مالی میزانیہ کے بعد سیاسی میزانیہ

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب پورا معاشی منظرنامہ تبدیل ہوگیا

نئے مالی سال2020-21ء کے لیے مالی میزانیہ تو طے ہوچکا ہے، سیاسی میزانیہ بھی طے ہونے جارہا ہے۔ مالی میزانیہ میں غریب کے لیے بوجھ ہوگا اور اشرافیہ کے لیے رعایتیں۔ مالی میزانیہ آئی ایم ایف کی روشنائی سے لکھا جارہا ہے، اور سیاسی میزانیہ تحریک انصاف کی ساکھ بچانے کا کھیل ہے۔ حکومت مالی سال 2020-21ء کے بجٹ میں ریونیو ہدف 45 کھرب سے 46.7 ارب روپے طے کرچکی ہے، تاہم اس معاملے میں حکومت اورآئی ایم ایف کے ریونیو اہداف میں فرق ہے۔ ریونیو کے منصوبے پر آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا۔ آئی ایم ایف نے کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار پر پڑنے والے اثرات کو دیکھتے ہوئے ایف بی آر کے ٹیکس ہدف کو 48 کھرب روپے سے کم کرکے 39 کھرب روپے تک کیا ہے۔ آئی ایم ایف کو آگاہ کیا گیا ہے کہ حکومت بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کرسکتی کیونکہ لوگ کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے نئے ٹیکس اقدامات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف اور حکومت نے ٹیکس اقدامات کے تسلسل پر ایک سمجھوتا کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امیر لوگوں کو ٹیکس مراعات دینے سے گریز کرے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان صرف اُن شعبوں کو مراعات دینے پر توجہ دے جن میں کمزور اور غریب عوام کو فائدہ ہو۔ کچھ شعبوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی تجویز پر برآمدات پر مبنی پانچ شعبوں ٹیکسٹائل، کھیلوں، سرجیکل، قالین اور چمڑے کے لیے موجودہ ٹیکس شرح برقرار رہے گی۔ 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ایف بی آر کا تخمینہ ہے کہ جزوی طور پر لاک ڈائون باقی رہنے کی صورت میں آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 450 ارب روپے کے محصولاتی نقصان کا امکان ہے۔ لاک ڈاؤن میں توسیع کی صورت میں ٹیکس ادارے میں 350 ارب روپے کا مزید شارٹ فال دیکھا جائے گا۔
سیاسی میزانیہ حکومت کا امتحان ہوگا کہ وہ اپنے دعووں کے مطابق شوگر اسکینڈل سمیت بدعنوانی میں ملوث بیوروکریٹس، سیاسی شخصیات اور دیگر سب کے لیے انصاف کی میزان سجا سکے گی یا نہیں! یہ بجٹ حکومت کے دوسال مکمل ہونے کا موقع بھی ہے، اور یوں تحریک انصاف کی حکومت اپنے تیسرے پارلیمانی سال کی جانب بڑھنا شروع ہوگی۔ پانچ سال کی مدت میں کسی بھی حکومت کے لیے تیسرا سال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ چوتھے سال تو ملک کی بیوروکریسی بھی آنکھیں دکھانا شروع ہوجاتی ہے، اور سیاسی جماعتیں بھی پر پرزے نکال کر اگلے عام انتخابات کی تیاری میں جت جاتی ہیں۔ یوں سیاسی ہنگامہ خیزی اور ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے گزرے ہوئے دو سال ہر لحاظ سے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ملک میں احتساب ہوا اور نہ بیرونِ ملک سے ڈالروں کی بارش ہوئی، کاروباری طبقہ پریشان رہا، افراطِ زر اور مہنگائی بے قابو رہی، روزگار ملا اور نہ سماجی تحفظ۔ وزیراعظم کے شہر لاہور میں پلاٹوں پر قبضوں کے لیے قبضہ مافیا سرگرم رہا اور ابھی تک ہے۔ پنجاب آبادی اور وسائل کے اعتبار سے ملک کا بڑا صوبہ ہے، یہاں زراعت اور صنعت دونوں شعبے بری طرح نظرانداز رہے۔ ان دو سال میں چار بار تو چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس تبدیل ہوئے، جس سے انتظامی امور بری طرح متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مالی سال 2020ء بدترین ثابت ہوا جس میں دنیا کی سب سے بلند شرح مہنگائی کا مشاہدہ کیا گیا، یہی وجہ رہی کہ اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا اور نجی شعبے نے صنعتی نمو اور خدمات میں رکاوٹ بننے والی مہنگی رقم کا قرض لینا بند کردیا۔ اس سال جنوری میں افراطِ زر کی شرح بلند ترین سطح 14.6 فیصد پر تھی۔ تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب پورا معاشی منظرنامہ تبدیل ہوگیا جس کے باعث اسٹیٹ بینک شرح سود کو 5.25 فیصد تک کم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ فیصلہ اُس وقت لیا گیا جب تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث مہنگائی ہوئی۔ یہ حکمت عملی حکومت کے معاشی منیجرز کی ناقص پالیسی تھی۔ حالیہ 2 ماہ کے دوران حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی۔ اس حکومت کے اپنے اندازے کے مطابق معیشت کی مکمل بحالی کے لیے 30 سے 40 کھرب روپے درکار ہیں، کیونکہ بحران کی وجہ سے کم ٹیکس اکٹھے کیے جاسکے ہیں، لہٰذا یہی فرق بجٹ میں خسارے کی شکل میں سامنے آئے گا۔ تاہم بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اور حکومتی اخراجات کو مزیدکم کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں منجمد کرنے کی تجویز دی ہے، اور حکومت سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس چوری روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کرے۔ آئی ایم ایف نئے مالی سال میں 5100 ارب کا ٹیکس ہدف مقرر کرنے پر زور دے رہا ہے، جبکہ وزارتِ خزانہ چاہتی ہے کہ یہ ہدف4600 ارب روپے تک رکھا جائے۔ کورونا وائرس کے باعث گزشتہ مالی سال کی آخری ششماہی کی طرح آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار رہیں گی۔
کورونا کے بعد اب ٹڈی دل نے زراعت تباہ کردی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس صورت حال میں حکومت ہر شعبے میں اخراجات میں کمی لائے، لیکن دفاعی بجٹ میں کمی مشکل ہوگی۔ نئے مالی سال میں دفاعی بجٹ کو دو سو ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 1400ارب تک لایا جاسکتا ہے۔ بجٹ میں نئی گاڑیوں اور فرنیچرکی خریداری پر پابندی عائد رہے گی، جبکہ نئی مستقل نوکریوں کو بھی مؤخر رکھا جائے گا۔ آئندہ بجٹ میں سودکی ادائیگیوں کے بجٹ کو کم نہیں کیا جائے گا، اور نئے مالی سال میں مقامی قرضوں کا حصول کم کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں کٹوتی کی آئی ایم ایف کی تجویز تسلیم نہیں کی گئی، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ ممکن نہیں، اور ٹارگٹڈ سبسڈیز دی جائیں گی۔
مالی میزانیہ کے ساتھ ساتھ حکومت سیاسی میزانیہ بھی لا رہی ہے جس میں اپوزیشن کے لیے اچھی خبریں نہیں ہیں۔ یہ میزانیہ دراصل تحریک انصاف کے سیاسی دماغوں کا تخلیق کردہ ہے، حکومت مسلم لیگ(ن) کے گرد گھیرا تنگ کرکے سیاسی حقائق اور حکومت کو درپیش چینلجز پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم کو یہ بات باور کرائی جارہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) مفاہمانہ سیاست کے ذریعے دوبارہ اعتماد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، اور طاقت ور حلقوں میں اپنا ہوم ور ک کررہی ہے۔ تحریک انصاف کو خدشہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کا مفاہمانہ بیانیہ کامیاب ہوگیا تو وہ غیر معمولی حد تک ریلیف لے جائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ اسے دیوار سے لگایا جائے اور دوبارہ جارحانہ رویّے کی پچ پر لایا جائے، وہ جارحانہ اور مزاحمتی بیانیہ اپنائے تاکہ تحریک انصاف کے لیے قبولیت کی فضا پیدا ہوتی رہے۔ اسی لیے شہبازشریف کے لیے سیاسی آزادی تنگ کی جارہی ہے۔شہبازشریف کی خاموشی چال سمجھی جارہی ہے۔ شہبازشریف کو اندازہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف حکومت کی طاقت کے ساتھ بول رہی ہے اور اسے کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے حکمت کار چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) جارحانہ بیانیہ اپنائے جسے ’’ہیئت مقتدرہ‘‘ پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا اس وقت عمران خان اور شہبازشریف کی اعصابی جنگ جاری بھی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا شہبازشریف حکومت کے حربوں سے تنگ آکر غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، یا جارحانہ کھیل کے لیے تحریک انصاف کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں پر پائوں رکھ دیں گے۔ تاہم خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) آہستہ آہستہ سیاست میں دوبارہ اِن ہوتی جارہی ہے۔
ملکی سیاست میں عمران خان، جہانگیر ترین اختلافات ایک اہم باب ہیں، مگر ملکی سیاست میں یہ کہانی کوئی نئی نہیں۔ ماضی کی سیاست ایسی بے شمار کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بھٹو اور کھر، آصف زرداری اور ذوالفقار مرزا، نوازشریف اور چودھری نثار علی خان… یہ سب ایک دوسرے کا سایہ تھے، مگر بے رحم سیاست نے مضبوط بندھنوں کو توڑ دیا۔ لہٰذا عمران خان اور جہانگیر ترین کے معاملے کو بھی کچھ فرق کے ساتھ اسی تناظر میں دیکھا جائے۔
اِس وقت عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں، اور سیاسی لحاظ سے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں مسلسل سرپرستی میسر ہے۔ وہ فی الحال قابلِ قبول بھی اس لیے ہیں کہ ان کے کاروباری ارادے اور لمبے چوڑے مطالبات نہیں ہیں۔ ملک کی اصل سیاست وہ نہیں جو نظر آرہی ہو، بلکہ اصل تو یہاں کبھی دکھائی نہیں دیا۔ ماضی میں یہاں جاگیرداروں، صنعت کاروں، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ اقتدار کی ٹرائیکا رہی ہے، یہی ٹرائیکا انتخابی نتائج پیدا کرتی رہی ہے۔ سیاست میں بڑے نام چونکہ مطالبات کے باعث بوجھ بنتے رہے ہیں لہٰذا اِس بار سستا سودا کیا گیا۔ اس لیے حکومت کا سارا بوجھ بھی برداشت کیا جارہا ہے۔ شوکت عزیز بھی غیر سیاسی پس منظر کے باعث سستا سودا تھے لیکن اُن کے کچھ منفی پہلو بھی تھے کہ حکومت وہ چلاتے تھے اور بگڑے سیاسی معاملات سدھارنا چودھری شجاعت حسین کے ذمے تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب چودھری شجاعت حسین کی جگہ کوئی اور ہے۔ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے اسٹیبلشمنٹ کے لیے آئیڈیل رہے ہیں۔ واقعات کے ذکر کی ضرورت نہیں، ماضی میں وہ لال مسجد سمیت ہر جگہ حکومت کے لیے ریلیف کا باعث بنے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کو ختم کرانے میں ان کا بہت کردار رہا۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کے لیے ابھی کوئی بھی مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتا، تاہم یہ کوئی حتمی فیصلہ بھی نہیں ہے، سرپرستی کرنے والوں کی تیاری ہر وقت رہتی ہے۔ ماضی کے وزرائے اعظم کے مقابلے میں عمران خان کی خوبی یہ ہے کہ وہ سیاسی دوستی کو قربان کردینے کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ جہانگیر ترین سمیت سبسڈی لینے والے جب اہم حلقوں کی نظر میں غیر معتبر ٹھیرے تو تحریک انصاف کی قیادت نے ان سے ناتا توڑنے میں دیر نہیں لگائی۔ ملک میں جاگیردار کے خلاف صنعت کار طبقہ بھی تو مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا تھا، جاگیر داروں کی اجارہ داری توڑے کے لیے چند افراد کو دولت بنانے کے زبردست مواقع فراہم کیے گئے اور نہایت امیر لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تخلیق کیا گیا جس نے خود کو پاکستان کے مضبوط سیاسی خاندانوں میں شمار کرلیا۔ شریف خاندان، چودھری خاندان کے علاوہ جہانگیر ترین اور ان کے عزیزہمایوں اختر ان میں شامل تھے۔ ماضی میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی زبردست حمایت میسر رہی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں جہانگیر ترین نے غلط اندازہ لگایا کہ عمران خان کی دوستی کے باعث وہ فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ لیکن تحریک انصاف کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے طیش کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے ہٹانے کا فیصلہ سبق حاصل کرنے کی بہترین مثال تھا، لیکن جہانگیر ترین ہوا کا رخ نہیں سمجھ سکے، جیسے ہی حکومت کو یہ بھنک پڑی کہ اسٹیبلشمنٹ کو ریاستی سبسڈی کا یہ عمل پسند نہیں تو حکومت نے بچائو کی تدبیر کرتے ہوئے کارروائی کی۔
لیکن یہ باب ابھی بند نہیں ہوا، سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ وفاقی وزراء میں خسرو بختیار، پرویزخٹک، غلام سرور خان اس کی بہترین مثال ہیں۔ ایک جانب نیب اپوزیشن لیڈر کے خلاف متحرک ہے، دوسری جانب بے بس بھی ہے کہ اسے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے خلاف تحقیقات میں مشکلات کا سامنا ہے، ایک ماہ بعد بھی محکمہ ریونیو پنڈی نے غلام سرور خان کے اثاثوں کا ریکارڈ نیب کو نہیں دیا۔ نیب راولپنڈی غلام سرور خان کے خلاف اثاثہ جات کیس کی شکایت کی چھان بین کررہا ہے۔ نیب نے اپریل میں محکمہ ریونیو راولپنڈی سے غلام سرور خان کی پراپرٹیز کا ریکارڈ مانگا تھا، ایک ماہ گزرنے کے باوجود محکمہ ریونیو نے ریکارڈ نیب کے حوالے نہ کیا۔ نیب نے غلام سرور خان کی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کا ریکارڈ بھی طلب کر رکھا ہے۔

سپہ سالاراعلیٰ کا دورۂ افغانستان

آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ ایک روزہ دورے پرافغانستان پہنچے۔ پاک فوج کے سالار کے دورے کے دوران قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور افغانستان کے لیے حال ہی میں تعینات ہونے والے پاکستانی نمائندۂ خصوصی محمد صادق بھی ساتھ موجود تھے۔ یہ ملاقات ایک ایسے ماحول میں ہوئی کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ان کے ہمراہ نہیں تھے۔ افغان امور کے لیے اب تمام تر ذمہ داری سابق سفیر محمد صادق کے سپرد کردی گئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اگرچہ وزارتِ امور خارجہ کے سربراہ ہیں مگر اب وہ افغان امور کے لیے سابق سفیر محمد صادق سے رہنمائی لیا کریں گے، اور اب ان کی رائے کو ہی اہمیت ملے گی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے دورے کے دوران صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تعلقات اور بارڈرمینجمنٹ سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال ہوا، اورافغان مفاہمتی عمل پر بھی گفتگو ہوئی۔ کابل میں اس وقت امریکہ، افغان حکومت اور طالبان براہِ راست فریق ہیں، پاکستان کا کردار تینوں کے لیے سہولت کار کا ہے، لیکن یہ کردار ایک لحاظ سے ان تینوں سے اہم بھی ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا جارہا ہے۔ افغان طالبان نے تحفظات کے باوجود پاکستان کو عزت دی۔ پاکستان نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے اور تمام متعلقہ گروہوں کو ساتھ بٹھانے کے حوالے سے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ آرمی چیف کے دورۂ افغانستان سے قبل امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اُن سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد آرمی چیف کا دورۂ کابل امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوشش معلوم ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات سے افغان معاملات کے سیاسی حل، طالبان امریکہ معاہدے میں پیش رفت، اور بین الافغان مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے۔ مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ مزید 716طالبان رہا کردیے گئے ہیں۔ افغان طالبان نے باور کرایا ہے کہ انٹرا افغان طالبان امن مذاکرات 5 ہزار مقید طالبان کی رہائی سے مشروط ہیں۔ زلمے خلیل زاد بھی بار بار دورہ کرکے بین الافغان مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں۔