تہذیبِ جدید کا انہدام(2)۔

قدرتی ایندھن کا غضب

آرکٹک کی میتھین سے خارج شدہ کاربن اگلی دہائی تک شاید ہزار گیگا ٹن تک پہنچ چکی ہوگی، جو فضا میں موجود کاربن کا بوجھ دگنا کردے گی

نومی اوریسکس اورایرک کونوے/ترجمہ:ناصر فاروق
سن 2001ء میں، آئی پی پی سی نے پیشگوئی کی کہ ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائیڈ 2050ء تک دگنی ہوچکی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ2042ء میں ہی ایسا ہوجائے گا۔ درجہ حرارت چار ڈگری بڑھ جائے گا، بڑی بڑی عالمی تبدیلیاں شروع ہوچکی ہوں گی۔ سن 2040ء تک ہیٹ ویوز اور قحط سالی عام بات ہوچکی ہوگی۔ پانی اور خوراک ذخیرہ کرنا، اور ’’ایک بچہ‘‘ کی پالیسی عام ہوچکی ہوگی۔ امیر ممالک جہاں سمندری طوفان اور آندھیاں چل رہی ہوں گی، تیزی سے ویران ہونے لگیں گے، اُن علاقوں کی معاشرت پر شدید دباؤ بڑھے گا جو ان طوفانوں سے کم متاثر ہوئے ہوں گے۔
غریب ملکوں میں صورت حال متوقع طور پر زیادہ خراب ہوچکی ہوگی: ایشیا اور افریقا کے دیہاتی علاقوں کی آبادیاں بڑی حد تک نقل مکانی کرچکی ہوں گی، خوراک کی کمی کا شکار ہوچکی ہوں گی، بھوک اور وباؤں کی زد میں ہوں گی۔ پوری دنیا میں سمندروں کی سطح 9 سے 15 سینٹی میٹر بلند ہوچکی ہوگی، تاہم ساحلی آبادیاں جوں کی توں قائم ہوں گی۔
تب، سن 2041ء کے موسم گرما میں شمالی نصف کرہ زمین پر بدترین ہیٹ ویوز چلیں گی، پوری دنیا میں فصلیں برباد ہوجائیں گی۔ اس کے بعد خوف پھیلے گا، ہر بڑے شہر میں خوراک پر لڑائیاں ہوں گی۔ بھوکے پیاسے انسانوں کی بڑی بڑی ہجرتیں ہوں گی، اس کے ساتھ ساتھ کیڑے مکوڑوں کی بھرمار ہوجائے گی۔ ٹائفس، ہیضہ، ڈینگی بخار، یرقان، اور ایسے ایسے وائرل سامنے آئیں گے جنھیں انسانوں نے کبھی دیکھا یا سنا نہ ہوگا۔ کیڑے مکوڑوں کی بڑھتی چڑھتی آبادیاں کینیڈا، انڈونیشیا، اور برازیل کے پورے پورے جنگلات اجاڑدیں گی(1)۔
سن 2050ء کی دہائی میں معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگے گا، حکومتوں کے تخت الٹ دیے جائیں گے۔ سب سے زیادہ افریقا متاثر ہوگا، ایشیا اور یورپ کے بھی بہت سے حصے متاثر ہوں گے، آبادیوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی معاشرہ بندی کی اہلیت کو بُری طرح متاثر کرے گی۔ شمالی امریکہ کے عظیم صحرا شمال اور مشرق سے پھیلتے چلے جائیں گے، اور دنیا کی زرخیز ترین زیر کاشت اراضی اجاڑ دیں گے، امریکی حکومت کو خوراک پر لوٹ مار اور لڑائیوں کے باعث مارشل لا لگانا پڑجائے گا۔ چند سال بعد امریکہ کینیڈا کے ساتھ اشتراک میں یہ اعلان کرے گا کہ دونوں قومیں مل کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ تشکیل دے رہے ہیں، تاکہ ایک دوسرے کے وسائل بانٹ سکیں، تاکہ شمال کی طرف نوآبادیوں کی بقاء ممکن بنائی جاسکے۔ یورپی یونین بھی اسی نوعیت کے منصوبوں کا اعلان کرچکی ہوگی، کہ رضاکارانہ طور پر انتہائی جنوب میں اسکینڈے نیویا اور انگلینڈ کے مستحق شہری شمالی کی طرف ازسرنو آباد ہوجائیں۔ جب کہ اس دوران حکومتیں معاشروں میں نظم وضبط قائم رکھنے کی بھرپور کوششیں کررہی ہوں گی۔ سوئٹزرلینڈ اور بھارت جہاں تیزی سے آبی ذرائع ختم ہورہے ہوں گے، وہ موسمی تبدیلی پر پہلا عالمی ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کریں گے، اور قوموں کو موسمی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے کوششوں پرآمادہ کریں گے۔
سیاسی، کاروباری، اور مذہبی رہنما جنیوا اور چندی گڑھ میں ملاقاتیں کرچکے ہوں گے، ہنگامی اقدامات پر تبادلہ خیال کرچکے ہوں گے۔ بہت سوں نے کہا ہوگا کہ وقت آچکا ہے کہ زیرو کاربن ذرائع توانائی سے رجوع کرنا ہوگا۔ دیگر دلیل دے رہے ہوں گے کہ دنیا توانائی ذرائع کے نئے نظام کا مزید دس سے پچاس سال تک انتظار نہیں کرسکتی۔ جب کہ صورت حال یہ ہوگی کہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گھٹتے گھٹتے بھی صدی بیت جائے گی۔ ردعمل میں شرکاء جلدی جلدی موسمی انجینئرنگ اور تحفظ(UNCCEP) کے تحت یونیفائیڈ نیشنز کنونشن پر دستخط کریں گے، اور International Climate Cooling Engineering Project کے بلیوپرنٹس تیار کرنے شروع کردیں گے۔
پہلے قدم کے طور پر سن2052ء تک ICCEP انٹرنیشنل انجیکشن کلائمٹ انجینئرنگ پراجیکٹ لانچ کرے گا۔ اسے کبھی کبھی سائنس دان کرٹزن کی نسبت سے Crutzen Project بھی پکارتے ہیں۔ اس سائنس دان نے سن 2006ء میں یہ آئیڈیا سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ یہ اُن مجوزہ پراجیکٹس میں سے ایک ہوگا جنہیں اکیسویں صدی کی ابتدا میں لوگوں کی شدید مخالفت کا سامنا رہا ہوگا، مگر اب اکیسویں صدی کے وسط میں عام حمایت مل چکی ہوگی۔ یہ وہ زمانہ ہوگا جب غریب دنیا مدد کے لیے ہرطرف دیکھ رہی ہوگی، جبکہ بحرالکاہل کے جزائر پر آباد قومیں بلند ہوتے سمندروں میں ڈوب رہی ہوں گی۔ پورے ہندوستان میں فصلوں کی تباہی اور قحط سالی پھیل چکی ہوگی۔ دیگر ہولناک واقعات یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہوں گے۔ تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت انسدادی پراجیکٹس معطل کردے گا۔
سن 2060ء تک، آرکٹک کی برف غائب ہوچکی ہوگی۔ برفانی ریچھ سمیت، انواع کی بڑی تعداد ختم ہوچکی ہوگی۔ اب جب کہ دنیا ان بڑے بڑے اور واضح نقصانات پر توجہ کررہی ہوگی، گرمی کی شدت بڑھتی چلی جائے گی۔ سائنس دان جو یہ ساری صورتِ حال دیکھ رہے ہوں گے، اچانک پگھلتی برف اور میتھین کے اخراج کا مشاہدہ کریں گے۔ اصل صورتِ حال واضح نہ ہوگی، تاہم آرکٹک کی میتھین سے خارج شدہ کاربن اگلی دہائی تک شاید ہزار گیگا ٹن تک پہنچ چکی ہوگی، جو فضا میں موجود کاربن کا بوجھ دگنا کردے گی۔ کاربن کا یہ عظیم حجم Saganeffect تک لے جائے گا۔ زمین کا درجہ حرارت چھ ڈگری سیلسیئس تک بڑھ جائے گا۔
جدید مغربی تمدن کے لیے آخری دھچکا وہ ہوگا کہ جس پر بہت بحث ہوئی، مگر اسے کبھی حقیقی خطرے کے طور پر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا: یہ مغربی انٹارکٹیکا کی برفانی تہ کا انہدام ہوگا۔ تکنیکی طور پر مغربی انٹارکٹیکا کے ساتھ جوکچھ ہوگا، وہ محض انہدام نہ ہوگا، بلکہ شمالی نصف کرہ زمین پر سمندروں کی گردش کا معمول بدل جائے گا، یہ سطح پر موجود انتہائی غیر معمولی گرم پانیوں کو جنوبی سمندرکی جانب دھکیل دے گی، جو برف کی تہ کو زیریں حصے سے تہ و بالا کردیں گے۔ یوں برف کی بڑی بڑی تہیں مرکزی خطے سے علیحدہ ہوجائیں گی، اور اس طرح وہ فصیل ہٹ جائے گی، جس نے اب تک جزیرہ نما انٹارکٹک میں برف کی تہ کو قلعہ بند رکھا ہوا تھا، اور پھر سمندر کی سطح تیزی سے بلند ہوجائے گی۔ سن 2073ء سے 2093ء تک تقریباً 90 فیصد برف کی تہ ٹکڑے ہوچکی ہوگی، پگھل چکی ہوگی، اور سمندروں کی سطح پانچ میٹر تک بلند کررہی ہوگی۔ اس دوران گرین لینڈ کی برفیلی تہ، جس کے بارے میں خیال ہے کہ آرکٹک کی تہ کے مقابلے میں کمزور ہے، پارہ پارہ ہورہی ہوگی۔ مشرقی حصہ مغربی حصے سے الگ ہونے لگے گا۔ اس کے بعد برفیلی تہیں ایک ایک کرکے پگھلنے لگیں گی۔ درجہ حرارت کی کمی کے یہ واقعات ’عظیم انہدام‘ کا حوالہ بن جائیں گے۔ یہ بتدریج معاشرتی، معاشی، اور سیاسی انہدام بن جائیں گے۔ ماہرین یہ پیش گوئی کرچکے ہوں گے کہ سطح سمندر کی 8 میٹر بلندی کے بعد دنیا کی دس فیصد آبادی در بہ در ہوجائے گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اُن کے یہ اعداد وشمار بھی کم ثابت ہوں گے: درحقیقت یہ تناسب بیس فیصد تک چلا جائے گا۔ اگرچہ اس دور کے بارے میں اعداد و شمار نامکمل ہی رہیں گے، امکان یہ ہے کہ اس عہد میں ڈیڑھ ارب انسانوں کی عظیم ہجرتیں وقوع پذیر ہوں گی، خواہ یہ براہِ راست اثرات کا نتیجہ ہوں یا بالواسطہ طور پر متاثر شدہ ہوں۔ یہ دربدری ’دوسری سیاہ موت‘ کا سبب بھی ہوگی، جو یورپ میں بیکٹیریا یرسینیا پیسٹیس کے پھیلاؤ سے ہوگی، یہ ایشیا سے شمالی امریکہ تک پھیل جائے گی۔
عہدِ ازمنہ وسطیٰ میں اس ’سیاہ موت‘ نے یورپ کے کئی حصوں کی نصف آبادیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا تھا۔ دوسری ’سیاہ موت‘ بھی ایسے ہی اثرات مرتب کرے گی۔ یہ بات بھی حقیقت سے بعید نہیں کہ دنیا بھر میں ساٹھ سے ستّر فیصد غیر انسانی انواع فنا ہوجائیں گی۔
تاہم 2090ء کے آس پاس کچھ ایسا ہوگا جس کی اصل خاصیت سمجھنا فی الحال ممکن نہیں، اس پرالجھاؤ پایا جاتا ہے۔ جاپانی جینیاتی انجینئر اکاری ایشی کاوا ایک کائی زدہ فنگس کی قسم تیار کرچکی ہوں گی، جس میں موجودphotosynthetic (یہ پودوں وغیرہ میں موجود وہ خاصیت ہوتی ہے، جو سورج کی روشنی کی مدد سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے اجزائے ترکیبی کوایک ضابطے میں لے آتی ہے) ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو تیزی سے جذب کرلے گی، اور ماحولیاتی بہتری میں معاون ہوجائے گی۔
یہ پناریا قسم کی فنگی ایشی کاوا کی لیبارٹری سے پہلے ہی جاپان اور دنیا بھر میں پھیلائی جاچکی ہے۔ صرف دو دہائیوں میں اس نے واضح طور پر ویران مناظر کو سبزہ زاروں میں بدل دیا تھا، اور ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی تھی۔ یوں ایشی کاوا کی کاوش نے دنیا کو ماحولیاتی بازیافت کی جانب گامزن کردیا تھا۔
تاہم جاپانی حکومت کے مطابق، ایشی کاوا نے یہ کام تنہا کیا، اور یوں غداری کی مجرم قرار پائی۔ مگر اب بھی بہت سے جاپانی شہری اُسے ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں، اُن کے خیال میں ایشی کاوا نے وہ کام تنہا کردکھایا، جو اُن کی حکومت کرسکتی تھی اور کرنا چاہیے تھا مگر اُس نے نہیں کیا۔
اکثر چینی ماہرین نے یہ دونوں رویّے مسترد کردیے۔ اُن کا خیال تھا کہ جاپانی حکومت نے نہ صرف تخفیفِ کاربن مشن میں ناکامی کا سامنا کیا بلکہ ایشی کاوا کو بھی پہلے ضروری مدد فراہم کی اور پھر اُس کے خطرناک اور غیر یقینی کردار کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ اس معاملے کی حقیقت جو بھی ہو، یہ سچائی اپنی جگہ موجود ہے کہ ایشی کاوا کی تحقیق نے ماحولیات پر چھائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ڈرامائی انداز میں کم کیا ہے۔

حواشی:۔

1) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس نشانیاں بتائی ہیں، ان میں پہلی دھواں (کاربن ڈائی آکسائیڈ)، اور دوسری (دابۃ الارض) حشرات الارض کی بہتات ہے۔ کس قدر خوفناک مطابقت پائی جاتی ہے عالمی حدت کے اثرات اور قربِ قیامت کی نشانیوں میں!