نور منارہ

سید ابوالاعلیٰ مودودی کے روشن تذکرے

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر بے شمار مضامین لکھے گئے ہیں، مگر ان میں جناب لالۂ صحرائی کے مضامین منفرد مقام رکھتے ہیں، کیونکہ اس میں انہوں نے مولانا کے افکار کے اپنی ذات پر اثر کو بخوبی بیان کیا ہے۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے جو ان کے نیک اور صالح صاحبزادوں نے شائع کرایا ہے۔ ڈاکٹر جاوید احمد صادق، ڈاکٹر نوید احمد صادق، سہیل احمد صادق، عقیل احمد صادق صاحبان ہمارے شکریے کے مستحق ہیں جن کی توجہ سے یہ نہایت ہی مفید کتاب منصہ شہود پہ آئی۔ صاحبزادگان تحریر فرماتے ہیں:۔
’’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (1979-1903ء) بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر و مصلح اور اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے ایک بڑے داعی تھے۔ انہوں نے اپنی انقلاب انگیز تحریروں سے لاکھوں انسانوں کو دینِ اسلام کا حقیقی شعور بخشا۔ لالۂ صحرائی انہی میں سے ایک تھے۔
سید مودودی کی خیال انگیز تحریروں نے انہیں علم اور شعور عطا کیا تھا۔ لالۂ صحرائی نے سید صاحب کو قریب سے دیکھا تو محسوس کیا کہ ان کے ظاہر و باطن میں، فکروعمل میں، اور وعظ و کردار میں دوئی نہیں، بُعد نہیں، اور تضاد نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جسے بھی سید مودودی کے قریب جانے کا موقع ملا، وہ ان کی شخصیت کے مقناطیسی دائرے کا اسیر ہوکر رہ گیا۔ لالۂ صحرائی نے سید مودودی سے اپنی چالیس برسوں کی ملاقاتوں اور قربت کی یادوں اور تاثرات پر مبنی تقریباً ایک درجن مضامین لکھے، جو 28 برس پہلے ’’نورمنارہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے تھے۔ یہ کتاب ایک عرصے سے ناپید تھی۔ احباب کا تقاضا تھا کہ شائع کی جائے، چنانچہ مشینی کتابت کے ساتھ اشاعتِ ثانی پیش کی جارہی ہے… اللہ رب العزت سید مودودی، ان کے جملہ رفقا اور لالۂ صحرائی کی مغفرت فرمائے، آمین۔
ہم محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے ممنونِ احسان ہیں کہ حسبِ سابق ہمیں نور منارہ کی اشاعت ثانی میں بھی ان کی راہنمائی حاصل رہی اور مفید مشورے ملتے رہے‘‘۔
سید منور حسن المؤقر نے کتاب کی اشاعت ِ دوم پر اپنا اظہارِ مسرت ان الفاظ میں کیا:۔
’’یہ اطلاع باعث ِ مسرت ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں بزرگِ محترم لالۂ صحرائی کی کتاب ’’نورمنارہ‘‘ کو آپ دوبارہ شائع کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی کو قبول فرمائے۔ بیش از بیش کی توفیق سے آراستہ و پیراستہ فرمائے۔ آمین‘‘۔
جناب محمد صلاح الدین شہید مدیر ہفت روزہ تکبیر جناب لالۂ صحرائی کے جگری دوست تھے، انہوں نے طبع اول کے لیے ’’حرفے‘‘ کے عنوان سے جو خیالات تحریر فرمائے وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:۔
’’رواں صدی میں، جو اب اپنے اختتام کو آپہنچی ہے، جن مسلم مفکرین اور رہنمائوں نے، دنیا کو اسلام سے بحیثیت ایک زندہ و متحرک قوت کے متعارف کرایا اور جن کے افکار و خیالات پورے عالم اسلام کو احیائے دین کا ولولۂ تازہ عطا کرنے کا سبب بنے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بلاشک و شبہ ان کی صفِ اول کے ممتاز ترین افراد میں سے ہیں۔ آج پوری دنیا میں اسلامی بیداری کی جو لہر برپا ہے، جو تحریکیں جاری ہیں اور جو ادارے اور تنظیمیں قائم ہیں، ان سب پر اس نابغۂ عصر کے اثرات نمایاں ہیں۔ افغانستان ہو یا کشمیر، فلسطین ہو یا الجزائر، اریٹیریا ہو یا مقبوضہ ترکستان، جہاں کہیں بھی کافرانہ اقتدار سے آزادی اور نفاذِ اسلام کی جدوجہد ہورہی ہے، اس کے محرکات میں سید مودودیؒ کا فکری کام لازماً شامل ہے۔
مولانا مودودیؒکا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے معاصر معاشرے کو توحید کا حقیقی شعور دیتے ہوئے، خدائے واحد کی پرستش میں حائل دورِ جدید کے سب سے بڑے بت، دین وسیاست کی جدائی کے تصور کو پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ انہوں نے نہ صرف نکتۂ توحید کو کھول کر بیان کیا بلکہ عملی طور پر اس کی ادائیگی کے لیے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو وقف کردیا۔ وہ اپنی منزل کی جانب تنہا چلے اور پھر زمانہ ان کے ساتھ چلنے لگا۔ اپنے تمام ہم عصر علما میں وہ اس لحاظ سے ممتاز ہیں کہ دین کی جزوی خدمت کے بجائے وہ پورا دین ساتھ لے کر چلتے رہے۔ کسی مصلحت یا خوف کے پیش نظر انہوں نے دین کے کسی حصے کو ساقط نہیں کیا۔ ان کا کام اس طرح مربوط و یک جان اور اپنے مرکز سے پیوستہ ہے جیسے روشنی اپنے ماسکۂ نور سے مربوط ہوتی ہے۔ ان کا دائرئہ علم زندگی کی تمام وسعتوں کا احاطہ کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ان کی پرکار کا ایک سرا مضبوطی سے اپنے مرکز پر جما رہتا ہے۔ یہ مرکز ہے عقیدۂ توحید یعنی بندگیِ رب کا اقرار و عہد اور ہر دوسری ہستی کے اقتدار و حاکمیت کی مکمل نفی۔ ان کی ہر تحریر کلمہ طیبہ کی تفسیر ہے۔ وہ ہر شعبہ زندگی سے شرک و بدعات کے لات و منات کا صفایا کرتے اور ان کی جگہ لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا پرچم نصب کرتے چلے جاتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ عہد ِ جدید کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس پر انہوں نے قلم نہ اٹھایا ہو، اور اس کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر واضح نہ کردیا ہو۔ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو الحاد، اشتراکیت اور مغربی تہذیب کی دلدل سے نکال کر اسلام کی صراطِ مستقیم پر واپس لانے میں اللہ کے فضل سے انہوں نے کھلی کامیابی حاصل کی۔ اس طبقے کو بین الاقوامی سطح پرجتنا انہوں نے متاثر کیا، اتنا ان کے کسی ہم عصر نے نہیں کیا، اور آج لاکھوں افراد اپنے رب کے حضور یہ گواہی دینے کے لیے موجود ہیں کہ وہ راہِ راست سے بھٹک گئے تھے۔ الحاد، شرک، بدعت، اشتراکیت اور دوسرے گمراہ کن نظریات کی وادیوں میں ٹھوکریں کھا رہے تھے لیکن یہ مولانا مودودیؒ ہیں، جنہوں نے انہیں جہل کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں پہنچایا۔ آج کمیونزم کی موت، نظام سرمایہ داری سے انسان کی بیزاری اور مستقبل کے عالمی نظام کے طور پر اسلام کے ابھر نے کے جو امکانات روشن نظر آرہے ہیں، حالات کے اس رنگ میں بلاشبہ سید مودودیؒ کا بڑا حصہ ہے۔ یقیناً اپنے عہد کے لیے وہ روشنی کا مینار ثابت ہوئے اور ان کا تحریری کام اور فکری اثرات صدیوں تک زندگی کی تاریک راہوں میں اجالا بکھیرتے رہیں گے۔
میرے عزیز و محترم دوست جناب لالۂ صحرائی نے، صدی کے اس عظیم انسان کے حوالے سے اپنی یادوں کے مجموعے کا نام ’’نورمنارہ‘‘ بالکل درست رکھا ہے۔ ان تحریروں میں عصرِِ حاضر کا یہ محسن جیتا جا گتا، چلتا پھرتا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی کے نفاذ کی کوشش کے ذریعے، اس کی رضا کے حصول کے اس مومنانہ مشن کے لیے جسے اس نے اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا، سرگرمِ جہاد نظر آتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ کتاب سید مودودیؒ کے اصل پیغام کو اجاگر کرنے کا موثر ذریعہ بنے گی اور مصنف کے لیے توشۂ آخرت ثابت ہوگی۔‘‘
کتاب میں درج مضامین کے عنوانات یہ ہیں:۔
نورمنارہ، فورمین، ناوک فگن، قافلۂ یقین کا سالارِ اعلیٰ، نفیِ ذات کا پیکر، اک دانشِ نورانی، راہبر بھی…رفیق بھی، میرے مولانا، جوئبارِ نرم رو، اللہ نویس، ملت ِ بیمار کا تیماردار، پہاڑ… سمندر اور چمن، تیغ و گیاہ، باتیں سید مودودی کی، میرے محسن…، منظوم خراجِ عقیدت (لالۂ صحرائی)۔
کتاب خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ مجلد ہے، عمدہ سرورق سے آراستہ ہے۔