پی ایچ ڈی کے بعد میں پہلے کراچی اور پھر لاہور کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ رہا۔ اس دوران کانفرنسوں میں، یار دوستوں کی محفل میں جب بھی تعلیم اور خاص طور پر Curriculum کی بات ہوتی تو مائیکل ایپل کا تذکرہ ضرور آتا۔ مائیکل ایپل کا، جس نے تعلیمی بحث میں تعلیم اور طاقت، نظریے اور نصاب، اسکول اور سماجی ناہمواریوں کے موضوعات پر بحث کی۔ میرے خیال میں تعلیم کا دراصل مقصد معاشرے میں سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو کم کرنا ہے۔ میں اب کراچی سے لاہور آگیا۔ تعلیم میں Critical Pedagogy کاPassion میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور اس میدان میں جن لکھنے والوں نے مجھے متاثر کیا تھا ان میں مائیکل ایپل کا نام بھی شامل تھا۔ میں اپنے شاگردوں کو یہ کتاب ضرور تجویز کرتا۔ اور پھر 2011ء کا سال جب مجھے ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے ملائشیا کے شہر Penang جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جانے کی خاص کشش وہاں مائیکل ایپل کی آمد تھی جس سے ملنے کا مجھے ایک مدت سے اشتیاق تھا۔
کانفرنس میں پہلے روز دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد ایک بہت بڑے ہال میں ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اتفاق سے میں اُس میز پر تھا جہاں میرے ساتھ والی سیٹ پر بائیں طرف مائیکل ایپل اور دائیں طرف مسزایپل بیٹھی تھیں۔ میں نے مائیکل کو بتایا کہ کیسے اس کی کتابوں نے مجھے انسپائر کیا ہے۔ پھر میں نے مائیکل سے وہ سوال پوچھا جو عرصے سے مجھے بے چین کیے ہوئے تھا: مائیکل، آپ کی تحریر میں تاثیر کیسے آتی ہے؟ میں جب آپ کی تحریریں پڑھتا ہوں تو بے ساختہ معاشرے کے کمزور طبقوں سے ہمدردی اور محبت کے جذبات ابھرتے ہیں۔ غریبوں اور محروموں کا احساس شدید ہوجاتا ہے، اور دل میں ایک جذبہ بیدار ہوتا ہے کہ معاشرے کے نادار طبقے کی حالتِ زار کو بدلا جائے، اور تعلیم کے ذریعے ان کو طاقت اور اُن وسائل تک رسائی دی جائے جن سے وہ ابھی تک محروم ہیں۔ مائیکل یہ سن کر مسکرایا اور بولا: تحریر میں تاثیر کا سوال اہم ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری تحریر میں تاثیر ہے یا نہیں، کیونکہ یہ فیصلہ کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے، ہاں میں صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ میں جو کچھ لکھتا ہوں دل سے لکھتا ہوں اور پورے یقین سے لکھتا ہوں۔ میں جب غربت اور غریبوں کی بات کرتا ہوں تو یہ زبانی کلامی نہیں ہوتی، میں نے غربت کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ غربت کو جیا ہوں۔
اسٹیج پر ہلکی پھلکی پُرفارمنس کے سلسلے جاری تھے۔ ہم کھانا کھا رہے تھے اور میں مائیکل ایپل سے اس کی کہانی سننا چاہتا تھا جس نے اس کی تحریر میں تاثیر کا جادو شامل کردیا ہے۔ مائیکل کے سامنے اُس کا ایک چاہنے والا قاری بیٹھا تھا۔ وہ اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مائیکل کہنے لگا: یہ ایک طویل کہانی ہے۔ میرے نانا روس میں رہتے تھے۔ انتہائی غربت کی زندگی تھی۔ روزگار کی تلاش میں وہ برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں آگئے جہاں ایک مل میں مزدوری مل گئی۔ پھر وہ مانچسٹر سے امریکہ کے شہر نیوجرسی آگئے۔ مجھے یاد ہے میرے نانا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ نیوجرسی کے علاقے میں ہم غریبوں کے محلے میں رہتے تھے۔ نانا نے یہاں آکر بھی مزدوری شروع کردی تھی، وہ ایک ٹیکسٹائل مل میں مزدوری کے ساتھ ساتھ درزی کا کام بھی کررہے تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی شعور کے مالک تھے۔ اُن دنوں ہر ہفتے کو ان اجلاسوں میں Working Men’s Circle کا اجلاس ہوتا تھا۔ میرے نانا باقاعدگی سے اس میں شرکت کرتے تھے اور اکثر وہ مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ یوں بائیں بازو کے خیالات سے محبت مجھے بچپن کے دنوں سے ہوگئی تھی۔ اُن دنوں نیوجرسی مزدوروں کی جدوجہد اور ہڑتالوں کا مرکز بنا ہوا تھا، ان اجلاسوں میں کھیل بھی ہوتے اور سیاسی گفتگو بھی ہوتی۔ یہیں سے میری ذہنی تربیت کا آغاز ہوا اور مجھے سماجی امتیازات اور ناہمواریوں کا احساس شدت سے ہوا۔ میری والدہ کا نام میمی ایپل (Mimi Apple) تھا۔ کہنے کو تو وہ ہائی اسکول بھی نہیں گئی تھیں لیکن کتابیں، اخبارات اور رسائل روانی سے پڑھتی تھیں۔ میری والدہ بھی سیاسی شعور کی مالک تھیں۔ اور وہ The Congress of Racial Equality کی بانی اراکین میں سے تھیں اور باقاعدگی سے اس کے اجلاس میں شرکت کرتی تھیں۔ میرے والد ایک پرنٹر تھے جو سارا دن محنت کرتے۔ ہفتے کے روز ہم دو بھائی بھی اپنے والد کی دکان پر گھنٹوں اُن کا ہاتھ بٹاتے۔ گھر میں بھی ہم سب مل کر کام کرتے تھے۔ پرنٹنگ شاپ پر والد کے ہمراہ کام کرنے سے مجھے ایک تو محنت کی عادت پڑ گئی اور دوسرے اشاعت کی دنیا سے محبت ہوگئی۔ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک اسکول میں استاد بن گیا۔ میرے والدین میرے استاد بننے پر بہت خوش تھے کیونکہ بطور استاد میں ایک نئے انداز میں اُن کے مشن کے لیے کام کرسکتا تھا۔ معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر مواقع کی فراہمی کا مشن۔ پھر میں ٹیچرز یونین کا صدر بن گیا اور اساتذہ کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے لگا۔ مجھے ایک عام آدمی کی محرومیوں کا احساس تھا، کیونکہ میں نے غربت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ جب میں یونیورسٹی میں پڑھانے لگا تو میں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے تعلیم کو ذریعہ بنا لیا۔ اسی لیے میری تحریروں میں اکثر سماجی عدم مساوات اور تعلیمی اداروں کے کردار کے حوالے سے بحث ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے تعلیم میں اتنی طاقت ہے کہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔
اب اسٹیج سے اعلان ہورہا تھاکہ کانفرنس کی اختتامی تقریر ہونے لگی ہے۔ ہال میں بیٹھے سب لوگ خاموش ہوگئے اور اسٹیج کی طرف دیکھنے لگے، لیکن میں مائیکل کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ آج کتنے سال بعد مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا کہ تحریر میں تاثیر اُس وقت آتی ہے جب لکھنے والا ایمان کی حد تک اس پر یقین رکھتا ہو۔ ہال میں جاری اختتامی تقریر سے بے نیاز میں سوچ رہا تھا کہ زندگی میں ہم بہت سے خواب دیکھتے ہیں، لیکن تعبیر چند کی ملتی ہے۔ آج مائیکل ایپل سے ملاقات میرے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔
۔ (ڈاکٹر شاہد صدیقی۔ روزنامہ دنیا۔ 30مئی 2020ء)۔