آہ۔ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی رفت

محمد راشد شیخ
فارسی اور اردو کے نامور محقق اور استاد، کئی علمی کتابوں کے مصنف، مولف و مرتب، کامیاب خاکہ نگار، لغت نگار اور شاعر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی مورخہ 12 جون 2020ء کو شیخوپورہ میں وفات پاگئے۔ وہ نامور محقق بلکہ بقول رشید حسن خان اردو تحقیق کے معلّمِ اوّل حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور معروف شاعر اختر شیرانی کے صاحب زادے تھے۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شیرانی صاحب کی علمی خدمات سے واقفیت حاصل کرنے والے یہی کہتے تھے کہ وہ اپنے دادا کے صحیح جانشین اور ان کی علمی وراثت کے امین تھے، یعنی عربی محاورہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لَابِیہِ(بیٹا اپنے باپ کا راز دار ہوتا ہے) تبدیل ہوکر اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِجَدِّہِ ہو چکا تھا۔ شیرانی صاحب ان باکمال انسانوں میں شامل تھے جو جب تک جیتے ہیں اپنی شفقت، محبت، ہمدردی، دل سوزی، جذبے اور خیر خواہی سے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں، اور جب اپنی عمرِ طبیعی پوری کرکے اس جہان سے کوچ کرتے ہیں تو ایسا خلا چھوڑ جاتے ہیں جو کسی صورت پُر ہوتا نظر نہیں آتا۔ راقم سطور بھی ان خوش قسمت انسانوں میں شامل ہے جنہیں گزشتہ 25 برسوں کے دوران شیرانی صاحب سے نہ صرف ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا بلکہ ان کی وسعت ِقلبی، جذبہ خیر خواہی اور علمی فیض رسانی سے فیضیاب ہونے کے بار بار مواقع حاصل ہوئے۔
جب سے شیرانی صاحب کے انتقال کی خبر ملی ہے، میر تقی میر کی یہ رباعی بار بار حافظے کی لوح پر نمودار ہورہی ہے:۔

ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے
ہو گرمِ سخن تو گرد آوے یک خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہووے

شاید اس رباعی کے یاد آنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ابتدائی تین مصرعوں میں میر تقی میر نے جن انسانی خوبیوں کا ذکر کیا وہ بہ تمام و کمال شیرانی صاحب کی شخصیت میں موجود تھیں۔ چوتھے مصرعے سے متعلق ہم اس وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے انہیں کبھی خاموش دیکھا ہی نہیں، بلکہ جب بھی دیکھا، وہ گل افشانیِ گفتار کرتے ہی نظر آئے خواہ شخصی ملاقاتیں ہوں خواہ فون پر گفتگو ہو۔ دوران ِ گفتگو وہ کوئی نہ کوئی دلچسپ جملہ زبان سے ادا کرتے جس سے نہ صرف وہ لطف لیتے بلکہ سامعین بھی۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم ایسے چند جملے نقل کرتے ہیں: ضعیف العمری کی وجہ سے عموماً حافظہ کمزور ہوجاتا ہے لیکن شیرانی صاحب سے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جب بھی گفتگو ہوتی تو وہ فرماتے کہ اب میرا حافظہ مجھے خدا حافظ کہہ رہا ہے۔ اسی طرح جب راقم کی گزشتہ رمضان المبارک سے قبل فون پر گفتگو ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اب میری سماعت اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے کہ میں غالب کی طرح کہہ سکتا ہوں: بہرا ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات۔ شیرانی صاحب ایک مرتبہ جب کراچی تشریف لائے تو حکیم محمود احمد برکاتی مرحوم نے ان کو ناشتے پرمدعو کیا اورراقم سطور کو بھی وہاں آنے کو کہا۔ اس محفل میں ٹونک سے تعلق رکھنے والے کئی بزرگ تشریف لائے تھے۔ وہاں جب شیرانی صاحب تشریف لائے تو آتے ہی وہ رونقِ محفل بن گئے اور ٹونک اور اہلِ ٹونک سے متعلق دلچسپ گفتگو کا آغاز کردیا۔کچھ دیر بعد انھوں نے راقم کی جانب غور سے دیکھا اور فرمایا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکا۔ اس جملے پر راقم کو ذرا حیرت ہوئی، لیکن جب راقم نے نام بتایا تو بلند آواز میں فرمایا: اخاہ تو یہ آپ ہیں، معاف کیجیے میں آپ کو پہچان نہ سکا لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ہماری آپ سے گزشتہ ملاقات ہوئی تھی تو آپ کی داڑھی ناقابلِ گرفت تھی اور اب قابلِ گرفت ہوگئی ہے، دیکھیے میری داڑھی ابھی تک ناقابلِ گرفت ہے۔ یہ اور اسی طرح کے دلچسپ جملے ان کی گفتگو کا حصہ ہوتے تھے۔ بعض اوقات یوں لگتا کہ مشفق خواجہ مرحوم کی طرح شیرانی صاحب نے بھی زندگی کے آلام اور مصائب و مسائل کا علاج مزاح کے ذریعے کیا، کہ ان سے اثر لینے اور ان پر توجہ دینے کے بجائے خوش مزاجی اور خوش گفتاری سے ان کا علاج کیا جائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مزاح میں تہذیب اور شائستگی کا دامن کبھی نہ چھوڑتے تھے کیونکہ وہ مزاح اور پھکڑ پن کے باریک فرق سے بخوبی آگاہ تھے۔
دراصل شیرانی صاحب ان بزرگوں میں شامل تھے جو پہلی ملاقات ہی میں اپنے خلوص، شفقت، محبت اور جذبہ خیر خواہی سے مخاطب کے دل میں گھر کرلیتے ہیں اور جب تک زندہ رہتے ہیں ہر قیمت پر تعلقات نبھاتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تعلقات کی بنیاد غرض کے بجائے خلوص پر مبنی ہو تو وہ وقت گزرنے سے نہ صرف مضبوط ہوتے ہیں بلکہ استوار بھی۔ تقریباً 25 برس قبل بزمِ اقبال لاہور کے دفتر میں راقم کی شیرانی صاحب سے اولین ملاقات ہوئی تھی۔ اُس وقت شیرانی صاحب کی معیّت میں ان کے ایک شاگرد بھی موجود تھے، لیکن شاگرد صاحب تو مسلسل گم صم بیٹھے رہے اور شیرانی صاحب مسلسل گل افشانیِ گفتار کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس اولین ملاقات کے بعد سے ان کے انتقال تک جیسے جیسے وقت گزرتا رہا تعلقات میں استواری آتی گئی۔ وہ جب بھی کراچی تشریف لاتے ان سے طویل ملاقاتیں ہوتیں اور مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ یا اس سے زائد بھی فون پر گفتگو ہوتی۔ اس عرصے میں راقم نے جب بھی کسی قسم کی علمی معاونت کی درخواست کی شیرانی صاحب نے کبھی مایوس نہ کیا، راقم کوخواہ کوئی نادر کتاب درکار ہوتی، رسالے کی ضرورت ہوتی یا کسی مضمون کی، وہ اپنے وسیع تعلقات کو کام میں لاکر یہ فرمائش ضرور پوری کرتے۔ دراصل وہ مخلصانہ تعلقات کو اس سطح تک لے آئے تھے کہ کبھی ذہن میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ وہ علمی معاونت سے پہلوتہی کریں گے یا معذرت کردیں گے یا ٹال دیں گے، بلکہ ہمیشہ یہ یقین ہوتا کہ وہ ضرور بھرپور کوشش کریں گے اور مطلوبہ چیز فراہم کرکے ہی دم لیں گے۔ لطف یہ کہ جب بھی مطلوبہ چیز کے حصول کے بعد راقم بذریعہ فون شکریہ ادا کرتا تو ان کا ردعمل کچھ اس قسم کا ہوتا جیسے انھوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ تعلقات میں خلوص کی یہ سطح شیرانی صاحب کے سوا کسی اور شخصیت میں نظر نہ آئی۔ اسی طرح جب انہیں کسی کتاب یا مضمون کی ضرورت ہوئی تو عاجز کو لکھتے اور راقم فراہم کرتا۔ اسی طرح عاجز کی جب کوئی نئی کتاب شائع ہوتی تو ان کی خدمت میں ضرور روانہ کرتا ۔ اس کے بعد وہ بذریعہ خط کچھ اس طرح شکریہ ادا کرتے کہ راقم شرمندہ ہو جاتا۔ شیرانی صاحب کی محبتوں اور شفقتوں کی حد یہیں تک نہیں تھی بلکہ اس عرصے میں جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب شائع ہوتی وہ بذریعہ ڈاک کتاب کا نسخہ اپنے محبت آمیز کلمات تحریر فرما کر ضرور ارسال فرماتے۔ ان سے اس عرصے میں رشتہ مکاتبت بھی قائم رہا، چناں چہ راقم کے ذخیرئہ مکاتیب میں ان کے کم و بیش 95 خطوط محفوظ ہیں۔
شیرانی صاحب گو اردو اور فارسی کے نامور محقق تھے اور انہوں نے اپنے نامور دادا حافظ محمود خان شیرانی کے قلمی آثار کی جمع آوری، ترتیب و اشاعت میں زندگی کے 40 سال صرف کیے اور دادا پر ہی Ph.D کا مقالہ بھی لکھا، لیکن ان کو زیادہ شہرت بحیثیت کامیاب خاکہ نگار کے ملی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہمارے ہاں علمی اور تحقیقی کاموں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کے وہ حق دار ہیں۔ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی کی 10 جلدوں میں جو علمی جواہر انہوں نے محفوظ کرلیے اُن کے بارے میں نامور محقق مشفق خواجہ مرحوم نے ایک خط میں تحریر فرمایا تھا کہ اگر کسی کو یہ معلوم کرنا ہو کہ علم کسے کہتے ہیں تو وہ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی کا مطالعہ کرے۔ مشفق خواجہ مرحوم شیرانی صاحب کی خاکہ نگاری کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ چناں چہ اس بارے میں انہوں نے ایک خط میں شیرانی صاحب کو لکھا تھا:۔
’’حقیقت یہ ہے کہ شخصیت نگاری کا جو اسلوب آپ کے ہاں ملتا ہے وہ کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا۔آپ اپنی یادوں کو اس طرح تازہ کرتے ہیں کہ متعلقہ شخصیت کے خدوخال روشن ہوتے جاتے ہیں اور مضمون کے خاتمے پر محسوس ہوتا ہے کہ اس شخصیت کو تو ہم بھی بہت قریب سے جانتے ہیں۔‘‘
شیرانی صاحب کے خاکوں کے اب تک دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’کہاں سے لائوں انہیں‘‘ ہے جس میں اختر شیرانی، مولانا سید محمد یعقوب حسن، پروفیسر حمید احمد خان، سید وزیرالحسن عابدی، حکیم نیّر واسطی، اکرام حسن خان، ڈاکٹر ضیا الدین دیسائی، مشفق خواجہ، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان، رشید حسن خان اور احمد ندیم قاسمی کے نہایت دلچسپ خاکے موجود ہیں۔ ان تمام خاکوں میں راقم کو حکیم نیّر واسطی کا خاکہ سب سے زیادہ پسند آیا تھا جو سب سے پہلے ماہنامہ قومی زبان کراچی میں شائع ہوا۔ ایک مرتبہ حکیم سیّد محمود احمد برکاتی شہید سے راقم نے جب شیرانی صاحب کے لکھے خاکوں کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی اس خاکے کو اُن کا بہترین خاکہ قرار دیا تھا۔ خاکہ نگاری کے موضوع پر شیرانی صاحب کی دوسری کتاب ’’بے نشانوں کا نشاں‘‘ ہے جس میں کُل 9 خاکے ہیں۔ یہ تمام خاکے ان انسانوں کے ہیں جو غیر معروف لیکن انسانی خوبیوں کے حامل تھے۔ شیرانی صاحب نے اپنے قلم سے یہ خاکے لکھ کر ان غیر معروف انسانوں کو معروف بنادیا۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی ایک انتھک عالم اور محقق تھے۔ وہ 9 اکتوبر 1935ء کو شیرانی آباد (جودھپور۔ راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ žڑکانہ میں کچھ عرصے رہے۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ اور ایم اے فارسی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ فارسی زبان و ادب کے بے مثل عالم پروفیسر سیّد وزیرالحسن عابدی کے نامور تلامذہ میں شامل تھے۔ ملازمت کی ابتدا میں وہ کچھ عرصہ مظفر گڑھ میں رہےí بعدازاں شیخوپورہ منتقل ہوگئے اور وہیں 12 جون 2020ء کو مختصر علالت کے بعد راہی ملک عدم ہوگئے۔
شیرانی صاحب نے مقالات حافظ محمودشیرانی کے 10 جلدی منصوبے کے علاوہ ایک اور علمی منصوبے کو بڑی کامیابی سے مکمل کیا اور وہ بھی ریٹائر منٹ کے بعد۔ یہ منصوبہ ’’لغت جامع جی سی یو‘‘ ہے۔ اس عظیم علمی منصوبے پر شیرانی صاحب گزشتہ 25 برسوں سے کام کررہے تھے۔ یہ فارسی ۔اردولغت ہے اور اب تک شائع شدہ تین ضخیم جلدوں کو دیکھ کر ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کس قدر مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ شیرانی صاحب نے اسے پانچ ضخیم جلدوں میں مکمل کیا تھا جن میں سے بقیہ دو جلدیں منتظر اشاعت ہیں۔ ان کے دیگر زیر تکمیل علمی منصوبوں میں ’’خطوط بنام حافظ محمود شیرانی‘‘، ’’خطوط حکیم سید محمود احمد برکاتی‘‘ اور خاکوں کا تیسرا مجموعہ شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لاہور سے ان کی کہی تاریخوں پر مشتمل کتاب ’’مجموعہ گلہائے تاریخ‘‘ شائع ہوئی جس کا ایک نسخہ انہوں نے راقم کو بھی ارسال کیا تھا۔مختصراً ان کی کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے:۔
-1 حافظ محمود شیرانی کی علمی و ادبی خدمات (2 جلدیں)۔
-2 بے نشانوں کا نشاں (خاکے)۔
-3 کہاں سے لائوں انہیں (خاکے)۔
-4 مقالاتِ حافظ محمود شیرانی (10 جلد یں)۔
-5 مکاتیب حافظ محمود شیرانی
-6 حافظ محمود شیرانی (کتابیات)۔
-7 جادئہ نسیاں (خاکے)از حکیم سیّد محمود احمد برکاتی (مرتّبہ)۔
-8 مشاہداتِ فرنگ از حکیم سیّد محمود احمد برکاتی (مرتّبہ)۔
-9 منتخب مقالات از حکیم سیّد محمود احمد برکاتی (مرتّبہ)۔
-10 مجموعہ گلہائے تاریخ
-11 معرباتِ رشیدی (مرتبہ)۔
-12 لغتِ جامع جی سی یو (5جلدیں)۔
-13 وہ کہاں گئے (خاکے زیر طبع)۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی زندگی کی 85 بہاریں دیکھ کر اس فانی دنیا سے عالم بالا کا سفر اختیار کرچکے لیکن شیرانی صاحب کی شیریں یادیں ان سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہیں گی اور انہی خوش نصیب انسانوں میں راقم سطور بھی شامل ہے۔ دعا ہے اللہ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آج وہ ہم میں نہیں لیکن بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ عالم ِبالا سے اپنے مخصوص انداز میںہم سے یہ کہہ رہے ہوں:۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم