بلوچستان کو صوبائی درجہ دیا گیا تو گورنر کا تقرر کیا گیا۔ چونکہ مارشل لا کا دورِ حکومت تھا تو صوبے کے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریاض حسین تھے۔ یہ دور جنرل یحییٰ خان کا تھا۔ اور یہ تاریخی واقعہ ہے کہ ایک فوجی جنرل نے بلوچستان کو صوبائی درجہ دیا۔ جب پاکستان میں ون یونٹ بنایا گیا اُس وقت بلوچستان کو دو ڈویژن میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ریاست قلات کے ساتھ خاران، لسبیلہ، مکران کو ملا دیا گیا تھا، اور اس حصے کو قلات ڈویژن کا نام دیا گیا۔ جبکہ برٹش بلوچستان کو کوئٹہ ڈویژن کا نام دیا گیا۔ یہ تاریخی المیہ ہے کہ کسی بھی سیاسی حکومت نے بلوچستان کو صوبائی درجہ نہیں دیا، اور تعلیمی لحاظ سے اس کو پنجاب سے جوڑا گیا تھا۔ میٹرک سے لے کر ایم اے تک کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی اور بورڈ لیتا تھا۔ جب ملک کو ایک سازش کے تحت تقسیم کیا گیا تو پاکستان ایک جمہوری دور میں داخل ہوگیا اور صوبہ بلوچستان کا پہلا سیاسی گورنر نواب غوث بخش رئیسانی کو نامزد کیا گیا۔ نیپ نے اس تقرری کی شدید مخالفت کی اور احتجاج کیا۔ اس میں بی ایس او پیش پیش تھی۔ نواب غوث بخش رئیسانی ائرپورٹ سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں جناح روڈ سے گزرنے نہیں دیا گیا، اور وہ ائرپورٹ سے سیدھا گورنر ہائوس پہنچے اور حلف اٹھایا۔ ان کا دورِ گورنری صرف 26 دسمبر 1971ء سے 29 اپریل 1972ء تک رہا۔ اس کے بعد بھٹو اور نیپ میں معاہدہ ہوگیا تو میر غوث بخش بزنجو گورنر بن گئے۔ ان کا دور گورنری 30 اپریل 1972ء سے 14 فروری 1973ء تک رہا۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت اور بھٹو کے درمیان سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی شروع ہوگئی۔ اس کشمکش نے نیپ کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت 2 مئی 1972ء سے 13 فروری 1973ء تک رہی۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی جگہ سردار محمد خان باروزئی نے وزیراعلیٰ کا حلف 6 دسمبر 1976ء کو اٹھایا۔ سردار باروزئی کا تعلق نیپ سے تھا۔ انہوں نے اپنی جماعت سے بے وفائی کی اور بھٹو کی طرف چلے گئے۔ اس کے بعد فضیلہ عالیانی نے بھی نیپ سے بے وفائی کی اور پیپلز پارٹی کی ہمنوا بن گئیں۔ ایک طرف وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر شخصیات تبدیل ہورہی تھیں، دوسری طرف نواب بگٹی جو بھٹو کے ساتھ سوویت یونین کے دورے پر گئے تھے، واپسی پر وہ لندن میں رک گئے۔ دورۂ سوویت یونین کے دوران بھٹو اور نواب بگٹی میں نئے تعلقات استوار ہوگئے اور بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، ایمرجنسی نافذ کردی اور بلوچستان میں ایک سیاسی حکومت کا دھڑن تختہ کرکے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا اور نواب بگٹی کو گورنر بنادیا۔ کچھ عرصے کے بعد نواب بگٹی نے بھٹو کی ایما پر الحاج غلام قادر خان کو وزیراعلیٰ نامزد کیا۔ ان کا دور بھی زیادہ طویل نہ تھا۔ وہ4 مارچ 1973ء سے 4 مارچ 1977ء تک وزیراعلیٰ رہے۔ اس کے بعد بلوچستان میں سیاسی جادوگری چلتی رہی۔ یہ صوبے کا ایک المناک دور تھا۔ اس دور میں بلوچوں نے افغانستان ہجرت شروع کردی اور تاریخ میں پہلی بار بلوچ مہاجر بن کر افغانستان میں پناہ گزین ہوگئے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے، اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم گورنری کی طرف آتے ہیں۔ ایک اہم بات کی نشاندہی ضروری ہے، اور وہ یہ کہ بلوچستان میں کتنے گورنروں کا تعلق فوج سے تھا۔ یہ تو اب تاریخ کا المناک باب ہے۔ یہ کہانی گورنر لیفٹیننٹ جنرل سید ریاض حسین سے شروع ہوئی، اس کے بعد وقفے وقفے سے جنرل آتے رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین، لیفٹیننٹ جنرل فاروق شوکت، لیفٹیننٹ جنرل خوشدل آفریدی، جنرل ریٹائرڈ محمد موسیٰ خان، بریگیڈیئر (ر) عبدالرحیم درانی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عمران اللہ خان۔ ان کے بعد آخری فوجی جنرل جو گورنر بنے، وہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ تھے۔ جنرل قادر بلوچ کالج میں میرے کلاس فیلو تھے اور لا کالج میں بھی ہم اکٹھے تھے۔ اس طرح 7 گورنروں کا تعلق فوج سے تھا۔
اب ایک عرصے سے پاکستان جمہوری دور سے گزر رہا ہے، کچھ سیاست دانوں کی خواہش ہے کہ ایک بار پھر سیاسی حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے اور طالع آزما سیاست دانوں کے وارے نیارے ہوجائیں۔ مسلم لیگ تو فوج کی ہے، بھٹو بھی مسلم لیگ ہی کی پیداوار تھے۔ مسلم لیگ ہر فوجی جنرل کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی رہی ہے۔
ہم تجزیہ گورنر کے حوالے سے کررہے ہیں۔ بلوچوں کا خان بھی گورنر رہا ہے۔ ان کا دور گورنری 7 جنوری 1974ء سے 5 جولائی1977ء تک رہا۔
گورنروں کا دور بھی دل چسپ تھا۔ ان گورنروں میں جنرل قادر اور فضل آغا کا تعلق مجھ سے اس طرح بنتا ہے کہ ہم کالج اور لا کالج میں کلاس فیلو تھے۔ ایک اور گورنر میرے کلاس فیلو تو نہ تھے مگر جناح اسٹیڈیم میں میرے واک فیلو تھے، اور یہ جناب جسٹس (ر) امان اللہ خان یٰسین زئی ہیں۔
میں تین گورنروں جنرل قادر بلوچ، سید فضل آغا مرحوم اور جسٹس (ر) امان اللہ خان یٰسین زئی کی حلف برداری میں شریک تھا۔ بعض دفعہ ایک سوال کے بعد گورنر ہائوس کے دروازے مجھ پر بند ہوئے ہیں۔ اب پھر گورنر ہائوس کی تقریبات میں میرا داخلہ بند ہے۔ اس کی وجہ پائند خروٹی ہے، اسے ایک میسج بھیجا تو اس کا ردعمل بڑا شدید تھا۔ اس کے بعد سے گورنر ہائوس کے دروازے بند ہیں۔ وہ افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کا حامی تھا اور میرا قلم اس کی مخالفت میں چل رہا تھا۔
میرے ایک سوال پر گورنر بلوچستان اویس غنی کے دور میں گورنر ہائوس کی تقریبات میں دروازے بند ہوئے ہیں۔ بعض دفعہ درباری صحافیوں کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ بات میرے کلاس فیلو سید فضل آغا سے شروع ہوئی ہے اور ابھی تک جاری ہے۔ وہ جب گورنر بنے تو انہیں مبارک باد دینے گیا، وہ بہت خوش ہوئے، اپنے پاس بٹھا لیا اور ماضی کو یاد کرتے رہے۔ ان کا سفر مسلم لیگ سے شروع ہوا اور جمعیت علمائے اسلام میں اختتام پذیر ہوگیا۔ مرحوم 1988ء سے 1991ء تک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، اور تین ماہ تک گورنر بلوچستان رہے۔ 25 جولائی 2018ء کو وہ صوبائی اسمبلی میں منتخب ہوئے۔ وہ کراچی میں تھے کہ 11 مئی کو بیمار ہوگئے اور 20 مئی کو زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان کو حاجزئی سیدان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ خطرناک حالات میں بھی لوگوں نے کورونا کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی نماز جنازہ میں والہانہ شرکت کی۔ وہ مثبت سیاست کے قائل تھے، خوش مزاج انسان تھے۔ ان کی وفات اہلِ خاندان کے لیے بڑا صدمہ ہے اور دوستوں کے لیے بھی۔
گورنر ہائوس کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ برطانوی دورِ حکومت سے گورنر ہائوس کے اردگرد جنگلہ لگا ہوا ہے اور اندر کا منظر بڑا دل کش نظر آتا ہے۔ گورنر ہائوس کے جنگلہ کا نقشہ اُس وقت تبدیل ہوگیا جب بلوچوں کا خان گورنر بنا۔ انہوں نے جنگلہ کو اینٹوں سے چُن دیا، یعنی اس کو اینٹوں کی دیوار سے بند کردیا اور دیوار اونچی کردی تو نواب بگٹی نے خان کے اس عمل کے خلاف بیان دیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ خان بلوچ کو کس سے خوف ہے کہ انہوں نے حفاظتی دیوار اتنی اونچی کردی!۔
اور جب سید فضل آغا گورنر بنے تو انہوں نے حکم دیا کہ گورنر ہائوس کو سابقہ صورت میں بحال کردیا جائے۔ جس کے بعد اینٹوں کی دیواروں کو ہٹا دیا گیا۔ اس طرح ایک بار پھر گورنر ہائوس برطانوی دور میں داخل ہوگیا، اور گورنر ہائوس کے اندر کا خوب صورت اور دل کش سحر انگیز منظر نگاہوں کو بھانے لگا۔ سید فضل آغا کا یہ عمل مجھے بہت اچھا لگا، یہ ایک جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ گورنر ہائوس کی سڑک کھول دی گئی تھی، ٹریفک رواں دواں تھا، اس رواں دواں سڑک کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جب وہ وزیراعلیٰ تھے، مکمل بند کردیا۔ اب تمام ٹریفک افغان قونصل جنرل کے دفتر کے سامنے سے گزرتا ہے اور ٹریفک جام رہتا ہے۔ ایک قوم پرست لیڈر کا یہ ’’کارنامہ‘‘ عوام کے لیے اذیت کا باعث بن رہا ہے۔ زرغون روڈ سے 60 فیصد ٹریفک رواں دواں تھا، اب سو فیصد ٹریفک افغان قونصل جنرل ہائوس کے سامنے سے گزرتا ہے اور عوام کے لیے ایک عذاب بن گیا ہے۔ فضل آغا یاد آتے ہیں اور عبدالمالک بلوچ بھی یاد آتے رہتے ہیں۔
آخر میں سید فضل آغا کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ مہربان انہیں اپنے جوارِ رحمت میں ڈھانپ لے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کے تمام احباب اور ان کے چاہنے والوں سے دلی تعزیت کرتا ہوں۔ لوگ انہیں مدتوں یاد رکھیں گے۔