گدھا اور گائے

مہدیآذریزدی/مترجم:ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک دیہاتی کے پاس ایک گدھا اور ایک گائے تھی۔ وہ ان دونوں کو ایک ہی طویلے میں باندھتا تھا۔ گدھے پر سواری کرتا تھا اور اس کا خوب خیال رکھتا تھا، لیکن گائے کو صحرا میں لے جاتا تھا، اسے جوتتا تھا اور زمین میں ہل چلاتا تھا۔ فصل گاہنے کا وقت آتا تو اس کو کھلیان کے چرخ میں جوت دیتا اور اس سے خوب کام لیتا۔
ایک روز گائے بہت تھک چکی تھی۔ جب وہ گھر لوٹ رہی تھی، مسلسل اپنے آپ سے باتیں کرتی اور بڑبڑاتی جاتی تھی۔گدھے نے اس سے پوچھا: ’’اس قدر ناخوش کیوں ہو، اور کیوں اپنے آپ سے باتیں کرتی جارہی ہو؟‘‘
گائے بولی: ’’کچھ نہیں، تم گدھوں کو ہمارے دکھوں کا کچھ اندازہ نہیں۔ ہم تمہارے مقابلے میں زیادہ بدقسمت ہیں‘‘۔گدھا بولا: ’’یہ کیا بات کررہی ہو! تم بوجھ اٹھاتی ہو، ہم بھی بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیا بہتر اور کیا بدتر۔ کوئی فرق نہیں‘‘۔
گائے بولی: ’’کیوں نہیں، بڑا فرق ہے۔ گدھے کو سواری اور بار برداری کے لیے طلب کرتے ہیں، اس کے سوا تمہارے ساتھ ان لوگوں کو کچھ کام نہیں ہوتا، لیکن ہم پابند ہیں کہ زمین میں ہل چلائیں، گاہنے کے وقت کھلیان کے چرخ کو گھمائیں، دودھ بھی دیں، اور ان سب سے بڑھ کر ہمارا سروکار قصاب کے ساتھ! آج ہی کی بات ہے مجھے اس قدر ہل چلانا پڑا کہ میرے پہلو ہل پنجالی کے بوجھ سے درد کررہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے جس کی یہ سزا ہے‘‘۔گدھے کو بڑا دکھ ہوا، اس نے کہا: ’’تم سچ کہتی ہو۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں ایک ایسا گر بتائوں کہ اس کے بعد تمہیں صحرا میں نہیں لے جائیں گے اور ہل چلانے سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی‘‘۔
گائے بولی: ’’مجھے نہیں معلوم مگر عام طور پر مشہور یہ ہے کہ گدھے خاصے ناسمجھ ہوتے ہیں، اور مجھے ڈر ہے کہ تم مجھے کوئی ایسا احمقانہ گر بتائو جس کا انجام میرے نقصان پر ہو‘‘۔
گدھا بولا: ’’نہیں بھئی، ہم اتنے بھی گدھے نہیں جتنا لوگ کہتے ہیں، اسی وجہ سے ہمارے مالک ہمیں ہل جوتنے اور کھلیان کا چرخ گھمانے کے لیے نہیں لے جاتے۔ سردست تم ایک دفعہ میری نصیحت کو آزما کے تو دیکھو۔ جس قدر مجھے علم ہے، لوگ سخت کاموں کو طاقتور اور صحت مند گایوں کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں، اور تم بھی چوں کہ خوب عمدہ کام کرتی ہو، اس لیے یہ لوگ تم سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ میرے خیال میں تمہیں چاہیے کہ خود کو بیمار ظاہر کرو اور ہائے وائے کرو اور راہ چلنے سے اجتناب کرو۔ کوئی کسی سے زبردستی کام نہیں لے سکتا‘‘۔ گائے بولی: ’’کیا مشورہ ہے! ارے اس وقت وہ مجھ پر لاٹھی اٹھالیں گے اور مار پیٹ کریں گے‘‘۔گدھا بولا: ’’میری دانست میں زیادہ کام کرنے سے تھوڑے سے ڈنڈے کھا لینا بہتر ہے۔ اصل میں راہ چلنے سے پہلے ہی اس کی پیش بندی کرلینی چاہیے۔ صبح جب تمہیں صحرا میں لے جانے کے لیے آئیں تو تمہیں چاہیے زمین پر کسی کروٹ لمبی پڑ جائو اور ہائے ہائے کرنا شروع کرو۔ تمہیں تین چار چھڑیاں ماریں گے اور جب دیکھیں گے کہ تم اپنی جگہ سے ایک پور برابر بھی حرکت نہیں کررہیں تو تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دیں گے‘‘۔

گائے بولی: ’’تم درست کہتے ہو۔ اپنی تمام تر بے وقوفی کے باوجود یہ نکتہ تمہیں خوب سوجھا ہے‘‘۔
اگلے دن گائے زمین پر ایک کروٹ لمبی پڑ گئی اور اس نے ہائے ہائے کرنا شروع کردی۔ دیہاتی نے جس قدر بھی کوشش کی وہ گائے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہا۔ ناچار وہ طویلے سے باہر نکل آیا کہ کوئی متبادل صورت نکالے۔
گدھا بولا: ’’میں نے کہا نہیں تھا! دیکھا میں نے تمہیں کیسا گر سکھایا، پھر کہو، گدھوں میں عقل کہاں؟‘‘
چند لمحے گزرے ہوں گے کہ دیہاتی کسی دوسری گائے کا بندوبست نہ کرسکنے کے باعث طویلے میں واپس آیا اور لگام اور رسّی گدھے کے منہ اور سر میں ڈالی اور اسے باہر لے گیا۔ جب گدھا باہر نکل رہا تھا، اس نے گائے کے کان میں کہا ’’یاد رکھو کہ رات تک خود کو اسی طرح بیمار ظاہر کرنا، ورنہ ہوسکتا ہے یہ دوپہر کو آئیں اور تمہیں صحرا میں لے جائیں‘‘۔گائے بولی: ’’اس رہنمائی کا شکریہ۔ خدا تمہاری عمر اور عزت میں اضافہ فرمائے‘‘۔
دیہاتی اس دن گائے کی جگہ گدھے کو صحرا میں لے گیا۔ اسے ہل میں جوتا اور وہ رات گئے تک زمین میں ہل چلاتا رہا۔ گدھا اپنے دل میں سوچ رہا تھا: ’’گائے سے نیکی کرتا کرتا میں خود کباب ہوگیا۔ میں بھی کیا احمق گدھا ہوں، بے وجہ اپنے سر مصیبت مول لے لی‘‘۔
گدھا کام میں کسی قدر جتا تھا، اور جب اسے گائے کا خیال آتا اور کام سے تھک جاتا تو اپنی اس رہنمائی پر پشیمان ہوتا اور خود سے کہتا: ’’میں بھی کیا عجیب گدھا ہوں‘‘۔ ظہر تک وہ بہت تھک گیا۔ اپنے آپ سے کہنے لگا ’’خوب! اب میں اپنی نصیحت پر خود بھی عمل کرتا ہوں‘‘۔ وہیں بیٹھ گیا، آنکھیں میچ لیں اور ہائے وائے شروع کردی!
دیہاتی نے ایک لکڑی اٹھائی، اور گدھے کو مارنا پیٹنا شروع کردیا اور کہنے لگا: ’’او بے شعور گدھے! تجھے معلوم ہے گائے بیمار ہے، اب تُو بھی سستی دکھا رہا ہے؟ گائے تو دودھ دیتی ہے، اس لیے میں نے اُس سے نرمی کی، لیکن اس لکڑی سے تجھے تو مار ہی ڈالوں گا۔ نہ تیرا دودھ کسی کام کا، نہ تیرا گوشت کسی لائق۔ بول، یہ سب گھاس اور جو کس لیے کھاتا ہے اگر اِس ایک روز بھی کام نہیں کرنا۔ تیرا نہ ہونا بہتر ہے‘‘۔
گدھے نے دیکھا کہ معاملہ بڑا خطرناک ہے، اٹھ بیٹھا اور پہلے تھوڑی بے زاری سے اور بعد میں سرگرمی سے کام میں جت گیا۔ اس نے رات بڑی دیر جاکر اپنے کام کی تکمیل کی۔ خود سے مسلسل کہتا جاتا تھا: ’’میں بھی کیا عجیب گدھا ہوں۔ میں نے خود کو کس مصیبت میں ڈال دیا۔ چاہیے کہ کسی بہانے سے دوبارہ گائے کو صحرا میں بھیجا جائے!‘‘
رات ہوگئی تھی۔ گدھا طویلے میں آیا۔ وہ اگرچہ نہیں چاہتا تھا کہ گائے کو اس کے تھک جانے کا احساس ہو، لیکن اس کے باوجود اپنی عادت سے مجبور وہ زیر لب بڑبڑائے جارہا تھا: ’’میں بھی کیا عجیب گدھا ہوں۔ میں بھی کیا عجیب گدھا ہوں!‘‘
گائے نے اس کی بڑبڑاہٹ سنی اور بولی: ’’نہیں نہیں تُو ہرگز گدھا نہیں، خاص طور پر جو گر تُو نے آج مجھے بتایا تھا، خوب تھا‘‘۔
گدھا بولا: تم ہر چیز سے واقف نہیں۔ تم طویلے میں سو جانے ہی کا سمجھی ہو، لیکن آج مجھے ایک ایسی چیز سمجھ میں آئی کہ تمہاری خاطر مجھے بڑا رنج ہوا‘‘۔
گائے بولی: ’’ہاں اگر تُو صحرا میں گیا ہوگا، تو تجھے اب سمجھ میں آیا ہوگا کہ زمین میں ہل چلانا کتنا مشکل کام ہے‘‘۔ گدھا بولا: ’’نہیں، اس کے برعکس۔ میں گیا اور میں نے دیکھا کہ کام مشکل نہیں، بہت آسان تھا۔ رنجیدہ ہونے کا سبب کچھ اور تھا اور ڈرتا ہوں کہ تمہیں بتائوں تو تمہیں دکھ ہوگا‘‘۔
گائے بولی: ’’ہاں بتا، کیا سبب تھا۔ کہہ ڈال، مجھے دکھ نہ ہوگا‘‘۔
گدھا بولا: ’’کچھ نہیں۔ دراصل ہمارا مالک آج ظہر کے بعد اپنے دوست سے کہہ رہا تھا: ’’صحرا میں کام کے لیے گدھا خاصا بہتر ہے۔ گائے بیمار بھی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ ہمارے ہاتھ سے جاتی رہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کل اسے قصاب کے ہاتھ فروخت کردوں تاکہ کم از کم اس کا گوشت تو حرام نہ ہو‘‘۔
گدھے نے اپنی بات کے آخر میں کہا: ’’تم یقین کرنا، میں تو تمہاری بھلائی چاہتا تھا، اور جب میں نے تمہیں آرام کرنے کا گر بتایا تھا تو میرا ارادہ برائی کا نہیں تھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارا مالک قصاب کی فکر کرنے لگے گا۔ اگر تم درست سمجھتی ہو تو چند دن آرام کرلو‘‘۔
گائے ڈر گئی اور بولی: ’’نہیں، بس یہ ایک دن ہی بہت ہے۔ میں جانتی تھی کہ گدھے کا مشورہ گائے کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ میں کل اپنے کام پر جائوں گی‘‘۔
گدھے نے سُکھ کا سانس لیا اور بولا: ’’جب بھی تمہارا دل چاہے میں صحرا میں جانے کے لیے بہرحال حاضر ہوں۔ صحرا بہت عمدہ جگہ ہے۔ ہل اور کھلیان گاہنے کا چرخ بھی بہت خوب ہے‘‘۔
گائے بولی: ’’میں خود جانتی تھی۔ تُو نے مجھے دھوکا دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ صحرا، ہل اور گائے، قصاب کی چھری سے بہتر ہیں‘‘۔
گدھا بولا: لو اور کرو نیکی! مجھے معلوم تھا کہ گائے کی جنس بھلائی کی قدر کرنا نہیں جانتی‘‘۔اگلے دن دیہاتی گائے کو صحرا میں لے گیا اور اپنے بیٹے سے کہنے لگا: ’’ایک ہل تُو بھی اٹھا اور اس گدھے کے ہمراہ کام کر۔ ایک لکڑی بھی ہاتھ میں لے لے تاکہ اسے سستی اور کاہلی کا خیال نہ آئے‘‘۔