ہماری قومی خارجہ پالیسی کے رہنما اصول کیا ہونے چاہئیں؟ میری نظر میں یہ اصول درج ذیل ہیں:۔
٭نفسیاتی و روحانی، سماجی و معاشی اور سیاسی حوالوں سے دنیا بھر کے مسلمان ایک اُمت ہونے کے ناتے ایک قوم ہیں۔
٭سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
٭بین الاقوامی تعلقات کے منظرنامے میں مسلمان ممالک ایک قدرتی بلاک ہیں۔
٭مسلمانوں کی جان، مال اور ناموس سے متعلق حقوق ناقابلِ تنسیخ ہیں۔
٭مسلمانوں کو کسی بھی بڑی طاقت کے مفادات کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کا حق ہے کہ عالمی منظر پر خود ایک مؤثر قوت بن کر رہیں۔
یہ رہنما اصول اُس وقت تک کوئی ٹھوس عملی شکل اختیار نہیں کرپائیں گے، جب تک کچھ الحاقی زمینی حقائق کی باقاعدہ تخلیق و تعمیر نہ ہو۔ ایک حرکی خارجہ پالیسی محض کسی درپیش صورتِ حال کا جواب ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ غیر موجود تصوراتی صورتِ حال میں بھی اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ ایسی خارجہ پالیسی ایک جان دار تخلیقی عمل ہے جس کا کسی لنگڑی لُولی پالیسی سے کوئی واسطہ نہیں بنتا۔
مسلم تعلقات کی پرورش اور اس میں عروج حاصل کرنے کے لیے پہلا اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم انگریزی زبان کے مقابلے میں غلامانہ ذہنی رویّے سے جان چھڑائیں، جسے پھونک چڑھائی ہوئی بین الاقوامیت کے نام پر قطعی غلط طور پر بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس معاملے میں تین اُمور پیشِ نظر رہیں:
اولاً، کوئی زبان محض ہُنر یا آلہ نہیں ہوا کرتا۔ زبان کے دوش پر سوار ثقافت اپنے اخلاقی عوامل اور نظریات کے ساتھ اُمڈتی چلی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیروں کی زبان اپنانے والے اُن کی ثقافت بھی اوڑھنے بچھونے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ثانیاً، زبان لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کا ذریعہ ہے۔ انگریزی زبان کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں جتنی انگریزیت آئے گی، اُسی قدر یہ قوم اپنے اسلامی ورثے سے دور ہٹتی جائے گی، اور یہ اپنے آپ کو انگریزی دان دنیا سے نتھی پائے گی۔ حالانکہ اُس دنیا سے نہ اس کا جغرافیائی قرب اور ہمسائیگی ہے، اور نہ اس کے ساتھ اس کا کوئی تاریخی رشتہ ہی ہے۔
ثالثاً، زبان اُس دشمن قوم کے خلاف پہلا دفاعی مورچہ ہوتا ہے جو اس سے مختلف زبان بولتی، سمجھتی ہے۔ دو دشمن قوتیں اگر ایک ہی زبان بولتی ہوں تو زمانۂ امن میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک کے حصے بخرے ہوکر مخالف بڑے دھڑے میں شامل ہوتے جائیں۔ عالمِ عرب، عربی زبان کی بناء پر ایک ثقافتی حلقہ ہونے کی وجہ سے کامل ٹوٹ پھوٹ اور انتشار سے بچا رہا، کیونکہ عربی نے ہی انہیں غیروں کے نظریات سے محفوظ رکھا اور اُن کے آپس کے رابطے بحال رہے۔ باوجود اس کے کہ نوآبادیاتی طاقتوں کی تخلیق کردہ نئی سرحدیں انہیں کاٹنے اور پھاڑنے پر تُلی ہوئی تھیں۔
جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے کہ آج کی ہندی رنگ میں رنگی ہوئی اُردو جسے ہندی بنانے میں ہمارے زنادقہ کا خاص کردار ہے، اُس کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ہماری قومی بداعمالیوں کی وجہ سے کشش ثقل اب ہندوستان منتقل ہونے لگی ہے۔ پاکستان اگر دیگر مسلمان ممالک کے لیے گونگا ہے تو ہندیت میں رچی بسی اُردو اسے ہندوستان کے لیے ناطق بنادیتی ہے۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جو پاکستان کو مغرب میں واقع اسلامی دنیا کے لیے مستقلاً اجنبی بنا کر رکھ دے گی۔ مثلاً دیکھیے کہ لاکھوں پاکستانی بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں جو اُن کی پسند و ناپسند پر اثرانداز ہورہی ہیں اور آہستہ آہستہ غیر شعوری طور پر اُن کے ہندوستان کے بارے میں حقیقی تحفظات میں کمی آرہی ہے، بلکہ اُسے برداشت کرنے کا بعض حلقوں میں رجحان بھی پیدا ہورہا ہے۔ جب کبھی ذرا زیادہ خوشحالی آئی اور دونوں ملکوں کی باہمی تلخی کم ہوئی اور نتیجتاً سیاحت کا سلسلہ عام ہوا تو ثقافتی بہائو ہندوستان کی طرف رہے گا۔ وجہ یہی ہندوانہ اُردو ہوگی، جسے ہمارا صحافتی طائفہ 1947ء سے مسلسل دودھ پلا رہا ہے۔ یہ بربادی کا راستہ ہے، لیکن تاحال ہمارے پالیسی سازوں کو اس کا احساس نہیں ہوپایا۔
اسی طرح یہ امر بالکل واضح ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو انگریزیت میں ڈوبنے سے بچانا ہوگا، کیونکہ ہمارے قومی اور ملّی مفادات کا تحفظ نہ انگریزی اپنانے سے ہوگا، نہ ہندی زدہ اُردو سے۔ ایک ہمیں مغرب سے نتھی کرتی ہے، دوسری ہمیں جنوبی ایشیا میں محدود کرکے محض علاقے کی ایک دوسری قوم بناتی ہے۔ اُردو زبان کا جو سلسلہ عربی اور فارسی سے ٹوٹ چکا ہے، اُسے لازماً دوبارہ جوڑا جانا چاہیے، تاکہ اس کی مخصوص عربی ترکیب اور ڈھب بحال ہو۔ بلکہ پاکستان میں عربی اور فارسی ایک بار پھر انگریزی کی جگہ لیں۔ اگر ایک امریکی گریجویٹ کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ کم از کم ایک یورپی زبان ضرور سیکھے، تو ہم اپنے طلبہ سے کیوں نہ کہیں کہ وہ عربی یا فارسی زبان میں ضروری مہارت حاصل کریں؟ امریکی اگر اپنی خارجہ پالیسی میں ضرورت کے تحت کسی یورپی زبان پر زور دیتے ہیں تو اس کی وجہ یورپ سے اُن کا خونیں رشتہ ہے۔ اس تناظر میں ہم شرقِ اوسط اور مغربی ایشیا سے اپنے گہرے رشتوں اور تاریخی روابط سے کیسے صرفِ نظر کرسکتے ہیں؟ آج کیفیت یہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے حوالے سے امکانات کی بحث میں ساری لفاظی کے باوجود ہمارے عوام کی اکثریت ایرانیوں، ترکوں، وسط ایشیائی مسلمانوں اور عربوں سے مناسب میل جول رکھنے میں ناکام ہے۔ جب تک عوامی رابطوں کا سلسلہ وسیع نہیں ہوتا، تب تک مسلم دنیا سے ہمارے تعلقات محض سطحی بلکہ ڈانوا ڈول رہیں گے۔ ہم ہندوستانی ثقافت کے سامنے موم کی ناک بنے رہیں گے اور مسلمانوں کی علاقائی یکجہتی کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی کے اقدامات جوش و جذبے سے یکسر عاری ثابت ہوں گے۔ یاد رہنا چاہیے کہ اسلامی تہذیب کے لیے مغربی تہذیب اگر بدترین ہے تو ہندی تہذیب اس کے ساتھ گھنائونی بھی ہے۔
۔(’’سیکولرزم: مباحث اور مغالطے‘‘… طارق جان )۔
بیادِ مجلسِ اقبال
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں فراغ
ضربِ کلیم کی ایک غزل کا یہ شعر اپنے اندر بہت بڑا سبق اور مکمل فلسفہ رکھتا ہے۔ علامہ نے آزاد اور غلام انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو اس شعر میں بیان کیا ہے کہ وقت بہت قیمتی چیز ہے مگر صرف آزاد انسان کے لیے۔ وہ اس لیے کہ کوئی نہ کوئی بڑا مقصد اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کا لائحہ عمل اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی ایک امانت ہے۔ اس کا ایک ایک لحظہ قیمتی ہے۔ اور اسی مناسبت سے مصروفِ عمل رہنا ہی انسان کو زیب دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک غلام کی زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ انسانیت کے شعور سے ہی بے خبر ہوتا ہے، اور اُس کے پاس اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی۔ نہ تو اس کے پاس اپنا کوئی منصوبہ کار ہوتا ہے اور نہ اس کے کوئی تقاضے۔ وقت ہی تو زندگی ہے، اور وقت کے ضیاع کا تصور ایک آزاد اور خودمختار انسان ہی کے پاس ہوتا ہے۔