ریاست اور حکمران طبقات ۔ بداعتمادی کی سیاست

اس وقت ہم قومی سطح پر ایک سنگین بحران سے گزر رہے ہیں۔ یہ بحران عارضی نہیں بلکہ ایک مستقل بحران ہے جومسلسل خرابیاں پیدا کررہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم حکمرانی کے ایک برے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جو ایک طرف لوگوں میں مایوسی اور محرومی کو جنم دیتا ہے تو دوسری طرف ان کے ریاست کے ساتھ تعلق کو بھی کمزور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم معاشرے میں کسی بھی سطح پر کوئی بڑا بحران دیکھتے ہیں تو اس کا مقابلہ قومی سطح پر اجتماعی تحریک کی صورت میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ہم مختلف سیاسی گروپ بندیوں، لسانی، علاقائی، مذہبی اور معاشی درجہ بندیوں کا شکار ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے قومی یکجہتی اور مل کر حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت عملی طور پر کمزور ہوجاتی ہے۔
شہریوں کی سطح پر مسائل بہت واضح ہیں۔ ان مسائل کا اظہار ہمیں 1973ء کے دستور کے بنیادی حقوق کے باب میں نظر آتا ہے جن میں تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف، آزادیِ اظہار، شہری آزادیاں، معلومات تک رسائی سمیت دیگر اہم امورشامل ہیں۔ عمومی طور پر ریاستی نظام کی بڑی خوبی کمزور طبقات کے مفادات کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط بنانا ہوتی ہے۔ یہ جو امیر اور غریب کے درمیان ہم کو فرق نظر آتا ہے، یا طاقت ور اور کمزور میں جو خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کو ختم کرنا ہی ریاست اور حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ کورونا کے حالیہ بحران کے تناظر میں خود حکومتی سطح سے یہ اعتراف کیا جارہا ہے کہ ملک میں حالیہ معاشی بدحالی کا بڑا نتیجہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ حکومتی اندازے کے مطابق تقریباً 70لاکھ لوگ بے روزگاری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ریاست اور حکومت کس طرح سے شہریوں کے مفادات کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے، اور ان کمزور لوگوں کو معاشی استحکام دے سکتی ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلق کی مضبوطی لوگوں پر سیاسی، سماجی، معاشی سرمایہ کاری سے ہوتی ہے۔ حکومتی سطح پر شہریوں کے باہمی تعلق کا ایک بڑا اشاریہ شہریوں پر بجٹ اور پالیسیوں میں مالی حصہ ہوتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح کے جو حالیہ بجٹ پیش ہوئے ہیں ان کا تجزیہ کریں تو ہمیں کمزور طبقات پر سرمایہ کاری بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ بجٹ مجموعی طور پر کمزور لوگوں کے مفادات کے برعکس ہے، اور ہم آئی ایم ایف یا ملک میں موجود طاقت ور طبقات کے مفادات کو تحفظ دے کر عام آدمی کا سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ بجٹ میں جو حصہ عام آدمی یا ترقیاتی مد میں رکھا بھی جاتا ہے وہ آگے جاکر ایسے کاموں پر خرچ کردیا جاتا ہے جو عام آدمی کے مفاد کے برعکس ہوتے ہیں، یعنی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کمزور طبقے کے مزید استحصال کا سبب بنتی ہے۔
عام آدمی کے مسائل کا حل ایک سماجی اور فلاحی ریاست ہے۔ جبکہ ہماری ترجیحات میں سماجی یا فلاحی ریاست کے مقابلے میں سیکورٹی ریاست ہے۔ یہ جو ہم ایک طرف سیکورٹی کے نام پر اور دوسری طرف ریاستی یا حکومتی اداروں کی نج کاری کے نام پر لوگوں کو زندہ درگور کررہے ہیں وہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہم نے سرکاری اداروں کو تباہ کرکے لوگوں کو نجی شعبوں تک محدود کردیا ہے جہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہے، کیونکہ حکومتی ریگولیٹری نظام ناقص اور بدعنوانی پر مبنی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو کچھ نجی شعبے کے ہسپتالوں میں ہورہا ہے وہ خود قابلِ گرفت ہے جہاں کورونا وبا میں بھی لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ان کی جیبیں کاٹی جارہی ہیں۔ اصل چیلنج حکومتی رٹ کی کمزوری، کمزور نگرانی، جوابدہی اور شفافیت پر مبنی نظام کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کااور زیادہ استحصال ہورہا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت عام آدمی کے مسائل یا معاملات سے لاتعلق ہیں۔ سیاسی جماعتیں کسی بھی سطح پر نہ توفعال ہیں اورنہ ہی عملی سطح پر ہمیں کام کرتی نظر آتی ہیں۔ ریاست اور حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کی عام لوگوں سے جو لاتعلقی نظر آتی ہے وہ خود بھی ایک بڑے بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا فلاحی منصوبہ نہیں جس کی مدد سے وہ لوگوں کے ساتھ اپنی تعلق کو مضبوط بناسکیں۔ سوائے جماعت اسلامی کے ہمیں شہریوں کی مدد کے تناظر میں کوئی جماعت یا ان کا ادارہ فعال نظر نہیں آتا۔ عام لوگوں کے مسائل پر نعرے بازی کرنے اوران کے لیے عملی کام کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی ریاستی نظام محض زبانی جمع خرچ سے لوگوں کی حالت بدلنا چاہتا ہے، جبکہ عملی طور پر اس کا کردار بڑا محدود ہے۔ سیاسی و جمہوری نظام میں لوگوں کی ایک بڑی توقع پارلیمنٹ اور ارکانِ پارلیمنٹ سے ہوتی ہے۔ لیکن ملک کی پارلیمانی سیاست پر نظر ڈالیں تو ہمیں سوائے ماتم کے کچھ نہیں ملتا۔ پارلیمنٹ محض ایک ڈبیٹنگ کلب نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد ملک کی سیاست، سماجیات اور معیشت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوتا ہے۔ لیکن اب تو پارلیمنٹ ایک اچھی ڈبیٹنگ کلب بھی نہیں رہ گئی۔
اس لیے آج پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کی بحالی ہے۔ یہ کام عملی اقدامات اور لوگوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی سے جڑا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے مجموعی ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں بڑی اصلاحات درکار ہیں۔ یہ کام روایتی طور پر نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے جو کڑوے بھی ہوں گے۔ اسی طرح یہ ذمہ داری کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ اس میں ریاست کے تمام فریقین کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ ہمارے اہلِ دانش، میڈیا، رائے عامہ بنانے والوںاور علمی و فکری محاذ پر سرگرم لوگوں کا کام موجودہ ریاستی اورحکومتی نظام کے مقابلے میں ایک ذمہ دار متبادل نظام کی طرف پیش قدمی ہونا چاہیے۔یہ کام سیاسی اور سماجی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہمیں ایک بڑی سیاسی اور سماجی تحریک کی ضرورت ہے، اوریہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم ملک میں موجود تمام فیصلہ ساز افراد یا اداروں کو جھنجوڑیں اوران پر دبائو بڑھائیں کہ وہ اس روایتی اور فرسودہ ریاست کے مقابلے میں ایک فلاحی اور سماجی ریاست کی طرف پیش قدمی کریں۔یہی عمل قومی مفاد میں ہے۔