شمیم احمد

سچ کہوںتو مجھے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں شمیم احمد کے قد کاایڈیٹر نظر نہیں آیا۔ ”سن“ میں کام کرتے ہوئے میں نے چار سال انہیں انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کی صحافتی قدآوری کی کئی مثالیں دے سکتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ مختصر نویسی ایک مشکل کام ہے اور شمیم احمد میں بہت مختصر ہیڈ لائنز بنانے کا جنون تھا۔ مثلا جب مائوزے تنگ کا انتقال ہوا تو انہوں نے آٹھ کالم میں ہیڈ لائن دی۔ اس ہیڈ لائن کے الفاظ تھے”mao, no more”میں نے ان سے کہا مائو چونکہ ایک نام ہے اس کا ایم (M) چھوٹا نہیں بلکہ کیپٹل ہونا چاہیے جواباشمیم نے کہا کتنے مائو کو جانتے ہو؟ بھی مائو تو ایک ہی ہے تو اردو میں ”م“ بھی لکھ دو تو لوگ جان جائیں گے۔ شمیم احمد نے BSC ایگریکلچر کیا ہوا تھا مگر انگریزی زبان کا Creative استعمال وہ بہت خوبی اور مہارت سے کرتے تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے انگریزی زبان کی روایت بھی بدلی۔ وہ اپنی ذات میں ایک پوری انجمن تھے۔ وہ بہت جرات مند صحافی تھے۔ میں آپ کو ایک بڑا یادگار واقعہ سناتا ہوں۔ انہوں نے اپنے پیچز میں اپوزیشن کو ہمیشہ پروجیکٹ کیا۔ اس وقت وہ ذوالفقار علی بھٹو کےسخت مخالف تھے۔ جب بھٹو ان سے تنگ آگئے تو انہوں نے اس وقت کے PIO احمد حسن شیخ سے کہا کہ :۔
“I wish to have meeting with Shamim Ahmed”انہوں نے ٹیلی پرنٹر پر میسج بھیج دیا۔ ظاہر ہے اس وقت فیکس کی سہولت نہیں تھی، خیر جو میسج آیا وہ یوں گا
“PM has desired a meeting with you on August 30th at the PM Secretariate. Plaease confirm. From Ahmed Hasan Shiekh”
شمیم احمد میسج پرنٹر سے کسی کو پھاڑنے نہیں دیتے تھے اور صرف اس وقت میسج پھاڑتے تھے جب وہ پرنٹر سے اس کا جواب بھی دے دیتے۔ جب شمیم احمد نے یہ میسج پڑھا تو س کاجواب دیا:
“Ahmed Hasan Shiekh! Since when, you have assumed that I am an employee with the federal government please inform yout Prime Minister that I have no time for him. Shamim Ahmed”
ہو۔ اصغر خان کو دھمکی کے جواب میں شمیم احمد نے لکھا: “Come and get us”
وہ اس طرح کے جرات مند اور سچ کہہ دینے والے صحافی تھے۔ میں ایک کتاب My Editors کے عنوان سے لکھ رہا ہوں جو شمیم احمد کے حوالے سے ہی ہے۔ اس میں باقی ایڈیٹروں کا ذکر اس لیے آئے گا کہ میں یہ ثابت کر سکوں کہ وہ کتنا بڑا ایڈیٹر تھا۔
ایک دفعہ ”سن“ کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ چار مہینے سے ورکرز کو تنخواہیں نہیں ملی تھیں۔ یونین کی ہڑتال چل رہی تھی مجھے ان کا فون آیا کہ مجھے ایئر پورٹ سے لے لو۔ میرے پاس اسکوٹر تھا۔ خیر میں انہیں لینے چلا گیا۔ وہ میرے پیچھے اسکوٹر پر بیٹھ گئے۔ہم پرویز اسلم کی کوتھی پر چلے گئے۔ پرویز اسلم سن کے مالک تھے جہاں ایک کمرہ شمیم احمد کے لیے مخصوص تھا کیونکہ وہ یہاں آکر رہا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ گھر کے حالات کیسے ہیں؟ میں کہا والد صاحب نے توکہہ دیا ہے کہ اگرگھر سے لے کر ہی کھانا ہے تو پھر گھر ہی بیٹھو۔ کہنے لگے ویری گڈ۔ تو آپ شام کو مجھے ائیر پورٹ چھوڑ دیں گے میں نے کہا بالکل۔ مجھے کہتے ہیں: پی آئی اے سے کبھی گئے ہو! یہ سالا واحد ایسا ٹرانسپورٹ ہے جس پر بغیر ٹکٹ کے بھی جاسکتے ہیں۔ میں کہا سر ایسا نہیں ہو سکتا تو بولے چلو پھر آج آپ کو دکھاتے ہیں۔ وہاں گئے، ٹریفک میں مستجاب احمد کے پاس پوچھتے ہیں ذرا دیکھیے آپ کے پاس میرے لیے پی ٹی اے رکھا ہو گا؟ آپ کے چیئرمین میٹنگ ہی نہیں کرتے اگر میں نہ جائوں۔ اس نے جلدی میں دیکھنا شروع کیا۔ دس بارہ کاغذ دیکھے پھر اس نے کہا شمیم احمد کے نام کا تو نہیں ہے۔ اس پر شمیم احمد نے کہا تو آپ دعویٰ کرتے ہیں۔
Great People to fly with۔نہ ڈھونڈیے ٹکٹ مگر ایک پرنٹر میسج اپنے چیئرمین کو بھیج دیں۔
“I will not be abailable for the meeting because PTA is not there”
یہ کہہ کر مجھے کہا چلیے بخاری صاحب! میں چلنے لگا تو مستجاب نے کہا شمیم صاحب ٹھہرئیے میں دوبارہ چیک کرتا ہوں۔ پھر اس نے دراز کھولا، ایک ٹکٹ نکالی اور جلدی میں شمیم احمد لکھ کر کہا PTA تو آہی جائے گا آپ تو جائیے۔ اب انہوں نے ٹکٹ پکڑا ور مجھے جاتے ہوئے کہنے لگے کل پیسے بھجوا دوں گا دے دینا ورنہ بے چارہ مارا جائے گا۔
ایک دفعہ حالات اتنے خراب ہوئے کہ KESC والوں ”سن“ کی بجلی کاٹ دی۔ شمیم احمد پریشان کہ اخبار کیسے چھپے گا۔ کچھ دیر ٹہلتے ہوئے سوچتے رہے پھر کہا الیکٹریشن کوبلائیں۔ اسے بلایا گیاتو شمیم احمد نے کہا کبھی کنڈی ڈالی ہے؟ اس نے انکار کر دیا۔ پھر اسے کہا میں تمہیں اندر نہ ہونے کی ضمانت بھی دیتا ہوں اور انعام بھی دوں گا۔ تم بس کنڈی ڈال دو۔ وہ شخص قائل ہو گیا۔ اس نے بانس پر تار ڈالی۔ شمیم احمدکے کمرے کی کھڑکی کھولی اور مین لائن پر کنڈی ڈالی پھر تار لگائی اور بجلی آگئی۔ جب بجلی آگئی تو آپریٹر سے کہا۔ Could I talk to thae bastard Chairman. اس نے چیئرمین سے ملا دیا۔ اس سے کہا میں شمیم احمد بول رہا ہوں۔ آپ کے بندے ہمارے اخبار کی بجلی کاٹ دی تھی۔ would you please come to see, it is there۔ شمیم احمد کی کنوویکشن یہ تھی کہ ایڈیٹر دفتر میں موجود ہو اور اخبار نہ چھپے یہ انہونی ہے۔
۔(حوالہ:انٹرویو سلیم بخاری، صفحہ 225، پاکستانی سیاست کے رازداں صحافی، مظفر محمد علی)۔