عقاب اور سیاہ سانپ

ابوسعدی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار وضو کے بعد موزہ پہننے کا قصد فرمایا لیکن دیکھا کہ اچانک آپؐ کا موزہ ایک عقاب اڑا کر لے گیا۔ آپؐ یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہوئے۔
تھوڑے ہی وقفے کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ عقاب نے موزہ کا منہ زمین کی طرف کیا جس سے ایک سیاہ سانپ گرا۔ اس عمل کے بعد عقاب نے موزہ رسول خداؐ کی خدمت میں پیش کرکے عرض کیا:
’’یارسول اللہؐ میں نے اسی ضرورت سے گستاخی کی تھی کہ اس کے اندر سانپ گھسا ہوا تھا۔ مجھے حق تعالیٰ نے آپؐ کی حفاظت پر مامور فرمایا۔ ورنہ میری کیا مجال تھی کہ آپؐ کے حضور ایسی بے ادبی کرتا‘‘۔
حضورؐ نے اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کیا، فرمایا: ’’ہم نے جس حادثے کو باعث ِ صدمہ سمجھا وہ دراصل وفا اور باعث ِ رحمت تھا‘‘۔
عقاب نے عرض کیا کہ ’’میں نے ہوا میں اڑتے ہوئے موزہ شریف میں سانپ دیکھ لیا تو یہ میرا کمال نہیں یا رسول اللہؐ، یہ آپؐ ہی کے نور اور روشنی کا فیضان اور عکس تھا۔ آپؐ تو سراج منیر ہیں، اگر کسی دل کے اندھے کو نظر نہیں آتا تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ کیوں کہ تاریکی کا عکس تاریک ہی ہوتا ہے‘‘۔
سبق: آئی ہوئی مصیبت کسی بڑی مصیبت سے بچانے کا ذریعہ ہوتی ہے، اسی لیے حالات کو سپردِ اللہ ہی رکھنا چاہیے۔
۔( حکایات رومیؒ….مولانا جلال الدین رومیؒ)۔

ایمان و منطق

ہلاکو خان (1265ء) کا وزیر نصیرالدین محقق طوسی (1274ء) تاتاریوں کی صحبت میں رہ کر قدرے مائل بہ ستم ہوگیا تھا۔ چونکہ بلند پایہ ماہر منطق بھی تھا، اس لیے ہر شخص سے ہر بات پر دلیل مانگتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے اعلان کیا کہ جس شخص کے پاس خدا کے وجود پر پختہ دلائل نہیں ہوں گے، وہ قتل کردیا جائے گا۔ ایک مرتبہ طوسی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اسے ایک کسان نظر آیا، قریب جاکر پوچھنے لگا کہ خدا دو ہیں یا ایک؟ کہا: ایک۔ پوچھا: اگر میں کہہ دوں کہ دو ہیں تو تم میری تردید کیسے کرو گے؟ کہا: میں اس کدال سے تمہارا سر چیر ڈالوں گا۔ طوسی مسکرایا اور یہ کہہ کر چل دیا: ’’ایمان کے سامنے دلائل ہیچ ہیں‘‘۔
۔(ماہنامہ چشم بیدار)۔

آج کا کام کل پر ٹالنا

ایک شخص آوارہ اور بدوضع تھا۔ بدمعاشوں میں رہتا اور سب طرح کے عیب کرتا۔ اتفاق سے کوئی مولوی اس کے محلے میں آکر رہے۔ مولوی صاحب محلے میں وعظ کہا کرتے۔ دو چار مرتبہ اس شخص نے بھی وعظ سنا اور اس کے دل میں ایک طرح کا اثر ہوا۔
مولوی صاحب نے اس کو بارہا سمجھایا کہ: ’’زندگی کا اعتماد نہیں، اور تم بہت عمر ضائع کرچکے ہو۔ اب توبہ کرو۔‘‘ یہ شخص ہر روز مولوی صاحب سے وعدہ کرتا کہ ”کل ضرور توبہ کروں گا“۔
کل کرتے کرتے کئی برس گزر گئے۔ آخر مولوی صاحب نے کہا: ’’بھائی تمہاری کل قیامت کی کل ہے۔ تمہاری کل نہ آئی ہے نہ کبھی آئے گی۔ اور نہ تم اس کو آنے دو گے۔ اگر تم کو توبہ کرنی ہے تو آج کرو، کل کا نام مت لو‘‘۔
حاصل: جو کام ہم آج کرسکتے ہیں اس کو کل پر ٹالنا ہمارے ارادے کے ضعف کی دلیل ہے۔
۔(منتخب الحکایات، نذیر احمد دہلوی)۔

موت

٭ تم میں کوئی موت کی آرزو نہ کرے، کیونکہ یا تو نیکوکار ہوگا یا ممکن ہے اس کے نیک عمل میں زیادتی ہوجائے، اور یا بدکار۔۔۔ تو ہوسکتا ہے کہ آئندہ توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرلے۔ (بخاری شریف)۔
٭ اپنے مُردوں کی نیکیوں کا چرچا کرو اور ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرو۔ (ترمذی شریف)۔
٭ موت سے بڑھ کر کوئی سچی چیز نہیں، اور امید سے بڑھ کر کوئی چیز جھوٹی نہیں۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )۔
٭ زیادہ ہنسنا موت سے غفلت کی نشانی ہے۔ (حضرت عمر فاروقؓ)۔
٭ موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔ (حضرت علیؓ)۔
٭ وہ شخص موت کے لیے تیار نہیں ہوا جسے یہ خیال ہو کہ وہ کل زندہ رہے گا۔ (حضرت سفیان ثوریؒ)۔
٭ اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نجات نہیں ہو سکتا کہ صداقت کی خاطر شہید کی موت مر جائے۔ (قائداعظمؒ)۔