نیب اپنی ساکھ کھو چکا ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں احتساب کے عمل کوسیاسی جماعتوں اور فوجی حکومتوںنے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں احتساب کا نظام اپنی شفافیت اور ساکھ کو قائم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ فوجی اور سیاسی حکمرانی… احتساب کے حوالے سے دونوں کا ریکارڈ اپنے اندر کئی طرح کے سیاسی تضادات رکھتا ہے، اور لگتا ہے کہ ان طاقت ور حکمرانوں کا مسئلہ احتساب نہیں بلکہ احتساب کو بنیاد بناکر اپنی حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنانا تھا۔
اس وقت بھی ملک میں احتساب کی جنگ جاری ہے۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ وہ بغیر کسی تفریق کے ملک میں صاف، شفاف احتساب کے عمل کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ نیب کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور لوگوں کو لگتا ہے کہ موجودہ نیب بھی احتساب کے عمل میں کوئی کلیدی کردار ادا نہیں کرسکے گا۔ عمران خان کی حکومت کے ایجنڈے میں ایک بنیادی نکتہ احتساب کا عمل تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول وہ احتساب کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، لیکن عمران خان کی حکومت بھی احتساب کے عمل میں وہ نتائج نہیں دے سکی جن کا وہ دعویٰ کیا کرتی ہے۔
اس وقت نیب کے حوالے سے پانچ بڑے الزامات سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں:۔
(1) حکومت نیب کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور سیاسی انجینئرنگ استعمال کررہی ہے۔
(2) حکومت، نیب، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں باہمی گٹھ جوڑ ہے۔
(3) عملی طور پر حکومت میں موجود لوگ جو نیب کو درکار ہیں یا احتساب کے دائرۂ کار میں آتے ہیں اُن کو نہیں پکڑا جارہا، اور سارا زور حکومتی مخالفین کو جکڑنے پر ہی ہے۔
(4) نیب کے تفتیشی نظام پر بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے، اور کہا جارہا ہے کہ کئی کئی ماہ تک لوگوں کو زیر حراست رکھنا اور عدالتوں میں جرائم کے شواہد پیش نہ کرنا، اور عدالتوں سے ان کی ضمانتوں کا ہونا خود نیب کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
(5) خود ہماری عدالتیں بھی نیب کی کارروائیوں پر کڑی تنقید کرچکی ہیں، اور ان کے بقول نیب بہت سے معاملات میں اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کرپشن اور اقربا پروری سمیت ریاستی وسائل کی لوٹ مار کی کہانی اپنے اندر کئی سیاسی حقائق رکھتی ہے۔ کرپشن کسی ایک فریق نے نہیں کی، بلکہ طاقت کے مراکز میں موجود تمام فریق کسی نہ کسی شکل میں کرپشن کی سیاست کا شکار رہے ہیں۔ آج بھی کرپشن کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور حکومت اس کے خلاف کوئی مؤثر بند نہیں باندھ سکی، اور اس کی وجہ حکومتی اداروں کا کرپٹ مافیاز کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ ہے جو احتساب کے شفاف نظام میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
اگرچہ جو بھی سیاسی یا دیگر فریقین نیب کو مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں یا وہ نیب کی تحویل میں ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ سب ہی اسے حکومت کی انتقامی کارروائی سمجھتے ہیں، اور ان میں سے بیشتر جمہوریت اور سیاست کو ڈھال بناکر خود کو ضمیر کے قیدی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ان لوگوں نے کوئی کرپشن نہیں کی تو سالانہ بنیادوں پر ہونے والی کرپشن کی اس کہانی کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کون لوگ کرپشن کرنے کے ذمہ دار ہیں؟ اسی طرح یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ماضی یا حال کی جو بھی سیاسی اور فوجی حکومتیں کیوں ایک منصفانہ، شفاف اور خودمختار احتساب کا نظام قائم نہیں کرسکیں؟ کیا وجہ ہے کہ آج نیب پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والی دونوں جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے پانچ پانچ برس کے اقتدار کے باوجود نہ تو نیب کو ختم کرسکیں اور نہ ہی احتساب کا کوئی متبادل نظام قائم کرسکیں، جس سے ان کی سیاسی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری سیاسی قیادتوں نے عملاً کرپشن کے خاتمے کے بجائے اس پر سیاسی سمجھوتے کیے، اور سیاست و جمہوریت کو کرپشن کے حق میں استعمال کرکے ہماری قومی سیاست کو کرپٹ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔
اس ملک میں کرپشن کے خاتمے احتساب نہ ہونے کی وجہ محض کوئی ایک ادارہ نہیں، بلکہ مجموعی طور پر تمام سیاسی، انتظامی، قانونی، ظاہری اور پس پردہ طاقتیں اس کی ذمہ دار ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ احتساب کے عمل میں ایک طبقاتی طرز کی سوچ غالب ہے۔ طاقت ور اورکمزور کے درمیان ہمارا پورا احتساب کا نظام دہرا معیار رکھتا ہے، اور اس تناظر میں تضادات اور دہرے معیار کی جو جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم احتساب کے عمل میں کہاں کھڑے ہیں۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے، لیکن حکمرانی کے نظام کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسی کاروائیوں کو یقینی بناتا ہے جس سے وائٹ کالر کرائم کے خلاف شکنجہ زیادہ سے زیادہ سخت کیا جاتا ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ حکومت، بیوروکریسی، انصاف کے اداروں سمیت دیگر اداروں میں بھی ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو ایسی قانون سازی، پالیسی یا اس پر عمل درآمد کے خلاف کام کرتے ہیں جو کڑے احتساب کو یقینی بناسکے۔
دراصل احتساب کا جو بھی نظام ہو، اُس کی سیاسی و قانونی ساکھ اسی صورت میں قائم ہوتی ہے جب وہ نہ صرف بے لاگ ہو، بلکہ یہ بے لاگ یا شفاف عمل سب کو واضح طور پر نظر بھی آنا چاہیے۔ نیب کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا احتساب کا نظام لوگوں میں اپنی ساکھ کھورہا ہے یا کھوچکا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بے لاگ نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ نیب کے اس طرزعمل کے باعث حزبِ اختلاف کی جماعتیں یا جو لوگ نیب کے شکنجے میں آتے ہیں، وہ اسے سیاسی انتقام کے بیانیے کے طور پر پیش کرکے اس پورے عمل کو سیاسی بنیادوں پر پرکھ کر اسے متنازع بناکر پیش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم حکومت اور حزبِ اختلاف میں بھی ایسا کوئی اتحاد نہیں دیکھتے جو واقعی احتساب کے نظام کو مضبوط بنانے کا خواہش مند نظر آتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہ تو مؤثر پالیسی یا قانون سازی دیکھنے کو ملتی ہے، یا اس میں جو بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی رکاوٹیں ہیں ان کا خاتمہ نظر آتا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک ہم اداروں کو سیاسی، انتظامی اور قانونی طور پر خودمختار نہیں بناتے، شفاف احتساب کیسے ممکن ہوگا؟ یہ ہماری سیاست، پارلیمنٹ اور نام نہاد جمہوری نظام کی ناکامی ہے کہ ہم احتساب کا مؤثر نظام قائم نہیں کرسکے، یا یہ ہماری ترجیحات میں کسی بھی طور پر بالادست نہیں۔ اصل میں پاکستان میں احتساب ایک روایتی اور فرسودہ نظام کی موجودگی میں ممکن نہیں، اس کے لیے بڑے پیمانے پر کڑی اور سخت اصلاحات یا قانون سازی درکار ہے۔اس معاملے میں موجودہ فریم ورک یا روایتی خیالات سے باہر نکل کر کچھ بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام جن لوگوں کو کرنا ہے وہی اس کے لیے تیار نہیں، اور سمجھوتے کاشکار ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ جس نظام کا حصہ ہیں اُس میں احتساب کتنا مشکل کا م ہے۔ وہ جو دھواں دھار تقریریں عوامی جلسوں میں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کام وہ اقتدار میں آکر آسانی سے کرلیں گے، ممکن نظر نہیں آرہا۔ خود ان کی اپنی حکومت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ احتساب کے نظام کو پسِ پشت ڈالیں اور حکومت کریں، وگرنہ ان کے لیے حکومت کرنا مشکل ہوگا۔ بہرحال موجودہ صورتِ حال میں ہمیں احتساب کا عمل ناکام نظر آتا ہے، اوراس میں کوئی بڑی پیش رفت ممکن نہیں، کیونکہ یہ کام محض نیب نہیںکرسکتا۔ اس کے لیے ریاست، حکومت، عوام اور اہلِ دانش کی مدد درکار ہے جو احتساب کے اداروں کے پیچھے شفافیت کے ساتھ کھڑے ہوں، تبھی یہ کام ممکن ہوسکتا ہے۔