ڈاکٹر اسامہ شفیق
کورونا بدترین صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اندازے اور تخمینے بھی غلط ثابت ہورہے ہیں۔ اس وقت ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بدترین صورت حال ہے۔ کورونا کے مریض اندازے سے بھی زیادہ ہیں۔ اسپتالوں میں جگہ کچھ دن قبل ہی ختم ہوچکی تھی، اب تو صورت حال یہ ہے کہ آکسیجن سلنڈر اور ایمبولینس بھی نایاب ہیں۔ بار بار کال کرنے کے باوجود گھنٹوں تک ایمبولینس میسر نہیں، اگر ہو بھی جائے تو دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ایمبولینس والے کہتے ہیں کہ پہلے اسپتال میں معلوم کرلیں کہ جگہ ہے بھی یا نہیں۔ ایک صاحب نے اپنا تجربہ بتایا کہ بھابھی کو پانچ اسپتالوں میں لے کر گھومتے رہے لیکن جگہ دستیاب نہ ہوئی، بالآخر گھر لے کر آئے اور ان کا انتقال ہوگیا۔
ملک کے سب سے بڑے اور نسبتاً جدید شہر کا یہ حال ہے تو باقی ماندہ ملک کا کیا حال ہوگا؟ یہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ کورونا کی بدترین صورت پاکستان میں 3 ماہ کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس سے قبل وفاقی اور صوبائی حکومتیں زبانی جمع خرچ تو خوب کرتی رہیں لیکن اس وبا سے نمٹنے کی مؤثر حکمت عملی بنانے سے قاصر رہیں۔ جو بھی اقدامات کیے گئے وہ اب وقت پڑنے پر ناقص، جھوٹ اور فریب نظر آتے ہیں۔ شہر کے وسط میں بنائے گئے ایکسپو سینٹر فیلڈ اسپتال کا شور و غوغا کیا گیا کہ یہاں 10 ہزار بستروں پر مشتمل اسپتال بنایا جائے گا جہاں تمام سہولیات موجود ہوں گی، لیکن تادمِ تحریر جو کچھ اخبارات سے سامنے آیا وہ نہ صرف چونکا دینے والا بلکہ ایک بدترین اسکینڈل ہے۔ اخبارات میں شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق ایکسپو سینٹر فیلڈ اسپتال میں صرف 87 مریض داخل ہیں، اس کی بنیادی وجہ ناکافی سہولیات اور اس کے باعث مریضوں کو داخل نہ کرنا ہے۔ یہ صورت حال تو صرف ایک فیلڈ اسپتال کی ہے جوکہ بنایا ہی کورونا کے مریضوں کے لیے گیا تھا، اس کے علاوہ شہر کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والی صوبائی حکومت ڈاکٹروں کو حفاظتی لباس، سہولیات اور سیکورٹی تک فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ آئے روز ڈاکٹروں پر تشدد کے واقعات اسپتالوں کی سیکورٹی جو کہ حکومت کی ذمہ داری ہے، کی قلعی کھول رہے ہیں۔ ان نامساعد حالات میں بھی ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جوکہ قابلِ ستائش ہے، لیکن طبی عملے کو ستائش سے زیادہ اس وقت سہولیات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنی حیثیت میں ان تمام باتوں کو عوام کے سامنے سوشل میڈیا اور پریس کانفرنس کرکے لا چکے ہیں۔ اس وقت سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے پر حکمرانوں کو جھنجھوڑیں، کیونکہ یہ صرف چند ہزار افراد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس شہر کی دو کروڑ آبادی کا مسئلہ ہے۔ وہ شہر جوکہ منی پاکستان ہے، کہ جس کے اثرات اس پورے ملک پر پڑتے ہیں، اگر خدانخواستہ اس شہر میں وبا سنگین ہوئی تو پورا ملک بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس نازک موقع پر عوام بھی اپنی ذمہ داری ادا کریں، احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور حکمرانوں سے بہتر طبی سہولیات کا مطالبہ کریں… ایسی سہولیات کا جوکہ حکمران اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک کی سول اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے لیے ایک الگ دنیا بنائی ہے کہ جہاں ان کے کتوں کو بھی وہ سہولیات میسر ہیں جو عوام کو میسر نہیں۔ لیکن قدرت کا اپنا نظام ہے۔ وبا پھیلی تو نہ حکمران محفوظ رہ پائیں گے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ۔ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ وبا کو بیانات سے نہیں بلکہ عمل سے قابو کیا جائے، ورنہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔