لا الٰہ الاالانسان کے بعد مغربی تہذیب کا نیا عقیدہ لا الٰہ الاالمعیشت

مغرب کا خیال یہ تھا کہ کورونا دو چار مہینے کی کہانی ہے۔ مگر کورونا نے ثابت کیا کہ وہ دوچار مہینے کی نہیں، بلکہ سال ڈیڑھ سال، یا اس سے زیادہ کی کہانی ہوسکتی ہے۔ یہاں سے مغرب اور اس کے زیراثر دنیا میں ایک کشمکش پیدا ہوئی۔ اس کشمکش کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ انسان کو بچایا جائے یا معیشت کو؟ انسان کو بچانے کے لیے معیشت کی قربانی دی جائے، یا معیشت کو بچانے کے لیے انسان کی قربانی دی جائے؟

انسانیت کی لاکھوں سال کی تاریخ لاالٰہ الا اللہ کی تاریخ ہے۔ یہ تاریخ اوّل و آخر ’’خدا مرکز‘‘ تھی۔ ظاہر و باطن میں ’’خدا مرکز‘‘ تھی۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے اس تاریخ کے خلاف ہولناک اور شرمناک بغاوت کی۔ جدید مغربی تاریخ نے لاالٰہ الا نسان کا عقیدہ کھڑا کردیا۔ اس کا اثر صرف مغرب پر نہیں، پوری دنیا، یہاں تک کہ اسلامی دنیا پر بھی ہوا۔ جوش ملیح آبادی کا مشہور مصرع ہے ؎۔

پڑھ کلمۂ لاالٰہ الانسان

ایک مغربی دانش ور نے کہیں لکھا ہے کہ جدید مغربی تہذیب نے آسمان پر خدا کو، ریاست میں بادشاہ کو، اور گھر میں باپ کو معزول کردیا۔ جدید مغربی تہذیب نے خدا مرکز کائنات کی جگہ انسان مرکز کائنات خلق کی۔ اس کائنات کا اوّل و آخر انسان تھا۔ ظاہر و باطن انسان تھا۔ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے پوری زندگی کو خدا کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، آسمانی کتابوں کی روشنی میں پرکھا جاتا تھا۔ مگر انسان مرکز کائنات میں زندگی کو صرف انسان کی نظر سے دیکھا جانے لگا، یہاں تک کہ مذہب بھی ’’انسانی رائے‘‘ اور ’’زاویۂ نگاہ‘‘ کا پابند اور اسیر ہوگیا۔ انگریزی کے ممتاز شاعر الیگزینڈر پوپ نے اپنی نظم Essay on Man میں لکھا۔
Let then thy self presume
Not God to Scan
Proper study of mankind is man,
ترجمہ: خدا کی فکر میں نہ پڑو۔ اپنے آپ کو پہچانو، نسلِ انسانی کے مطالعے کا اصل موضوع خود انسان ہے۔
۔ (مترجم: جمال پانی پتی)۔
مغربی دنیا کے لوگوں نے ’’انسان مرکز‘‘ معاشرے اور ’’انسان مرکز‘‘ کائنات کو بڑی اہمیت دی۔ مغربی دنیا کے بہت سے دانش وروں کا خیال ہے کہ آج بھی مغرب کی تخلیق کی ہوئی کائنات ’’انسان مرکز‘‘ ہے۔ مغرب کا تخلیق کیا ہوا معاشرہ ’’انسان مرکز‘‘ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جدید مغرب کی کائنات کو ’’سرمایہ مرکز‘‘ یا ’’معیشت مرکز‘‘ ہوئے مدتیں ہوگئی ہیں۔ چنانچہ کئی دہائیوں سے مغرب کا بنیادی عقیدہ لاالٰہ الانسان نہیں، لاالٰہ الالمعیشت یا لاالٰہ الالسرمایہ ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال نے اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح عیاں کردیا ہے۔
کورونا وائرس نے یورپ اور امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا تو مغربی دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل تالا بندی یا Total Lockdown کی طرف چلی گئی۔ اس نے چین کی طرح اپنے کارخانے بند کردیے۔ اپنے بازاروں کو تالا لگا دیا۔ اپنے اسکولوں، کالجوں اور جامعات پر تالا بندی کی مہر لگا دی۔ مغرب کا خیال یہ تھا کہ کورونا دو چار مہینے کی کہانی ہے۔ مگر کورونا نے ثابت کیا کہ وہ دوچار مہینے کی نہیں، بلکہ سال ڈیڑھ سال، یا اس سے زیادہ کی کہانی ہوسکتی ہے۔ یہاں سے مغرب اور اس کے زیراثر دنیا میں ایک کشمکش پیدا ہوئی۔ اس کشمکش کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ انسان کو بچایا جائے یا معیشت کو؟ انسان کو بچانے کے لیے معیشت کی قربانی دی جائے، یا معیشت کو بچانے کے لیے انسان کی قربانی دی جائے؟ مغرب کے ممتاز فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر نے ایک جگہ ایک عجیب بات لکھی ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ انسان کی اخلاقیات کی اصل پہچان عام حالات میں نہیں بلکہ امتحان اور کشمکش میں ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ فرض کریں آپ ایک ایسی سڑک پر کار چلا رہے ہیں جہاں ایک طرف پہاڑ ہیں اور دوسری طرف کھائی۔ اس نے لکھاکہ اچانک آپ کے سامنے ایک آدمی آجائے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ کے پاس دو امکانات ہوں گے۔ ایک یہ کہ آپ اپنی جان بچانے کے لیے آدمی کو کچل دیں، دوسرا یہ کہ آپ آدمی کو بچا لیں اور اپنی گاڑی کو پہاڑ سے ٹکرا دیں یا کھائی میں گرا دیں۔ سارتر کے بقول اس صورتِ حال میں آپ کے ’’انتخاب‘‘ سے پتا چلے گا کہ آپ کو اپنی زندگی عزیز ہے یا دوسرے انسان کی زندگی عزیز ہے۔ کورونا نے مغرب اور اس کی نقل کرنے والی دنیا کے سامنے دو امکانات رکھے: معیشت کی قربانی دے کر انسانوں کو بچا لو۔ یا انسانوں کی قربانی دے کر معیشت کو بچا لو۔ بدقسمتی سے مغرب اور اس کی نقال دنیا نے فیصلہ یہ کیا ہے کہ انسانوں کو قربان کرکے معیشت کو بچانا ہے۔ امریکہ کا ’’انتخاب‘‘ بھی یہی ہے، یورپ کا ’’فیصلہ‘‘ بھی یہی ہے، اور مغرب کی نقال مسلم اور غیر مسلم دنیا کی “Choice” بھی یہی ہے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ اب مغرب اور اس کی نقال دنیا کا عقیدہ لا الٰہ الانسان نہیں ہے، بلکہ مغرب اور اس کی نقال دنیا کا عقیدہ لاالٰہ الالمعیشت یا لاالٰہ الالسرمایہ ہے۔ ہم تین ہفتے قبل زیربحث موضوع پر کالم لکھنے کا ارادہ کرچکے تھے، مگر بعض ناگزیر وجوہ سے اس ارادے پر عمل نہ ہوسکا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پوپ فرانسس نے ہمارے خیالات چرا لیے۔ پوپ فرانسس نے اس حوالے سے کیا فرمایا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:۔
’’کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ انسانی جان معیشت سے زیادہ اہم ہے۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث لگایا گیا لاک ڈائون تیزی سے اٹھایا جارہا ہے۔ پوپ نے کہا کہ لوگوں کی تکلیف دور کرنا، نہ کہ پیسے بچانا زیادہ اہم ہے۔ لوگ معیشت سے زیادہ اہم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ معیشت نہیں انسان خدا کی مخلوق ہیں۔‘‘
۔(روزنامہ جنگ۔ یکم جون 2020ء)۔
ہمارے بس میں ہوتا تو ہم پوپ فرانسس کو اس چند سطری بیان پر ادب کا نوبیل انعام دلا دیتے۔ اس لیے کہ اس چند سطری بیان میں مذہب کی پوری روح بند ہے۔ دنیا میں دو ہی چیزیں اہم ہیں: خدا اور انسان۔ لیکن ہم گزشتہ تیس سال سے لکھ رہے ہیں کہ اگر خدا نہیں تو پھر انسان کی بھی کوئی اوقات نہیں۔ مگر یہ بات اب تک صرف ایک ’’تجزیہ‘‘ تھی، لیکن کورونا سے پیدا ہونے والی صورتِ حال نے اس بات کو ایک ’’ٹھوس تجربہ‘‘ بنادیا ہے۔ خدا کا انکار کرنے والے مغرب پر جب ایک آفت اور آزمائش آئی تو اس نے صاف بتادیا کہ انسان اور معیشت، انسان اور سرمائے میں اس کا انتخاب انسان نہیں معیشت اور سرمایہ ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ وہ ’’عقل پرست‘‘ یا Rationalist ہے۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ مذہب پر نہیں صرف سائنس پر ایمان رکھتا ہے۔ مگر عقل اور سائنس دونوں کہہ رہے ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر آسکتی ہے جو پہلی لہر سے بھی زیادہ ہلاکت آفریں ہوسکتی ہے، چنانچہ ابھی لاک ڈائون کو ختم کرنا عقل اور سائنس کے تجزیے کے خلاف بات ہے۔ مگر مغرب اور اس کی نقال مسلم اور غیر مسلم دنیا کہہ رہی ہے کہ عقل اور سائنس پر لعنت بھیجو، معیشت اور سرمائے کو دیکھو۔ انسانی جانوں کے تحفظ کو نہیں، معیشت اور سرمائے کے تحفظ کو یقینی بنائو۔ لاالٰہ الانسان کا نعرہ نہ لگائو، لاالٰہ الالمعیشت اور لاالٰہ الالسرمایہ کا نعرہ لگائو۔ عقل اور سائنس مُردہ باد۔ معیشت اور سرمایہ زندہ باد ہے۔ یہ ہے مغرب اور اس کے نقال انسانوں، اور مغرب اور اس کی نقال دنیا کی اوقات۔ عقل اور سائنس دونوں کا تقاضا تھا کہ کورونا کے سلسلے میں ’’جحت‘‘ تمام کی جاتی… اور کورونا کے سلسلے میں حجت اُس وقت تمام ہوتی جب کورونا کی کوئی ویکسین ایجاد ہوچکی ہوتی یا مغرب کو سائنسی بنیادوں پر اس بات کا کامل یقین ہوگیا ہوتا کہ اب کورونا کی کوئی دوسری یا تیسری لہر نہیں آئے گی۔ اس کے بعد مغرب اور اس کے ’’بندر‘‘ لاک ڈائون ختم کرتے تو کہا جاتا کہ مغرب اور اس کے بندروں نے کورونا کے سلسلے میں حجت تمام کی۔ مگر ابھی تک کورونا کی کوئی ویکسین سامنے آئی ہے نہ مغرب اور اُس کے بندروں کو سائنسی بنیادوں پر اس بات کا یقین ہاتھ آیا ہے کہ لاک ڈائون ختم کرنے سے کورونا کی کوئی دوسری یا تیسری بڑی لہر نہیں آئے گی۔ اس صورتِ حال کا مفہوم عیاں ہے۔ مغرب اور اس کے جمہوری، فوجی اور شاہی بندروں کے نزدیک معیشت انسان کے لیے نہیں ہے، بلکہ انسان معیشت کے لیے ہے۔ سرمایہ انسان کے لیے نہیں ہے، بلکہ انسان سرمائے کے لیے ہے۔ یہ انسان ہی کی نہیں، انسان کے خالق کی بھی کھلی توہین ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ معیشت بند رہی تو اربوں لوگ کورونا کے بجائے بھوک سے مر جائیں گے۔ کیوں مرجائیں گے؟ اس دنیا کے 99 فیصد وسائل ایک فیصد طبقے کے ہاتھ میں ہیں۔ آخر حکومتیں اور ریاستیں، جمہوریتیں اور آمریتیں آگے بڑھ کر مال داروں سے وسائل چھین کر انہیں غریبوں اور ضرورت مندوں میں کیوں تقسیم نہیں کرتیں؟ عام لوگوں کے لیے تو جمہوریتیں، آمریتیں، حکومتیں اور ریاستیں ایک لمحے میں ’’طاقت ور‘‘ بلکہ ’’بدمعاش‘‘ ہوجاتی ہیں۔ آخر وہ اس عظیم انسانی ابتلا میں اپنی طاقت کا استعمال کیوں نہیں کررہیں؟ دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے پاس جو سرمایہ ہے وہ انہوں نے دنیا کے سات ارب عام انسانوں سے کمایا ہے، اب یہ انسان مشکل میں ہیں تو سرمایہ داروں سے وسائل لے کر یا چھین کر عام آدمی کی مددکیوں نہیں کی جارہی؟ معیشت کو بند رکھ کر خدا کی مخلوق کی جان کیوں نہیں بچائی جارہی؟ قرآن کہتا ہے کہ اگر کسی نے ایک انسان کی جان بچائی تو اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی، اور اگر کسی نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا تو اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔ مگر یہاں تو ایک انسان کیا کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو شعوری طور پر کورونا کے آگے ڈالا جارہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کروڑوں انسانوں کو کروڑوں بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیا جائے۔ مغرب اور اس کے نقلچی جمہوری، سیاسی، فوجی، شاہی اور صحافتی بندروں پر خدا کی لعنت۔ ان تمام کا دعویٰ تو یہ ہے کہ حکومت بھی عوام کی ہے، ریاست بھی عوام کی ہے، معیشت بھی عوام کی ہے… مگر ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ عوام کا کچھ بھی نہیں ہے… نہ جمہوریت، نہ حکومت، نہ ریاست، نہ معیشت۔ عوام کی ایسی ذلت انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی… ملوکیت اور بادشاہت میں بھی نہیں۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ اگر ریاستیں اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور وہ دنیا کے ایک فیصد مال داروں سے مال حاصل کریں یا چھین لیں تو عالمی معیشت کو ایک سال کیا بیس سال بھی بند رکھا جاسکتا ہے۔
یہ سب باتیں بہت اہم ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ مغرب اور اس کے نقلی بندر معیشت اور سرمائے کو انسان پر ترجیح دے رہے ہیں تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس کی کوئی ایک وجہ نہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایک سبب وجودی یا Existentialہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا:۔
To be or not to be
that is the question.
یعنی اصل مسئلہ ’’ہونا‘‘ یا ’’نہ ہونا‘‘ ہے۔ مذہبی تہذیب اور مذہبی معاشرے میں ’’ہونے‘‘ یا ’’نہ ہونے‘‘ کی بحث ایک مابعدالطبعیاتی تناظر کی حامل ہے۔ مثلاً اگر انسان اللہ کا ’’بندہ‘‘ ہے تو پھر اس کا ’’وجود‘‘ ہے۔ اور اگر وہ بندگی کے تقاضے پورے نہیں کر پارہا تو وہ جسمانی طور پر موجود ہونے کے باوجود ’’غیر موجود‘‘ یا Non Existent ہے۔ ہمارے زمانے میں انسان کے ’’ہونے‘‘ یا ’’نہ ہونے‘‘ کا تعلق مذہب اور مابعدالطبعیات سے ہے ہی نہیں۔ اب ’’موجود‘‘ وہی ہے جس کے پاس ’’سرمایہ‘‘ ہے۔ جس کے پاس سرمایہ نہیں وہ متقی اور صاحبِ علم ہونے کے باوجود بھی ’’موجود‘‘ نہیں۔ چنانچہ مغرب اور اس کے نقلچی بندر اگر معیشت اور سرمائے کو انسانوں پر ترجیح دے رہے ہیں تو وہ دراصل کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے پاس معیشت اور سرمایہ نہیں ہوگا تو ہم ’’موجود‘‘ ہوکر بھی ’’غیر موجودگی‘‘ کا شکار ہوجائیں گے۔ ہم ’’عدم‘‘ کی کھائی میں جا پڑیںگے۔ اس سے معلوم ہورہا ہے کہ جدید دنیا کے لیے معیشت اور سرمایہ مذہب بن چکا ہے۔
اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے کہیں لکھا ہے کہ جدید مغرب کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ لفظ ’’ترقی‘‘ ہے۔ عسکری صاحب کے زمانے میں ترقی کے لفظ میں بڑی جامعیت تھی، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے ترقی کا لفظ سکڑ سمٹ کر ’’معاشی ترقی‘‘ کے تصور تک محدود ہوگیا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اب بھی ترقی کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ مگر جس تصور کو غالب تصور کی حیثیت حاصل ہے وہ ’’معاشی ترقی‘‘ ہے۔ یہی وہ ترقی ہے جس میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرکے چین نے امریکہ اور یورپ کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب اور اس کے نقلچی بندر معیشت کو انسان پر فوقیت دے کر کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری معیشت خراب ہوگئی تو ہم ’’ترقی یافتہ‘‘ نہیں رہ سکیںگے۔ پھر ہم ’’ترقی پذیر‘‘ یا ’’غریب‘‘ ہوجائیںگے۔ اور جدید مغرب کے لیے ترقی پذیر اور غریب ہونا ایک گالی ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مغرب کے لیے غربت صرف غربت نہیں ہے، یہ ماضی میں لوٹ جانے کی علامت بھی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مغرب غریب تھا۔ لندن اور پیرس کی گلیوں میں خاک اڑتی تھی، اور ان گلیوں میں مناسب روشنی تک کا بندوبست نہیں ہوتا تھا۔ مغرب نے اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی یا صنعتی انقلاب اور غریب قوموں سے لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے اپنے ماضی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔ چنانچہ اسے لگ رہا ہے کہ اگر ہمارا صنعتی و معاشی نظام بیٹھ گیا تو کہیں ہمارا تلخ ماضی لوٹ کر نہ آجائے۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مغرب کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں مرتبے یا Status اور اس حوالے سے عزت اور ذلت کا اصل پیمانہ معیشت اور سرمایہ ہے۔ مغرب تو خیر لادین یا سیکولر ہے، مغرب کے زیراثر مسلم معاشروں تک کا حال یہ ہوگیا ہے کہ تقویٰ اور علم کی ’’فضیلت‘‘ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ مسلم معاشروں میں بھی مقام اور مرتبہ صرف معیشت اور سرمائے سے متعین ہوتا ہے۔ چنانچہ مغرب اور اس کے نقلچی بندروں کو لگ رہا ہے کہ اگر ہم نے معیشت اور سرمائے کو نہ بچایا تو اِس دنیا میں ہمارا جو مقام اور مرتبہ ہے ہم اس سے محروم ہوجائیںگے۔ چنانچہ مغرب اور اُس کے نقلچی بندر معیشت اور سرمائے کو انسانوں پر ترجیح دے کر اپنے مقام اور مرتبے یا Status کو بچانے کی تگ و دو کررہے ہیں۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ معیشت اور سرمایہ عہدِ حاضر میں طاقت اور شوکت کی علامت ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک ’’طبقۂ امراء‘‘ ہے۔ مال کی وجہ سے اس طبقے کو غیر معمولی طاقت اور شوکت حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک ’’متوسط طبقہ‘‘ ہے۔ یہ طبقہ علم اور محنت میں طبقۂ امراء پر فضیلت رکھتا ہے، مگر اس طبقے کے پاس چونکہ طبقۂ امراء کی طرح مال و متاع نہیں ہوتا اس لیے طبقاتی اعتبار سے اس طبقے کی اہمیت طبقۂ امراء سے بہت کم ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک غریب یا زیریں طبقہ ہے۔ یہ طبقہ کروڑوں میں ہے اور یہ معاشرے کا سب سے بڑا طبقہ ہے، مگر اس طبقے کا معاشرے اور ریاست میں کوئی وزن ہی نہیں، اس لیے کہ یہ غریب طبقہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب اور اُس کے نقلچی بندر معیشت اور سرمائے کو انسانی جانوں پر بالادستی دے کر دراصل اپنی طاقت اور شوکت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کورونا نے امریکہ جیسی طاقت ور معیشت کا یہ حال کردیا ہے کہ صرف تین ماہ میں امریکہ کے اندر 4 کروڑ 20 لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے۔ یورپ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یورپ کی مجموعی معیشت دس سے پندرہ فیصد سکڑ سکتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب اور اُس کی نقال ریاستوں میں اگر معیشت کے بند ہونے سے بے روزگاری اور غربت بڑھی تو مغرب اور اس کے نقلچی بندر حکمرانوں کے خلاف اب تک جو ’’عوامی بغاوت‘‘ نہیں ہوئی وہ دو چار ماہ میں مغرب سمیت پوری دنیا کا مقدر بن جائے گی۔ اس کے نتیجے میں لوگ امریکہ اور یورپ کی جمہوریت اور جمہوری حکمرانوں کو بھی چیر پھاڑ کر کھا جائیںگے۔ مشرقِ وسطیٰ کی بادشاہتیں بھی منہ کے بل گر پڑیں گی اور عوامی طوفان فوجی آمروں اور نام نہاد قوم پرستوں کو بھی چند دن میں نگل جائے گا۔ اس کے بعد دنیاکبھی ان قوتوں کے ہاتھ میں نہ جا سکے گی جن کے ہاتھ میں وہ گزشتہ ہزاروں بالخصوص سیکڑوں سال سے ہے۔ مغرب اور اس کے نقلچی بندروں کی تخلیق کی ہوئی دنیا معاشی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے عدم مساوات کی دنیا ہے۔ معیشتوں کی بندش سے عوامی بغاوت جنم لے گی تو معاشی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی مساوات کا نعرہ بھی پوری دنیا میں بلند ہوگا اور لوگ ساری دنیا کے جابر، ظالم اور نااہل حکمرانوں سے ان کے ظلم وجبر اور نااہلی کا حساب مانگیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب اور اس کے نقلچی بندر معیشت اور سرمائے کو انسانی جانوں پر فوقیت دے رہے ہیں۔