پولیس کے امتیازی رویّے اور ظلم وتشدد نے سیاہ فاموں کو عدالتی نظام سے مایوس کردیا ہے
امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کے بہیمانہ قتل سے پھوٹنے والا ہنگامہ اب پولیس کو لگام دینے کی منظم قومی تحریک میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس وقت امریکہ کو ایک ہی وقت میں تین بڑی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ یعنی کورونا کی وبا، جس کی وجہ سے ملکی معیشت دبائو میں ہے، تو دوسری جانب ملک گیر مظاہروں سے لاک ڈائون کے بعد کھلنے والے بازار دوبارہ ٹھپ ہوگئے ہیں، اور پھر 5 ماہ بعد ملک میں انتخابات ہونے ہیں۔
مزید گفتگو سے پہلے گزشتہ نشست میں پیش کی جانے والی گزارشات کے حوالے سے ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
مضمون میں کہا گیا تھا کہ ’’جارج فلائیڈ کے قتل پر ملک گیر مظاہروں کے باوجود اس مسئلے کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی، کہ اب تک اس واقعے کے تمام ملزمان گرفتار نہیں ہوئے، اور بڑے ملزم پر جو مقدمہ بنایا گیا وہ تیسرے درجے کا قتل ہے، یعنی غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کی بنا پر موت یا قتلِ خطا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق (لاش کے معائنے سے) ایسے شواہد نہیں ملے جس سے اندازہ ہوتا ہوکہ جارج فلائیڈ کی موت سانس رکنے یا گلا گھٹنے سے ہوئی ہے۔ مقتول کی پہلے سے خراب صحت (فشارِ خون) اور ممکنہ خمار کی حالت میں مضبوط گرفت اس کی موت کا سبب معلوم ہوتی ہے۔‘‘
کالم تحریر کرتے وقت معاملہ ایسا ہی تھا، لیکن بعد میں ریاست کے مسلمان اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن نے معاملے کو کائونٹی سے ریاست منتقل کرتے ہوئے بڑے ملزم کی فردِ جرم میں اسے تیسرے درجے کے بجائے دوسرے درجے کا قتل یا Second Degree Murder درج کرا دیا جو جان بوجھ کر بلا اشتعال قتل یا قتلِ عمد ہے۔ اسی کے ساتھ جائے وقوع پر موجود باقی تین افسروں کے خلاف اعانتِ قتل کا مقدمہ درج کرکے تینوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ اسی کے ساتھ پسماندگان کی درخواست پر لاش کا ایک نجی ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کروایا گیا جس کے مطابق جارج کی موت دم گھٹنے کے باعث ہوئی ہے۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف تحریک تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے۔ پہلے دس بارہ دنوں میں جلسے جلوس امریکی دارالحکومت واشنگٹن اور چند بڑے شہروں تک محدود تھے جو صدر ٹرمپ کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ ہیں۔ مظاہرین کی غالب اکثریت بھی سیاہ فاموں، مسلمانوں، ہسپانویوں او رنگ دار ایشیائیوں پر مشتمل تھی۔ اس دوران جلائو گھیرائو اور لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے، جسے بنیاد بناکر سفید فام انتہا پسندوں کے ساتھ خود صدر ٹرمپ نے ان مظاہروں پر ’ٹھگوں کے اجتماع‘ کی پھبتی کسی۔ امریکی صدر نے الزام لگایا کہ بائیں بازو کا فاشسٹ گروپ Antifa لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لیے ان مظاہروں کی سرپرستی کررہا ہے۔ لیکن 30 مئی کو ریاست نیواڈا(Nevada)کے شہر لاس ویگاس میں 3 سفید فام دہشت گردوں کو لوٹ مار کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI نے ان سابق امریکی فوجیوں کے خلاف وفاقی عدالت میں جو فردِ جرم پیش کی ہے اس کے مطابق تینوں کا تعلق انتہا پسند Boogalooگروپ سے ہے جو امریکی دستور کو تسلیم نہیں کرتے اور وفاقی و ریاستی حکومت کو طاقت کے بل پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ بوگلو گروپ نے کورونا لاک ڈائون ختم کرانے کے لیے بھی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ بوگلو گروپ کے تربیت یافتہ شرپسند وں نے Black Lives Matter کے جلوسوں میں منیاپولس، نیویارک، لاس اینجلس اور دوسرے مقامات پر دکانوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا۔ آگ لگانے کے لیے یہ دہشت گرد جلد بھڑک اٹھنے والا خاص قسم کا آتش گیر مادہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ بوگلو گروپ کے سرغنوں کی گرفتاری کے بعد مظاہروں کے دوران پولیس سے تصادم کے واقعات تو پیش آرہے ہیں لیکن لوٹ مار یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
6 جون کو ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں سفید فام کھل کر سامنے آئے اور بڑے شہروں کے ساتھ دیہی امریکہ میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے۔ گورے مظاہرین نے پولیس اصلاحات اور سماجی انصاف کے حق میں نعرے لگائے۔ کئی مقامات پر ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسند رہنمائوں نے سیاہ فاموں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے جلوسوں میں شرکت کرکے Black Lives Matterکے نعرے لگائے۔ 2012ء میں صدر اوباما کے خلاف ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رامنی وہائٹ ہائوس کی طرف مارچ میں شریک ہوئے۔ انہوں نے مظاہرے کے دوران لی گئی اپنی تصاویر ٹویٹر پر Black Lives Matter پیغام کے ساتھ جاری کیں۔ فلم سازی کے عالمی مرکز ہالی ووڈ میں بھی زبردست مظاہرہ ہوا اور عالمی شہرت یافتہ فنکاروں نے پولیس اصلاح کے لیے قانون سازی پر زور دیا۔ اب شہروں کے ساتھ دیہی امریکہ اور سفید فام آبادیوں میں بھی سماجی انصاف، اور پولیس گردی کے خلاف تحریک زور شور سے جاری ہے۔
امریکہ کے ساتھ نیوزی لینڈ، برطانیہ، برازیل، لبنان، کینیڈا، آسٹریلیا، اٹلی، فرانس، ڈنمارک اور یورپ کے بڑے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے، اور Black Lives Matterکے ساتھ ’انصاف نہیں تو امن نہیں‘ کے نعرے لگائے گئے۔ اس تحریک کی عالمی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ 6 جون کو اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں زبردست مظاہرہ ہوا جس کا اہتمام ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سرگرم Meretz یا گرین پارٹی نے کیا تھا۔ میریٹز پارلیمانی حجم کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹی جماعت ہے جس کے پاس 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں صرف 3 نشستیں ہیں، لیکن اس کے مظاہرے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے Palestinians Lives Matter کے کتبے اٹھا رکھے تھے۔ اس دوران مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے مجوزہ الحاق کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سربراہ نشان ہاروٹز نے کہا کہ علاقے میں امن اور خوشی و خوشحالی کے لیے اسرائیل و فلسطین کے نام سے دو آزاد و خودمختار ریاستیں ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ کے حالات سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں پولیس کے امتیازی رویّے اور ظلم وتشدد نے سیاہ فاموں کو عدالتی نظام سے مایوس کردیا ہے۔
اس موقع پر امریکہ کے مخالفین کو چٹکیاں لینے کا موقع بھی مل گیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی اور وزیر خارجہ پومپیوکو باور کرایا کہ چین بھی امریکہ میں ہونے والے مظاہروں کی اسی طرح حمایت کرسکتا ہے جیسے امریکہ نے ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کی تحسین کی تھی۔ ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکی پولیس کو اپنی نسلی اقلیتوں پر تشدد بند کردینا چاہیے۔
اس معاملے میں صدر ٹرمپ اپنے رویّے سے بہت ہی غیر حساس نظر آئے اور اس بہیمانہ واردات کی کھل کر مذمت کرنے کے بجائے وہ پہلے دن سے مظاہروں کی مخالفت کررہے ہیں۔ گورنروں سے گفتگو میں انھوں نے دھمکی دی کہ اگر مظاہروں پر قابو نہ پایا گیا تو وہ تحریک کو کچلنے کے لیے فوج طلب کرلیں گے۔ مظاہرین کے خلاف دھمکی کو خود امریکی فوج نے بھی پسند نہیں کیا اور اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی فوج کے درمیان غیر محسوس سی خلیج صاف نظر آرہی ہے۔ ہنگاموں سے متاثرہ شہروں میں فوج کی تعیناتی کی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کھل کر مخالفت کی۔ جب وہائٹ ہائوس کے سامنے موجود پُرامن مظاہرین کو پولیس تشدد سے منتشر کرانے کے بعد صدر ٹرمپ فاتحانہ انداز میں پیدل چلتے ہوئے گرجاگھر کے مرکزی دروازے پر انجیل کے ساتھ تصویر کھنچوانے آئے تو وزیر دفاع اور فوج کے اعلیٰ افسران صدر کے ساتھ چبوترے پر جانے کے بجائے سیڑھیوں کے نیچے کھڑے رہے۔ اس دوران فوجی افسران وردی کے بجائے سویلین لباس میں تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے سابق وزیردفاع جنرل جیمز میٹس نے الزام لگایا کہ صدر اپنے مخصوص سیاسی نظریات کے لیے ملک کے اتحاد کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین اپنے اُس حق کا استعمال کررہے ہیں جو انھیں امریکی آئین نے دیا ہے جسے کچلنے کے لیے فوج کے استعمال سے جوانوں کے حوصلے متاثر ہوں گے۔ عوام امریکی فوج کے پشتیبان ہیں اور مقبول عوامی تحریک کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال خود فوج کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ امریکی ٹیلی ویژن CNN سے باتیں کرتے ہوئے امریکی فوج کے سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کولن پاول نے کہا کہ صدر ٹرمپ جھوٹے ہیں اور فوج کو عوام کے سامنے لاکر ماورائے آئین قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔ ایک اور سابق جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارٹن ڈیمپسی نے بھی مظاہرین کے خلاف فوج کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نصف صدی قبل ویت نام جنگ کے خلاف مظاہرے کے دوران تعیناتی سے فوج پر عوام کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچی جسے بحال کرنے میں کئی دہائیاں صرف ہوئی تھیں۔ سب سے سخت ردعمل سابق وزیرِ خارجہ ڈاکٹرکونڈا لیزا رائس کا تھا کہ یہ ہمارا ملک ہے جنگ کا میدان نہیں جہاں فوج اتار دی جائے۔
امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی موت ایک عام سی بات ہے، اور ہر قتل کے بعد غم و غصے کا اظہار بھی ہوتا ہے، لیکن جارج فلائیڈ کے قتل پر ہونے والا ردعمل ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے اور پولیس کو لگام ڈالنے کے لیے مؤثر قانون سازی کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ مظاہروں میں پولیس کے بجٹ میں بھاری کٹوتی کے ساتھ نسلی امتیاز اور سماجی انصاف کے باب میں پولیس افسران کی خصوصی تربیت پر زور دیا جارہا ہے۔ منیا پولس کی مقامی اسمبلی (بلدیہ) میں پولیس کے شعبے کو تحلیل کرکے قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے مقامی پنچایتوں کا نظام ترتیب دینے کی تجویز پیش کردی گئی ہے۔ تفصیلات بتاتے ہوئے شہری کونسل کی صدر لیسا بینڈر نے زور دے کر کہا کہ محکمۂ پولیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اب ایسا متبادل ترتیب دیا جارہا ہے جس کے ذریعے کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ منیا پولس کے رئیسِ شہر (میئر) جیکب فرے محکمۂ پولیس کو ختم کرنے کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نسل پرستی پر مبنی نظام میں اصلاح ضروری ہے لیکن پولیس کے پورے محکمے کو ختم کردینا مناسب نہیں۔ امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیویارک کے رئیسِ شہر بل دی بلاسیو نے کہا کہ پولیس کے بجٹ میں کٹوتی کرکے بچت کو سماجی خدمات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
حکومت و سیاسی طبقات کے ساتھ امریکہ کے بڑے تجارتی ادارے بھی ان مظاہروں سے متاثر نظر آرہے ہیں۔ نیٹ فلکس، گوگل، مائیکرو سافٹ، سٹی بینک، ویلزفارگو بینک اور سپر اسٹور ٹارگٹ کی انتظامیہ نے بھرتیوں میں یکساں مواقع کو یقینی بنانے کے ساتھ سماجی انصاف کی تحریکوں کی مالی مدد کے لیے بھاری رقوم مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اس تحریک کو عوام میں جو پذیرائی نصیب ہوئی ہے اس کی امریکہ کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سابق صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ 1960ء کی دہائی میں شہری حقوق کے لیے جو عظیم الشان تحریک برپا ہوئی تھی اُس وقت ایسی یکجہتی نظر نہیں آئی حالانکہ حالیہ تحریک کے مقابلے میں اُس وقت تشدد آمیز واقعات بہت کم تھے، لیکن انھیں بہت زیادہ اچھالا گیا اور سفید فام امریکیوں کی اکثریت اس تحریک سے الگ تھلگ رہی۔ سیاسیات و عمرانیات کے علما کے خیال میں اس غیر معمولی عوامی ردعمل کی بنیادی وجہ وہ ویڈیو ہے جس نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
اس سلسلے میں جہاں پولیس کی اصلاح، امتیازی سلوک کے خاتمے اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے دوررس اقدامات پر غور و فکر کیا جارہا ہے، وہیں گرفتاری کے وقت پولیس کے مخصوص ہتھکنڈوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے، جس میں سرفہرست ’گلا گھونٹ گرفت‘ یا Chokeholdہے۔ زیرِحراست سرپھرے ملزمان کو تابعدار بنانے کے لیے انھیں زمین پر لٹاکر محدود دورانیے کے لیے گلا زور سے دبا دیا جاتا ہے جس سے پھیپھڑے کو آکسیجن اور دماغ کو خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ اس بنا پر سر چکرانے لگتا ہے اور خوف و گھبراہٹ کے علاوہ عضلات بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر بغاوت کا سودا کافور ہوجاتا ہے۔ Chokeholdکا آغاز اسرائیل سے ہوا تھا اور امریکہ و یورپ میں یہ طریقہ عام ہے۔ گلا گھونٹ گرفت کو غیر قانونی قراردینے پر اب اتفاقِ رائے ہوتا نظر آرہا ہے۔ منیاپولس کے بعد نیویارک اور کیلی فورنیا میں گلا گھونٹ گرفت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ 8 جون کو فرانس کے وزیر داخلہ کرسٹوفر کارسٹنر نے سارے فرانس میں زیرحراست ملزموں پر گلا گھونٹ ہتھکنڈے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے خیال میں Chokehold پر اقوام متحدہ کے ذریعے ساری دنیا میں پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔
8 جون کو کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام گروپ یا Caucus نے Justice in Policing act of 2020 پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جسکے تحت:۔
۔٭گلاگھونٹ گرفت غیر قانونی ہوگی۔
۔٭پولیس کی بدسلوکی پر مقدمہ قائم کرنے کا طریقہ آسان کردیا جائے گا۔
۔٭منشیات سے متعلق پروانۂ گرفتاری کی تعمیل کے لیے دروازے پر دستک دیے بغیر گھر میں داخلہ ممنوع ہوگا۔ اس طریقِ گرفتاری کو no- knock warrantکہتے ہیں۔
٭بدسلوکی کے مرتکب پولیس افسران کا ایک قومی رجسٹر بنایا جائے گا تاکہ ایک شہر سے برطرف یا معطل کیا جانے والا افسر دوسرے شہر میں پولیس کی نوکری نہ حاصل کرسکے۔
ایوانِ نمائندگان کے ساتھ سینیٹر کوری بوکر اور سینیٹر کملا ہیرس نے بھی اس بل پر دستخط کیے ہیں۔ اس مسودۂ قانون کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کہ اب تک کسی ایک ری پبلکن نے اس کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ قانون سازی کے لیے بل کی دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر کی توثیق ضروری ہے۔ اپنی اکثریت کی بنا پر ڈیموکریٹس اس بل کو ایوانِ زیریں سے تو آسانی سے منظور کروالیں گے، لیکن سینیٹ میں 53 ری پبلکن کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کی تعداد صرف 47 ہے، لہٰذا کم از کم 4 ری پبلکن سینیٹرزکو ساتھ ملائے بغیر بل کی منظوری ممکن نہیں۔ بل کی منظوری کے بعد بھی صدر ٹرمپ کے لیے اسے ویٹو کرنے کا اختیار موجود ہے جسے غیر مؤثر کرنے کے لیے 67 سینیٹرز کی حمایت درکار ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیانات اور بدن بولی سے تو لگتا ہے کہ انھیں یہ بل پسند نہیں۔
صدر ٹرمپ پولیس کے بجٹ میں کمی کے سخت مخالف ہیں اور وہ خود کو فخر سے صدر برائے لا اینڈ آرڈرکہتے ہیں۔ پیر کو انھوں نے پولیس کے معاملات پر غور کے لیے ملک بھر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کا اجلاس طلب کیا، جس میں حالیہ مظاہروں اور ان سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔ اس بیٹھک میں نائب صدر، اٹارنی جنرل، دامادِ اول جیررڈ کشنر اور اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔ میٹنگ کے خاتمے پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل، غیر مشروط اور پُرجوش حمایت کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر پولیس حکام نے صدر ٹرمپ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ عملی اعتبار سے اس اجلاس کی حیثیت غیر رسمی مشاورت سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ امریکہ میں پولیس شہری انتظامیہ کو جواب دہ ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ پولیس بجٹ میں کٹوتی اور منیاپولس بلدیہ کی جانب سے شعبۂ پولیس کو تحلیل کیے جانے کی قرارداد سے قدامت پسند طبقے کو ڈرا رہے ہیں۔ ایوانِ صدارت کی پریس سیکریٹری محترمہ کیلی مک اینینی (Kayleigh Mc Enany)نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی پولیس کے بجٹ میں کٹوتی اور شعبہ پولیس ختم کرکے امریکیوں کی جان خطرے میں ڈالنا چاہتی ہے۔ قدامت پسند میڈیا کی جانب سے یہ بات اس شدومد سے دہرائی گئی کہ صدارت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈیموکریٹ حریف جوبائیڈن بھی دبائو میں آگئے اور انھوں نے ترنت وضاحت فرمائی کہ وہ پولیس میں اصلاح چاہتے ہیں، تاہم پولیس بجٹ میں کٹوتی کی حمایت نہیں کریں گے۔ نومبر میں صدرٹرمپ کے ساتھ امریکہ کے قانون ساز بھی اپنی نشستیں برقرار رکھنے کے لیے ووٹروں کی منت سماجت کررہے ہیں۔ پولیس اصلاح کے حامیوں نے دھمکی دی ہے کہ بل کی مخالفت کرنے والے ارکانِ کانگریس کو انتخاب والے دن پچھتانا پڑے گا۔
امریکی محکمہ صحت اور سائنس دانوں کو ہزاروں افراد کے اجتماعات پر سخت تشویش ہے۔ انھیں کورونا کی صورتِ حال دوبارہ بے قابو ہونے کا خدشہ بے چین کیے ہوئے ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق انجہانی جارج فلائیڈ بھی کورونا وائرس میں مبتلا تھے۔ قومی مرکز برائے انسدادِ امراض مظاہروں کے درمیان ماسک لگانے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی تلقین کررہا ہے، لیکن جذباتی مظاہرین سائنس دانوں کی ہدایات کو مسلسل نظرانداز کررہے ہیں۔ اس قسم کے جذباتی مکالمے سنائی دے رہے ہیں کہ
۔٭ ہماری جان خطرے میں پڑتی ہے تو کوئی حرج نہیں، ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
۔٭ ہمیں کورونا کے مقابلے میں پولیس سے زیادہ خطرہ ہے۔
۔٭ میرے کسی عزیز کو کورونا نہیں ہوالیکن میرے کئی دوست پولیس سفاکی کا نشانہ بنے۔
کل جارج کو ہیوسٹن کے قبرستان میں سپردِخاک کیا جائے گا۔ Black Lives Matterکی قیادت احتجاجی تحریک کو اس کے منطقی انجام یعنی سیاہ فاموں کے ماورائے عدالت قتل کے خاتمے تک جاری رکھنے کے لیے پُرعزم نظر آرہی ہے۔
…٭…٭…
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔