ڈپریشن ناقابلِ علاج نہیں ہے

بریگیڈیئر(ر) ڈاکٹر شعیب احمد سے ذہنی امراض اور علاج پر تبادلہ خیال

تمام ذہنی بیماریاں قابلِ علاج ہیں، انہیں نظرانداز کرنا درست نہیں ہے‘‘۔ یہ کہنا ہےبریگیڈیئر(ر) ڈاکٹر شعیب احمد کا۔ آپ ستارہ امتیاز ہیں اور32 سال فوج میں بطور چیف آف سائیکاٹرسٹ مختلف اسٹیشن پر کام کیا، کراچی میں پی این ایس شفا میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ رہے، جہاں سے 2016ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بیہیوریل سائنس میں بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر شعیب احمد سے ذہنی امراض سے متعلق تبادلۂ خیال کیا گیا جو نذرِ قارئین ہے۔

سوال:ہمیں کیسے اندازہ ہو کہ کوئی شخص ذہنی طور پر صحت مندنہیں ہے، یا اس کا ذہنی توازن خراب ہوگیا ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد:جیسے کہ دیگر بیماریاں ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو نمونیا ہے، نزلہ، کھانسی اور بخار ہے تو اس کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ کسی بھی شخص کی ظاہری کیفیت دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ جبکہ ذہنی بیماریوں میں بہت ساری تو ایک عرصے کے بعد جاکر ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں مگر اس سے پہلے اس کی کچھ علامات ہوتی ہیں جنہیں ہم نظرانداز کردیتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس بیماری کے بارے میں خود معلومات نہیں ہوتیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص اداس رہنے لگ جائے، کھنچا کھنچا رہے، اپنا کام ٹھیک طور پر انجام نہ دے، دفتر میں اس کے مسائل سامنے آنا شروع ہوجائیں یا اسکول میں اگر بچہ پڑھ رہا ہے تو وہاں پر اس کی کارکردگی اچھی نہ رہے تو آپ کو فوراً سوچنا چاہیے کہ اس کی ذہنی حالت کیوں تشویش کا باعث بن رہی ہے، کوئی ذہنی بیماری تو نہیں پیدا ہورہی ہے؟ کیونکہ ڈپریشن بہت ہی عام بیماری ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اس کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، مگر چونکہ لوگ اس کے بارے میںزیادہ جانتے نہیں ہیں، اسکول میں ٹیچرز بھی نہیں جانتے، مسجد میں مولوی بھی نہیں جانتا، مدرسے کا عالم بھی نہیں جانتا اور ہم تو جانتے ہی نہیں ہیں، اس لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ کیسے کوئی اس کی بیماری کو جانچے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ذہنی بیماریوں کے حوالے سے آگاہی مہم میں یہ ضرور شامل کیا جائے کہ کیسے ہم جلد از جلد ان علامات کو جانچ کر اس مرض کو پہچان سکیں اور متاثرہ شخص کو وہاں پہنچا سکیں جہاں اس کے معالج موجود ہیں۔
سوال: ہمارے معاشرے میں کسی کے ذہنی مرض یا ڈسٹرب ہونے کا معلوم بھی ہوجائے تو وہ اور اس کے قریب کے لوگ علاج سے دور بھاگتے ہیں، ایک خوف محسوس کرتے ہیں، یعنی کوئی اپنے آپ کو ذہنی مریض ہونے کے باوجود کہلوانا پسند نہیں کرتا، آپ ان کے لیے کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: جیسے بہت ساری چیزوں کے ساتھ دیومالائی داستانیں اور مختلف واقعات جڑے ہوتے ہیں، اسی طرح ذہنی مریضوں سے متعلق بھی بہت سی باتیں جوڑی جاتی ہیں کہ ذہنی مریض بہت عاجز ہیں، ذہنی بیماری بہت خطرناک بیماری ہے، ذہنی بیماری اس کی برائیوں کا اثر ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو سزا مل رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی کہ اگر ہم اس مریض کے ساتھ زیادہ دیر رہیں گے تو ہم بھی اس کی طرح ہوجائیں گے۔ ایک عام خوف پایا جاتا ہے اور لوگ ایسے مریضوں سے دور بھاگتے ہیں۔ اسی وجہ سے مرض کی تشخیص اور علاج میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ جب تک بیمار ہمارے پاس پہنچتا ہے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، مرض بہت شدت اختیار کرچکا ہوتا ہے۔ میرا پیغام یہی ہے کہ اگر ہم کسی کو دیکھیں کہ وہ نارمل زندگی گزار رہا تھا، اب اس میں کوئی بھی تبدیلی آتی ہے، وہ زیادہ سونا شروع کردیتا ہے، نیند بالکل ختم ہوجاتی ہے، وہ چڑچڑا ہوجاتا ہے، غصہ کرتا ہے، کھانا نہیں کھا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو جو بھی تبدیلی آپ کو نظر آئے آپ اسے کم از کم فیملی فزیشن کے پاس ضرور لے جائیں اور اسے تمام کیفیات سے آگاہ کریں۔ وہ پھر اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس ریفر کرتے ہیں جہاں ہم ایسے مریضوں کو بہت اچھی طرح سے چیک کرتے ہیں۔ ڈپریشن سو فیصد قابل علاج مرض ہے،مگر وقت پر علاج نہ کیا جائے تو مرض اتنی شدت اختیار کرلیتا ہے کہ مریض بالآخر اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے اور خودکشی کی طرف چلا جاتا ہے۔ خودکشی کے بارے میں بھی آپ کا ہر مریض سے پوچھنا ضروری ہوتا ہے، اس سے یہ نہیں کہ اس کا خودکشی کی طرف رجحان بڑھے گا، بلکہ آپ کو تشخیص میں مدد ملے گی کہ اس شخص میں خودکشی کا رجحان تو پیدا نہیں ہورہا؟ اور آپ ایک زندگی بچا سکتے ہیں۔
سوال: آپ کے پاس اعداد و شمار ہیں کہ کتنے لوگ ڈپریشن یا دیگر ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، کتنے صحت یاب ہوتے ہیں اور کتنے خودکشی کی طرف مائل ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر شعیب احمد: پاکستان میں بدقسمتی سے درست اعداد و شمار کے حصول میں بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ چونکہ خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے لہٰذا لوگ بھی اس بارے میں زیادہ معلومات دینے سے گریز کرتے ہیں کہ یہ تو حرام موت تھی ہم اس کے بارے میں کیوں بتائیں وغیرہ وغیرہ۔ تو بہت ساری خودکشیاں تو ایسی ہیں جن کے بارے میں پتا ہی نہیں چلتا، ان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، پولیس میں کوئی رپورٹ نہیں ہوتی، اور اسے طبعی موت ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگر کہیں ہوتی بھی ہے تو اس وقت اس بارے میں کوئی درست اعداد و شمار میرے ذہن میں تو نہیں ہیں، تاہم اچھی خاصی تعداد میں لوگ خودکشی کرتے ہیں جس میں زیادہ تر تعداد ڈپریشن کے مریضوں کی ہوتی ہے۔
سوال: اسٹریس اور اینگزائٹی کیا ہے؟ اس سے متعلق بھی کچھ آگاہی دیں۔
ڈاکٹر شعیب احمد: جیسے ایک رسّی میں گنجائش سے زیادہ تنائو ڈالا جائے گا تو رسّی ٹوٹ جائے گی یا چھوٹ جائے گی۔ اسی طرح ہم اسٹریس کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آپ کی وہ کوالٹی ہے کہ جہاں پر آپ اس رسّی کی طرح دبائو کو برداشت کرپاتے ہیں، اور دبائو بڑھنے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس سے متعلق بہت سی دیگر بیماریاں ہیں۔ جب زیادہ اسٹریس ہوگا تو مریض ڈپریشن کی طرف بھی چلا جائے گا، اینگزائٹی کی طرف بھی چلا جائے گا، حتیٰ کہ وہ خودکشی کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ اینگزائٹی ایک خوف کی علامت ہے۔ اگر ہماری زندگی میں ایک دم خوف پیدا ہونے والی کوئی کیفیت آجائے، آپ کے سامنے کوئی بندوق لے کر کھڑا ہوجائے، یا آپ کو کسی جگہ جانے سے خوف محسوس ہو تو اس خوف کو اینگزائٹی کہا جاتا ہے۔ اینگزائٹی مستقبل کے کسی خوف کے بارے میں ہوتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں بھی ہوسکتی ہے۔ ایک قسم کی اینگزائٹی ہر وقت آپ کے اندر گھبراہٹ کی صورت میں موجود رہتی ہے۔ جبکہ ایک قسم کی اینگزائٹی کسی خاص قسم کی جگہ پر جانے سے ہوتی ہے، کسی بڑی شخصیت سے ملنے پر ہوتی ہے، کسی جانور، حشرات، چھپکلی وغیرہ سے بھی ہوتی ہے۔ اس طرح کی اینگزائٹی کو فوبیا کہا جاتا ہے جو کہ آپ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے، آپ کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں اور آپ وہ کام نہیں کرپاتے۔ ڈپریشن یہ ہے جیسے آپ کی بہت قیمتی گھڑی گم ہوگئی، اس کے بعد آپ پر جو کیفیت آئے گی وہ ڈپریشن ہے۔ کوئی قریبی عزیز فوت ہوجائے، اس کا جو دکھ آپ کو ہوتا ہے وہ ڈپریشن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ایک بہترین سائیکاٹرسٹ بغیر کسی علامت کے آپ کی ذہنی کیفیت کو جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ دیگر بیماریوں میں ظاہری علامات سے معالج اندازہ لگاتا ہے مثلاً کوئی بول نہیں سکتا، کسی کی چال میں فرق آگیا ہے۔ مگر سائیکاٹری میں سب کچھ کیمیکلی دماغ میں ہورہا ہے۔ یہ دماغ کی ہی بیماری ہے، اور اب تو سائنس خلیوں تک پہنچ گئی ہے کہ کون سی بیماری کہاں سے ہورہی ہے؟ یہ کیمیکل چینج بھی آپ کے اندر آرہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے آپ کے اندر ڈپریشن، اینگزائٹی، سوشل فوبیا اور ساری چیزیں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
سوال: کیا یہ علاج زندگی بھر ہوتا رہتا ہے، یا اس کی کوئی مدت بھی ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: یہ ایک غلط تاثر پایا جاتا ہے، جیسے نشے کے لیے کچھ دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن کی عادت نہیں چھوٹتی، لیکن اس میں ایسا نہیں ہوتا۔ میرے بہت سارے مریض ہیں جن کو میں لکھ کر دیتا ہوں کہ آپ کا علاج مکمل ہوچکا ہے۔ ہاں آپ تجویز کردہ دوائوں میں خود سے کمی یا زیادتی نہ کریں، آپ نے جہاں سے علاج شروع کیا ہے اُس ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں۔ ایک وقت بعد وہ خود آپ کی دوائیں بند کردیں گے۔ جیسا کہ ذیابیطس ہے، ہائپرٹینشن ہے، آپ کو لمبے عرصے کے لیے دوائیں لینی پڑتی ہیں۔ ایسے ہی ہمارے ہاں بھی کچھ بیماریاں ہیں جنہیں آپ کنٹرول کرسکتے ہیں مگر ختم نہیں کرسکتے، تو ایسی کیفیت میں آپ کو عمر بھر کے لیے کچھ دوائیں لینی پڑتی ہیں۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں نوّے فیصد افراد پازیٹو مینٹل ہیلتھ سے محروم ہیں، یعنی وہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ ذرا یہ بتائیں پازیٹو مینٹل ہیلتھ کیا ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: انسان جب سے دنیا میں آیا ہے وہ مطمئن کبھی بھی نہیں ہوا، اور اس کو مطمئن ہونا بھی نہیں چاہیے، کیونکہ اگر وہ بالکل مطمئن ہوجائے گا تو آرام اور چین کی زندگی گزارنے لگ جائے گا، اس صورت حال میں انسان کا جو ارتقائی عمل ہے وہ رک جائے گا۔ معاشرے اور انسان کی ارتقا کے لیے اس بے چینی کا قائم رہنا ضروری ہے۔ مگر ان چیلنجز کو آپ پازیٹو مینٹل ہیلتھ کے ہوتے ہوئے کیسے مینج کرسکتے ہیں؟ آپ کو ہر چیز میں مثبت اور منفی پہلو کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ اس بات میں مثبت پہلو کیا ہے؟ کیونکہ جب آپ مثبت پہلو کو لے کر چلتے ہیں تو یہ اس بات کی گواہی ہے کہ آپ پازیٹو مینٹل ہیلتھ کے مطابق کام کررہے ہیں۔ بجائے اس کے اگر آپ اس کے منفی پہلو اور نقصانات کے بارے میں تخمینہ لگانا شروع کردیں تو پھر ظاہر ہے اپنا نقصان ہی کریں گے۔ زندگی کا ہر فیصلہ کرتے ہوئے آپ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ کے دفتر میں بہت سارے لوگ ہوتے ہیں، آپ کے گھر میں بہت سارے بچے ہوتے ہیں تو آپ کو یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اگر وہ کسی بھی الجھن کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی پازیٹو مینٹل ہیلتھ بہتر کام کررہی ہے، اور اگر اس کے بالکل الٹ برتائو ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ذہنی حالت مشکوک ہے۔
سوال: ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اور بیماریوں کی وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: اس کی بنیادی وجوہات میں ہمارے معاشرے میں بے ثباتی کا رجحان ہے۔ میں اکثر لوگوں سے کہتا ہوں کہ ایک زمانے میں معاشرے میں جو یونٹی تھی، جو خاندانی مربوط نظام تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کے کچھ مسائل ضرور ہوتے تھے مگر وہاں پروٹیکٹو میکنزم ہوا کرتا تھا، لیکن جب آپ نیوکلیئر فیملی میں چلے گئے ہیں، میاں بیوی ہیں دو بچے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اب وہ سارے مسائل انہیں خود سے حل کرنے ہیں، خود سوچنا ہے۔ میاں بھی نوکری کررہا ہے، بیوی بھی نوکری کررہی ہے، بچوں کو کام والی پال رہی ہے تو اس میں انڈیکیٹری آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ اور پہلے ہم دوسروں پر بہت اعتماد کرتے تھے، کوئی بات ہوتی تو اپنے آس پڑوس میں پوچھ لیا، مگر اب ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے ان سے اپنے دل کی کوئی بات پوچھ لی تو ایسا نہ ہو کہ اس سے کوئی فائدہ اٹھا لے یا ہمیں کوئی نقصان پہنچائے۔ اس سے بھی ہم اندر اندر ہی چیزوں کے تانے بانے بُنتے رہتے ہیں اور نتیجہ اکثر غلط ہوتا ہے، اس طرح ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں جو اونچ نیچ ہے، جو طبقاتی کشمکش ہے، جو طبقاتی نظام ہے۔۔۔ وہ بھی آپ کو بہت متاثر کرتا ہے۔ پیمانہ تبدیل ہوگیا ہے، ایک زمانہ تھا جب آپ کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا تھا، اچھے نمبر لیتا تھا تو آپ کی واہ واہ ہوتی تھی، گلی محلے میں بات ہوتی تھی کہ فلاں کے بیٹے کا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہوگیا ہے، یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوگیا ہے۔ لیکن ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے تبدیلی کا شکار ہوگیا ہے، اب اگر کسی کے پاس بڑی گاڑی ہے، اچھا بنگلہ ہے تو لوگوں نے اس چیز سے موازنہ کرنا شروع کردیا ہے جس سے ذہنی پریشانیاں جنم لینے لگی ہیں۔
سوال: رشتوں کی کمزوری ذہنی بیماریوں کا سبب ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: جی! ہمیں رشتوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں ہم لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ مسجد ہے اسے ہم نے صرف نماز پڑھنے کی جگہ سمجھ لیا ہے، حالانکہ وہاں پر مجلس بھی ہونی چاہیے۔ جس محلے میں، جس علاقے میں وہ مسجد ہے وہاں کے لوگوں کو اس میں ٹائم دینا چاہیے، جس میں وہ بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرسکیں، بات چیت کرسکیں، دل کی بات کرسکیں۔ اس سے بہت فرق پڑے گا۔ یونیورسٹیوں کے اندر، کالجوں کے اندر اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کلب ہونے چاہئیں جہاں پر لوگ بیٹھ کر بات کریں، ایک دوسرے سے مسائل شیئر کریں۔ اس طرح سے آپ کو ماہرانہ رائے مل جاتی ہے اور آپ کا ذہنی دبائو کم ہوتا ہے۔ جیسے فوتگی کے بعد لوگ آکر پرسا دیتے ہیں، آپ کا غم بانٹ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ تو جتنا اپنا غم آپ بانٹیں گے اتنا غم کم ہوگا۔ مقصد یہ ہے کہ ایک مربوط معاشرتی نظام ہونا چاہیے۔
سوال: ذہنی مسائل کا شکار خواتین زیادہ ہوتی ہیں یا مرد؟
ڈاکٹر شعیب احمد: ہمارے پاس جو اعداد و شمار ہیں اُن کے مطابق خواتین ذہنی مسائل کا زیادہ شکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرد چونکہ باہر نکلتا ہے، لوگوں سے ملتا ہے اور اپنے مسائل شیئر کرتا ہے دوسروں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے۔۔۔ جبکہ خواتین بنیادی طور پر گھر پر رہتی ہیں، ان کا رابطہ لوگوں کے ساتھ کم ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنی چیزیں اپنے اندر ہی گھٹتی ہیں۔ اس سے بھی ان کو مسائل کا زیادہ سامنا رہتا ہے۔
سوال: بچوں میں نفسیاتی مسائل اور امراض بڑھ رہے ہیں، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: آپ یہ نہیں دیکھتے کہ بچوں کے کانسیپٹ کیسے ہیں، پڑھائی کے دوران یہ ہوتا ہے کہ فلاں نے99 فیصد لیے ہیں، فلاں نے 98فیصد لیے ہیں تو بیٹا آپ نے 90فیصد کیوں لیے؟ یہ جو مسابقتی رویہ ہے اس سے بچوں پر بہت زیادہ ذہنی دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ کراچی شہر میں ہم نے بھی پڑھا ہے، ایک وقت تھا کہ اسکول میں کھیل کا میدان ہوا کرتا تھا، ہم اس میں ہاکی کھیلتے تھے، فٹ بال کھیلتے تھے، کرکٹ کھیلتے تھے جس کی وجہ سے بچے آپس میں ملتے تھے۔ ڈی سی کا بچہ بھی وہیں پر فٹ بال کھیلتا تھا، چپڑاسی کا بچہ بھی وہیں پر فٹ بال کھیلتا تھا، کمشنر کا بچہ بھی وہیں پر فٹ بال کھیلتا تھا۔ مگر جو اسپورٹس مین اسپرٹ تھی وہ اب ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب ہم نے بنگلوں کے اندر اسکول کھول دیے ہیں۔ وہاں بچوں کو دھوپ نہیں لگتی، جس کی وجہ سے بچوں کے وٹامن ڈی کے لیولز بھی کم ہوتے ہیں، وہ گیمز نہیں کھیلتے اس سے بھی بہت زیادہ فرسٹریشن ہوجاتی ہے اور بچے اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن ہوتے جارہے ہیں۔ اب موبائل کا دور ہے، ٹچ اسکرین آگئی ہے، اس پر بچوں نے بہت وقت صرف کرنا شروع کردیا ہے۔ میں نے کئی بچوں سے پوچھا کہ بیٹا کوئی گیم کھیلتے ہو؟ تو اکثر بچوں نے کمپیوٹر گیم کا نام لیا۔ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں کرکٹ کھیلتاہوں یا والی بال کھیلتا ہوں یا فٹ بال کھیلتا ہوں۔ تو اس جانب معاشرے کے سربراہ کی حیثیت سے ہمیں بہت زیادہ غور کرنا چاہیے اور ہمیں اسکول میں جاکر باقاعدہ آگاہی مہم چلانی چاہیے اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اس بات کو یقینی بنائے کہ اُس اسکول کو کبھی پاس نہ کرے جس کے پاس کھیل کا میدان نہ ہو۔
سوال: ایک بچہ بہت ہائپر ہے، پڑھنے پر بعض دفعہ وہ توجہ دیتا ہے تو بہت اچھا پڑھتا ہے، اور نہیں دیتا تو وہ کسی چیز کو سنجیدہ ہی نہیں لیتا، ایسے بچے کو کیا کہا جائے گا؟
ڈاکٹر شعیب احمد: کچھ چیزیں بچوں میں عام ہوتی ہیں کیونکہ وہ بچے ہیں۔ کچھ چیزوں کی توقعات تو عام ہیں جیسے اگر وہ بچہ ہے تو شرارتی بھی ہوگا، اس میں بعض وقت سنجیدگی بھی ہونی چاہیے، اس میں ہلکی پھلکی ضد بھی ہونی چاہیے۔ ان بچوں میں جن سے آپ کچھ مخصوص برتائو کی امید کرتے ہیں تو ان کی ان بنیادوں پر تربیت کی ضرورت ہے۔ بچوں کی تعریف کریں، انہیں سراہیں۔۔۔ نہ کہ ان کو سزا دیں۔ سراہے جانے کی صورت میں ردعمل بہت دیرپا ہوتا ہے اور بچے کی عادت کا حصہ بن جاتا ہے، اور جس رویّے کے بارے میں آپ چاہتے ہیں کہ بچہ ایسا نہ کرے تو آپ اسے نظرانداز کریں۔ جہاں پر آپ نے اس کے غلط رویّے پر توجہ دی وہ رویہ اس کا پختہ ہوتا چلا جائے گا، اور جو اس کا اچھا کام ہے اس پر ہم اکثر خاموش ہوجاتے ہیں۔ بچہ اگر کوئی کتاب پڑھ رہا ہے، کوئی ڈرائنگ بنا رہا ہے، آپ وہاں سے دس دفعہ گزر کر بھی اس پر توجہ نہیں دیتے، وہی بچہ اگر انک پھینک دے یا کوئی اور شرارت کرے تو اسے آپ ایک طمانچہ لگا دیتے ہیں یا ڈانٹ دیتے ہیں، تو اسے لگتا ہے کہ میری اس بات پر توجہ دی جاتی ہے۔ تو خیال رکھیں کہ اگر وہ کوئی غلط کام کررہا ہے تو توجہ نہ دیں، نظرانداز کرنا شروع کردیں۔ کچھ دیر بعد وہ خود ہی چھوڑ دے گا۔ مگر جب وہ اچھا کام کرے تب ہمیں اس کی تعریف کرنی چاہیے، مثلاً: شاباش آج تم بڑے آرام سے بیٹھے ہو۔۔۔ شاباش آج تم نے اتنا اچھا کام کیا ہے۔۔۔ واہ کیا ڈرائنگ بنائی ہے۔ وہ آئندہ وہی کام کرے گا جو آپ چاہتے ہیں۔ یہ ٹریننگ کا ایک طریقہ ہے اور ہمیں اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
سوال: آپ کے انسٹی ٹیوٹ میں بچوں کی ذہنی بیماریوں کے حوالے سے کیا کیا جارہا ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں تین کلینکل سائیکالوجسٹ ہیں، ایک ایکوتھراپسٹ ہے جو بچوں کی بیماریوں، مزاج اور رویوں کے حوالے سے باقاعدہ تربیت یافتہ ہے۔ بہت سے بچے ہمارے پاس آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ صحت یاب ہوگئے ہیں۔
سوال: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسکولوں کو اپنے بچوں کا معائنہ کرانا چاہیے؟ اور کیا عملی طور ایسا کرنا ممکن ہے؟
ڈاکٹر شعیب احمد: اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سارے بچوں کا بلڈ ٹیسٹ کررہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ٹیچرز کی ٹریننگ ہونی چاہیے کہ سائیکالوجیکل اسسمنٹ کیسے کی جاسکتی ہے، کیسے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون سے بچے کو کسی پریشانی کا سامنا ہے۔ اسٹوڈنٹس کائونسلر اس بچے کو دیکھے اور باقاعدہ اس کا چیک اپ کرے۔ اور پھر اس کے سائیکالوجیکل ٹیسٹ ہوتے ہیں، اس کے ذریعے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ بچہ کس بیماری میں مبتلا ہے۔ اور پھر ایک ریفر سسٹم ہونا چاہیے کہ اسے کسی بھی اچھے انسٹی ٹیوٹ یا سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیجا جائے۔ ڈائو، جناح، بحریہ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور دیگر مقامات پر بہت بہتر انتظامات ہیں۔ اس سے بھی بہت بہتری آئے گی اور یہ نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ جب ہم بچے کو کچھ پڑھاتے ہیں تو اس میں نفسیاتی بیماریوں کے حوالے سے ایک مضمون ضرور ہونا چاہیے کہ ان میں یہ احساس نہ ہو کہ یہ جنوں بھوتوں کی وجہ سے یا جادو ٹونہ کی وجہ سے ہے۔
سوال:ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ایک خوشگوار زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟
ڈاکٹر شعیب احمد:۔خوشگوار زندگی کے لیے ضروری ہے کہ ہم صبر شکر کریں اور اس پر توجہ دیں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ بہت سے لوگوں سے بہت بہتر ہے۔ اپنی فیملی کو زیادہ ٹائم دیں، بچوں کو ٹائم دیں، ماں باپ کو ٹائم دیں، دوستوں کو ٹائم دیں۔۔۔ اور ایک سب سے اہم بات کہ اپنی انتہائی مصروف زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی فزیکل ایکٹیوٹی ضرور اپنانی چاہیے، کسی نہ کسی گیم کا حصہ ضرور بننا چاہیے، کیونکہ کھیل نہ صرف آپ کو جسمانی طور پر تندرست رکھتا ہے بلکہ کھیل میں شریک دیگر لوگوں سے ملنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے جس سے ذہنی اصلاح بھی ہوتی ہے۔