دفاعی بجٹ کا وسیع حجم، صحت اور تعلیم کے لیے انتہائی کم رقم، اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہ ہونا ہے
ملکی تاریخ کا ایک اور بجٹ ایک بار پھر اس حکومتی دعوے کے ساتھ قومی اسمبلی کے محدود اجلاس میں پیش ہوگیا کہ ان حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حکومتی وزرا نے اِس بار بھی وہی روایتی تعریفی ڈونگرے برسائے جو اس ملک میں گزشتہ 73 برس سے وزرا برساتے آرہے ہیں۔ ہماری پوری پارلیمانی تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں کہ کسی وزیر نے ہمت کرکے بجٹ کی کسی خرابی کی نشان دہی کی ہو۔ اپوزیشن نے ہر سال کی طرح اِس بار بھی پہلے بجٹ تقریر کے دوران شور شرابہ کیا، پھر بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے واک آئوٹ کردیا۔ البتہ اِس بار ایک نیا کام یہ ہوا کہ اپوزیشن نے اپنے احتجاج کی ویڈیو بناکر میڈیا کو جاری کردی۔ اس سے قبل انہیں اپنے احتجاج کی تصویری جھلکیاں نشر نہ ہونے پر اعتراض اور شکایت ہوتی تھی۔ سرکاری اور نجی میڈیا پر حکومتی دانشوروں نے بجٹ کے ایسے ایسے روشن پہلو تلاش کرلیے جن کا خود حکومت کو بھی علم نہیں تھا، اور مخالف دانشوروں نے ایسی ایسی خرابیاں ڈھونڈ نکالیں جو کسی دوربین سے بھی تلاش کرنا مشکل ہوتیں۔
یہ بات درست ہے کہ اِس وقت ملک مشکل ترین صورتِ حال، بلکہ حالتِ جنگ جیسی ایمرجنسی سے گزر رہا ہے۔ کورونا کی تباہیاں اور معیشت کی بربادی سب کے سامنے ہے، لیکن ایسے مواقع پر حکومتیں اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر ایسا بجٹ پیش کرتی ہیں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو، اور دنیا کو یہ پیغام جائے کہ مشکل کی اس گھڑی میں قوم یکجا ہے۔ لیکن ایسا کرنا شاید اس حکومت کے مزاج ہی میں شامل نہیں ہے۔ بجٹ سے قبل حکومت نے اپوزیشن رہنمائوں، سیاسی جماعتوں اور ماہرین کو سے مشاوت کرنامناسب ہی نہیں سمجھا، بلکہ بجٹ کی تیاری کے دنوں میں نیب کے ذریعے اپوزیشن رہنمائوں اور جماعتوں کو دبائو میں لانے کی کوششوں میں مصروف رہی، حالانکہ حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہماری اپوزیشن خاصی تجربہ کار ہے، اسے دبائو قبول کرنا ہوگا تو وہ سلیکٹرز کا دبائو مانے گی۔ سلیکٹڈ کا دبائو کیوں قبول کرے گی! حکومت نے تو بجٹ سے قبل اپنی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کو بھی کافی زچ کیا تھا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ ان جماعتوں نے بدلہ چکانے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ اس سب کے باوجود سب جانتے ہیں کہ بجٹ منظور ہوجائے گا اور حکومت اور اپوزیشن کی کھینچا تانی چلتی رہے گی، ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے تک۔
وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ تو فخرسے بتادیا کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے اور اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، مگر یہ بات گول کر گئے کہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ بھی یہی ہے۔ 2020-21ء کے وفاقی بجٹ کا کُل حجم 71 کھرب 37 ارب روپے ہے جو 3437 ارب روپے کے خسارے کے ساتھ ہے۔
حکومت اور اس کے اتحادی اور ترجمان اس بات پر تنے پھر رہے ہیں کہ ان حالات میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پہلے لگے ہوئے ٹیکس کم ہیں جو نئے لگانے کی گنجائش پیدا کی جاتی؟ گزشتہ دس سال میں پیش ہونے والے تمام بجٹ ٹیکس فری تھے۔ لیکن اب حکومتوں کے پاس اس کا حل ضمنی بجٹ اور بالواسطہ ٹیکس کی صورت میں موجود ہے۔ یہ حکومت بھی پچھلے برسوں کی طرح یہی کرے گی۔ موجودہ بجٹ میں بھی حکومت بالواسطہ ٹیکسوں سے 29 کھرب روپے کمائے گی۔
بجٹ پر جو تین بڑے اعتراضات آئے ہیں وہ دفاعی بجٹ کا وسیع حجم، صحت اور تعلیم کے لیے انتہائی کم رقم، اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہ ہونا ہے۔ بجٹ میں دفاعی شعبے کے لیے 1289 ملین روپے رکھے گئے ہیں جو یقیناً بہت بڑی رقم ہے، لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ماضی میں پیش ہونے والے بجٹوں میں بھی اسی شرح سے دفاعی شعبے کے لیے رقم رکھی گئی تھی؟ دوسرا یہ کہ اس کثیر رقم پر اسمبلی میں کوئی نہیں بولے گا، صرف چند چھوٹی جماعتیں احتجاج کریں گی۔ بڑی جماعتیں فوج کو نہ ماضی میں ناراض کرتی تھیں، نہ اب کریں گی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ والے نوازشریف کی جماعت نے بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں ووٹ ڈالا تھا کہ مستقبل میں سودے بازی مقصود تھی۔
بجٹ میں سب سے زیادہ رقم ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1324 ارب روپے رکھی گئی ہے، البتہ تعلیم اور صحت جو سالہا سال سے ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں اور وہ ان شعبوں میں نہ صرف نجی شعبے کو دنیا بھر کی مراعات دیتی آئی ہیں بلکہ اس شعبے کی کارکردگی کی تعریف بھی کرتی ہیں، حالانکہ ان دونوں شعبوں کے نجی سیکٹر میں جانے کے بعد جو تباہی آئی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حالیہ کورونا بحران کے دوران نجی اسپتالوں نے مریضوں سے ایک ایک دن کا ایک ایک لاکھ روپے تک وصول کیا ہے، لیکن اب بھی حکومت سرکاری شعبے کے اسپتال بنانے کے بجائے ہیلتھ کارڈوں کے چکر میں پڑی ہوئی ہے۔ اس بجٹ میں بھی طبی شعبے کے لیے صرف 75 ارب روپے رکھے گئے ہیں، تاہم کورونا پیکیج کے لیے 1200 ارب روپے ہیں۔ معلوم نہیں کہ کورونا پیکیج میں صرف امدادی رقوم اور مستحقین میں اشیائے ضروریہ کی تقسیم ہی شامل ہے، یا اس میں کورونا کے لیے طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بھی کچھ رقم مختص ہے!
سب سے زیادہ شور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کیے جانے پر ہوا ہے، اور ساتھ ہی پنشن میں اضافہ نہ کیے جانے پر بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ سابقہ تمام بجٹوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے باعث اضافہ کیا جاتا رہا ہے جسے عام سرکاری ملازمین اپنی سال بھر کی کارکردگی کا صلہ قرار دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ اضافہ نہ کرنے کی حمایت میں دل چسپ تبصرے سامنے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین سارا سال مفت کی روٹیاں کھاتے ہیں، عوام کو دفتروں کے دھکے کھلواتے ہیں۔ انہوں نے پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، ٹیلی فون جیسے منافع بخش محکموں کو کنگال کرکے رکھ دیا ہے اور باقی ادارے بھی تباہی کے دہانے پر لا کھڑے کیے ہیں۔ ملک میں دفتری نظام کی ساری خرابیوں، سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور کام چوری کے بعد ان کی تنخواہوں میں اضافے کے بجائے کٹوتی ہونی چاہیے۔ تاہم یہ بات درست نہیں ہے۔ حکومت متذکرہ بالا خرابیوں کو دور کرے، لیکن مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ بھی کرے جو نہیں کیا گیا۔ بجٹ میں سب سے تکلیف دہ بات پنشن میں اضافہ نہ ہونا ہے۔ عام سرکاری ملازمین کی پنشن ویسے ہی بہت کم ہوتی ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بیماری اور دوسری مشکلات پنشنرز کو پریشان رکھتی ہیں، خصوصاً پنشنرز کی وفات کی صورت میں بیوہ مزید پریشانیوں کا شکار ہوجاتی ہیں، اس لیے اس طبقے کے لیے ریلیف کی واقعی ضرورت تھی جو حکومت نے فراہم نہیں کی۔
بجٹ پر سب سے اہم اور پریشان کن تنقید دینی مدارس کی جانب سے آئی ہے۔ وفاق المدارس العربیہ نے مدارس اصلاحات کے نام پر 5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا بحران کے دوران بھی حکومت نے مدارس اور مساجد کے بجلی اور پانی کے بل معاف نہیں کیے، عام حالات میں بھی انھیں کوئی رعایت نہیں دی جاتی، کورونا بحران میں مدارسِ دینیہ کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے حکومت نے کسی امدادی ریلیف کو ضروری نہیں سمجھا، اب اصلاحِ مدارس کے نام پر یہ خطیر رقم مدارس کے نظام میں مداخلت اور کوئی غیر ملکی ایجنڈا ہے۔
آخری اطلاعات کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر سرکاری ملازمین نے مختلف شہروں میں احتجاج شروع کردیا ہے، جبکہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہہ دیا ہے کہ بجٹ میں ضرورت کے تحت ردوبدل ہوسکتا ہے، یعنی منی بجٹ آسکتے ہیں۔
بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پیٹرول پہلے ہی نہیں مل رہا تھا، اب آٹا، دودھ، دالوں اور مسالہ جات کی قیمتوں میں اضافہ شہریوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن رہا ہے کہ بہت سے شہریوں کی تنخواہوں میںکٹوتیاں ہورہی ہیں، بہت سوں کے کاروبار بند پڑے ہیں، کئی کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے… لیکن حکومت صرف تقریریں کررہی ہے۔ بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی قیمتوں پر کنٹرول کے لیے ایک واضح لائحہ عمل کی ضرورت تھی جو حکومت نے نہیں اپنایا۔ شاید اسی لیے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ عالمی مالیاتی اداروں کے اہداف کا پلندہ ہے، اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے یہ اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ کورونا کے باعث ایک کروڑ سے زائد بے روزگار ہونے والے افراد اور اُن کے اہلِ خانہ کے لیے حکومت نے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی ہے اور نہ بجٹ میں اس کام کے لیے کوئی رقم رکھی ہے حالانکہ یہ سب سے اہم کام ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں بے روزگار ہوجانے والے افراد زندگی کی گاڑی کیسے کھینچیں گے۔ یہ بے روزگار افراد، ان کے اہلِ خانہ دو وقت کی روٹی کہاںسے کھائیں گے؟ علاج کے دروازے تو پہلے ہی بند ہیں کہ اسپتالوں میں گنجائش نہیں، یہ بے چارے تو اپنے مریضوں کو اسپتال بھی نہیں پہنچا سکیں گے، اور خدانخواستہ موت کی صورت میں ان کی تدفین بھی کرنے کے قابل نہ ہوںگے۔ حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ بڑے شہروں میں لاکھوں افراد دو، دو نوکریاں کرکے اپنے خاندان کی کفالت کررہے تھے، اب ان کی ایک، اور بعض کی دونوں نوکریاں ختم ہوگئی ہیں، سیٹھ کسی کو گھر بٹھا کر تنخواہ دینے کو تیار نہیں، حکومت اس پر کوئی دبائو بھی نہیں ڈال رہی۔ ایسے میں یہ لوگ زندہ کس طرح رہیں گے! کاش ہمارے اربابِ اقتدار زمینی حقائق کو دیکھیں، عام آدمی کی پہاڑ جیسی مشکلات پر غور کریں، اور اُسے بچانے کی فکر کریں، ورنہ کورونا سے بچنے والے بھوک اور بے روزگاری سے مرنے لگیں گے، اللہ خیر کرے۔