مہدیا آزریزدی/ مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک تھا گیدڑ، بڑا ڈرپورک مگر بڑا بدفطرت۔ اس نے اپنے ہم جنسوں کو باغ کے انگوروں کو پامال کرنے کا ڈھنگ سکھایا۔ قصہ یہ تھا کہ ایک رات گیدڑوں کا ایک جتھا باغ میں انگور کھانے نکلا۔ کیا دیکھتے کہ ایک گیدڑ انگوروں کے خوشوں کواپنے پنجوں میں مسلے دے رہا ہے۔ انہوں نے اسے ٹوکا: ”تم انگوروں کو کیوں خراب کر رہے ہو؟“ وہ بولا: ”میں اصل میں نشان بندی کر رہا ہوں تا کہ ہر رات ہم فضول میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ میں میٹھے خوشے کھا لیتا ہوں او رترش خوشوں کو نشان زدہ کر دیتا ہوں۔ کیا یہ درست نہیں؟“
گیدڑبولے: ”کیوں نہیں۔ بہت اچھا ہے“۔ اس رات انہوں نے قدرے میٹھے انگور کھا لیے، کھٹے انگوروں کے خوشوں خو اپنے پنجوں سے مسل ڈالا اور چل دیے۔
اگلے روزباغ کے مالک نے انگوروں کو اس حالت میں دیکھا اور بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ خود سے کہنے لگا: کتنے احمق ہیں یہ گیدڑ، انہیں معلوم نہیں چند روز کے اندر کھٹے انگور بھی میٹھے ہو جاتے ہیں“۔باغ کا مالک سوچنے لگا کہ حیوانات کی بے عقل یکا کوئی علاج نہیں لیکن اگر یہ نہ ہو سکا تو انگور ختم ہو جائیں گے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے توت اور خشک انجیر کو ملا ایک میٹھا آمیزہ تیار کیا اور اسے ندیکے موکھے کے پاس رکھ دیا۔ رات کو گیدڑ آئے اور آش کو کھا پی کر چل دیے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کے باغ کے مالک کے ہر روز گیدڑوں کے لیے آش کا اہتمام کرنا مشکل تھا۔ تاہم چند دن تک اس نے اس عمل کو جاری رکھا اور اس دوران باغ کی دیواریں بلند کر دیں۔ پھر اس نے آش کے بجائے ندی کے موکھے پر ایک پھندا لگا دیا تا کہ گیدڑوں کو ان میں جکڑ کر پکڑ سکے۔
جس رات باغ کے مالک نے پھندا لگایا، ڈرپوک گیدڑ دیر سے آیا۔ ایک گیدڑ پھندے میں پھنس گیا اور باقی نے راہِ فرار اختیار کی۔ گیدڑوں نے صحراکے ٹیلوں کے سوراخوں اور شکستہ اور ویران گھروں میں اپنے بھٹ بنا رکھے تھے۔ فرار ہونے والوں میں سے ایک کی، جس کا گھر سب سے دور تھا، رات کے آخری حصے میں کہیں جا کر اس ڈرپوک گیدڑ سے مدبھیڑ ہوئی۔ اس نے ڈرپوک گیدڑ کو سارا ماجرا سنایا اور بولا: ”اچھا ہوا کہ تم نہ آئے لیکن جب تم وہاں تھے ہی نہیں کس لیے ڈر رہے ہو او ربھاگ رہے ہو؟“ڈرپوک گیدڑ بولا: میں شیر سے ڈرتا ہوں، پھندا تو کوئی چیز نہیں۔ تمہیں علم ہےکہ میرا راستہ سب سے دور ہے اور آج رات ایک شیر اس ٹیلے کے اوپر دہاڑ رہا تھا۔ اسی وجہ سے میں گھر سے باہر نہیں نکلا“۔ فرار ہونے والا گیدڑ بولا: ”شیر جنگل میں ہے اور یہاں آبادی کے نزدیک نہیں آتا“۔
ڈرپوک گیدڑ بولا: ”میں نے خود اس کی آواز سنی۔ اگر شیر آگیا تو اس سے سب کو خطرہ ہے اور میرے لیے کہ جس کا راستہ لمبا ہے اور بھی خطرناک ہے“۔ اسی دوران ایک لومڑی وہاں آپہنچی اور بولی: ”کیا خبر ہے؟“ گیدڑ بولے: ”ہم شیر کی آواز سے خوف زدہ ہیں“۔
لومڑی بولی: ”مجھے تو شیر کی آواز سنائی نہیں دے رہی“۔ ڈرپوک گیدڑ بولا: ”شاید تمہارے کان کمزور ہیں اور تمہارا گھر بھی یہاں نہیں، اسی لیے تمہیں ڈر نہیں آتا“۔ لومڑی بولی: ”چلو آئو تینوں ان ٹیلوں کا چکر لگاتے ہیں۔ اگر شیر ہوا تو بھاگ چلیں گے، نہ ہوا تو سب مطمئن ہو جائیں گے۔“ گیدڑ بولے: ”بہت خوب، تم اس طرف سے جائو، ہم دونوں دوسری دو طرف سے جائیں گےاور یہیں ملیں گے“۔ انہوںنے لومڑی کو تو اس طرف بھیجا جدھر سے آواز آرہی تھی اور خود ان دو اطراف کی جانب گئے جہاں امن تھا۔ فرار ہونے والا گیدڑ جب اپنے گھر کے قریب پہنچا تو اس نے خدا حافظ کہا اور بولا: ”میری حالت ٹھیک نہیں۔ پھندے کے خوف سے میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔ اگر کوئی خبر ہوئی تو مجھے بھی اطلاع کر دینا“۔ وہ تو اپنے گھر کی طرف لپکا اور ڈرپوک گیدڑ تلاش اور تفتیش کے بعد مقررہ جگہ پہنچ گیا۔
لومڑی بھی لوٹ آئی اور بولی: ”میں نے ہر جگہ کھوج لگایا لیکن شیر کا کہیں پتا نہ چلا۔ ہاں ایک ٹوٹا ہوا مٹی کا لوٹا اس ٹیلے پر پڑا دیکھا۔ جب ہوا چلتی ہے اور لؤٹے کے سوراخ سے ٹکراتی ہے تو اس میں سے آواز پید اہوتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہیں اسی آواز پر شیر کی آواز کا دھوکا ہوا؟“
ڈرپوک گیدڑ سمجھ گیا کہ اس سے ایسی ہی گلطی ہوئی ہے لیکن یہ سوچ کر کہیں لومڑی کو اس کا علم نہ ہو جائے اس نے لومڑی سے پوچھا: ”تم کس ٹیلے کی با ت کر رہی ہو؟ لومڑی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ”میں اس بلند ٹیلے کے بارے میں کہہ رہی ہوں“۔ تین اس وقت ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور لوٹے کی آواز اور اونچی ہو گئی۔ گیدڑ بولا ”نہ نہ یہ نہین۔ اسے تو میں خود بھی جانتا ہوں۔ کہاں شیر، کہاں لوٹا؟ شیر کی آواز کسی اور طرف سے آرہی تھی۔ اب البتہ آواز نہیں آرہی، شاید شیر چلا گیا ہو گا“۔
لومڑی نے گیدڑ کو خدا حافظ کہا اور چل دی۔ ڈرپوک گیدڑ نے اپنے دل میں کہا: ”جائوں ذرا اس خبیث لوٹے کو تو دیکھوں“۔ وہ آہستہ آہستہ لوتے کی طرف بڑھا اور اس نے دیکھا کہ واقعی ایک ٹوٹا ہوا لوٹا پڑا ہے اور جب ہوا اس کے اندر گردش کرتی ہے، آواز پیدا ہوتی ہے اور یہ ٹھیک وہی آواز ہے جو اس نے سنی تھی اور اس سے ڈرا تھا۔گیدڑ نے لوٹے سے نفرت اور کینے کو اپنے دل میں بٹھا لیا اور اس سے مخاطب ہو کر بولا: ”اچھا تومجھے ڈراتا ہے، مجھ پر لعنت اگر میں تجھے کسی مصیبت میں ؐمبتلا نہ کروں۔ اے بدبخت، بے نوا تو ٹیلے پر پڑا فضول، آواز نکال نکال کر لوگوں کوڈراتا ہے۔ میں ابھی تجھے اٹھا لے جا کر پانی میں غرق کرتا ہوں“۔
گیدڑ نے لوٹے کو اپنے اگلے دانتوں میں پکڑا اور اسے ایک دریا کے کنارے لے آیا۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے لوٹے کو پانی میں پھینکنا چاہا لیکن دریا کے کنارے پر گہرائی کم تھی اور گیدڑ لوٹے کو جو قدر دھکیلتا، وہ پانی میں بہہ نہ پاتا۔ گیدڑ نے قدرے غور کیا اور بولا: ”مجھے چاہیے کہ تجھے بلندی سے پانی میں پھینکوں۔“
وہ لوٹے کو ایک اونچی جگہ پر لایا اور وہاں سے پانی میںپھینک دیا۔ لیکن لوٹا الٹا ہو گیا۔ اس کا منہ اور ٹونٹی پانی کے اندر چلی گئی مگر اس کا نچلا حصہ پانی کی سطح سے اونچا رہا اور پانی کے اوپر تیرتا گیا۔ گیدڑ خوش ہو کر بولا: ”لے اب جب تک تو ہے، تیرتا جا۔ اب تو ٹیلے کے اوپر شوروغوغا کرنے کے قابل نہیں“۔
لیکن ابھی گیدڑ اسی طرح لوٹے پر نگاہ جمائے ہوئے تھا کہ س نے دیکھا کہ سو قدم تک پانی کے بہائو پر بہتے بہتے لوٹا دریا کے کنارے پر آگیا اور مٹی میں اٹک گیا۔ اس میں تھوڑی سی قلقل کی آواز پیدا ہوئی اور پھر وہ ایک طرف لڑھک کر وہیں رہ گیا۔
یہ دیکھ کر گیدڑ کو بڑا رنج ہوا۔ وہ بولا: ”تو غرق نہ ہوا۔ اچھا دیکھ تو میں تیرے سر پرکیا مصیبت لاتا ہوں“۔ آگے بڑھ کر اس نے بڑی دقت سے لوٹے کو پانی کے کنارے سے اٹھایا اور قریب ہی بیٹھ کر اس میں ریت ڈال کر اسے بھر دیا“۔ پھر بولا: ”اب تو پانی میں یقینا غرق ہو جائے گا“۔ لوٹا اب خاصا بھاری ہو گیا تھا۔ اس نے جتنی بھی کوشش کی وہ لوٹے کو اٹھا کر دریا میں پھینکنے سے قاصر رہا۔
گیدڑ کچھ دیر سوچتا رہا پھر لوٹے سے مخاطب ہو کر بولا: ”کیا تو نے یہ سمجھ لیا کہ میں تجھے اپنے پنجے سے رہا کردوں گا؟ میں تجھ سے بڑا شیطان ہوں۔ تو ریت میں غرق نہ ہوا۔ اب میں تجھے پانی سے بھروں گا اور غرق کروں گا“۔
اس نے بڑی مشکل سے لوٹے کو الٹا سیدھا کر کے اسے ریت سے خالی کیا۔ پھر اس نے ایک باریک رسی ڈھونڈ نکالی اور لوٹے کے دستے کو بڑی مضبوطی سے اپنی دم سے باندھا۔ پھر اس کو کھینچتے کھینچتے دریا کے کنارے تک لے آیا اور ایک ایسی جگہ جو پانی سے ایک بالشت بلند تھی، اس نے اپنے دھڑ کو جھاڑیوں کے درمیان لٹکا سا لیا اور اپنے پنجوں کی طرفت کو مضبوط کر کے پیچھے پیچھے ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ لوٹاپانی میں لڑھک گیااور اس میں پانی بھرنے کی آواز آنے لگی۔ گیدڑ بولا: ”بے فائدہ عرض معروض نہ کر۔ میں تجھے نہیں چھوڑنے کا“۔
(جاری ہے)