو بے یار و مددگار کردیا گیا۔ چنانچہ اب شہری نزلہ، کھانسی اور پیٹ درد کی دوا سے بھی محروم رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب پرائیویٹ اسپتالوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گنڈاسے پکڑ لیے۔ ایک ایک مریض سے ایک دن کے ایک ایک لاکھ روپے وصول کیے۔ جس مریض کو دس بارہ دن رہنا پڑ گیا اُس کا بل تیس، تیس لاکھ وصول کیا گیا۔ لوگ اس ظلم کے خلاف دہائیاں دیتے رہے لیکن حکومت کہیں ہوتی تو ایکشن لیتی! سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اس دوران حکومت ضلعی انتظامیہ کو متحرک نہ کرسکی جو ایسی صورت میں آپ کی فرنٹ لائن فورس ہوتی ہے۔ چنانچہ تاجروں نے ایسی ایسی اندھیر نگری مچائی کہ لوگ بلبلا اٹھے۔ ہر چیز کی قیمت بڑھا دی گئی۔ پیٹرول کی قیمت میں کمی کے باوجود ٹرانسپورٹ یا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ایک دھیلے کی کمی نہیں ہوئی، لیکن حکومت کہیں ہوتی تو ایکشن لیتی۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر عملہ ناکافی، اشیا کم اور لوگوں کا ہجوم بڑھتا رہا۔ وہاں حال یہ تھا کہ خریدار کو دی جانے والی رسید پر کسی آئٹم کا نام ہی درج نہیں۔ چنانچہ لوگ لائنوں میں لگ کر سامان خریدتے اور پھر اس سے زیادہ تنگ ہوکر اپنا بل ٹھیک کراتے رہے۔ نجی اداروں نے اپنے ہزاروں ملازمین کو نکال دیا، جو رہ گئے ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کرلیں۔ اب یہ کٹوتی شدہ تنخواہیں بھی لیٹ ہورہی ہیں۔ چنانچہ یہ ملازمین فاقوں پر آگئے، لیکن حکومت کہیں ہوتی تو کچھ کرتی۔ چھوٹے تعلیمی اداروں نے اساتذہ اور عملے کو تنخواہ دینے سے انکار کردیا۔ والدین فیس دینے کی پوزیشن میں نہیں لیکن حکومت کچھ نہیں کررہی۔ کرایہ دار سخت پریشان ہیں، بہت سوں سے مکانات خالی کرا لیے گئے، کئی دکانیں بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے مطابق ایک کروڑ 70 لاکھ افراد عملاً بے روزگار ہوں گے لیکن حکومت نے ان کا بجٹ تک میں کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ پانی، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بلوں کی قسطیں تو ہورہی ہیں مگر اس پر لیٹ چارجز بھی لیے جا رہے ہیں۔ ملک وبا اور شدید معاشی بحران، اور عوام فاقوں کا شکار ہیں، لیکن حکومت کہیں نہیں ہے۔
عالمی سطح پر بھارت کشمیر میں بدترین مظالم اور پورے بھارت میں مسلم کُش اقدامات کے باوجود باآسانی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن گیا ہے، ہماری حکومت نے نہ اس کی مخالفت کی اور نہ دنیا کو بتایا کہ اقلیتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک، ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات میں ملوث، اور اپنے ہر صوبے اور ریاست میں انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے ملک کو اس سلامتی کونسل کا رکن کیسے بنایا جارہا ہے جسے ان تمام معاملات کا تحفظ کرنا ہے؟ لیکن حکومت کہیں ہوتی تو کچھ کرتی۔ اس پر تو حکومتی وزیر شیریں مزاری بھی پھٹ پڑی ہیں۔ کشمیر کا معاملہ حکومتی سطح پر ٹھپ ہے، بھارت کو جو کرنا تھا، کرلیا۔ ہمیں نہ کچھ کرنا تھا، نہ کیا۔ حکومتی وزیر ہر روز دعویٰ کرتے ہیں کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کو کورونا بحران میں بلایا بھی گیا لیکن اجلاس میں شرکت کے سوا حکومت فوج یا رینجرز کو کہیں نہیں لاسکی، نہ ان سے مدد حاصل کرسکی ہے۔ جس ٹائیگر فورس کا بڑا چرچا تھا، وہ بھی حکومت کی طرح کہیں نظر نہیں آرہی۔ ایسے میں آئندہ چند ماہ میں کیا ہونے والا ہے، جب حکومت کے پاس تنخواہوں کے لیے رقم نہیں ہوگی، نجی ادارے یا تو بند ہوچکے ہوں گے یا سسک رہے ہوں گے، مارکیٹ میں خریدار نہیں ہوگا کہ اس بے روزگاری نے شہریوں کی قوتِ خرید ختم کردی ہوگی۔ لیکن شاید حکومت ان معاملات پر غور ہی کرنے کو تیار نہیں۔ وہ شاید تقریروں کے ذریعے بحران پر قابو پانے اور سیاسی مخالفین کو دبا کر حکومت کرنے کے فلسفے پر کاربند ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکے گا، جو حکومت زمین پر نظر نہیں آرہی وہ حالات، بحران اور مخالفین پر کیسے قابو پائے گی؟