مہ جبین انصاری الصالحاتی/ تدوین و تلخیص: محمود عالم صدیقی
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت کا وجود ہی تخلیقِ بنی نوعِ انساں کا سبب ہے، اور نسلوں کو آگے بڑھانے اور ان کی پرورش عورت کی ذات و جسم کی مرہونِ منت ہے۔ عورت کے کئی خوبصورت روپ ہیں۔ ماں عورت کا انتہائی خوبصورت اور محترم روپ ہے، جس کے بارے میں قدموں تلے جنت کی نوید سنائی گئی ہے۔ ماں بننے سے پہلے عورت ادھورے پن کا شکار رہتی ہے۔ وہ بیٹی کی شکل میں اللہ کی رحمت ہے۔ بیوی کی شکل میں ایک انتہائی دل آویز روپ ہے جو زندگی و محبت کے سفر میں شوہر کی ہم رکاب ہوتی ہے۔ اسلام کے سوا کسی مذہب، تمدن اور معاشرے میں عورت کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔ بہن کی شکل میں بھائیوں کی پیشانی پر نور بن کر چمکتی ہے۔ غرض یہ کہ عورت انسانی نسل کو وجود میں لاتی ہے اور طرح طرح کے رشتوں میں ڈھل کر دنیا میں پیار، خوش حالی، خوبصورتی اور روشنی بانٹتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جس گھر میں عورت نہ ہو وہ گھر ویران قبرستان کی مانند ہے۔
نکاح کی سنت پر عمل سے معاشرے میں توازن اور انصاف قائم ہوتا ہے
ایک جانب عورت کی عظمت بیان کی جاتی ہے۔ دوسری جانب عورت کے وقار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کبھی جنگ کے نام پر، کبھی فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر، تو کبھی خاندانی دشمنی کے نام پر۔ پہلی جنگِ عظیم، دوسری جنگِ عظیم، ہندوستان کی آزادی کی لڑائی، دنیا بھر میں ہونے والی جنگیں جن میں عراق و افغانستان کی جنگ بھی شامل ہیں۔ ان جنگوں کے دوران عورت کے ساتھ وحشت کی ساری حدود توڑ دی گئیں۔ تاریخ کے آئینے میں جھانک کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ عورت شروع سے ہی مظلوم رہی ہے۔ کائنات آباد ہونے کے بعد جب مذاہب نے اپنا وجود پالیا تب مرد کے ذریعے عورت کوکمزور و نازک اور پست قرار دے دیا گیا۔ اسلام کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے چاروں جانب شرک کا دور دورہ تھا، بتوں کے پرستش کی جاتی تھی۔ قدیم عراق کے سومیری باشندے پرستش کے نام پر ایک برہنہ دیوی کے بت ’’انا‘‘ کی پرستش کرتے تھے۔ دیوتائوں کو خوش کرنے کے نام پر خوبصورت اور حسین کنواری لڑکیوں کو قربانی کے نام پر بڑی بے دردی سے ہلاک کردیا جاتا تھا۔ کھیتوں میں بیج بونے سے قبل عورت کو ذبح کرکے اس کا خون کھیتوں میں اس منشا سے چھڑک دیا جاتا کہ فصل خوب ہوگی، سیلاب لانے کی خاطر کمسن کنواریوں کو دریائوں میں ڈبو دیا جاتا، شوہر کے مرجانے پر بیوگی کا ذمہ دار عورت کو ہی ٹھیرایا جاتا۔ ہر قبیلے کا رواج الگ تھا۔ ایک قبیلے میں مُردہ شوہر کا سر کاٹ کر بیوی کے گلے میں لٹکادیا جاتا تھا، جو کئی سال یونہی اس کے گلے میں پڑا رہتا تھا۔ کسی قبیلے میں عورت کو شوہر کی لاش کے ساتھ ایک کمرے میں قید کردیا جاتا، اور یہ قید ایک سے تین سال لمبی ہوا کرتی تھی۔ کسی قبیلے میں بیوہ ہونے کے بعد عورت کو خود پر کوڑے برسانے پڑتے۔ ہندوئوں میں شوہر کی موت پر عورت کو ستی کرنے کا رواج تھا، اسے مرد کی چتا کے ساتھ زندہ جلادیا جاتا تھا۔ اور انکار پر بھی اسے زندگی نہیں بخشی جاتی تھی بلکہ زندگی دشوار بنادی جاتی تھی۔
شہنشاہ اکبر اور ستی کی رسم
ہندوستان میں مغل بادشاہ اکبر نے ظالمانہ رسم ستی کی سخت مخالفت کی، اور حکم دیا کہ مذہبی عقیدے پر عمل کرو لیکن اس میں عورت کی رضامندی لازمی ہوگی۔ بیوہ ہونے پر عورت کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہ تھی، پیروں میں چپل پہننا تک گناہ سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ سر کے بال بھی منڈوا دیے جاتے، کہ وہ گناہ کی جانب مائل کرتے ہیں۔ دنیا کی ہر خوشی اس پر حرام کردی جاتی، ہنسنے اور مسکرانے پر بھی پابندی عائد کردی جاتی، غذا کے نام پر سوکھے ٹکڑے کھانے کو ملتے، تین وقت کا کھانا میسر نہ ہوتا۔ اسلام سے پہلے عربوں میں بھی عورتوں کی حالت خراب تر تھی، لڑکیوں کو منحوس قرار دے کر پیدا ہوتے ہی زمین میں دفن کردیا جاتا، کچھ قبیلوں میں عورت دفن ہونے سے تو بچ جاتی لیکن اس کی زندگی جہنم سے کم نہ تھی۔ عورت کو جائداد کی طرح تقسیم کیا جاتا، شوہر کے مرجانے کے بعد عورت کو زمین اور روپے کی طرح آپس میں بانٹ لیا جاتا۔
حاملہ عورت کے ساتھ وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک
حاملہ عورت کو بچے کی پیدائش سے قبل درد و تکلیف کی حالت میں سنسان جگہ پر چھوڑ دیا جاتا، کچھ قبیلوں میں درد و تکلیف کی حالت میں عورت کو میدان میں باندھ دیا جاتا اور ایک گھڑ سوار نیزہ چلا کر اسے خوف زدہ کرتا۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی خوف زدہ حالت میں بچہ جلدی پیدا ہوگا۔ ایک دوسرے قبیلے میں اسی سوچ پر عمل کرتے ہوئے عورت کے پیچھے آوارہ کتوں کو چھوڑ دیا جاتا۔ مردوں کے اس جاہلانہ فعل سے بہت سی عورتیں تکلیفوں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوجایا کرتی تھیں۔
دورِ حاضر میں امریکی فوجیوں کے وحشیانہ مظالم کے چند واقعات
عراق کی جنگ کے دوران امریکی اور دیگر افواج کے ذریعے بے شمار عورتوں کی عزت و عصمت برباد کی گئی، ثبوت مٹانے کی غرض سے انہیں ہلاک کردیا گیا، ابوغریب جیل میں مردوں کی طرح خواتین کو بھی قید و بند میں ڈال دیا گیا، جہاں جیل کے افسران ان مقید خواتین کی زندگی برباد کرتے، جن میں سے کئی عورتیں ناجائز بچوں کی ماں بننے پر مجبور ہوتیں، جنہیں اب غائب کیا جاچکا ہے۔ یقیناً انہیں ہلاک کردیا گیا ہوگا۔ ابوغریب جیل میں ایک عراقی خاتون کے ساتھ ایک امریکی فوجی نے بدسلوکی کی تو دوسرے فوجی نے اس نازیبا عمل کی تصویریں اتاریں اور ویڈیو فلم بنائی۔ کئی ویب سائٹس پر ایسے فوٹو گرافس ہیں، جن میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح فوجیوں نے عراقی خواتین کو کپڑے اتارنے اور نازیبا عمل کرنے پر مجبور کیا تھا۔
۔٭ عراق میں پولیٹکل سائنس کی پروفیسر ہودر شائر کہتی ہیں کہ انہیں امریکی فوج کے ذریعے شرمندہ ہونا پڑا، چیک پوائنٹ پر امریکی فوجی نے اپنی گن ہودر کے سینے پر رکھ دی اور بے ہودہ الفاظ استعمال کیے۔
۔٭ نو سالہ صبا کہتی ہے کہ اس کو رہائشی عمارت کی سیڑھیوں سے اغوا کرکے ایک سنسان مقام پر لے جایا گیا جہاں اس کی عزت خراب کی گئی۔ شام چار بجے کے قریب وہ اپنی رہائشی عمارت کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی، اچانک پیچھے سے سر پر ایک زوردار حملہ ہوا اور اسے اٹھا کر پاس والی عمارت میں لے جایا گیا، تقریباً پندرہ منٹ بعد جب وہ واپس لوٹی تو اس کا جسم زبانِ حال سے چیخ چیخ کر بربادی کی داستان بیان کررہا تھا۔ صبا کے ساتھ جو وحشیانہ فعل کیا گیا تھا اس کے لیے اسے دو دن تک اسپتال میں زیرعلاج رکھنا پڑا۔
۔٭ عراق کی ہی نوجوان انجینئر اسما کی داستان بھی رونگٹے کھڑے کردیتی ہے۔ وہ اپنی ماں اور بہنوں کے ہمراہ بازار خریداری کرنے گئی تھی کہ چھے مسلح فوجیوں نے زبردستی اسے اٹھا کر اپنی گاڑی میں ڈال لیا اور شہر کے باہر ایک فارم ہائوس پر لے گئے، جہاں باری باری سب نے اس کی عزت کو تاراج کیا۔ دوسرے دن انہوں نے چلتی گاڑی سے اسے باہر پھینک دیا۔
۔٭ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پرویزمشرف کے امریکی غلامی کے دور میں امریکی ایجنٹوں کے ذریعے بچوں سمیت کراچی سے اغوا کرکے افغانستان لے جایا گیا، کئی سال وہاں مقدمہ چلائے بغیر ظلم و تشدد کیا گیا اور قید میں رکھا گیا، اور بعد میں جب اس اغوا کا ذکر اخباروں میں آگیا تو امریکہ لے جاکر اس پر جھوٹے مقدمے چلا کر جھوٹے گواہوں کے ذریعے اسے انسانی طبعی عمر سے زیادہ میعاد کی سزا سناکر مقید کردیا گیا۔
۔٭ اٹھارہ سالہ آمنہ کو فوجیوں نے اغوا کیا، اس کے زندہ جسم پر بم باندھ دیے گئے۔ اس نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کردیا جہاں اسے سات سال کی سزا سنائی گئی۔ عراق جنگ کے دوران جرائم پیشہ افراد نے بیشتر خواتین کو اغوا کرکے بیرونی ممالک میں فروخت کیا۔
گجرات کے قصاب اور آج کے بھارتی وزیراعظم مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ظلم و ستم
۔2002ء کی ابتدا میں ہندوستان کی ریاست گجرات میں گودھرا ٹرین کی آتشزنی کے بعد جو فرقہ وارانہ فساد پھیلا اُس میں خواتین کے ساتھ کیے گئے جرائم ناقابلِ بیان ہیں۔ گجرات فسادات میں عورتوں پر کیے جانے والے جسمانی تشدد نے درندگی کی ساری حدوں کو توڑ دیا۔ اہلِ خاندان کے سامنے دوشیزائوں کی عزت برباد کی گئی۔ وہاں کی عورتیں کہتی ہیں کہ ہم ان واقعات کو نہیں بھول سکتے، اگر ان درندوں کو کوئی روکنے کی کوشش کرتا تو وہ ناکام ہوتا، اور اگر کوئی چشم دید گواہ ہوتا تو اس کو تلاش کرکے مار دیا جاتا۔ فرقہ پرستوں نے خواتین کے جسم پر ہتھیاروں سے حملے کیے اور رحمِ مادر کو چاک کرکے بچوں کو ہلاک کردیا گیا۔ عورت کے جسم کو بطور میدانِ جنگ استعمال کیا گیا، اور یہ ایک بار نہیں، بار بار ہوا۔
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کو اغوا کرکے طوائف بنادیا جاتا ہے
صرف ہندوستان اور پڑوسی ممالک کی تقریباً دس لاکھ لڑکیوں کو ہر سال فروخت کردیا جاتا ہے۔ کچھ خواتین پیشہ ورانہ طور پر گندے دھندے سے جڑی ہیں، اور زیادہ تر زبردستی لائی جاتی ہیں۔ عورت خواہ کسی بھی طرح اپنا جسم فروخت کرے، خریدار تو مرد ہی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں عورت اگر مجرم ہے تو مرد اس سے کئی گنا زیادہ اور بڑا مجرم ہے۔ بادشاہوں اور نوابوں کے زمانے میں بھی عورت کو تفریح اور دل بہلانے کا سامان سمجھا جاتا تھا۔ ایسی عورتوں کو طوائف کے نام سے پکارا جاتا ہے، لیکن طوائفوں سے لطف اندوز ہونے والے مردوں کے لیے کوئی لقب نہیں، کیونکہ وہ مرد ہیں۔ اور موجودہ دنیا کا معاشرہ مرد کا معاشرہ ہے جس میں ترقی اور حقوق کے نام پر عورت کو اشتہاری جنس بنادیا گیا ہے، اور وہ مرد کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔
جہیز نہ لانے اور گھریلو تنازعات کی بنا پر ہزاروں خواتین زندہ جلادی جاتی ہیں۔ یہ عورت کے ساتھ ہی کیوں؟ کیونکہ مرد کے لیے سماج میں جہیز لانے کی رسم نہیں ہے۔ ممبئی کے کمہارواڑہ علاقے کی گجراتی فیملی میں غریب گھر کی لڑکی کو اپنے گھر کی بہو بنانے کے بعد اس پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے، جب اس سے بھی دل کی بھڑاس نہ نکلی تو اس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ نشہ آور دوا پلاکر اسے بے ہوش کردیا گیا، بے ہوشی کی حالت میں ساس نے اس کے حلق میں تیزاب انڈیل دیا تاکہ وہ چلاّ نہ سکے۔ پھر دیور نے اس کے ہاتھ، پیر، سر دھڑ کو کاٹ کر کئی حصوں میں تقسیم کردیا، اور ان ٹکڑوں کو بوری میں بھردیا۔ وہ لوگ رات کے اندھیرے میں ایک ٹیکسی کے ذریعے ایک کھائی تک پہنچے اور بوری کو کھائی میں پھینک دیا۔ ٹیکسی ڈرائیور کی حاضر دماغی اور قتل ہونے والی کی معذور نند کی گواہی کے نتیجے میں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ خاندانی دشمنی ہو یا کسی اور طرح کی، خمیازہ عورت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ دشمنی کی آگ عورت کے جسم سے بجھائی جاتی ہے۔ اکثر واقعات میں ایسا ہوا ہے کہ قبیلے اپنی پرانی دشمنی کی پیاس بجھاتے ہیں، اور جب انہیں لگتا ہے کہ اب ان کی دشمنی کی آگ ٹھنڈی ہوچکی ہے یا انسان کے اندر چھپا درندہ ناکام ہوچکا ہے تو وہ اس بے چاری کو آزاد کردیتے ہیں۔ آزادی ملتے ہی وہ غریب اپنے گھر کا راستہ ڈھونڈتی ہے، لیکن جب وہ اپنے گھر پہنچتی ہے تو اس کے اپنے اس سے کہتے ہیں: بیٹی تُو تو ہمارے لیے اُسی دن مرگئی تھی جب تجھے دشمن اٹھا لے گئے تھے، اب تیرا اس گھر میں گزارہ نہ ہوسکے گا، ہمیں معاف کر، ہم تیری خاطر تیری چھوٹی بہنوں کی عزت دائو پر نہیں لگا سکتے۔ والدین اپنے گھر کے دروازے اپنی بیٹی پر ہمیشہ کے لیے بند کردیتے ہیں۔ ان حالات میں لڑکی کو صرف ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ وہ خودکشی کرلے، جبکہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی وہ قطعی ذمہ دار نہیں ہوتی۔
عورت اور سسرال
لڑکیوں کے لیے گھر اور گھر کی ذمہ داری ہی اہم ہوتی ہے۔ عورت کا شوہر، ساس، سسر، نندوں، جیٹھوں، دیوروں کے رحم کرم پر انحصار ہوتا ہے۔ شادی کے بعد ان کے ظلم اور ناروا سلوک سے تنگ آکر سسرال چھوڑ دے تو اس پر تہمتیں اور الزامات لگادیے جاتے ہیں۔ جوان اور مطلقہ عورتوں اور بیوائوں کو معاشرے کے عام مرد عام طور پر ’’جس نے ڈالی بری نظر ڈالی‘‘ کے مصداق مالِِ مفت دلِ بے رحم جیسا سلوک کرتے ہیں، اور اگر ان کا کوئی والی وارث نہ ہو تو وہ معاشرے کے بدکردار اور بااختیار مردوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ راستوں پر، بازاروں میں، اور خاص طور سے بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں لڑکیوں سے بدتمیزی کرنا بھی مردوں کا ایک شوق ہے۔ جن خواتین کو روزانہ سفر کرنا پڑتا ہے بسوں، پلیٹ فارم وغیرہ پر ایسے لوگوں کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ لڑکیاں خاموش رہتی ہیں، اور کچھ لڑکیاں اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں تو انہیں مزہ چکھانے کی غرض سے ان کا چہرہ تیزاب سے بدصورت بنادیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو سب مذاہب سے زیادہ حقوق عطا کیے ہیں، اور انہیں باعزت مقام دیا ہے، مگر اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہونے اور جاگیردارانہ، وڈیرہ شاہی معاشرے میں عورت کو وراثت اور اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
غرض کہ ہرصورت عورت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دو ممالک کے درمیان جاری جنگ ہو، دو قبیلوں کے درمیان ہونے والی دشمنی ہو، یا پھر دو فرقوں کے درمیان ہونے والا فساد… عورت کی عزت ہر جگہ پامال کی جاتی ہے۔ جس عورت کے بطن سے مرد پیدا ہوتا ہے اسی پر اتنے ظلم؟ کیوں؟ آخر یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟ ہوگا بھی یا نہیں؟ کیا عورت کو بھی اس کا حق مل پائے گا؟ صبا، اسما، نورجہاں جیسی بے شمار مظلوم خواتین آج اس کرب سے گزر رہی ہیں۔ اس دنیا نے ہر میدان میں ترقی کرلی ہے مگر عورت کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ کیوں؟ عورت کو قوم کی معمار کہا گیا ہے، اور قوم عورت کی اس عظمت کو بھلا کر اسے شرمسار کرنے سے نہیں چوکتی۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اس سے تو جاہلیت کا دور ہی بہتر تھا جب لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنادیا جاتا تھا۔ یہ زندگی بھر گھٹ گھٹ کر مرنے سے بہتر تھا۔ ہر سال یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ کیا یہ کسی ڈھونگ، ڈرامے سے کم ہے؟ خدارا یہ دکھاوا بند کردیا جائے، صرف اس جملے کا حقیقی مطلب سمجھ لیں تو کافی ہے: اے مائو، بہنو، بیٹیو! ہر گھر کی زینت تم سے ہے۔ کیا آدم کی بیٹی کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا رہے گا؟ کب تک؟ آخر کب تک؟
۔(بشکریہ: سہ روزہ دعوت، دہلی)۔