عالمی ادارۂ صحت کا انتباہ

چین سے شروع ہونے والی عالمی وبا کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی جاری ہے۔ عالمی ماہرین دنیا کو کورونا کی دوسری لہر کا انتظار کرنے کے لیے تیار کررہے ہیں۔ اس دوران میں عالمی ادارۂ صحت نے صوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کو ایک مراسلہ تحریر کیا ہے جس میں پاکستان میں لاک ڈائون میں نرمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے لاک ڈائون کے خاتمے کی شرائط پوری نہیں کی ہیں جس کی وجہ سے کورونا کے پھیلائو میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان دو ہفتے لاک ڈائون اور دو ہفتے نرمی کی پالیسی اختیار کرے، لاک ڈائون کے خاتمے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وبا مکمل کنٹرول میں ہے۔ خبر میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے یہ خط صوبہ پنجاب کی وزیر صحت کو کیوں تحریر کیا ہے؟ انہوں نے براہِ راست وفاقی حکومت کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیا ہے؟ اس سے قطع نظر عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈہانوم گیبریس نے دنیا کی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لاک ڈائون میں نرمی کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔
عالمی سطح پر کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اب تک یہ تاثر تھا کہ خدشات کے برعکس کورونا کے مریضوں کی تعداد اور ہلاکتوں کا تناسب کم رہا ہے، لیکن اب عالمی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی کورونا کے متاثرین میں اضافہ ہوگا۔ بہ ظاہر دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں میں کمی دیکھی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں تشویشناک حد تک صورتِ حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ جب سے کورونا کی وبا نے دنیا کو متاثر کیا ہے اُس وقت سے یہ بحث موجود ہے کہ لاک ڈائون کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ کتنا کیا جائے، کتنا نہ کیا جائے۔ اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی سائنسی اور ٹیکنالوجیکل طاقت امریکہ کے سربراہ نے عالمی ادارۂ صحت کو ہی متنازع قرار دے دیا۔ عالمی سطح پر اب تک کوئی تحقیق ایسی سامنے نہیں آسکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ اس وبا کے اسباب کیا ہیں، یہ کیوں پھیل رہی ہے۔ علاج کے بارے میں سب اپنی بے بسی کا اظہار کر ہی چکے ہیں۔ جو تحقیق سامنے آئی ہے اُس کے مطابق قوتِ مدافعت کے ذریعے مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں یا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس مرض کی ابھی تک کوئی مؤثر دوا موجود نہیں ہے۔ ماہرین کا اتفاق صرف اس بات پر ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ماہرین کا دعویٰ یہ ہے کہ لاک ڈائون کے ذریعے کورونا کے پھیلائو پر قابو پایا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے ایک بار پھر دنیا بھر کی حکومتوں بالخصوص پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ وہ لاک ڈائون میں نرمی نہ کرے۔ اب تک دنیا میں اس وبا کو بے قابو ہونے سے روکا گیا ہے تو اس کا سبب صرف لاک ڈائون ہے، لاک ڈائون کا مطلب سماجی اور اقتصادی زندگی کا تعطل ہے۔ اس کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں اُن کا حل ماہرین پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ ایک طرف بڑے پیمانے پر انسانی زندگی بچانے کا چیلنج درپیش ہے، دوسری طرف اقتصادی سرگرمیوں کا تعطل عام آدمی کی زندگی کو بُری طرح متاثر کررہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین اتنی طویل مدت گزر جانے کے باوجود بھی عالمی وبائی مصیبت کا مقابلہ کرنے میں رہنمائی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ توقع یہ تھی کہ کورونا کے پھیلائو پر قابو پالیا گیا ہے، اس لیے آہستہ آہستہ دنیا بھر کے ممالک لاک ڈائون میں نرمی کریں گے اور سماجی و اقتصادی زندگی بحال ہوگی۔ پاکستان میں رمضان کے آخر سے لاک ڈائون میں نرمی کا آغاز ہوا ہے، کئی شعبوں کو کھولا گیا ہے۔ لیکن عالمی ادارۂ صحت نے حکومتِ پاکستان کو خبردار کردیا ہے کہ اگر لاک ڈائون میں نرمی کی گئی تو کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب تک جو عمومی مشاہدہ ہے اُس کے مطابق پاکستان میں شرحِ اموات میں اضافہ تو ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے، لیکن کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ محسوس کیا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان جو محنت کش طبقے کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے سخت گیر لاک ڈائون کے قائل نہیں تھے، انہوں نے بھی لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ حفاظتی تدابیر پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آگے مشکل وقت آنے والا ہے، اگلے ڈھائی ماہ انتہائی خطرناک ہیں، جولائی اور اگست میں کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ان کا احساس یہ ہے کہ عوام کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا یہ ہے کہ حکومت لاکھ حفاظتی اقدامات کرے جب تک عوام خود احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کریں گے، صورتِ حال قابو میں نہیں آئے گی۔ انہوں نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے خود حفاظتی تدابیر اختیار کریں تاکہ حکومت کو سختی نہ کرنی پڑے۔ وزیراعظم کے مطابق عوام اس وبا کو ’’فلو‘‘ سمجھ کر نظرانداز کررہے ہیں، بہ حیثیت قوم ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ جن ملکوں میں کورونا نے ہزاروں افراد کی جانیں لیں، وہاں حکومتوں نے لاک ڈائون کے ذریعے سخت پابندیاں لگائیں، اور خود عوام نے بھی احتیاط کی، جس سے صورتِ حال بہتر ہوتی گئی۔ اب عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان کو خبردار کردیا ہے۔ عالمی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹوں میں دعویٰ تو یہ کیا جارہا ہے کہ اگر لاک ڈائون نہ کیا جاتا تو صرف یورپ کے گیارہ ملکوں میں 30 لاکھ لوگ مرجاتے۔ یہی ادارے پاکستان کو خبردار کررہے ہیں، خاص طور پر عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان سے کہا ہے کہ اس نے ابھی تک لاک ڈائون میں نرمی کے تقاضے پورے نہیں کیے ہیں اور پاکستان کا صحت کا نظام اس وبا کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، اس لیے سخت لاک ڈائون کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن کیا یہ رپورٹیں بھی مصدقہ ہیں؟ اس سلسلے میں ماہرین دنیا کو یکسوئی عطا کرنے میں ناکام ہیں۔