۔30 مئی کے ایک اخبار میں رنگین تصویر کا عنوان (کیپشن) ہے ’’ٹوکیو میں قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں‘‘۔ ایک تو ہمارے صحافی بھائیوں کو بے جا طور پر ’و‘ کا استعمال بہت پسند ہے۔ جیسے بلندوبانگ، چاق و چوبند اور اب قوس و قزح۔ اصل میں یہ’قوس قُزح‘ ہے۔ ’قوس‘ کا مطلب کمان اور ’قزح‘ (ق پر پیش) کا مطلب ہے رنگ، یعنی رنگوں کی کمان۔ چنانچہ ’’قُزح کے رنگ‘‘ بالکل بے معنی ہے لیکن بار بار پڑھنے میں آتا ہے۔ قوس عربی کا لفظ اور مونث ہے۔ قوس آسمان کو بھی کہتے ہیں، کیوں کہ یہ بھی مثل کمان کے ہے۔ آسمان کے نویں برج کا نام بھی قوس ہے جو بشکل کمان مانا گیا ہے۔ اور قزح ماخوذ ہے ’قزحہ‘ سے، جس کے معنی زرد، سرخ، سبز کے ہیں۔ آفتاب کی شعاعیں جب مینہ (بارش) سے گزرتی ہیں تو سات مختلف رنگوں میں تقسیم ہوکر دھنک کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ اس کے لیے بارش، اور اس پر سورج کی شعاعیں پڑنا ضروری ہے۔
اخبارات کی کچھ اور دلچسپ سرخیاں ملاحظہ کرکے لطف اٹھائیے۔ ’’اشیائے ضرورت کی چیزیں سستی کی جائیں‘‘۔ یہ مطالبہ جناب شیخ رشید کا تھا۔ اُن سے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اشیاء اور چیزوں میں کیا فرق ہے۔ ایک اور سرخی ملاحظہ کیجے ’’تبدیلی کا آغاز اگلے ہفتے سے شروع ہوسکتا ہے‘‘۔ ’آغاز‘ اور ’شروع‘ کیا الگ الگ ہیں؟
ہم پورا زور لگا چکے ہیں یہ سمجھانے میں کہ عوام جمع مذکر ہیں، واحد مونث نہیں۔ لیکن بقول احمد فراز، شہر کا شہر ہی دشمن ہو تو کیا کیجے۔ ٹی وی چینلز کے بقراط اور مضمون نگار عوام کو مونث بنانے پر تلے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ گھر کے چراغ، سنڈے میگزین کے کالم نگار بھی باز نہیں آئے، لکھتے ہیں ’’عوام سحر میں مبتلا ہوچکی تھی اور سوشل میڈیا پر اصرار کررہی تھی‘‘ (سنڈے میگزین، 31 مئی تا 6 جون)۔ ہم طہٰ کا املا درست کراتے رہ گئے اور اسی شمارے میں ’’پھولوں کی دنیا‘‘ میں کانٹے نظر آئے۔ طہٰ کا املا ’’طہٰ‘‘ ایک جگہ نہیں کئی جگہ نظر آیا۔ یہ صفحات بچوں کے لیے مختص ہیں۔ بچے کیا سیکھیں گے! کیا وہ بھی طحہٰ کا یہی املا نہیں کریں گے؟ لکھنے والی نے تو غلطی کی، لیکن اس کی اصلاح ہوجانی چاہیے تھی۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ طہٰ قرآن کریم کی ایک سورت کا نام ہے، وہیں دیکھ لیا ہوتا۔
بلوچستان کے سابق وزیر دُر محمد کورونا میں انتقال کرگئے۔ ایک ٹی وی چینل پر خبریں سنانے والی خاتون اُن کا نام ’’دَر محمد‘‘ لے رہی تھیں اور اگلے دن بھی یہی نام لیا۔ چینل پر بھی غالباً تصحیح کا نظام اخبارات کی طرح ہے، ہر طرح کی آزادی، تلفظ ہو یا املا۔ یہ تو سوچا ہوتا کہ دَر محمد کا کیا مطلب ہے، یعنی محمد کا دروازہ۔ جب کہ یہ دُر بمعنیٰ موتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لقب ’دُر یتیم‘ بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم تو تھے لیکن یہاں یتیم کا مطلب ہے ایسا موتی جو بے نظیر ہو، نہایت قیمتی جواہر۔ تلفظ کے بارے میں کسی اور کو تو کیا کہیں، احمد فراز جیسے شاعر جن کو فارسی پر بھی عبور تھا، ان کے برخوردار شبلی فراز بڑے دھڑلے سے غلَطْ کو غلْط ہی کہتے ہیں۔ عربی میں کہا جاتا ہے الغلْط غلَط۔ یعنی غلْط بروزن جَبر غلط ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ جبر کو بھی غلَط تلفظ کرتے ہوں۔
ایک طرف تو اہلِ زبان کہلانے والے تلفظ اور املا سے بے گانہ ہوتے جارہے ہیں، دوسری طرف آزاد کشمیر میں کتنے ہی ایسے ہیں جو گیسوئے اردو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک مظفر آباد کے فرہاد احمد فگار ہیں یعنی زخمی کوہکن۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں جس خطے سے تعلق رکھتا ہوں یہاں اردو قومی کے ساتھ ساتھ سرکاری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ ہماری دفتری زبان بھی اردو ہے۔ لیکن غلطیوں کی اصلاح کرنے والے کو خبطی سمجھا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ ہماری زبان کو ترقی اور عروج حاصل ہو۔ آپ سے دعائوں کا التماس ہے‘‘۔
فرہاد احمد فگار ’’اردو املا اور تلفظ کے مباحث‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ وہ دل گرفتہ نہ ہوں، اصلاح کرنے والوں کو خبطی ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ خوشی ہے کہ کہیں نہ کہیں اردو کی لاج رکھنے والے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ فرہاد نے عشرت گہہ خسرو کی مزدوری کی تھی جو مرزا غالب کو بہت بری لگی، لیکن آج کا فرہاد عشرت گاہِ اردو کی مزدوری تیشے سے نہیں اپنے قلم سے کررہا ہے۔ انہوں نے دعائوں کا التماس کیا ہے۔ ’’التماس‘‘ مذکر بھی ہے اور مونث بھی۔ یہ دہلی اور لکھنؤ میں متنازع ہے۔ دہلی میں مذکر بولتے ہیں۔ عربی کا لفظ ہے۔ الف اور ت بالکسر ہیں۔ مطلب ہے کچھ ڈھونڈنا، تلاش کرنا، چاہنا، عرض، گزارش۔ رشکؔ کا شعر ہے:۔
صنم پرست ملیں یا خدا شناس مجھے
دعائے وصل کی رہتی ہے التماس مجھے
اور بطور مذکر داغؔ دہلوی کا شعر:۔
تجھ سے یہ التماس ہے میرا
غیر کا ہے کہ پاس ہے میرا
اسی طرح اِلتفات پر بھی جھگڑا ہے۔ میر تقی میرؔ نے مونث بھی کہا ہے لیکن اتفاق تذکیر پر ہے۔ میر کا مصرع ہے’’آہِ سحر نے دل پہ عبث التفات کی‘‘ اور منیرؔ کا مصرع ہے ’’پہلے تو التفات ان پہ کیا‘‘۔ اب دہلی اور لکھنؤ کا تضاد نمٹ گیا اور پاکستان میں نئی اردو جنم لے چکی ہے۔ ہماری مرضی، ہم عوام کو مذکر کریں یا مونث۔ ہم تو ’’علاوہ‘‘ اور ’’سوا‘‘ میں تفریق نہیں کر پائے۔ ایک بڑے استاد کا شعر ہے:۔
در کتنے ہی کھلتے رہے اک در کے علاوہ
اک درد بھری سن کے صدا تیری گلی میں
معذرت کے ساتھ، یہاں ’’علاوہ‘‘ کے بجائے ’’سوا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ علاوہ کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ در بھی کھل گیا جس کے کھلنے کی آس تھی، یعنی کوئی در بند نہیں رہا۔ علاوہ عربی کا لفظ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ عربی میں ’ع‘ پر پیش ہے، بمعنیٰ بلندی۔ اور بکسر اوّل (ع کے نیچے زیر) اس کا مطلب ہے ہر چیز جو دوسری چیز کے اوپر رکھ لی جائے مثلاً گٹھڑی کے اوپر کوئی چیز رکھ دی جائے۔ وہ چیز جو کسی چیز پر بڑھائیں۔ اردو میں بفتح اول و چہارم ہی مستعمل ہے۔ یہ لفظ ’بشمول‘ اور ’شرکت‘ کے لیے بھی آتا ہے اور علیحدگی کے لیے بھی، جیسے ’’زید کے علاوہ خالد بھی تھا‘‘۔ یعنی دونوں تھے۔ یا یہ جملہ ’’اس کتاب کی قیمت محصول کے علاوہ 100 روپیہ ہے‘‘۔ ٹی وی چینلز پر رونق افروز ہونے والے بعض علماء کرام بھی ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ میں تمیز نہیں کرتے، مثلاً ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘‘۔
عربی دنیا کی فصیح ترین زبان ہے جس میں بعض چیزوں کے سو، سو نام ہیں، اور ہر نام سے شے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن کچھ معاملات میں اردو عربی سے بھی آگے ہے مثلاً رشتوں کے تعلق سے۔ ہر رشتہ پورا تعلق ظاہر کردیتا ہے۔ مثلاً چچا تو عربی میں بھی ہے لیکن تایا، تائی، خالو، ماموں، پھوپھا، پھوپھی، ساڑھو (ہم زلف)، سالی، ممانی، بہو، داماد وغیرہ کے لیے عربی میں الفاظ نہیں ہیں۔ خالہ البتہ عربی میں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ’خالو‘ ماموں کو کہتے ہیں۔ اردو کی یہ خصوصیت ہے کہ نہ صرف رشتے بلکہ جانوروں کی آوازوںکے لیے بھی الگ الگ نام ہیں۔ یہی نہیں جانوروں کے بچوں کے لیے بھی خاص الفاظ ہیں، مثلاً بکری کا بچہ میمنا، بھیڑ کا بچہ برّہ، ہاتھی کا بچہ پاٹھا (ساٹھا پاٹھا کی مثل مشہور ہے)، اُلّو کا بچہ پٹھا، کتیا کا بچہ پلّا، بلی کا بچہ بلونگڑا، گھوڑی کا بچہ بچھیرہ یا بچھیری، بھینس کا بچہ کٹڑہ، مرغی کا بچہ چوزا، ہرن کا بچہ ہرنوٹا، سانپ کا بچہ سنپولا، سور کا بچہ گھپٹا۔ یہ طویل فہرست ہے۔ اسی طرح جانداروں یا غیر جانداروں کے مجموعے کے لیے بھی خاص الفاظ ہیں مثلاً بھیڑ، بکریوں کا ریوڑ یا گلّا۔ ہاتھیوں کی ڈار۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ اردو واحد زبان ہے جس میں ہر تلفظ موجود ہے۔