سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کی مایوسی
خیبر پختون خوا کے وزیر خزانہ وصحت تیمور سلیم جھگڑا اور مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے ایک مشترکہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالی سال 2020-21ء صحت کا سال ہے، یہی وجہ ہے کہ صحت کے لیے بجٹ میں ریکارڈ اضافہ کرکے اسے 124ارب روپے تک پہنچایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں کورونا کے لیے بھی 24 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کی طرف سے ضم اضلاع کے لیے این ایف سی ایوارڈ کے تحت مختص 3 فیصد حصے میں اپنا حصہ نہ ڈالنا قابل افسوس ہے۔ وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مشکل حالات میں ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے جس میں نہ کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا ہے اور نہ ہی پہلے سے لگائے گئے ٹیکسوں میں کوئی اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال خیبر پختون خوا نے ترقیاتی پروگرام کے لیے 318 ارب روپے مختص کیے ہیں جو سندھ کے ترقیاتی بجٹ سے کہیں زیادہ اور پنجاب کے بجٹ کے تقریباً برابر ہیں۔ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ صحت اور تعلیم ہمیشہ سے پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحات میں شامل رہی ہیں، اس لیے بجٹ میں صحت کے علاوہ تعلیم کے لیے بھی 207 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جو کُل بجٹ کا تقریباً چوتھائی حصہ بنتا ہے۔ وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے صحت کے لیے وژن کے مطابق صوبائی حکومت صحت کے نظام کو بہتر بنانے اور وسعت دینے کے لیے طبی عملے کی کمی دور کرنے، ساز و سامان اور دوائوں کی فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہے۔ حکومت نے صحت کے شعبے میں اقدامات کو ترجیح دیتے ہوئے ہر خاندان کو ایک ملین روپے تک کے بیمہ کے لیے 10ارب روپے صحت انصاف کارڈ کے لیے رکھے ہیں، جبکہ صوبے کے فلیگ شپ ہسپتالوں کی فعالیت اور بہتری کے لیے 36 ارب روپے کی خطیر رقم بھی مختص کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے محصولات کے حوالے سے کہا کہ صوبے میں محصولات کا ہدف 49 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ کے پی کے ریونیو اتھارٹی نے مارچ میں کورونا کی صورتِ حال کے باوجود گزشتہ سال کے مقابلے میں 81 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 200 چھوٹے کاروباروں کے لیے ٹیکس ختم کردیئے گئے ہیں۔ ہوٹلوں پر کوئی بستر ٹیکس نہیں ہوگا، 18 شعبوں کے لیے صفر پیشہ ورانہ ٹیکس، تمام طبی پیشے اور خدمات پر صفر پیشہ ورانہ ٹیکس ہوگا۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر اطلاعات نے کہا کہ موجودہ مشکل حالات میں خیبر پختون خوا نے غریب اور تاجر دوست بجٹ پیش کیا ہے اور بڑے پیمانے پر غریب اور تاجر طبقے کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ ضم اضلاع کے لیے 184 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ 96 ارب روپے ضم اضلاع میں ترقیاتی پروگرام پر خرچ کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ضم اضلاع کا مسئلہ صرف خیبر پختون خوا کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، اس لیے میں دیگر صوبوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ این ایف سی میں اپنے وعدے کے مطابق ضم اضلاع کو مختص حصے میں سے اپنا حصہ فراہم کریں تاکہ ان کی 72 سالہ محرومیوں کا ازالہ کیا جاسکے۔
قبل ازیں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مجموعی 923 ارب کے محاصل میں مرکزی حکومت کی جانب سے صوبے کو 477 ارب روپے حاصل ہوں گے جن میں 404 ارب روپے مجموعی قومی وسائل سے حاصل ہوں گے۔ واضح رہے کہ آئندہ مالی سال 2020-21ء میں خیبر پختون خوا کے 923 ارب روپے کے متوازن ٹیکس فری بجٹ میں اگلے سال کے لیے صوبے کی آمدنی اور اخراجات دونوں کا تخمینہ یکساں طور پر 923 ارب روپے ہی لگایا گیا ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا اور انہیں جاری شرح پر برقرار رکھا گیا ہے۔ صوبے کا مجموعی سالانہ ترقیاتی پروگرام 317 ارب 90 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی تنخواہوں کی ادائیگی پر 124.3 ارب، اضلاع میں تنخواہوں کی ادائیگی پر 150 ارب، پنشن کی ادائیگی پر 86 ارب، سبسڈی پر 3.2 ارب، قرضوں پر منافع کی مد میں 16.5 ارب، لوکل کونسلز کے لیے 6.3 ارب، کورونا سے نمٹنے کے لیے 14 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ قبائلی اضلاع کے اخراجاتِ جاریہ کے لیے 88 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ 44.6 ارب روپے ان اضلاع میں نئے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبے کے بندوبستی اضلاع میں ابتدائی و ثانوی تعلیم کے لیے مجموعی طور پر 152.44 ارب، صحت کے لیے 105.92 ارب، داخلہ بشمول پولیس کے لیے 54.28 ارب، سی اینڈ ڈبلیو کے لیے 31.19 ارب، ریلیف و بحالی کے لیے 12.86 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لیے 30 ارب 20 کروڑ روپے، اور توانائی کے لیے 11 ارب 43 کروڑ روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں، جب کہ مقامی حکومتوں کے لیے 54 ارب 85 کروڑ روپے، اور 16 ارب روپے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ میں سیاحت کے فروغ، سڑکوں کی تعمیر اور یونیورسٹیوں کے لیے 18 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ خیبر پختون خوا اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مشکل حالات میں بھی تاریخی بجٹ پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 85 ارب روپے کی بیرونی امداد شامل ہے۔ مقامی بینکوں سے 44 ارب روپے کا قرضہ لیا جائے گا۔ وفاق سے مجموعی طور پر 477 ارب روپے ملیں گے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 317 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 104 ارب روپے صوبائی اور 44 ارب اضلاع کے ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں۔
صوبائی حکومت کے حالیہ پیش کردہ سالانہ بجٹ 2020-21ء کو گو اس حوالے سے تو قابلِ قدر قرار دیا جاسکتا ہے کہ بقول وزیر خزانہ یہ ایک متوازن بجٹ ہے اور اس میں صوبائی حکومت پر کوئی خسارہ ظاہرنہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح صوبائی وزیر خزانہ کی اس بات میں بھی وزن نظر آتا ہے کہ یہ بجٹ کورونا کی عالمی وبا کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جس کے باعث نہ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی پہلے سے کمزور اقتصادی حالت مزید پتلی ہو چکی ہے، بلکہ امریکہ، جاپان، برطانیہ، اٹلی، جرمنی اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک کو بھی مسلسل جاری لاک ڈائون اور بے روزگاری کے نتیجے میں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس صورتِ حال کے تناظر میں موجودہ بجٹ چاہے جیسا بھی ہے پاکستانی عوام اور بالخصوص خیبرپختون خوا کے لگ بھگ دوکروڑ شہریوں کے پاس اسے قبول کرنے کے سوا اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاںبجٹوں کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں سے تعبیر کیا جاتا ہے اس لیے ان میں عام لوگوں کی دلچسپی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، البتہ معاشرے کے دو ایسے طبقات ضرور ہیں جن کی نگاہیں بجٹ پر نہ صرف سارا سال مرکوز ہوتی ہیں بلکہ وہ کنکھیوں سے ان بجٹوں کے اندر سے اپنے لیے ریلیف ڈھونڈکر نکالنے میں بجٹ پیش کرنے سے قبل ہی عموماً کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ان دو طبقات میں ایک طبقہ سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین کا ہوتا ہے، جو سال بھر روزانہ کے حساب سے بڑھنے والی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی وجہ سے اگر ایک طرف سارا سال شدید معاشی اور معاشرتی دبائو کا شکار رہتے ہیں تو دوسری جانب وہ سال کے 365 دن اس امید پر گزارتے رہتے ہیں کہ کم از کم معمول کے مطابق بجٹ میں ہر سال کے ہونے والے اضافے کی روشنی میں نئے مالی سال کے آغاز پر بھی کسی نہ کسی شرح کے ساتھ تنخواہوں میں اضافے کے حق دار قرار پائیں گے جس سے انہیں زیادہ نہیں تو کم از کم کچھ نہ کچھ ریلیف تو مل ہی جائے گا۔ لیکن پچھلے سال محض پانچ فیصد اضافہ جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں تھا، کے مقابلے میں موجودہ مالی سال کے اعلان شدہ بجٹ میں سرے سے ایک فیصد اضافے کا بھی نہ کیا جانا نہ صرف ناقابلِ فہم بلکہ حکومتی دعووں اور سابقہ اعلانات کے برعکس ہے۔
اسی طرح جس دوسرے طبقے کو بجٹ کا سارا سال انتظار رہتا ہے وہ چھوٹا کاروباری طبقہ ہے، جسے کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ زیربحث بجٹ میں چند ٹیکسوں کی چھوٹ کے خوش نما وعدوں پر مبنی اعلانات کے ذریعے اس طبقے کو بھی ٹرخانے کی کوشش تو کی گئی ہے جس پر سرکاری ملازمین اور محنت کش طبقے کی طرح اس متوسط کاروباری طبقے نے بھی اگر زیربحث بجٹ کو کلیتاً مسترد نہیں کیا تو کم از کم ان کی جانب سے اس کا خیرمقدم بھی نہیں کیا گیا، جو موجودہ صوبائی حکومت کے لیے یقیناً لمحۂ فکریہ ہے۔
نئے سال کے بجٹ میں قبائلی اضلاع کو بھی ترقیاتی منصوبوں میں نظرانداز کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن کی تمام قابلِ ذکر جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت(ف)، اے این پی اور قومی وطن پارٹی نے اس عمل کو ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ساتھ سوتیلے سلوک سے تعبیر کیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر خزانہ نے وفاق کے ذمے این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد حصہ نہ دینے کے فیصلے کو وفاق کا مسئلہ قرار دے کر جس بھونڈے انداز میں اپنے ہی صوبے کے پہلے سے پریشان حال اور اقتصادی لحاظ سے تباہ شدہ قبائلی اضلاع کے حق سے دست برداری یا اس پر جس پراسرار خاموشی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر ایک کروڑ قبائل کی مایوسی اور ناراضی میں اضافہ یقیناً ایک فطری امر قرار پائے گا۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں اکثر نئے ترقیاتی منصوبوں پر پابندی اور صحت کے لیے بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے کثیر فنڈز مختص کرنے کو بھی جہاں عجلت اور کورونا کی وبا کے دبائو میں کیے گئے غیر متوازن فیصلوں پر محمول کیا جارہا ہے، وہیں اس کی وجہ اس امرکو بھی قراردیا جارہا ہے کہ چونکہ صوبائی وزیر خزانہ کے ساتھ صحت جیسی اہم وزارت کا اضافی قلمدان بھی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ان اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ جو مجموعی طور پر تقریباً148ارب روپے بنتے ہیں، صحت کے لیے مختص کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بہرحال اس تمام بحث سے قطع نظر توقع ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت سالانہ بجٹ کی صوبائی اسمبلی سے حتمی منظوری کے وقت جہاں عام لوگوں کے معیارِ زندگی اور خاص کر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پرکنٹرول کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ دے گی وہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اگر زیادہ نہیں تو مہنگائی کے تناسب سے کم از کم دس سے بیس فیصد اضافے کے اعلان میں بھی کسی بخل سے کام نہیں لے گی۔