دو کبوتر

مہدی آذر یزدی/مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک دفعہ کا ذکر ہے، دو کبوتر ایک دوسرے کے ہمسائے میں رہتے تھے۔ ایک کا نام تھا ’’نامہ بر‘‘ اور دوسرے کا ’’ہرزہ‘‘۔ ایک دن ہرزہ کہنے لگا: ’’بھائی نامہ بر! آج میں بھی تمہارے ہمراہ چلوں گا‘‘۔ نامہ بر بولا: ’’نہ بھائی، میں تو سیدھا اپنے کام کے پیچھے ہوں گا لیکن تُو میری ہمراہی نہیں کرسکے گا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔ تیرے سر مصیبت آئے اور میں بھی بدنام ہوجائوں‘‘۔
ہرزہ بولا: ’’اگر سچ پوچھو تو میں سو تیز اور تنومند کبوتروں کو بھی اپنی شاگردی میں قبول نہ کروں اور تجھ جیسے چالیسیوں کو سبق پڑھائوں۔ میں نے تجھ سے کہیں زیادہ رنگا رنگ لوگوں کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ میں گھروں کی ہر چھت، ہر کونے کھدرے، ہر کبوتر خانے، ہر باغ اور ہر صحرا کی خبر رکھتا ہوں اور تیری نسبت کہیں زیادہ تیز ہوں۔ جب میں نے تیرے ہمراہ سفر کرنے کی خواہش ظاہر کی تو مطلب یہ تھا کہ میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’یہ کسی چیز سے نہ ڈرنا ہی تو عیب ہے۔ ہاں زیادہ خوف ناکامی کا سبب بنتا ہے، لیکن خودسری اور بے باکی میں بھی کئی خطرات ہیں۔ جو لوگ مصیبت اور بدبختی کا شکار ہوتے ہیں، اپنی خودسری ہی کے باعث ہوتے ہیں۔ انہیں یہ زعم ہوتا ہے کہ دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہوش مند ہیں۔ پھر وہ اس زعم میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ بدبختی کا شکار ہوجاتے ہیں‘‘۔
ہرزہ بولا: ’’نہیں ایسا نہیں، تُو مطمئن رہ۔ میرے حواس قائم ہیں اور مجھے ہمیشہ یہ شعور رہتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’بہت خوب، لے تیار ہو جا۔ دانا پانی اپنے گھر ہی میں کھا پی لے اور جب میرے ساتھ چلے تو دورانِ راہ میں کسی بیگانے سے زیادہ گھل مل نہ جانا‘‘۔ اس نے کہا: ’’مجھے منظور ہے‘‘۔ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور چھتوں، کبوتر خانوں اور کبوتروں کے پاس سے گزرتے اور باغوں اور کھیتوں پر سے ہوتے ہوئے وہ صحرا میں جاپہنچے اور اڑتے گئے، اڑتے گئے، حتیٰ کہ ایک جگہ جاپہنچے جہاں اونچی نیچی زمین پر چند سوکھے درخت کھڑے تھے۔ ہرزہ خوشی سے بولا: ’’واہ وا، اب چند لمحے اس درخت پر بیٹھتے ہیں اور تھکن دور کرتے ہیں‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’ہمیں دیر ہوجائے گی، لیکن خیر اگر بہت ہی تھک گیا ہے تو کوئی حرج نہیں‘‘۔ وہ ایک درخت پر بیٹھ گئے اور ہر طرف نگاہ دوڑانے لگے۔ ہرزہ دور ایک طرف اشارہ کرکے کہنے لگا: ’’وہ جگہ دیکھ رہا ہے؟ وہاں سبزہ بھی ہے، دانہ بھی ہے۔ چلو چلیں اور کھائیں‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’میں دیکھ رہا ہوں، سبزہ بھی ہے، دانہ بھی ہے مگر جال بھی ہے‘‘۔ ہرزہ بولا: ’’تُو بڑا ڈرپوک ہے۔ تُو نے بس یہ سن رکھا ہے کہ شکاری سبزے کے درمیان دانہ بکھیر دیتے ہیں اور جال پھیلا دیتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ جال ہو‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’نہیں میں ڈرپوک نہیں لیکن عقل رکھتا ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ تپتے جلتے صحرا میں جہاں ہمیشہ گرم ہوا چلتی ہے، سبزہ نہیں اگتا اور دانہ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سب شکاری کی کارستانی ہے تاکہ لالچی پرندوں کو جال میں پھانس لے‘‘۔
ہرزہ بولا: ’’شاید اللہ نے یہاں اپنی قدرت کا جلوہ دکھایا ہو اور صحرا کے بیچ سبزے کا رنگ جمایا ہو‘‘۔ نامہ بر بولا: ’’تیری نگاہ صرف سبزے اور دانے پر ہے۔ وہ جو ٹیلے کے پاس مصنوعی ابریشم کی ٹوپی پہنے ایک شخص بیٹھا ہے، اسے بھی غور سے دیکھ۔ کیا تُو یہ نہیں سوچتا کہ آخر اس شخص کا یہاں کیا کام ہے؟‘‘
ہرزہ بولا: ’’ہوسکتا ہے یہ شخص سفر پر نکلا ہو اور ہماری ہی طرح تھک گیا ہو اور سستانے کی خاطر چند لمحوں کے لیے رک گیا ہو‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’اچھا تو پھر وہ ٹوپی کو کیوں ہاتھوں سے تھامتا ہے اور سبزے اور بیابان میں کیوں اِدھر اُدھر اپنی نظر دوڑاتا ہے؟‘‘
ہرزہ بولا: ’’شاید وہ ٹوپی کو اس لیے ہاتھوں سے تھامتا ہے کہ اسے ہوا نہ اڑا لے جائے، اور بیابان میں اس لیے اِدھر اُدھر نظر دوڑاتا ہے کہ اسے کوئی ایسا شخص دکھائی دے جائے جسے وہ اپنا رفیقِ سفر بنالے‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’بالفرض جو کچھ تُو کہتا ہے، ایسا ہی ہے، لیکن کیا تیری نگاہ ان باریک رسیوں پر نہیں پڑ رہی جو سبزے کے اوپر ہوا سے بل کھا رہی ہیں۔ یقیناً یہ جال کی رسیاں ہیں‘‘۔
ہرزہ بولا: ’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہوا ان رسیوں کو اڑا کر یہاں لے آئی ہو اور یہ سبزے میں الجھ گئی ہو‘‘۔ نامہ بر بولا: ’’اچھا اگر یہ ساری باتیں درست ہوں تو بھی کیا تجھے نہیں سوجھتا کہ پانی اور آبادی سے دور اس صحرا میں یہ مٹھی بھر دانہ کہاں سے آگیا؟‘‘
ہرزہ بولا: ’’ممکن ہے کہ پچھلے برس کے دانے یہی سبزہ بن گئے ہوں، یا کوئی اونٹ والا ادھر سے گزرا ہو اور اس کی بوری سے یہ دانے گرگئے ہوں۔ تُو دراصل وہم کا شکار ہے اور ہر چیز کے غلط معنی نکالتا ہے۔ پرندہ اگر اس قدر ڈرپوک ہو تو دانہ کبھی اس کے ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’میرے نزدیک شیطان تیرے دل میں وسوسے ڈال رہا ہے تاکہ تُو دانے کی خواہش میں وہاں جائے اور جال میں قید ہوجائے۔ میرے عزیز، میری جان! سمجھ دار کبوتر کو آخر اتنا قیاس تو کر ہی لینا چاہیے کہ صحرا میں یہ ساری چیزیں بلاوجہ تو اکٹھی نہیں ہوگئیں۔ وہ ٹوپی والا شخص، وہ سبزہ کہ اچانک اس صحرا میں پیدا ہوگیا، وہ رسیاں، وہ مٹھی بھر دانے جو اس کے نیچے بکھرے ہیں… ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرندوں کو شکار کرنے کے لیے جال بچھایا گیا ہے۔ تُو کیوں اس قدر بے شرم اور ڈھیٹ ہوگیا ہے کہ شکم پروری کی جھونجھ میں خود کو قید میں ڈالے دے رہا ہے‘‘۔
ہرزہ قدرے خوف زدہ ہوا اور اس نے دل میں کہا ’’ہاں ممکن تو ہے کہ جال بچھا ہو، لیکن کتنے ہی پرندے ہیں کہ جال کے نیچے سے دانہ چن کو کھاتے ہیں، اڑ جاتے ہیں اور جال میں گرفتار نہیں ہونے پاتے۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ جال فرسودہ اور بوسیدہ ہوتے ہیں اور پرندہ انہیں ٹکڑے کردیتا ہے۔ اکثر صیاد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب ان سے عرض معروض کرتے ہیں تو ان کا دل نرم پڑ جاتا ہے اور وہ پرندے کو آزاد کردیتے ہیں، اور اکثر ناگہانی اتفاقات بھی تو ہوجاتے ہیں کہ صیاد کے سر مصیبت آن پڑتی ہے، مثلاً ہوسکتا ہے کہ شکاری اچانک بے ہوش ہوکر گر جائے اور میں فرار کر جائوں‘‘۔
ہرزہ انہی سوچوں میں گم تھا۔ پھر بولا: ’’تُو جانتا ہے قصہ کیا ہے؟ میں بھوکا ہوں اور چاہتا ہوں کہ جائوں اور وہ دانہ کھا لوں۔ کچھ بھی تو معلوم نہیں کہ کوئی خطرہ ہے بھی! میں جاتا ہوں کہ دیکھوں کیا صورت ہے۔ اگر خطرہ ہوا تو لوٹ آئوں گا۔ جب تک میں نہیں لوٹتا تُو یہیں میرا انتظار کر‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’میں تیرے لالچ سے ڈرتا ہوں۔ تُو خود کو قید میں ڈال رہا ہے۔ آ، میری بات سن اور اس امتحان سے باز آ‘‘۔
ہرزہ بولا: ’’تجھے کیا کام ہے مجھ سے! تُو میرا ضامن نہیں۔ مجھے کسی وکیل یا سرپرست کی ضرورت نہیں۔ میں جارہا ہوں۔ اگر میں لوٹ آیا تو ہم اکٹھے چلیں گے۔ اگر میں گرفتار ہوگیا تو تُو اپنے کام کی پیروی کرنا۔ میں جانتا ہوں کہ میری نجات کی صورت کیا ہے‘‘۔
نامہ بر بولا: ’’مجھے نہایت افسوس ہے کہ تُو نے میری نصیحت پر کان نہ دھرا‘‘۔
ہرزہ بولا: ’’تُو بے کار میں افسوس کررہا ہے۔ تُو اپنے آپ کو نصیحت کر کہ اس قدر بے دست و پا اور نالائق ہے کہ دوسروں کے لیے خط لے جارہا ہے اور خود اس دانے سے جو قدرت نے صحرا میں لا ڈالا ہے، فائدہ نہیں اٹھاتا‘‘۔
ہرزہ یہ کہہ کر دانے کی طلب میں اڑا۔ جب وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ واقعی رسّی کا ایک گولا، میخ اور اس طرح کی کئی چیزیں پڑی ہیں اور کچھ دانہ بھی موجود ہے۔
اس نے رسّی سے پوچھا: ’’تُو کون ہے؟‘‘ رسّی بولی: ’’میں خدا کے بندوں میں سے ایک ہوں اور میں نے اس قدر عبادت و ریاضت کی ہے کہ بے حد لاغر ہوگئی ہوں‘‘۔ اس نے مزید پوچھا: ’’یہ کیل اور میخ کس لیے ہے؟‘‘ رسّی بولی: ’’کچھ نہیں، میں نے اپنے آپ کو اس سے باندھا ہے کہ مجھے ہوا نہ لے اڑے‘‘۔ ہرزہ بولا: ’’اور یہ سبزہ کہاں سے آیا؟‘‘ رسّی بولی: ’’میں نے اسے کاشت کیا ہے تاکہ اس پر دانہ آئے اور پرندے اسے کھائیں اور میرے لیے دعا کریں‘‘۔
ہرزہ بولا: ’’بہت خوب، میں بھی تیرے لیے دعا کرتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور دانہ کھانا شروع کردیا۔ ابھی چند دانے بھی اس کے حلق سے نیچے نہ اترے ہوں گے کہ جال سکڑا اور اسے قید کرلیا۔ شکاری بھی سامنے آگیا تاکہ اسے پکڑ لے۔ ہرزہ بولا: ’’میں نہ سمجھ پایا اور دوست کی نصیحت پر کان نہ دھرا اور دانے کے لالچ میں قید ہوگیا۔ اب تُو خدا کی رضا کی خاطر مجھ پر رحم کر اور مجھے رہا کردے‘‘۔
شکاری بولا: ’’سب ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں۔ کون سا پرندہ ہے جو جانے بوجھے جال میں گرفتار ہو؟ ہاں میں شکاری ہوں اور میرا کام پرندے پکڑنا ہے۔ اگر تیری خواہش تھی کہ آزاد رہے تو ضروری تھا کہ شروع ہی سے اپنے پر رحم کرتا، اور جب تُو نے دانہ اور سبزہ دیکھا تھا، اپنے انجام کی فکر بھی کرلیتا۔ اپنے اس ساتھی کو دیکھ کہ شاخ پر بیٹھا ہے۔ دانہ اس نے بھی دیکھا تھا مگر وہ تیری طرح احمق نہیں تھا‘‘۔
جب نامہ بر، ہرزہ کے لوٹنے سے ناامید ہوگیا تو اس نے اڑنے کے لیے پر پھیلائے تاکہ وہ خط متعلقہ لوگوں تک پہنچائے۔