پانچ اگست کے بھارتی فیصلے نے چین اور پاکستان کو مشترکہ چیلنج کے ایک نئے رشتے میں جوڑ دیا ہے
۔5 اگست2019ء کے یک طرفہ اور متنازع فیصلے کے بعد بھارتی حکمران پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے ہوا کے ایک گھوڑے پر سوار تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ بھارت اب ہر رکاوٹ کو روند کر اپنے متعین کردہ راستے پر چلتا چلا جائے گا۔ چین کے ایک تھنک ٹینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس پُراعتمادی کی دو وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخابات میں محیرالعقول کامیابی حاصل ہوئی تھی، اور اس کامیابی نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مائوف کرڈالا تھا۔ دوئم، چین کے مقابلے کے لیے امریکہ اور بعض مغربی ملکوں کی طرف سے بھارت کی غیر ضروری ناز برداری، جس کی وجہ سے وہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے صرف ِ نظر کرنے پر مجبور تھے۔ یہ رپورٹ چین کے تھنک ٹینک ’’چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹمپریری انٹرنیشنل ریلیشنز‘‘ میں سائوتھ ایشین اسٹڈیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر مسٹر وانگ شدا نے تیار کی تھی، جس میں پانچ اگست کے فیصلے کو چین اور پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک چیلنج قرار دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ نہ صرف چین کے مختلف اخبارات میں شائع ہوئی بلکہ اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے پریس اتاشی نے بھی اس کا اجرا کیا، جس سے یہ تاثر گہرا ہوا کہ پانچ اگست کے بھارتی فیصلے نے چین اور پاکستان کو مشترکہ چیلنج کے ایک نئے رشتے میں جوڑ دیا ہے۔
اس رپورٹ کے اسلام آباد سے اس انداز سے اجراء اور تشہیر کو بھارتی میڈیا نے درست سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی۔ گویا کہ کشمیر میں بھارت نے صرف پاکستان کو ہی نہیں چین کو بھی للکارا تھا۔ چین کی طرف سے بھارت کو جو پیغامات مسلسل دئیے گئے، لداخ میں ہونے والی پیش قدمی ان میں سب سے اہم اور عملی پیغام تھا۔ اس سے پہلے چین نے ہر ممکن حد تک عالمی ایوانوں میں اپنی شکایات پیش کی تھیں، مگر مغربی ملکوں بالخصوص امریکہ کی بھارت نوازی نے سلامتی کونسل میں اُٹھنے والی اس آواز کو صدا بہ صحرا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کے بعد لداخ جیسا انتہائی قدم اُٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
یوں لگتا ہے کہ چین کا پائوں بھارت کے کسی نازک مقام پر پڑگیا ہے۔ اب چین اور بھارت کے درمیان اس مسئلے کا حل پسِ پردہ سفارت کاری کے ذریعے نکالا جارہا ہے، اور کشمیر اس سفارت کاری کا حصہ ہے۔ اس ساری صورتِ حال کے تناظر میں بھارت کے اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں کشمیری صحافی عاشق پیرزادہ نے بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کے ایک وڈیو خطاب کی رپورٹنگ کی ہے۔ عاشق پیرزادہ اُن کشمیری صحافیوں میں شامل ہیں جن پر بھارتی حکومت نے بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی، مگر دنیا بھر کے صحافیوں کے احتجاج پر بھارتی فوج نے انہیں تھانوں اور چھائونیوں کے چکر لگواکر چھوڑ دیا۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کیا۔ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ کشمیر میں تعمیر وترقی ہماری ترجیح ہے، اب اگلے پانچ سال میں ہم کشمیر میں ایسی بے مثال تعمیر وترقی کریں گے جسے دیکھ کر آزادکشمیر کے عوام پاکستان کے بجائے بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے آواز بلند کریں گے۔ راج ناتھ سنگھ نے بھارت کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر مظفرآباد اور گلگت کے موسم کا احوال بتانے کے حوالے سے کہا کہ موسم کا احوال جان کر اسلام آباد لازمی طور پر اپنا ذہن بدلنے پر مجبور ہوگا۔ یہ پاکستان کے کچھ شرارتی اقدامات کو روکنے کا انداز ہے۔
راج ناتھ سنگھ کے اس بیان کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے یہ کہہ کر مسترد کیا کہ یہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ دفترِ خارجہ کے پاس ہر بھارتی بیان کے جواب میں ایک ہی بیان کی فوٹو اسٹیٹ موجود ہے جسے بوقتِ ضرورت جاری کیا جانا اب رسم اور روایت ہے۔ راج ناتھ سنگھ کے بیان کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو صاف لگتا ہے کہ لداخ میں ’’چینی پھکی‘‘ اپنا اثر دکھا گئی ہے جس کے بعد بھارت ہوا کے گھوڑے سے زمین پر اُتر آیا ہے۔ کل تک بھارت آزادکشمیر اور گلگت پر قبضے کو دنوں اور مہینوں کا معاملہ قرار دے رہا تھا۔ بھارت کی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اگلے کسی بھی لمحے بھارتی فوج آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی شروع کردے گی۔ راج ناتھ سنگھ کے بیان میں اس سارے مؤقف سے واضح اور نمایاں ’’یوٹرن‘‘ لیا گیا ہے۔ اب طاقت کے استعمال اور آزادکشمیر پر قبضے کے بجائے تعمیر وترقی کے ذریعے، اور آزادکشمیر کے عوام کو رضاکارانہ طور پر بھارت کی طرف متوجہ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس سارے افسانے میں آزادکشمیر کی بات تو کی گئی مگر گلگت بلتستان کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ گلگت بلتستان کی سرحد براہِ راست چین سے ملتی ہے۔ موسم کے احوال کو بھی آزادکشمیر پر قبضے کے جارحانہ انداز کے بجائے اب ہلکا پھلکا مزاحیہ رنگ دیا گیا ہے، یعنی یہ کہ بھارتی ٹی وی پر موسم کا احوال دیکھ کر پاکستان اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوگا۔ راج ناتھ سنگھ کے اس طرزِ تخاطب، بولی اور بدن بولی سے صاف اندازہ ہورہا ہے کہ چینی نسخے کا جادو چل گیا ہے، اور بھارت اپنے مقابل چین جیسی بڑی طاقت دیکھ کر انانیت سے بھرپور جارحانہ رویّے میں واضح تبدیلی لارہا ہے۔ راج ناتھ سنگھ کے خیالات سے نخوت اورتکبر کے بجائے شکست خوردگی اور درماندگی ٹپک رہی ہے۔
خود بھارت کے اندر راج ناتھ سنگھ کے اس انداز کو طنزیہ انداز میں ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ ایک صحافی اور براڈ کاسٹر نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’بھارت کشمیر میں ایسی تعمیر و ترقی کرے کہ چین کے عوام بھی اسے دیکھ کر بھارت کے ساتھ ملنے کی بات کرنے پر مجبور ہوں‘‘۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ چین ہماری زمین لے اُڑا، نیپال نے بھارتی زمین پر دعوے پر مبنی نقشہ جاری کردیا اور مودی پاکستان کا روایتی راگ الاپ رہے ہیں۔ یعنی پانچ سال تک تو بھارت اب آزاد کشمیر کے بارے میں سوچنے کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں ’’تعمیر وترقی‘‘پر ساری توجہ مرکوز رکھے گا۔ خودفریبی کی انتہا یہ کہ جس تعمیر وترقی سے بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو متوجہ اور متاثر نہیں کرسکا، اُس سے آزادکشمیر کے عوام کے دل پسیجنے کی امید کی جارہی ہے۔ نریندر مودی نے 2015ء میں کشمیر میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز80,000کروڑ روپے کے اقتصادی پیکیج کے اعلان سے کیا تھا، مگر کسی ایک کشمیری نے اس پیکیج کی جانب نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ آثار وقرائن سے پتا چل رہا ہے کہ چین اور بھارت جنگ کی دہلیز پر رک گئے ہیں، اب نہ صرف ان دو ملکوں میں جنگ کا امکان کم سے کم ہورہا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی بھی جنگ کے پکے راگ کے بجائے دھیمے سُروں کی شکل میں جاری رہ سکتی ہے۔ یہ بات اب بڑی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ چین اس مرحلے پر پانچ اگست کے اقدام کی واپسی چاہتا ہے۔ بھارت اس مطالبے کی تکمیل کے لیے باعزت واپسی کے راستے پر اصرار کررہا ہے۔کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ’’اسٹیٹ سبجیکٹ‘‘ قانون کی بحالی فریقین کے درمیان نقطۂ اتصال بن سکتی ہے۔ ایک اطلاع تو یہ بھی ہے کہ چین صرف پانچ اگست کی پوزیشن کی بحالی ہی نہیں، بلکہ1953ء کی پوزیشن کی بحالی پر اصرار کررہا ہے جب جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت مسلمہ تھی اور بھارت نے بھی مقبوضہ کشمیر کو صدر اور وزیراعظم کے عہدے دے رکھے تھے۔ بھارت نے اس حیثیت کو ختم کرنے کا آغاز ان عہدوں کے خاتمے کے ساتھ کردیا تھا۔ اسی کے بعد کشمیر کا مسئلہ بری طرح اُلجھنا شروع ہوگیا تھا۔ پاکستان آزاد کشمیر میں اسی مقام پر کھڑا ہے، مگر بھارت نے اپنے مقبوضہ علاقے کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جوں جوں چین اور بھارت کے درمیان ڈپلومیسی کی پرتیں کھلیں گی، بہت سے حقائق بھی کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔