ابوسعدی
شیخ مشرف الدین مصلح بن عبداللہ فارسی کے اکابر شعرا اور نثر نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ مصلح الدین لقب اور سعدیۤ تخلص تھا۔ تقریباً 604ھ میں شیراز میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری میں والد کا انتقال ہوگیا۔ 15 برس کی عمر میں حصولِ علم کی خاطر عازم بغداد ہوئے۔ مدرسہ نظامیہ بغداد سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد شام، دمشق، حجاز اور مکہ شریف کا سفر کیا۔ صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے ’’بیابانِ قدس‘‘ سے گرفتار کیا اور بیگار میں خندق کھودنے کا کام لینے لگے، یہاں تک کہ امیر حلب نے آپ کو پہچان کر عیسائیوں سے خرید لیا اور اپنی بیٹی آپ کے حبالہ عقد میں دے دی، جس کی زبان درازی اور تندخوئی سے سعدی پریشان رہے۔ ان کے والد نے ان کی تربیت اس طرح سے کی جیسے کوئی عارف اور سالک اپنے مرید کی کرتا ہے۔ مدرسہ نظامیہ میں ابن جوزی جیسے محدث کے پاس پڑھا، مگر شاید ان کا گہرا اثر قبول نہیں کیا۔ تصوف و سلوک کی تعلیم انہوں نے شیخ شہاب الدین سہروردی سے حاصل کی۔ چالیس سال تک سیر و سیاحت اور اہلِ علم و فضل کی زیارت کے بعد شیراز واپس آگئے۔ اس زمانے میں اتابکانِ فارس میں سے ابوبکر بن سعد بن ابوبکر زنگی حکمران تھا، جس سے انہوں نے وابستگی اختیار کی۔ 655ھ میں دس ابواب پر مشتمل پند و نصائح کی حامل کتاب ”بوستان“ تصنیف کی۔ 656ھ میں ایک اور عالی قدر تصنیف ”گلستان“ کے عنوان سے رقم کی، جو ایک مقدمہ، آٹھ ابواب اور خاتمہ پر محیط ہے۔ یہ فارسی میں نثر مسجع کا عمدہ ترین نمونہ ہے۔ علاوہ ازیں ایک شاعر کی حیثیت سے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں بالخصوص انفرادیت رکھتے ہیں۔ ان کے بعد شعرا اور نثّار کی ایک بڑی تعداد نے ان کی پیروی کی کوشش کی اور وہ ان کے کلام اور سبک کو اپنے لیے ایک نمونہ قرار دیتے ہیں۔ سعدی عالمگیر شہرت کے حامل ہیں۔ ان کی تصانیف کے دنیا کی بیشتر زبانوں میں تراجم ہوئے۔ اخلاق و حکمت اور عرفان و تصوف کے اعتبار سے ان کی شخصیت اور تصانیف لاجواب ہیں۔ اخلاقی اور حکیمانہ شاعری اور اسلوب نے انہیں ممتاز کیا اور ہر عہد میں وہ قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے رہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے ان کی شخصیت اور تصانیف پر ایک مستقل تصنیف ”حیاتِ سعدی“ کے عنوان سے اردو زبان میں لکھی ہے۔ 691ھ میں وفات پائی اور اپنے شہر میں ایک پہاڑ کے دامن میں مدفون ہوئے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
غلام کا بلند مرتبہ
کسی دنیا دار نے حضرت لقمان سے پوچھا:۔
’’آپ فلاں خاندان کے غلام رہے ہیں تو پھر یہ مرتبہ، یہ عزت اور ناموری، وہ کون سے عوامل تھے جن کی و جہ سے آپ کو یہ بلند مرتبہ ملا؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’راست گوئی، امانت میں خیانت نہ کرنا، ایسی گفتگو اور ایسے عمل سے گریز کرنا جس سے مجھے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر حرام فرما دیا ہے ان سے قطعی گریز کرنا، لغو باتوں سے پرہیز کرنا، حلال رزق پیٹ میں ڈالنا۔۔۔ جو ان سادہ باتوں پر مجھ سے زیادہ عمل کرے گا وہ مجھ سے زیادہ عزت پائے گا، اور جو آدمی میرے جتنا عمل کرے گا وہ مجھ جیسا ہوگا‘‘۔
درسِ حیات: احکاماتِ خداوندی پر عمل کرنے سے دنیا و آخرت میں بلند مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔
(” حکایاتِ رومی “۔۔۔مولانا جلال الدین رومیؒ)
(Novelette) ناولٹ
یہ نثری صنف ِادب ہے۔ ناولٹ افسانے اور ناول کی درمیانی کڑی ہے۔ زندگی کے حقیقی منظر کو بے اختیار اور بے لاگ مگر تخلیقی بیان دینا ’’ناولٹ‘‘ کی ذمہ داری ہے۔ ناولٹ زندگی کے متعلقات کے بارے میں ناول کی نسبت اختصار و ایما سے کام لیتا ہے۔ اردو میں ناولٹ نگاری کے تجربے ہوئے لیکن حقیقت میں انگریزی مصنّفین نے اسے کمال بخشا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے تھامس اُذّل کے ناولٹ پر بحث کے دوران اشکالی وضاحت کے تجزیے کے بعد لکھا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس ناولٹ کو ایک مختصر ناول کا ہی نام دے سکتے ہیں۔
محفل میں کہاں بیٹھنا بہتر ہے؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’جب تجھے دعوت دی جائے تو یاد رکھ سب سے اونچی جگہ نہ جا بیٹھنا، تاکہ اگر میزبان کا تجھ سے بڑا دوست آجائے تو میزبان تجھ سے یہ نہ کہے کہ ’’اٹھ اور نیچے جا بیٹھ‘‘۔ ایسا تیرے لیے باعث ِ شرمندگی ہوگا۔ اس لیے سب سے حقیر جگہ بیٹھ، تاکہ جس نے تجھے دعوت دی ہے وہ آکر کہے: ’’اٹھ دوست! اور یہاں اوپر آکر بیٹھ‘‘۔ اس طرح تیری بڑی عزت ہوگی۔ یاد رکھ، جو بھی خود کو بلند کرتا ہے پست کیا جائے گا، اور جو خود کو پست کرتا ہے بلند کیا جائے گا‘‘۔
آدمیوں کی چار قسمیں
حضرت علیؓ (661ء) کا ارشاد ہے کہ آدمیوں کی چار قسمیں ہیں: کریم، سخی، بخیل اور لئیم۔
:1 کریم وہ ہے جو خود نہ کھائے اور دوسرے کو کھلائے۔
:2 سخی وہ ہے جو خود بھی کھائے او دوسروں کو بھی کھلائے۔
:3 بخیل وہ ہے جو خود تو کھائے لیکن دوسروں کو نہ کھلائے۔
:4 اور لئیم وہ ہے جو نہ خود کھائے اور نہ دوسروں کو کھلائے۔