کیا سائنس دانوں نے موسمی تبدیلی کا خطرہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا؟
نومی اوریسکس اورایرک کونوے/ترجمہ:ناصر فاروق
دورِ نیم تاریک کی ابتدا میں، طبعیات کے سائنس دان، جنھوں نے ’موسمی تبدیلی‘ کے ہولناک اثرات سے خبردار کیا تھا، اُن پر ’’سنسنی پھیلانے‘‘ کا الزام لگایا گیا، اورکہا گیا کہ یہ لوگ ذاتی مفادات کی خاطر (اپنی سائنسی مہم کے لیے مالی حمایت میں اضافہ) توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا اپنی سماجی اہمیت اور ساکھ بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ آغاز میں ان الزامات نے عوامی فضیحت کی صورت اختیار کی، بعد میں یہ دھمکیوں اورعدالتی طلبیوں کی صورت میں ڈھل گئے۔ ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ ان سائنس دانوں کے وہ مطالعاتی کاغذات قانونی طورپر ضبط کرلیے گئے، جن میں ’برٹش پیٹرولیم آلودگی برائے2011‘کی دستاویزی تفصیل شامل تھی، اور اس سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کا ذکر تھا۔ اگرچہ سائنسی کمیونٹی کے رہنماؤں نے اس ساری صورت حال پر احتجاج کیا، تاہم مخالفین کے مطالبات بھی تسلیم کرلیے، اور اس طرح اپنے خلاف دباؤ کو خود قوت فراہم کی۔ یہ دباؤ حکومت اورصنعتی اداروں کی جانب سے تھا، وہ صنعتی ادارے جنھیں حکومت کی جانب سے باقاعدہ سبسڈیز سے نوازا جاتا ہے۔ قانون منظور کیا گیا (خاص طور پر امریکہ میں)، جس کے ذریعے سائنس دانوں کو حدود و قیود کا پابند کیا گیا، ہدایت دے دی گئیں کہ انھیں کن چیزوں کا مطالعہ کرنا چاہیے اورکیسے مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ بدنام زمانہ ہاؤس بل 819ء سے شروع ہوا، اسے “Sea Level Rise Denial Bill” کہا جاتا ہے، اسے سن 2012ء میں شمالی کیرولائنا کی حکومت نے منظور کیا (یہ اب اٹلانٹک کونٹی نینٹل شیلف کا حصہ بن چکا ہے)۔ اس دوران حکومتی اخراجات ایکٹ 2012 نے سائنس دانوں کو پابند کیا کہ کانفرنسوں میں شرکت کریں اور اپنی تحقیق کے نتائج سے آگاہ کرتے رہیں۔ اگرچہ یہ اپنے تعارف سے ہی ایک احمقانہ بل معلوم ہوتا تھا، مگریہ بل امریکی U.S.National Stability Protection Act برائے 2025کے لیے مثالی نمونہ قرار دیا گیا۔ جبکہ اس کے نتیجے میں تین سو سے زائد سائنس دان قید و بند میں دھکیلے گئے، اُن پر’’لوگوں کو ناحق موسمی تبدیلیوں سے ڈرانے، اور اُن کی زندگی خطرے میں ڈالنے‘‘ کے الزامات تھے۔ دلیل یہ دی گئی کہ سائنس دان اُس معاشی ترقی کا راستہ روک رہے ہیں، جو ’موسمی تبدیلی‘ سے نمٹنے کے لیے لازمی ہے۔ جب سائنس دانوں نے اپیل کی تو امریکی عدالتِ عظمیٰ نے اُن کے تحفظات تسلیم کیے، اور حکومت کو ہدایت کی کہ دھمکی آمیز لب و لہجہ ترک کیا جائے۔
کیا سائنس دانوں نے موسمی تبدیلی کا خطرہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا؟ وہ غیر ارادی طور پر اس ذمے داری سے جان چھڑا رہے تھے؟ یقیناً، کچھ سائنس دانوں کے مفادات بھی کردار ادا کررہے تھے، یہ بھی سچ ہے کہ ’دورِنیم تاریک‘ کی ابتدا میں موسم پر تحقیق کی جانب فنڈز کا بہاؤ تیز بھی ہوا تھا۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کس طرح غیر معمولی دولت مند قومیں فنونِ لطیفہ پر بہت زیادہ خرچ کرتی ہیں، اُن کی وضاحت یہ ہے کہ فنکار وہ پہلے انسان تھے جنھوں نے تبدیلیوں کی آمد اور اہمیت محسوس کی تھی۔ موسمی تبدیلی کے تناظر میں سب سے اہم ادبی کام امریکی مصنف کم اسٹینلے رابنسن کی سائنس فکشن Forty Signs of Rain, Fifty DegreesBelow, and Sixty Days and Counting قرار دی جاتی ہے۔ مجسمہ ساز دارو روبلیٹو نے بھی اس معاملے پر آواز بلند کی تھی، خاص طور پر انواع کے خاتمے کی جانب اشارہ کیا تھا، اُس کا بیشتر کام ضائع ہوگیا ہے، تاہم اُس کے کام کے اثرات ریکارڈ پر ہیں۔ چند ماہرینِ ماحولیات نے بھی ممکنہ خطرات کی پیش بینی کردی تھی، ان میں آسٹریلوی کلائیو ہیملٹن اور پال گلڈنگ قابل ذکر ہیں۔ یہ ’’ڈرانے‘‘ والے سائنس دان، فنکار، اور نقاد یکساں طور پر درست پیش بینی کررہے تھے، درست اندازے لگا رہے تھے، اور بدلتے موسم کی خبر دے رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ سن 2010ء کے آس پاس، یہ واضح ہوچکا تھا کہ سائنس دان بھی خطرے کی سنگینی کا غلط اندازہ لگارہے تھے، یہ’’خطرہ‘‘ توقع سے بہت بڑھ کر تھا، موسم درجۂ حرارت کی ساری پیش گوئیاں غلط ثابت کررہا تھا، سمندروں کی سطح بڑھتی جارہی تھی، اور آرکٹک برف تیزی سے پگھل رہی تھی۔
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ انسانوں نے دورِ نیم تاریک کی ابتدا میں ہی مناسب اقدامات کیوں نہ اٹھائے، جب کہ یہ اُس وقت ممکن تھا؟ عام آدمی کی لاپروائی قابل فہم ہے، مگر سائنس دانوں نے کس طرح اس معاملے میں کوتاہی برتی، جب کہ یہ اُن کی مہارت اور ذمے داری ہے۔ انھوں نے کیوں معاشروں کو خبردارنہیں کیا؟ یا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ پہلے ہی کافی خبردار کرچکے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ’موسمی تبدیلی‘ کے عظیم حجم کا اندازہ لگانے میں ناکام ہوئے تھے۔ اس سوال پر روشنی ڈالنے کے لیے چند علماء نے مغربی سائنس میں ’علم کی تعریف کے سانچے‘ پر نکتہ اٹھایا، خاص طور پر انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی میں۔ یہ ادارتی اور علمی دونوں سطح پر ایک منظم کوشش تھی۔ اُن مغربی ’اصولوں‘ کا جائزہ لیا گیا، جن کی بنیاد پر سائنسی ماہرین کسی شعبے میں تحقیق کے لیے اعلیٰ سطح کی مہارت حاصل کرتے ہیں۔ یہ “reductionist” طریقہ کار تھا (مسائل اوراشیاء کا آسان ٹکڑوں میں تجزیہ)، یہ طریقہ کار فلسفی رینے ڈیکارٹ سے منسوب کیا جاتا ہے، تاہم یہ انیسویں صدی کے آخر میں پختہ ہوا، یقین کیا گیا کہ یہ طریقہ کار مسائل کی پیچیدہ گتھیوں کو آسانی سے ایک ایک کرکے علمی انداز میں سلجھا دیتا ہے۔
جب reductionismنے اپنی افادیت بہت سے علمی شعبوں میں ثابت کی، خاص طور پر کوانٹم فزکس اور طبی طریقوں میں، یہ تحقیق کے پیچیدہ طریقہ کار کی راہ میں حائل ہوگئی۔ یوں اس طریقہ کار نے سائنس دانوں کے لیے موسمی تبدیلی کے خطرے کی ’’سنگین‘‘ پیش بینی دشوار بنادی۔ بہت سے ماہرین ایسے تھے جنھیں اس خطرے کی شدت کا درست اندازہ ہی نہیں ہوسکا۔ دیگر ماحولیاتی مسائل میں بھی اسی طرز کی رکاوٹیں سامنے آئیں۔ مثال کے طور پر کئی سال تک سائنس دان اوزون کی گھٹتی ہوئی تہ میں قطبی کرۂ ہوائی (polarstratospheric)کے بادلوں کا کردار نہیں سمجھ سکے، جو وہ خطہ انٹارکٹک میں ادا کرتا رہا ہے، وجہ اس کی یہ رہی کہ ماہرینِ کیمیا جو اس معاملے میں کیمیائی ردعمل پرکام کررہے تھے، وہ یہ تک نہیں جانتے تھے کہ قطبی کرۂ ہوائی میں کوئی بادل بھی پائے جاتے ہیں! یہاں تک کہ وہ سائنس دان جوموسمی تبدیلی کے بارے میں کھلے ذہن سے سوچتے تھے، یہ محسوس کرتے تھے کہ اس معاملے میں اُن کی مربوط رائے نامناسب ہوگی، کیونکہ اس کے لیے بڑی مہارت درکار تھی، اور لگتا یہ تھا کہ ایسا کرنے سے متعلقہ ماہرین کا کام متاثر ہوگا۔
ردعمل یہ ہوا کہ سائنس دانوں اور سیاست دانوں نے آئی پی سی سی بنادی، تاکہ مختلف شعبوں کے ماہرین اس سارے مسئلے پر اپنی اپنی رائے دے سکیں(1)۔ مگر، شاید ان ماہرین میں اختلافِ رائے شدید تھا، یا شاید اپنے اپنے حکومتی سرپرستوں کی جانب سے شدید دباؤ تھا، یا پھر وہ مذکورہ ’’سائنسی روایات‘‘ میں جکڑے ہوئے تھے۔ یوں یہ آئی پی سی سی بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر معاملات میں معاشرتی کردار نظر انداز کردیا گیا، جو نظام کا غالب محرک ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موسمی تبدیلی کی وجہ ماحولیاتی ارتکازات میں اضافہ ہے، جیسا کہ سائنس دانوں نے گرین ہاؤسز سے آلودگی کے اخراج سے سمجھا، اور کیونکہ یہ گیسز انسانی سرگرمیوں سے ہی پیدا ہورہی ہیں، جنگلات کے اجڑنے سے جگہ گھیر رہی ہیں، اور تیل کے جلنے سے بن رہی ہیں… مگر وہ یہ نہ کہہ پائے کہ اس سب کی وجہ انسان اور اُس کے طریقے ہی ہیں۔
دیگر علماء نے مغربی تہذیب کی بنیادوں پر نظرکی، مذہبی روایات میں قدرتی سائنسز کا جائزہ لیا۔ جیسا کہ ابتدائی صدیوں میں مذہبی اخلاقیات کی حکمرانی نے رہن سہن، لباس، خوراک، اور طرزِ زندگی وضع کی تھی، مادی زندگی پر روحانی زندگی کوترجیح دی گئی تھی۔ ان سائنس دانوں نے جدید سائنسی طریقہ کار پر تنقید کی، اور قدیم روایتی طریقہ علم و تحقیق میں اپنے مؤقف کی وضاحت کی۔ یوں انھوں نے موسمی تبدیلی سمیت سارے جدید مسائل جدید طریقۂ تحقیق کے کاندھوں پر ڈال دیے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں چند سائنس دانوں نے محسوس کرلیا تھا کہ سمندری طوفانوں کی شدت غیر معمولی ہوچکی تھی۔ یہ بالکل اس فزیکل تھیوری کے مطابق تھا، کہ جب سائیکلو جینسس خطوں میں سطح سمندر پر درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے، طوفانوں کی شدت میں اضافے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ سائنس دان اپنے ساتھیوں کے دباؤ پراس تلخ حقیقت کو پُرزور انداز میں سامنے نہ لاسکے۔
مزید یہ کہ اکیسویں صدی کے سائنس دانوں کا یقین تھا کہ کوئی دعویٰ صرف اُس وقت قابلِ توجہ ہوسکتا ہے جب وہ فشیرین شماریات(Fisherian statistics) (ڈیٹا میں شماریات کے ذریعے امکان کے تناسب کا خاص طریقہ کار) کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہو۔ کہا گیا کہ زیادہ درجہ حرارت کی بنیاد پر طبیعاتی، کیمیائی اور حیاتیاتی کارگزاریوں پر پڑنے والے اثرات مذکورہ معیارِ شماریات کی رو سے قابلِ توجہ یا تشویش ناک نہیں ہیں۔
مؤرخین طویل عرصے سے اس بات پر بحث کرتے رہے ہیں کہ آخر یہ ’شماریاتی معیار‘ کیوں تسلیم کیا گیا ہے؟ اس کی نہ تو کوئی علمی بنیاد ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس ریاضیاتی اہمیت ہے۔
مغربی سائنس دانوں نے ایک ایسی ’علمی ثقافت‘ تشکیل دی ہے جس کی بنیادیں ’’ٹھوس وجود‘‘ پر یقین، اور نظرنہ آنے والی اشیاء کے لیے بے یقینی پر استوار ہیں۔ چنانچہ جب موسمی تبدیلیوں کے نمونے سامنے آرہے تھے، سائنس دانوں کا اصرار تھا کہ انھیں یقینی طور پر نظام فطرت میں ’’انسانی سرگرمیوں کی مداخلتوں(کاربن کا اخراج، دھواں، آلودگی، اور دیگر مضرت رساں اجزاء)‘‘ کے اثرات قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ عام لوگ بھی سائنس دانوں کی ان باتوں میں آگئے، اور یہی سمجھتے رہے کہ سائنس دان پڑھے لکھے قابل لوگ ہیں، یقیناً ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے! سیاست دان بھی اسی خام خیالی میں مگن رہے کہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بڑا وقت پڑا ہے۔ ان اندھے بھروسوں کا تلخ پہلو تادیر چھپا نہ رہ سکا: سائنس دانوں نے تاریخ کا اہم ترین موقع گنوادیا، اور اس زیاں کے ہولناک اثرات وہاں تک جارہے ہیں، جہاں سارے نتائج تباہ کن نظر آرہے ہیں۔
سال 2012ء تک سیمنٹ کی پیداوار، اور قدرتی ایندھن کے جلنے سے 365 ارب ٹن سے زائد کاربن ماحول میں سرایت کرچکا تھا۔ مزید 180 ارب ٹن کاربن جنگلوں کے اجڑنے سے فضا میں بس گیا تھا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس سارے اخراج کا نصف سے زائد ستّر کی دہائی کے بعد کا ہے، کہ جب سائنس دان ایسے کمپیوٹر بناچکے تھے، جو بتارہے تھے کہ گرین گیسز ہاؤس کس قدر حدت خارج کررہے تھے۔ تاہم یہ اخراج United Nations Framework Convention on Climate Change (UNFCCC) کے قیام کے بعد بھی تسلسل سے جاری رہا۔ سن1992 ء اور 2012ء کے درمیان، مجموعی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 38 فیصد اضافہ ہوا۔ تھوڑا بہت اضافہ قابلِ فہم تھا،کیونکہ ترقی پذیر ملکوں میں بھی اب توانائی کا استعمال بڑھ چکا تھا۔ مگر یہ وضاحت طلب ہے کہ امیر قومیں اُس وقت قدرتی ایندھن کی پیداوار میں ڈرامائی اضافہ کررہی تھیں کہ جس لمحے موسمی تبدیلی مسلسل نمایاں ہورہی تھی۔ وہ ممالک جو سب سے زیادہ اس معمے کو پیچیدہ تر بنارہے تھے، وہ دنیا کے امیر ترین ممالک امریکہ اور کینیڈا تھے۔
سن 2005ء میں ایک اہم موڑآیا جب امریکی انرجی پالیسی ایکٹ کے تحت شیل گیس ڈرلنگ کو ریگولیٹری نگرانی سے استثنا دے دیا گیا۔ اس مثال نے گویا سارے بند کھول دیے، اور شیل گیس پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔ اُس وقت امریکہ میں شیل گیس کی پیداوار سالانہ پانچ کھرب کیوبک فیٹ سے کم تھی۔ سن 2035ء تک یہ 13.6فیصد بڑھ چکی ہوگی، کیونکہ امریکہ نے شیل گیس کی پیداوار اور متعلقہ ٹیکنالوجی کی دیگر قوموں کو برآمد بہت بڑھادی ہے۔ سن 2035ء تک شیل گیس کی مجموعی پیداوار دو سوپچاس کھرب کیوبک فیٹ سالانہ تک بڑھ چکی ہوگی۔
شیل گیس کی پیداوار میں اضافے کا یہ تیز رجحان کینیڈا کے صنعتی نظام میں بھی سرایت کرچکا تھا، سرمایہ کار کمپنیاں بھرپور مسابقت کررہی تھیں، قدرتی ایندھن کی اضافی پیداوار کے نت نئے ذرائع تلاش کیے جارہے تھے، ’’جنون‘‘ یا ’’غضب‘‘ کی اصطلاح بھی ان سرگرمیوں کی وضاحت کے لیے ناکافی ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں کینیڈا ماحولیاتی حساسیت کے حوالے سے ترقی یافتہ ملک خیال کیا گیا، مگر سال 2000ء کے آس پاس یہ خیال اُس وقت بدل گیا جب کینیڈین حکومت نے صوبہ البرٹا میں تارکول ملی ریت کے عظیم ڈھیر لگانے شروع کیے، اور ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں شیل گیس کی پیداوار تیز کردی۔ یہ ایک معلوم حقیقت تھی کہ دنیا کے ستّر فیصد تارکول ذخیرے کینیڈا میں تھے، جس سے موسمی تبدیلی میں کینیڈا کے کردار کی بڑی حد تک وضاحت ہوتی ہے: وہ اب پیچھے ہٹ رہا تھا، کیوٹو پروٹوکول سے دست بردار ہوگیا تھا، جبکہ اس پروٹوکول کے تحت وہ آلودگی اور دھویں کے اخراج میں 6 فیصد تک کمی لانے کا پابند تھا۔ مگر وہ اب اس میں 30 فیصد اضافہ کرچکا تھا۔
اس دوران امریکہ کی تقلید میں کینیڈا جارحانہ انداز میں شیل گیس کے اخراج میں عَلانیہ اضافہ کررہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ماحول میں کھل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کررہا تھا۔ قدرتی گیس کی بڑی مقدار میں ترسیل سے منڈی کے بھاؤ میں بھی بھونچال آگیا تھا، اورچین کے سوا ہر جگہ توانائی پیدا کرنے والی نوآموز صنعتوں کونقصان پہنچ رہا تھا۔
سستی قدرتی گیس نیوکلیئر پاور کی صنعت پر بھی منفی اثر ڈال رہی تھی، جو کہ پہلے ہی کمزور تھی۔ اس صورت حال سے امریکہ سب سے زیادہ متاثر تھا۔ حالات اُس وقت اور خراب ہوگئے جب امریکہ نے بائیو ڈیزل فیول کے استعمال پر پابندی کے قوانین نافذ کردیے، پہلے یہ بذریعہ فوج لاگو کیے گئے، اور پھر منفی پراپیگنڈے سے ممکن بنائے گئے۔ اس طرح بائیو ڈیزل کی ابھرتی ہوئی منڈی بھی متاثر ہوئی۔ وفاق اور ریاستی سطح پر باقاعدہ بل منظور کیے گئے، جن میں کسی بھی دوسری قسم کی توانائی کی پیداوار پر قدغن لگائی گئی، بالخصوص بجلی پیدا کرنے والی صنعت کونشانہ بنایا گیا۔ الیکٹرک گاڑیوں کی خرید وفروخت کا رستہ روکا گیا، اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ قدرتی ایندھن کے سوا ہر دوسرا ذریعۂ پیداوارِ توانائی ناکام بنادیا جائے۔
اس دوران آرکٹک سمندر کی برف پگھلتی چلی گئی، اور وہ سمندری گزرگاہیں کھلتی چلی گئیں، جو قطب شمالی میں تیل اور گیس کے ذخیروں تک رسائی دے سکتی تھیں۔ سائنس دانوں نے پھر محسوس کیا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہورہا تھا۔ 2010ء کی دہائی کے وسط میں آرکٹک سمندر 1979ء کی نسبت 30 فیصد وسعتِ سطح گنوا چکا تھا۔ جب پہلی بار سیٹلائٹ سے درست پیمائش کی گئی، ہر دہائی میں یہ نقصان 13.7فیصد تک سامنے آیا۔
سال 2007ء خاصا پریشان کن تھا کہ جب شمال مغرب کا وہ رستہ کھل گیا، آرکٹک مہم جو جس سے گزرنے کی طویل عرصے سے آرزو کررہے تھے۔ تاریخ میں پہلی بار قطب شمالی کے سمندر پوری طرح مہم جوئی کے قابل ہوچکے تھے۔ اب سائنس دان محسوس کررہے تھے کہ صورت حال تشویش ناک ہورہی ہے، اور وہ وقت دور نہیں جب یہ سمندر منجمد نہیں رہیں گے۔
مگر کاروباری حلقے میں اس صورت حال کو بھی مزید گیس اور تیل کی کھوج کا سنہرا موقع ہی سمجھا گیا۔ اس موقع پر شاید کوئی یہ سمجھے کہ حکومتوں نے آگے بڑھ کراس خوفناک صورت حال سے نمٹنے کی کوئی کوشش کی ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہوا، وہ بے حس اور لاتعلق بنی رہیں۔ مثال کے طور پر2012ء میں روسی حکومت نے امریکی تیل کی کمپنی Exxon Mobilکے ساتھ معاہدہ کیا، جس کے تحت کمپنی کو روسی آرکٹک میں تیل کی تلاش کی اجازت دی گئی، اور اس کے بدلے روس کو امریکہ کی شیل آئل ڈرلنگ ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کی گئی۔ آخر کس طرح یہ طاقت ور ترین اور امیر ترین ریاستیں قدرتی ایندھن کی مہلک پیداوار کو اس قدر فروغ دے سکتی تھیں؟ یقیناً یہ اُس بہت بڑے تعلق کا انکارکررہی تھیں جو قدرتی ایندھن کی پیداوار اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا موسمی تبدیلی سے تھا۔ اُن کا یقین تھا کہ روایتی ذرائع توانائی ختم ہورہے تھے، اور وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ قدرتی گیس کوئلے کے مقابلے میں نصف کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتی ہے۔ سیاست دان اور ماہرینِ معاشیات، یہاں تک کہ کئی ماہرینِ ماحولیات بھی خود کو قائل کررہے تھے کہ شیل گیس کی تشہیر ایک ماحولیاتی اور اخلاقی ضرورت ہے۔ تاہم یہ دلیل بہت سے حقائق نظرانداز کرگئی تھی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا ماحول میں مسلسل خوفناک اخراج بہت زیادہ بڑھ چکا تھا۔ حدت بڑھتی جارہی تھی۔ سائنس دان اس کی پیش بینی کرچکے تھے، مگر انھیں اکادمی جریدوں میں دفن کردیا گیا تھا۔ بہت سے تجزیے یہ قیاس آرائیاں بھی کررہے تھے کہ گرین ہاؤس گیسز بجلی کی پیداوار میں کوئلے کی جگہ سنبھال لیں گی۔ مگر یہ سب حقائق کے مقابلے میں غیر حقیقت پسندانہ رویہ تھا۔ ساری دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا۔
اکثر علاقوں میں گیس صرف ایک اضافی سستی متبادل توانائی کے طورپر ہی سامنے آسکی ہے۔ اس سے قدرتی ایندھن کی پیداوار اور استعمال کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی نظرانداز کردیا گیا کہ کوئلے کی باقیات ٹھنڈی ہوکرانسانی صحت پرکس قدر تباہ کن اثرات مرتب کررہی ہیں۔ اور شاید سب سے بڑھ کر، سستاقدرتی ایندھن، جسے سبسڈیز سے سہارا دیا جاتا ہے، اوراُس پر کوئی اضافی لاگت نہیں لگائی جاتی، یہ سب سرگرمیاں توانائی کے ابھرتے ہوئے دیگربے ضرر ذرائع پرحملہ کرتی ہیں۔ شمسی توانائی، ہوا اور بائیوفیول سے حاصل ہونے والی توانائی کے ذرائع شدید متاثر ہوتے ہیں۔ یوں زیرو کاربن دنیا کا خواب چکنا چور ہوجاتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قدرتی ایندھن کی مہلک پیداوار بڑھتی جاتی ہے، گرین ہاؤس گیسزکا اخراج بڑھتا جاتا ہے، اور بدلتا موسم ماحول کی تباہی کے خدشات بڑھاتا جاتا ہے۔
سن 2001ء میں، آئی پی سی سی نے پیشگوئی کردی تھی کہ 2050ء تک ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار دگنی ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ہی درجہ حرارت چار ڈگری اوپر چلا جائے گا، اور بڑی بڑی نامعلوم تبدیلیاں ماحول میں در آئیں گی۔
حواشی
1) یہ بات بڑی بنیادی اور انتہائی قابلِ غور ہے کہ جب طبی ماہرین یا فوڈ کمپنیاںکوئی دوا یا پراڈکٹ تیار کرتے ہیں تو اس کے ممکنہ سائیڈ افیکٹس (ضمنی نقصانات) ذہن میں رکھتے ہیں، اور تاریخِ زائدالمعیاد کا اندراج ضرور کرتے ہیں، یعنی کسی بھی مصنوعات کے نتائج نظر میں رکھتے ہیں۔ یہ محدود پیمانے پر آسان لگتا ہے، اور چند معاملات میں آسان ہوتا بھی ہے۔ لیکن جب سائنس دان کوئی ایسی چیز بناتے ہیں، کوئی مشین ایجاد کرتے ہیں، یا پیداکرتے ہیں، جس کے فطرت پر بڑے پیمانے پر گہرے اثرات پڑتے ہیں، یہ وہ اثرات یا ردعمل ہوتے ہیں جن کے ممکنہ ہولناک نتائج سے سائنس دان قطعی لاعلم ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس کی پیشگی احتیاط نہیں کرتے، اور پیش بینی بھی نہیں کرپاتے۔ یوں زمین پر نظامِ الٰہی میں بگاڑ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جدید سائنس پرستوں کے لیے یہ سمجھنا لازم ہے کہ نظامِ الٰہی میں انسانی مداخلت کی رسّی زیادہ دراز نہیں ہے، جب جب یہ مداخلت حد سے تجاوز کرے گی، ایسے سنگین نتائج سامنے آجائیں گے کہ جن سے سارے ماہرین سرجوڑ کر بھی نہیں نمٹ سکیں گے۔ بڑھتے چڑھتے طوفان، بڑھتی گرمی، اور کورونا وائرس اس کی سادہ سی مثال ہیں۔