افضل رضویؔ
پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان وادب کے نامور نقاد، محقق اور ادیب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنی علمی، ادبی اور تعلیمی خدمات کی بدولت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے گزشتہ پانچ دہائیوں سے اپنے آپ کو اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے وقف کررکھا ہے۔ وہ تقریباً 80 کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں، ان میں تحریکِ پاکستان اور مولانا مودودی، تحریکِ آزادی میں اردو کا حصہ، انجمن ترقی اردو پاکستان، اقبال اور کلامِ اقبال، ایک نادر سفرنامہ (دکن کے اہم مقامات کے احوال و کوائف)، دکن اور ایران (سلطنتِ بہمنیہ اور ایران کے علمی و تمدنی روابط)، کلامِ نیرنگ، مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی، اقبال اور جدید دنیائے اسلام، دکن کا عہدِ اسلامی، پاکستان میں اُردو ادب: محرکات و رجحانات کا تشکیلی دور، کلامِ رنجور عظیم آبادی، فتح نامہ ٹیپو سلطان، بیتی کہانی (اُردو کی اولین نسوانی خودنوشت اور تاریخ پاٹودی کا بنیادی مآخذ)، اُردو تحقیق (صورتِ حال اور تقاضے)، تاریخِ ادبیاتِ اردو (تدوین)، اردو کے نادر سفرنامے، مسلم ہندوستان: تاریخ، تہذیب اور ادب، جنوبی ایشیا کی تاریخ نویسی: نوعیت، روایت اور معیار، حیات و فکر اقبال کے نئے گوشے، افکارِ سیاسی کی تشکیلِ جدید: سید احمد خاں اور اقبال اور نظریہ پاکستان، اور قائداعظم: مقاصد، جدوجہد اور حاصلات، اہم ہیں۔
ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کے پروفیشنل کیریئر کا آغاز 1967ء میں ہواجب انہیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے کونسل خانۂ کراچی میں اردو کی تدریس کے لیے منتخب کیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے فراغت کے بعد 1970ء میں پاکستان شپ اونر کالج کراچی سے منسلک ہوگئے اور کم وبیش چودہ سال تک اسی کالج میں شعبہ اردو کے لیکچرار رہے۔ 1984ء میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی اور صدر شعبۂ اردو جامعہ کراچی ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے انہیں جامعہ میں شعبہ اردو کا استاد مقرر کیا۔ اسی دوران انہیں اورینٹل یونیورسٹی نیپلز اٹلی سے ملازمت کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کرلیا اور دوسال تک اس یونیورسٹی کے ایشین اسٹڈیز کے شعبے سے وابستہ رہے۔ واپس آکر پھر کراچی یونیورسٹی کی اپنی ذمے داریوں سے رجوع کرلیا، لیکن1993ء میں ایک نہایت عمدہ پیش کش ملنے کے نتیجے میں جاپان چلے گئے جہاں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں اردوکے پروفیسر کی حیثیت سے 2000ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ جاپان سے واپس آکر جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے ایک بار پھر تدریس کا آغاز کیا اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت میں 2006ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے اور پھر دوبارہ جاپان چلے گئے جہاں دائتو بنکا یونیورسٹی، اوساکا یونیورسٹی اور کیوتو یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں سے 2008ء میں واپس وطن آکر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک ہوگئے، جہاں چیئرمین شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ لٹریچر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
تحقیق وتدریس گویا ڈاکٹر معین الدین عقیل کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔ ابھی بھی ان کا قلم تھما نہیں اور وہ کچھ نہ کچھ کرنے کو تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ ان کے گھر پر ہر اتوار باقاعدہ علمی و ادبی مجلس منعقد ہوتی ہے جس میں نہ صرف کراچی کے مؤقر حلقوں سے دانشور شرکت کرتے ہیں بلکہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی ادیب، شاعر، محقق اور نقاد شریک ہوتے ہیں۔ میری موجودگی میں امسال اردو ادب اور اقبالیات کے حوالے سے جانی پہچانی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی ان کے ہاں تشریف لائے۔
ڈاکٹر سید معین الدین عقیل سے راقم الحروف کی شناسائی 2017ء میں اُس وقت ہوئی جب محترم سید محمد ناصر علی نے علامہ اقبال ؒ پر کیے گئے میرے تحقیقی کام ’’در برگِ لالہ وگل‘‘ کی جلد اوّل انہیں تبصرے کے لیے پیش کی، اور انہوں نے اس تصنیف پر عالمانہ اور ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنی علم پروری اور خلوص کا ثبوت فراہم کیا اور ایک نہایت مدلل مضمون تحریر فرمایا جو اخبارات، جرائد و رسائل کی زینت بنا۔ بعد ازاں جب ’’در برگِ لالہ وگل‘‘ جلد اول کی کراچی میں تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی تو انہوں نے ایک بار پھر اپنے زریں خیالات کا اظہار فرمایا اور اس علمی و ادبی کام کی خوب پذیرائی کی۔ راقم الحروف کی یہیں ان سے ملاقات ہوئی اور اب گاہے گاہے برقی مراسلت ہوتی رہتی ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں راقم الحروف کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پروفیسر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل ایک علم پرور اور شفیق شخصیت کے مالک ہیں۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنے ذاتی کتب خانے کا اسّی فی صد جاپان کی کیوتو یونیورسٹی کو ہبہ کرچکے ہیں جو ان کے زبان وادب ِ اردو سے لگائو اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکومتِ جاپان نے بھی ان کے اس اقدام اور اردو کے لیے خدمات کو سراہتے ہوئے 2013ء میں جاپان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’آرڈر آف دی رائزنگ سن، گولڈ ریز ود نیک ربن‘‘(Order of the Rising Sun, Gold Rays with Neck Ribbon) عطا کیا۔
جیسا کہ سطورِ ماقبل میں بیان ہوچکا کہ ڈاکٹر سید معین الدین عقیل اب بھی تحقیق کا کوئی نہ کوئی موضوع ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں، چنانچہ گزشتہ سال(2019ء) انہوں نے دہلی کی تاریخ اور اس کے آثار کو اپنا موضوع بناتے ہوئے ایک علمی، ادبی اور تاریخی تالیف ’’تاریخ وآثارِدہلی‘‘مرتب کی، جسے انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا۔ ان کی اس تازہ ترین تالیف کا مطالعہ کرنے کے بعد بڑے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس موضوع پر لکھی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ نئی کتاب ہے، نیز یہ ایک ادبی ہی نہیں تاریخی کام ہے جسے عصرِ حاضر اور پچھلے زمانوں کے ادباء اور مؤرخین ایک دستاویزی ثبوت کے طور پر یاد رکھیں گے، اور جب جب اس کا حوالہ دیا جائے گا تب تب ڈاکٹر معین الدین عقیل کو سراہا جائے گا۔ گویا یہ کام ہمیشہ زندہ رہنے اور رکھنے والا ہے۔
’’تاریخ وآثارِدہلی‘‘کا سرورق محمد ساجد نے ڈیزائن کیا ہے، جب کہ اس کا انتساب ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے شہرِ دہلی کے اوّلین فاضل مؤرخ سید احمد خاں کے نام کیا ہے۔ وہ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’جنہوں (سید احمد خاں) نے اپنی متنوع قومی ومعاشرتی سر گرمیوں اور بیش بہا تاریخی و تصنیفی خدمات کے ساتھ ساتھ جہاں ایک جانب دہلی کی ایک اوّلین بہترین تاریخ ’’آثار الصنادید‘‘تصنیف کی، وہیں اردو زبان میں عمدہ تاریخ نویسی کا آغاز بھی کیا‘‘۔
انتساب کے بعد کتاب میں شامل موضوعات کو ’’فہرستِ مشمولات‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو بجائے خود ایک اچھوتا انداز ہے۔ اس میں انہوں نے سب سے پہلے مقدمہ کا عنوان قائم کیا ہے، پھر’’ذکر امورات ِ عام ضلع دہلی‘‘ ہے۔ مذکورہ دو عنوانات کے بعد فصل اول میں ’’حال شہرِ دہلی‘‘ اور فصلِ دوم میں عمارات ِ شہر، جن میں ’’قلعے‘‘، ’’احوالِ مساجد‘‘، ’’احوالِ مقابر‘‘، ’’سرائے، دروازے‘‘، ’’بند‘‘، ’’حال پلوں کا‘‘، ’’ذکر تالابوں کا‘‘، ’’ ذکر درگاہوں کا‘‘ اور’’مندر‘‘ شامل ہیں، کی بھرپور تفصیل فراہم کی ہے۔ جب کہ فصلِ سوم میں ’’ذکر پر گنات سابق وحال کا مع تشریح الفاظ واصطلاحاتِ دفاتر سابقہ زماں‘‘ اور’’فہرستِ اسناد وحواشی‘‘ شامل کی ہیں۔
یہ ڈاکٹرسید معین الدین عقیل کا توضیحی کام ہے جسے انہوں نے انتہائی ایمان داری سے حوالہ جات کے ساتھ رقم کیا ہے۔ کتاب کا سرورق بھی اس بات کا شاہد ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر ’’رام جی داس‘‘ کے کیے گئے کام بعنوان ’’تاریخِ اموراتِ عام ضلع دہلی‘‘ کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ اسے اس موضوع پر نقشِِ اول قرار دیا ہے۔کتاب کے عنوان ہی میں لکھتے ہیں کہ یہ کام ’’غیر معروف و غیر مطبوعہ اور منحصر بفردِ نو دریافت مخطوطہ پہلی بار منظرِ عام پر‘‘ لایا جارہا ہے، جس سے ان کی دیانت داری بجائے خود ایک ثبوت کے طور پر سامنے آتی ہے۔
اس تاریخی کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر صاحب نے نہایت باریک بینی سے ’’تاریخ وآثارِدہلی‘‘میں شہر کا تاریخی پسِ منظر اور اس سلسلے میں احاطۂ تحریر میں لائی جانے والی حوالہ جاتی کتب کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان میں ’’سیر المنازل‘‘جو مرزا سنگین بیگ کی تصنیف ہے، بہت اہم ہے۔ کیونکہ اس تصنیف کو دہلی کی اولین تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ اصل کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی لیکن اس کے اردو اور انگریزی تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور معاصر تصنیف جو کبھی شائع نہ ہوئی اس کا ذکر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اپنے مقالے میں کیا ہے۔ یہ قلمی نسخہ ایڈنبرا یونیورسٹی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ اس نسخے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف نے دہلی کے کوچہ و بازار اور گردو نواح کی ایک ایک تفصیل مربوط طریقے سے رقم کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ راقم شہری محکمے میں ملازم رہا ہوگا۔ یہ دونوں تصانیف 1821ء سے 1827ء کے زمانے میں مرتب ہوئیں اور ان کے کوئی بیس سال بعد سرسید احمد خاں کی شہرۂ آفاق تاریخِ دہلی ’’آثار الصنادید‘‘ کے نام سے 1847ء منصۂ شہود پر آئی۔ یہ ایک مفصل اور محققانہ تصنیف ہے جسے آج تک تاریخِ دہلی پر مستند تصنیف کا درجہ حاصل ہے، کیونکہ اس کو مآخذ بناکر بہت سی تصانیف زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں، ان کی تفصیل بھی ڈاکٹر صاحب نے مقدمے میں بیان کی ہے۔ مقامی مؤرخین اور محققین کے علاوہ غیر ملکی ماہرینِ آثارات وتاریخ نے بھی دہلی پر بہت لکھا ہے، اور لکھا جارہاہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے آر۔ای فرینکن برگ(R.E.Frykenberg)کے مجموعۂ مقالات Delhi through the ages : essays in urban history, culture, and society کا حوالہ دیا ہے جو 1986ء میں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، دہلی سے شائع ہوا۔ علاوہ ازیں اسٹیفن پی۔ بلیک (Stephen P. Blake) کیShahjahanabad:
The Sovereign City in Mughal India 1639–1739 اور آرتھر ڈیڈنی(Arthur Dudney)کی تصنیفDelhi: Pages From A Forgotten History قابلِ ذکر ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیلی توضیحات کے بعد ڈاکٹرسید معین الدین عقیل رام جی داس کی نادر تصنیف ’’ذکر اموراتِ عام ضلع دہلی‘‘ جو 1854ء میں رقم ہوئی، کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہی وہ سن ہے جب سید احمد خاں کی تصنیف ’’آثارالصنادید‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ مصنف رام جی داس دہلی کے محکمہ ٔ کلکٹری میں نائب سرشتہ دار رہا اور غالباً ملازمت سے اپنی سبکدوشی کے بعد اس نے یہ کتاب تحریر کی‘‘۔ یہ نادر تاریخی دستاویز کبھی زیورِ طباعت سے آراستہ نہ ہوسکی، یہی وجہ ہے کہ کسی محقق یا مؤرخ کی تصنیف و تالیف میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کا واحد نایاب نسخہ ڈاکٹر معین الدین عقیل کو مانچسٹر کی معروف ’’جان ریلینڈ لائبریری ‘‘(John Rayland Library) میں ملا جس کی تفصیل تصنیف ہذا میں موجود ہے۔
مقدمے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کتاب کا اصل سرورق دیا ہے اور پھر ’’حال شہرِ دہلی‘‘ کا بیان ہے۔ اس عنوان میں صاحبِ تحریر نے دہلی کے نام کی وجہ تسمیہ اور اس کی آباد کاری، نیز اس کے تاخت و تاراج ہونے کی تفصیل درج کی ہے۔ یہ اس کی فصلِ اوّل ٹھیری۔ فصلِ دوم میں جس کا آغاز عماراتِ شہر سے ہوتا ہے، سب سے پہلے کُل اکیس قلعوں کی بابت لکھا گیا ہے، اور چنداں معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ اس کے بعد مساجد کے ذکر میںکُل پندرہ مساجد کا تذکرہ ہے اور مقبروں کے ذیل میں تیرہ مقابر کو احاطۂ تحریر میں لایا گیا ہے، جب کہ چھے دروازوں اور سرائے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس نسخے میں دہلی کے قرب و جوار کے چار بند جو غالباً حفاظت کے لیے بنائے گئے ہوں گے، کا ذکر ہے۔ نیز آٹھ پلوں کی تفصیل بھی فراہم کی گئی ہے۔ پلوں کے ذکر کے بعد ایک بار پھر ’’سرائے‘‘کی سرخی قائم کرکے سولہ دیگر سرائے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ تالاب سلاطین اور مغلیہ عہد میں خاص اہمیت رکھتے تھے، چنانچہ اس ضمن میں قیاس کیا گیا ہے کوئی تعداد نہیں لکھی، لیکن درگاہوں کے نام تفصیل سے دیے گئے ہیں جو تعداد میں پندرہ ہیں۔ اسی طرح مندروں کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے کیا گیا ہے۔ رام جی داس نے دہلی کے پانچ مندروں کو بھی اپنی اس نادر تصنیف کا حصہ بنایا ہے۔
آخر میں فصلِ سوم کے تحت ’’ذکر پر گنات سابق وحال کا مع تشریح الفاظ واصطلاحاتِ دفاتر سابقہ زماں ‘‘اور’’فہرستِ اسناد وحواشی‘‘ شامل کی ہیں جس سے اس تصنیف کی اہمیت اور بھی معتبر ہوگئی ہے۔ اتنے اچھے سلیقے، نیز دیانت داری سے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے پر راقم الحروف محترم ومکرم جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہے اور اس بات کی امید کرتا ہے کہ ان کی نوکِ قلم سے ابھی اور کئی نئی نئی چیزیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوں گی اور نہ صرف تاریخ و ادب کے طالب علم بلکہ نقاد اور محققین ان کاموں کو اپنی گرفت میں یوں لیں گے جیسے پیاسا پانی کو لیتا ہے۔