وفاقی اور سندھ حکومت کہاں ہے؟۔

اہل سندھ کے مسائل، مصائب اور مشکلات، عوام کی آواز کون سنے گا؟

صوبہ سندھ کے باشندے اس وقت وفاقی اور سندھ حکومت کی نااہلی، بے حسنی اور سنگ دلی کے نتائج بھگتنے پر مجبور ہیں۔ عوام کی اکثریت زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہونے کی بنا پر گوناگوں مسائل اور مصائب سے دوچار ہو چکی ہے۔ بہت سارے بڑے مسائل میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ شدید ترین گرمی میں واپڈا کی جانب سے گھنٹوں پر محیط اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بھی ہے۔ اس پر مستزاد سندھ بھر میں صاف اور میٹھے پانی کی عدم دستیابی نے بھی عوام کی زندگی سچ مچ اجیرن بنا ڈالی ہے۔ صوبہ بھر میں اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں بھی سیاسی اور سماجی تنظیمیں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور میٹھے صاف پانی کی نایابی کے خلاف سڑکوں اور پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور سندھ پر ایک طویل عرصے سے حکومت کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے ذمہ داران، وزیراعلیٰ، وزرا اور منتخب ایم این ایز، ایم پی ایز پر مذکورہ احتجاج کا مطلق اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ رہی ضلعی انتظامیہ تو اس کے ذمہ داران بھی بجائے اپنے اصل فرائض کی انجام دہی کے حکومتی شخصیات کی کاسہ لیتی میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے کورونا وائرس کی مہلک وبا نے بھی اہل سندھ کی سوچ، معیشت اور کاروبار پر حد درجہ منفی اثرات مرتب کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں بہ غرض علاج جانے والے مریضوں کو پہلے بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا لیکن کورونا وبا کی کی وجہ سے اب سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں غریب مریضوں کو کوئی ڈاکٹر بھی منہ لگانے کے لیے تیار نہیںہ وتا۔ اس وجہ سے عام امراض میں مبتلا بیشتر مریضوں کو مایوس اپنے گھروں کو لوٹنا پڑتا ہے۔ پرائیوٹ اسپتالوں میں ڈاکٹر کی بھاری فیسوں اور مہنگے ٹیسٹوں کی ادائی کرنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے امراض قلب، جگر، گردہ اور دوسری بیماریوں میں مبتلا مریض تڑپ تڑپ کر بے حد تکلیف کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اکثر اس نوع کی المناک اطلاعات بذریعہ اخبارات یا سوشل میڈیا سامنے آتی رہتی ہیں کہ فلاں فلاں علاقے میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے بے بس مریض دم توڑتے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے حکومتِ سندھ اور وفاقی حکومت کی بے سمت پالیسیوں نے امراض خون میں مبتلا بچوں کی زندگی کو بھی شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ بڑی تعداد میں بروقتبلڈ ٹرانسفیوژن نہ ہونے کی وجہ سے معصوم بچے اور بچایں دم توڑ چکے ہیں۔ عوام بجا طور پر تنقید کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا سے کہیں زیادہ مختلف بیماریوں کے مریض تو وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے علاج معالجہ کی سہولیات بلاوجہ مریضوں کے لیے بند کرنے کے سبب جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سکھر میں قائم امراض گردہ میں مبتلا مریضوں کا اسپتال SIUT بھی کورونا وائرس کے نام پر حکومت سندھ نے بند کر ڈالا ہے اور شنید ہے کہ اس وجہ سے سندھ اوربلوچستان (بلکہ پنجاب کے بھی) ہزاروں امراض گردہ میں مبتلا مریض سسک سسک کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کی زندگی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں ہی قائم پرائیوٹ حرا میڈیکل سینٹر نامی ادارے میں تو حسب سابق مریضوں سے فیس، علاج اور مختلف ٹیسٹوں کے نام پر امراض گردہ سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوںسے لوٹ کھوسٹ کا سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن کورونا وائرس کے نام پر نام نہاد حفاظتی اقدامات کی آڑ میں سندھ کے سرکاری اسپتالوں کے دروازے غریب مریضوں کے لیے بالکل بند کر دیے گئے ہیں یہ ساری صورت حال بلاشبہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ رہے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران تو وہ اصل حقائق اور عوامی مسائل سے بے بہرہ اور غافل ہیں۔ انہیں بے معنی پریس کانفرنسوں لایعنی اعلانات اور بیانات سے ہی فرصت نہیں ہے کہ وہ اہل سندھ کی اصل مشکلات اور تکالیف سے آگہی حاصل کر کے ان کے خاتمے کے لیے کوئی تدابیر بروئے کار لا سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ سندھ میں وفاقی اور صوبائی حکومت کی کٹھور دلی پر مبنی کورونا وائرس کے نام پر بنائی گئی بے سمت اور مضحکہ خیز پالیسیوں کی بنا پر قیامت سے قبل ہی قیامت صغری کا ایک ہولناک منظر نامہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اہل سندھ اس صورت حال سے اس لیے بھی بے حد پریشان ہیں کہ ایک طرف شدید موسم گرما میں بجلی کی گھنٹوں پر محیط لوڈشیڈنگ نے ان کا آرام اور سکون تباہ کر دیا ہے دوسری جانب وہ صاف اور میٹھے پانی سے محروم ہیں تیسری جانب پانی کے سڑکوں پر احتجاج کرنے مصروف ہیں۔ ؟؟؟؟ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے نائب امیر ضلع جماعت اسلامی امداد اللہ بجارانی جو ؟؟؟؟ سماجی جماعتوں کے رہنما و کارکنان اپنا دیرینہ مطالبہ منوانے کے لیے پرزور احتجاج میں لگے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کسی جائز مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے حکومت اور مقامی انتظامیہ ؟؟؟؟؟ کرتی لیکن اس کے برعکس اس کی جانب سے احتجاج کرنے ولوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور مضحکہ خیز انداز میں خواتین سمیت 120 افراد پر پولیس کیس رجسٹرڈ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سے ضلعی ہیڈکوارٹر جیکب آباد کے عوام بھی ایک طویل عرصے صاف میٹھے پانی کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جیکب ااباد کو صاف اور میٹھا پانی فراہم کرنے کی ایک سنجیدہ سعی سابق ضلعی ناظمہ بیگم سعیدہ سومرو نے کی تھی اور انہوں نے فراہمی آب کی اسکیم پر تقریبا 2 ارب خرچ کیے تھے لیکن جونہی بیگم صاحہ کا دور نظامت ختم ہوا بعد میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے اپنی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے سے غتربود کر ڈالا اور آج اہل شہر مہنگے داموں میٹھا پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جیکب آباد میں، ماضی میں پی پی کے منتخب عوامی نمائندوں نے اس حوالے سے کبھی مثبت کردار ادا نہیں کیا ہے۔ البتہ زبانی کلامی آسرے اور وعدے خوب کیے ہیں۔ آج جیکب آباد سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے اسلم ابڑو اور وفاقی وزیرنجکاری محمد میاں سومرو بھی اس بارے میں مایوس کن کردار نبھا رہے ہیں۔ اہل سندھ جس ظالمانہ انداز میں مختلف حکومتوں کی طرف سے ایک طویل وقت سے میٹھے اور صاف پانی سے محروم رکھے گئے ہیں اس المناک موضوع پر الگ الگ سے تفصیلی رپورٹ لکھنے کی ضرورت ہے مختصڑا یہ کہ ایک تحقیق کے مطابق سندھ کے 95% فیصد پانی میں سنکھا کی بھاری مقدار شامل ہے اور اہل سندھ زہر آلود پانی مجبور پینے کی وجہ سے بڑی تیزی سے موذی امراض از قسم دل، جگر، گردہ اور جلد وغیرہ میں مبتلاہوتے جارہے ہیں غرض یہ کہ ساڑھے 16 لاکھ پر مشتمل ضلع تھرپارکر ہو یا پھر سندھ کے دیگر اضلاع۔ ہر مقام پر مقامی افراد صاف اور میٹھے پانی سے محروم ہی۔ دیگر لاتعداد مسائل اس پر مستزاد ہیں۔ ایسے میں کورونا وائرس کی مہلک اور خطرناک وبا نے اہل سندھ کو بے حد مضطرب اور پریشان کر ڈالا ہے۔ کورونا کی وبا سے قبل سندھ میں ٹڈی دل کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس نے تیار اورکھڑی فضلوں کو چاٹ ڈالا تھا۔ آباد گاروں اور ہاریوں نے اس پر خوب احتجاج کیا کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دلائی جائے لیکن پی پی کی صوبائی حکومت نے اس مرتبہ بھی اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال دی تھی ہماری وفاقی حکومت کی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ کے ’’معیار‘‘ سے کون ناواقف اور لاعلم ہے۔ وفاقی حکومت نے جوابا خود کو بری الذمہ قرار دے کر سندھ کی صوبائی حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دے ڈالا۔ دونوں کے بیچ میں بے چارے سندھ کے ستم رسیدہ کسان پر کر رہ گئے ہیں۔ کورونا کے ساتھ ساتھ اب ٹڈی دل کے فصلوں پر دوسرے حملے نے (جو شروع ہو چکا ہے) سندھ کی زراعت ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سندھ اور وفاقی حکومت کے ذمہد ارون بجائے اہل سندھ کے عوام، کاروباری افراد اور کسانوں کے مسائل حل کرنے کے باہم بے جا محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ سندھ اور وفاقی حکومت کے ترجمان ہمہ وقت ایک دوسرے پر لایعنی الزام تراشی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایسے میں اہل سندھ کے دیرینہ سنگین مسائل کون حل کرے گا؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اہل سندھ اس افسوسناک صورت حال میں بجا طور پر اس تبصرہ آرائی میں لگے ہوئے ہیں کہ ٹڈی دل اور کورونا وائرس جیسی مصیبتوں سے تو ہماری گلو خلاصی کبھی نہ کبھی بالآخر ہو ہی جائے گی لیکن ہمیں اپنے نااہل، بے حس اور سنگدل حکمران طبقے سے معلوم نہیں کب چھٹکارا حاصل ہو گا؟ ویسے برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ کورونا وائرس کے حملوں میں روز بروز شدت اور تیزی آنے کے ساتھ ساتھ بدامنی اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ رہی مہنگائی ، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی، تو یہ پریشانیاں تو شاید اہل سندھ کے مقدر کا ان مٹ حصہ ہیں۔ اللہ قادر مطلق ہے اسی سے دعا ہے کہ وہ رحمت خاس سے کام لیتے ہوئے اہل سندھ کے مصائب اور تکالیف کا خاتمہ کر دے۔ آمین۔