اس دشت میں اک شہر تھا

کراچی کے سنہری دنوں کی داستان

پاکستان کے سب سے بڑے اور غریب پرور شہر کراچی کی تاریخی حیثیت اجاگر کرنے کے بارے میں یوں تو بہت عرصے سے کام ہورہا ہے اور اس ضمن میں متعدد اہم کتب شائع ہوچکی ہیں جن میں خواجہ دلبر شاہ وارثی کی ’’جمال قطب عالم‘‘، گل حسن کلمتی کی ’’کراچی جا لافانی کردار‘‘، محمد عثمان دموہی کی ’’کراچی تاریخ کے آئینے میں‘‘، کھتری عبدالغفار کانداکرویا کی ’’کراچی کی کہانی تاریخ کی زبانی‘‘، حیات رضوی امروہوی کی ’’کراچی کرانچی‘‘، شاہ ولی اللہ کی ’’یہ شارعِ عام نہیں‘‘ اور ’’نارتھ کراچی نصف صدی کا قصہ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ منیر احمد خان نے درست لکھا کہ ’’کراچی کے حوالے سے اس قدر تفصیل سے دلچسپ پیرائے میں شاید ہی پہلے کبھی لکھا گیا ہو۔ جو علاقے دیکھے بھالے ہیں اُن کی ایک نئے انداز میں سیر، اور جہاں آج تک جانا نہیں ہوا اُس کی تفصیل قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتی ہے‘‘۔ معروف مصنف، دانشور عقیل عباس جعفری رقم طراز ہیں: ’’اس کتاب میں کراچی کے گلی کوچوں کی تاریخ تو محفوظ کی ہی گئی ہے، اُن شخصیات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن سے ان گلی کوچوں کے محلے اور سڑکیں موسوم ہیں۔ ’’دو تلوار‘‘ اور ’’تین تلوار‘‘ کی اہمیت کیا ہے، اصل گرومندر کہاں واقع ہے، مشتاق احمد یوسفی نے صبغے اینڈ سنز میں کتابوں کی کس دکان کا ذکر کیا ہے، کراچی کی کون سی سڑکیں موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو سے منسوب تھیں، زیب النساء اسٹریٹ کا نام شہزادی زیب النساء کے نام پر رکھا گیا ہے یا زیب النساء حمیداللہ کے نام پر؟ آرٹس کونسل کراچی کے لیے زمین کا عطیہ کس نے دیا، ہندو جمخانہ اور موہٹہ پیلس کا آرکی ٹیکٹ کون تھا۔ کتاب کیا ہے معلومات کا خزانہ ہے‘‘۔
ناشر زاہد علی خان لکھتے ہیں: ’’کتاب ِہذا کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوگا کہ یہ تاریخ ہے یا تحقیقی مقالہ، افسانہ ہے یا حقیقت، آپ بیتی ہے یا جگ بیتی، نوحۂ حال ہے یا تابناک ماضی۔ اگر اس میں شامل کیے گئے اشعار ہی کو یکجا کرلیا جائے تو شاعری کا ایک نہایت خوش نما انتخاب معرضِ وجود میں آسکتا ہے۔ فاضل مصنف نے کراچی کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے ایسا شگفتہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ آپ کو تاریخ جیسے خشک موضوع میں کہانی کا لطف آئے گا۔ محترمہ گل بانو یوں روشنی ڈالتی ہیں کہ ’’عروس البلاد کراچی‘‘ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے ہم نے انہیں پڑھنا شروع کیا، کراچی پرتحقیقی تحریروں نے ان کے گرد شیدائیوں کا جمگھٹا لگا رکھا تھا۔ یہ کتاب تحقیق و جستجو کا ایسا نچوڑ ہے جس کی تیاری میں بڑی عرق ریزی کی گئی ہے، مختلف علاقوں میں جاکر، مقامی لوگوں کے دلوں میں اتر کر اُن کے جذبات کو دلکش پیرائے میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا انہی کا کمال ہے۔ اقبال صاحب کا اندازِ نگارش سلیس، سادہ اور دلچسپ ہے، کردار افسانوی انداز لیے ہوئے ہیں۔ اہلِ زبان نہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے اردو دانوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کہیں کہیں تو جملوں کو اس خوبصورتی سے تراشا ہے کہ بے اختیار واہ کہنے کو دل چاہا، جیسے تقی بھائی (نہاری والے) کی مہارت کی شان ’’کفچہ جو نہاری کی دیگ میں جاتا اور گوہر نایاب لے کر لوٹتا‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’دو طرفہ ہجرت کی کرشمہ سازی نے شہر کی مذہبی ثقافت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے۔ یہاں دیر و حرم کی دنیا آباد تھی۔ دیر اجڑ کر ختم ہوئے اور نئے حرم آباد ہوئے‘‘۔ ایک اور دلچسپ جملہ ملاحظہ کیجیے ’’چاندنی رات، ساحل پر ریت کے اوپر تک چلی آرہی تند و تیز موجوں کا شور، ٹکراتی موجوں سے بنتے روشنی کے شرارے اور موجوں کے ساتھ جھل مل کرتی پورے چاند کی روشنی‘‘۔

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

عرضِ مصنف بھی پڑھ لیجیے: ’’کوئی دو برس قبل ہم استنبول (ترکی) گئے تو ہمیں استنبول کے کچھ علاقوں میں پرانے کراچی کی جھلک نظر آئی، معلوم ہوا کہ 1970ء کی دہائی تک استنبول اور کراچی تقریباً یکساں انداز کے تھے۔ اس کے بعد استنبول فطری اور مثبت ترقی کرتے ہوئے بہت آگے نکل گیا اور ہم ترقیِ معکوس سے ہمکنار ہوئے اور اپنی شناخت ہی مٹا بیٹھے۔ استنبول میں ورثے کو سنبھالا گیا ہے، لہٰذا وہاں بہت سی جگہوں پر پرانے کراچی کا سا انداز دکھائی دیتا ہے۔ ہم کراچی کی محبت میں سرشار سفرنامہ لکھنے بیٹھے تو اس سفر میں استنبول کم تھا اور کراچی زیادہ، دوستوں نے مشورہ دیا کہ کراچی سے اس قدر الفت ہے تو کراچی پر بھی کتاب ہونی چاہیے۔‘‘
اور اقبال اے رحمٰن مانڈویا نے اس شہر کو ایسی کتاب کا تحفہ دیا کہ جب بھی کراچی کی تاریخ کے حوالے سے گفتگو ہوگی، اس کتاب کے ذکر کے بغیر ادھوری ہوگی۔ کتاب میں جا بجا موضوع کی مناسبت سے معیاری اشعار ان کے اعلیٰ شعری ذوق کا پتا دیتے ہیں۔ کراچی کی ایک معروف بستی کا احوال انہی کی زبانی پڑھیے:
’’خدادادکالونی بھی بڑی تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کے سیلاب کے سبب کراچی شہر نے بڑی دشواری کا سامنا کیا، مگر یہاں رہتے بستے انصار کی وسیع القلبی کے سبب معاملات آسان ہوتے گئے۔ کراچی کے معروف گبول خاندان کے ایک بزرگ خداداد صاحب گبول اس شہر کے بہت بڑے جاگیردار تھے۔ خداداد کالونی اور اس سے جڑا علاقہ، اور ساتھ ہی اس شہر میں ان کی اَن گنت زمینیں تھیں، حتیٰ کہ وہ جگہ بھی جہاں آج جناح ٹرمینل قائم ہے۔ مہاجرین کی آمد سے وہ جگہ جہاں آج خداداد کالونی آباد ہے، جھگیوں سے بھر گئی۔ لوگ اس خوف سے کہ یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی، عارضی انتظام سے گزربسر کررہے تھے۔ خداداد صاحب نے انہیں اس فکر سے نجات دلائی اور اپنی یہ جگہ مہاجرین کے لیے عطیہ کی صورت وقف کردی۔ جس کی جہاں جھگی تھی وہ جگہ اس کی ہوگئی۔ اب وہ مکان بنانے کے لیے مختار تھا۔ یوں گبول صاحب جیسے ہم وطن کے ایثار سے یہ منفرد بستی آباد ہوگئی۔ کچے مکان جب پکے مکانوں کی صورت میں ڈھلے تو خوبصورت نظارہ پیش کرنے لگے۔ مگر اس ترقی و کامرانی کے پیچھے ایک بلوچ رہنما کا ایسا ایثار ہے جو سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

جن سے زندہ ہو یقین و آگہی کی آبرو
عشق کی راہوں میں کچھ ایسے گماں کرتے چلو

(ساغر صدیقی)

مشہور ادیب شوکت صدیقی جب پاکستان آئے تو سب سے پہلے اس کالونی میں قیام کیا۔ ہجرت کی صورت مصیبت کے مارے جس انداز میں رہتے تھے، ان کے اندر کا انسان ان سے جو کچھ کرواتا تھا اس کی عجیب کہانی ہے۔ ایک جانب تہذیب، شائستگی، وضع داری اور خودداری… دوسری جانب لٹنے کا غم، ہولناک مسائل، ضرورت اور بھوک… جو لوگ آتے تھے، کس قدر ستھرے مذاق کے حامل تھے اور ان پر کیا بیتی، یہ سب شوکت صدیقی نے خدادادکالونی میں بیٹھ کر دیکھا اور اس مملکت ِخداداد پاکستان کا عکس خدادادکالونی کو قرار دیا جو ان کے قلم سے ’’خدا کی بستی‘‘ (معروف پی ٹی وی ڈراما) کی صورت امر ہوگیا۔ خدا کی بستی دراصل خداداد کالونی کی تصویر ہے جو پاکستان کے ابتدائی ایام میں کھینچی گئی، جسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بعد میں شوکت صدیقی صاحب نے کسی رسالے میں ایک افسانہ ’’خداداد کلونی‘‘ بھی تحریر کیا۔ کالونی کو ’’کلونی‘‘ لکھ کر انہوں نے سب کچھ کہہ دیا۔
800 بڑے صفحات پر محیط یہ داستان آپ جہاں سے بھی پڑھیں گے پڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ منفرد اسلوب کی حامل گل بانو صاحبہ کی تدوین نے کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ سہیلہ سلیم، منیرہ عدنان، سارہ حفیظ الرحمٰن، جاوید احمد اور ان کی اہلیہ نے بھی معاونت کا پورا حق ادا کیا۔دیدہ زیب سرورق کے ساتھ عمدہ طباعت کی حامل اس کتاب کی قیمت مناسب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کتاب شہر کی ہر چھوٹی بڑی لائبریری میں موجود ہو۔ کتاب کراچی کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔