وزیراعلیٰ جام کمال کا “مودبانہ” احتجاج
بلوچستان کی مخلوط حکومت کئی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اسے وفاق کے ستم کا بھی سامنا ہے۔کسی اور جماعت کی حکومت ہوتی تو یقیناً وفاق کے ساتھ سندھ حکومت کی مانند مناقشہ ہوتا۔ حالیہ وفاقی بجٹ (12جون2020ء) سے قبل وزیراعلیٰ جام کمال خان نے اپنی دانست میں وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر ڈلوانے کی کوششیں کیں۔ وفاق کا بلوچستان سے سلوک، اور صوبے کی ضروریات، مشکلات اور مسائل کو لائقِ اعتناء نہ سمجھنے کی روش و رویّے کو دیکھتے ہوئے جام کمال نے مؤدبانہ احتجاج کیا۔ انہوں نے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی صدارت میں ہونے والے سالانہ منصوبہ بندی کمیشن کے اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔ انہوں نے وفاقی حکومت کے نمائندوں سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ سے بھی بالمشافہ ملے۔ تاہم بجٹ اور معیشت جاننے والے کہتے ہیں کہ اس وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے منصوبوں کو کماحقہٗ جگہ نہیں مل سکی ہے، اور اس طرح صوبائی حکومت کو خفت اٹھانی پڑی ہے۔ چناں چہ اس دوران اخبارات میں خبر لگوائی گئی کہ وزیراعلیٰ کے احتجاج پر وفاقی حکومت نے بلوچستان کے لیے 56 ارب روپے کے وفاقی منصوبوں کی منظوری دے دی۔ بہرحال حزبِ اختلاف اور صوبے کی بڑی سیاسی جماعتوں نے وفاق کا طرزِعمل اِس بار بھی مایوس کن اور امتیازی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منصوبے خاطر میں نہ لائے گئے۔ باتوں کی حد تک سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان جغرافیائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے، اور اس کے معدنی وسائل ملک کی معیشت کے لیے جسم میں روح کی مانند ہیں، مگر عملاً صوبے کو باج گزار کی حیثیت دے رکھی ہے، اس کے وسائل ہڑپ کیے جاتے ہیں، مگر اضافی نوازشات تو کیا، صوبے کو جائز حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
دل کی بات مقتدرہ نوازوں کی زبان پر بھی آ ہی جاتی ہے، جیسے 10جون2020ء کو وزیراعلیٰ جام کمال خان نے بھی اس جانب اشارہ کیا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی ایک ٹویٹ میں وہی کچھ کہا جو دوسری جماعتیں عشروں سے کہتی چلی آرہی ہیں۔ اس روز جام کمال خان وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے ویڈیو لنک اجلاس میں شریک تھے۔ جام کمال نے اجلاس پر واضح کیا کہ ’’وفاقی سطح پر بلوچستان کے ترقیاتی معاملات کو آسان نہ لیا جائے۔ بلوچستان پہلے ہی وفاقی منصوبوں میں نظرانداز رہا ہے‘‘۔ جام کمال تسلیم کرچکے ہیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کی ایک اہم وجہ نامناسب اور ناکافی ترقیاتی سرمایہ کاری ہے۔ ترقیاتی اسکیموں پر توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا بڑا حصہ آج بھی غیر ترقیاتی یافتہ ہے۔ گویا وزیراعلیٰ جام کمال بھی موجود معروضی حقائق زبان پر لانے پر مجبور ہوئے۔
درحقیقت وفاق کے اس امتیازی سلوک و برتائو نے بلوچستان کے اندر سخت گیر و متشدد سیاسی رویوں کو جنم دیا ہے۔ شورشیں جنم لے چکی ہیں۔ اس وقت بھی ریاست کو تشدد پر مبنی سیاسی رویوں کا سامنا ہے۔ ریاست اور اسی طرح بلوچستان کا دو عشروں سے برابر نقصان ہورہا ہے۔ لہٰذا یہ ذمے داری بلوچستان عوامی پارٹی جیسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ وفاق سے نرمی اور تابع داری کے تعلق کے بجائے صوبے کے آئینی حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کریں۔ اس ضمن میں اسمبلی کے اندر حزبِ اختلاف اور صوبے کی دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے، جہاں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان برابر دوریاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ حزبِ اختلاف حکومت کے ساتھ متصادم ہے ، ان کا احتجاج اب سڑکوں پر ہورہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ کم از کم وفاق کے آگے صوبے کی مخلوط حکومت، حزبِ اختلاف اور دوسری سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا چاہیے۔ اس ضمن میں زیادہ کردار جام کمال کی حکومت کا ہے۔ اسمبلی کے اندر قائدِ حزبِ اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ ہیں۔ وہ سنجیدہ، معاملہ فہم اور اچھی شہرت کے حامل سیاست دان ہیں۔گویا ان کے ذریعے ایک تو افہام و تفہیم کا ماحول بنایا جا سکتا ہے، دوئم وفاق پر صوبے کے آئینی حقوق کے حصول کے لیے مل کر دبائو ڈالا جا سکتا ہے۔ سرِدست صوبائی حکومت اپنا جائزہ لے کہ آیا وہ وفاق سے صوبے کا مفاد تسلیم کرانے میں آزاد و یکسو ہے؟یوں یقیناً حزبِ اختلاف بھی دو رائے کا شکار نہ ہوگی۔
بلوچستان کے اندر کورونا وبا پھیل جانے کے بعد حکومت کا کنٹرول رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے، بلکہ فی الواقع صوبائی حکومت اور سرکاری مشینری محض اجلاسوں اور اعلانات تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے کوئی فیصلہ اور پالیسی لاگو نہیں کرسکی ہیں۔ اموات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔خود صوبائی حکومت کا محکمہ صحت کہہ چکا ہے کہ اگست تک صوبے کی سو فیصد آباد ی کورونا مرض میں مبتلا ہوجائے گی۔ حالت یہ ہے کہ سرکاری دولت بے دریغ خرچ ہورہی ہے جبکہ نتیجہ صفرہے۔ محض دعووں اور اعلیٰ سطح کے اجلاسوں سے درپیش چیلنج سے نمٹنا ممکن ہوتا تو صوبہ کب کا اس وبا کے خلاف بند باندھ چکا ہوتا۔لہٰذا حکومت کا اپنی عمل داری یقینی بنا نا ناگزیر ہوچکا ہے۔