سندھی تحریر: ذوالفقار گرامانی/ترجمہ: اسامہ تنولی
معروف کالم نگار، تجزیہ نگار اور سندھی نیوز چینلز پر حالاتِ حاضرہ کے پروگرامات میں میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والے ذوالفقار گرامانی نے بروز جمعۃ المبارک 5 جون 2020ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کے ادارتی صفحے پر اپنے محولہ بالا عنوان کے تحت لکھے گئے کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اُس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
………
۔’’یوں تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے پوچھنے کے لیے صحافیوں کے پاس بے شمار سوالات تھے، لیکن مراد علی شاہ کو اسلام آباد سے واپس سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پہنچنا تھا۔ مراد علی شاہ سے سینکڑوں سوالات پوچھنے کا ایک سبب یہ تھا کہ کورونا وائرس کے بعد مراد علی شاہ کی پالیسیوں کی وجہ سے پی پی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی حالت یہ تھی کہ ان کے کہنے کے مطابق پی پی کی اتنی زیادہ تعریف سن کر آنکھیں بھر آئی ہیں۔ میڈیا کی آنکھیں بھی مراد علی شاہ کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ واہ واہ کے راستے پر اتنی زیادہ دکھائی دیں کہ اسلام آباد میں مراد علی شاہ حکومت میں اور عمران خان والے حزبِ اختلاف میں دکھائی دینے لگے تھے۔ وفاقی حکومت کی پریس کانفرنسیں مراد علی شاہ کے تذکرے کے بغیر مکمل دکھائی دینا گویا ایک طرح سے امرِ ناممکنات میں شامل تھا۔ یہاں تک کہ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے تو مراد علی شاہ کی پالیسی کو مودی کی پالیسی قرار دے ڈالا تھا۔ ایسی صورتِ حال میں مراد علی شاہ گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا کی نظروں میں تھے، اور سب منتظر تھے کہ موصوف وڈیو لنک کے اجلاس سے باہر آئیں تو ان سے سب تعریفیں اور تنقیدیں معلوم کی جائیں (جو اُن پر اُن کے کاموں کے حوالے سے ہورہی تھیں، مترجم)۔ مراد علی شاہ کو نیب کے طلب کرنے سے پیشتر چینی کمیشن نے طلب کیا تھا، جس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بھی شرکت کی تھی، لیکن سندھ کے وزیراعلیٰ طلب کرنے کے باوجود مذکورہ کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس طلبی پر مراد علی شاہ نے وفاق سے بذریعہ خط کتابت یہ یاد کروایا تھا کہ وہ ایسی کسی نوع کی طلبی کے پابند نہیں ہیں۔ تو پھر یوں ہوا کہ وہی سید مراد علی شاہ ایک گھنٹے کے اندر اندر نیب کے طلب کرنے پر پیش ہونے کا اعلان کرکے کراچی سے اسلام آباد جا پہنچے۔ اس لیے بجا طور پر یہ سوال بنتا تھا کہ جب معاملات بھی منی لانڈرنگ اور ملوں کو سبسڈی دینے کے ہیں تو پھر نیب کے سامنے پیش ہوکر انہوں نے اپنا مؤقف دینا ضروری سمجھا لیکن چینی کمیشن کے سامنے پیش ہونا آخر انہوں نے کیوں گوارا نہیں کیا؟ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب زرداری ہائوس اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے دورانِ ملاقات میں نے بلاول بھٹو سے مراد علی شاہ کی موجودگی میں یہ استفسار کیا تھا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور قومی اسمبلی کے رکن خورشید شاہ جونہی اسلام آباد پہنچے تو انہیں نیب نے گرفتار کرلیا۔ آصف علی زرداری کو زرداری ہائوس اسلام آباد کے اندر سے نیب ٹیم نے اُس وقت پہنچ کر گرفتار کر لیا تھا جب آصف زرداری بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، قمر الزمان کائرہ سمیت پارٹی کے سینئر قائدین سمیت وہاں موجود تھے۔ پی پی ایم پی اے فریال تالپور کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ دورانِ علالت اسلام آباد کے پمز اسپتال میں داخل تھیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ نیب اس قدر آگے چلا جائے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کو اُس کے گھر کے اندر داخل ہوکر گرفتار کرلے؟ بلاول بھٹو نے جواباً کہا کہ بے شک نیب آکر گرفتار کرے، لیکن میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مراد علی شاہ گرفتار ہوکر جیل میں جائیں یا پھر باہر رہیں، سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہی رہیں گے۔ انہی ایام میں سپریم کورٹ کے اندر مراد علی شاہ کی دہری شہریت کی درخواستیں لے کر پہنچنے کی باتیں بھی سننے میں آئیں، اور اُس وقت بھی یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ مراد علی شاہ اس دہری شہریت پر مبنی ایشو کے باعث بالآخر اپنے گھر چلے جائیں گے (یعنی اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ پائیں گے، مترجم)۔ اب پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے سبسڈی دینے کے معاملے پر بھی یہ بات زیربحث ہے کہ اگر موصوف شوگر کمیشن کی رپورٹ پر اپنے گھر چلے جاتے ہیں تو پھر معاملہ سید مراد علی شاہ کے ساتھ بھی یہی کچھ درپیش ہے، اور اس کی نوعیت بھی ویسی ہی ہے جیسی وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی تھیوریاں مارکیٹ میں عمران خان کے لیے نہیں ہیں جتنی کہ مراد علی شاہ کے لیے ہیں۔ اگر مراد علی شاہ مائنس نہیں ہوتے تو پھر گورنر رول کے ذریعے سے ان کی حیثیت کو بھی ختم کرنے جیسی باتیں اب پرانی ہوچکی ہیں۔ اس لیے مراد علی شاہ سے ٹائیگر فورس سے لے کر گورنر راج تک صحافیوں کے پاس سینکڑوں سوالات موجود تھے، لیکن مراد علی شاہ کیوں کہ نیب کے پاس دو گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزار چکے تھے، اس لیے اہم سوال یہ تھا کہ اس مرتبہ مراد علی شاہ کو نیب نے کورونا وائرس کی صورت حال کے باوجود دو گھنٹوں تک اپنے پاس کیوں بٹھایا ہے، اور آخر وہ کون سے ایسے سوالات تھے جو دو گھنٹوں سے اہلِ نیب سید مراد علی شاہ سے پوچھتے رہے ہیں؟
نیب کے سامنے پیش ہونے کے بعد سید مراد علی شاہ جب باہر تشریف لائے تو اُن کا کہنا یہ تھا کہ نیب نے ان سے کہا ہے کہ آپ کو سوال نامہ ارسال کردیا جائے گا۔ مراد علی شاہ سے صحافیوں نے یہ سوال بھی کیا کہ گزشتہ دنوں شہبازشریف نیب لاہور کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے، جب کہ آپ اسلام آباد پہنچ کر اس کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے لاک ڈائون پر بھی آپ کی پالیسی سخت تھی لیکن وفاقی حکومت کے کہنے پر آپ اور لاک ڈائون ہر دو نرم پڑ گئے ہیں۔ کیا آپ نیب کے دبائو پر پیش نہیں ہوئے ہیں؟ اِس بار نیب ہیڈکوارٹر کے سامنے پی پی کے کارکن بھی غیر حاضر تھے۔ اس سے قبل اسی نیب کے سامنے آصف زرداری، بلاول بھٹو، قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ کے آنے کے مناظر ہی یکسر مختلف ہوا کرتے تھے۔ اس علاقے کے لیے میڈیا قبل ازیں میدانِ جنگ کے جملے لکھا کرتا تھا، لیکن اب کی مرتبہ منظرنامہ معمول کے مطابق تھا۔ یہ منظر معمول کے مطابق آخر کیوں تھا؟ یہ بجائے خود ایک سوال ہے۔ اس سے پہلے آصف علی زرداری نیب کے سامنے گرفتاری کے بعد جیل سے پمز اسپتال اور پمز سے گھر آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو پمز اسپتال کے اندر بار بار اپنی ملاقاتوں کے دوران آصف زرداری کو قائل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ وہ علاج کے سلسلے میں ضمانت حاصل کرنے کا قانونی حق استعمال کریں، لیکن موصوف اس بات کو ماننے سے انکار کردیا کرتے تھے۔ دوسری جانب نیب یا جیل انتظامیہ آصف علی زرداری کے ذاتی ڈاکٹروں سے علاج کے بجائے ان کے لیے ایسا میڈیکل بورڈ تشکیل دیا کرتی تھی جس میں ان کے ذاتی ڈاکٹر شامل ہی نہیں ہوا کرتے تھے۔ پھر ایسی صورت حال کے بعد جب اِس بار مراد علی شاہ نے اچانک نیب کے سامنے پیش ہونے کا اعلان کیا تب معاملات اس سبب سے بہت دُور تک دکھائی دے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی شہبازشریف کے پیش نہ ہونے اور شیخ رشید کی نیب کے ٹارزن ہونے کے حوالے سے کی جانے والی باتوں کے نتائج کو بھی ملاحظہ کرچکی ہے۔ ویسے بھی آصف علی زرداری یہ کہتے رہے ہیں کہ نیب کے پسِ پردہ کون ہے؟ میں اس سے ہی مخاطب ہوں، نیب کے چیئرمین کی کیا مجال کہ وہ اس نوع کے فیصلے صادر کرے! اس لیے پیپلزپارٹی کے لاشعور میں نیب کے پیچھے والی طاقت کی مثال موجود ہے۔ لہٰذا اِس مرتبہ پی پی نے قانون کے راستے کو ہی بہتر راستہ متصور کیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب شہبازشریف کے کورونا وائرس کی وجہ سے پیش نہ ہونے کا نتیجہ بھی سامنے آچکا ہے۔ اس کی بنیاد پر انہی شہبازشریف کو دوسرے دن لاہور ہائی کورٹ کے سامنے تب پیش ہونا پڑا جب نیب موصوف کے گھر کا گھیرائو کرچکا تھا۔ شہبازشریف کے گھر کے گھیرائو کے بعد والا سوال یہ نہیں تھا کہ شہبازشریف گرفتار ہوجائیں گے یا نہیں؟ بلکہ اہم سوال یہ تھا کہ شہبازشریف کے سامنے نیب کے ٹارزن ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ کیوں کہ اس سے پیشتر نوازشریف کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والی بات کے بعد گھر کے اندر ایک ہی پیج پر نہ ہونے والے معاملے سے سابقہ پڑ چکا تھا۔ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ایک طرف، جب کہ شہبازشریف اور حمزہ شہباز دوسری جانب کھڑے ہوچکے تھے۔ نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ لندن سے واپس لاہور پہنچے، تب یہ باتیں مشہور ہوئیں کہ شہبازشریف اپنے گھر سے لاہور ائیرپورٹ نہیں پہنچے۔ نوازشریف اور مریم نواز لاہور ائیرپورٹ سے سیدھے جیل پہنچ گئے۔ جب جیل سے نوازشریف لندن پہنچے تب شہبازشریف کے خاندان نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے سے شہبازشریف کو ان الفاظ میں مبارک باد دی کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کو محفوظ بنایا۔ اس کے بعد سے شہبازشریف قابلِ قبول شخص کے طور پر تصور کیے جاتے تھے، جن کی پالیسیوں کی وجہ سے نواز لیگ کے اجلاسوں کی کہانیاں لڑائی کی صورت میں سننے کو ملا کرتی تھیں۔ نواز لیگ کی سینئر قیادت یوں خاموش ہوگئی جس طرح سے مریم نواز کا ٹویٹر خاموش ہے۔ ایسی خاموشی کے ماحول میں شہبازشریف اپنے بڑے بھائی کو لندن چھوڑ کر کورونا لاک ڈائون سے ایک روز قبل واپس اپنے ملک آن پہنچے، تب ان سے سینئر قیادت نتائج معلوم کرنے لگی۔ اب نتائج یہ ہیں کہ شہبازشریف ہی کے صاحب زادے جیل میں ہیں، باقی مریم نواز سے خواجہ سعد رفیق برادران تک ضمانتوں پر باہر آچکے ہیں۔ نیب اب شہبازشریف کو بھی تلاش کررہا ہے۔ ایسے ماحول میں جب شیخ رشید یہ کہہ چکے ہیں کہ عید کے بعد نیب ٹارزن بننے والا ہے، اب جب نواز لیگ کا اجلاس ہوگا تب شہبازشریف سے پوچھا جائے گا کہ ذرا خبر تو دیجیے بھلا آپ کی پالیسی سے پارٹی کو کیا ملا؟ اُس وقت معلوم نہیں شہبازشریف کے ہاں اس سوال کا کیا جواب ہوگا!‘‘۔