دکن میں اردو کو علمی زبان بنانے کے لیے بڑے انہماک سے کام کیا گیا، اور استادانِ فن کی محنت ِ شاقہ کی بدولت یہ زبان دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں آکھڑی ہوئی۔
کہاں پراکرت اور کہاں اردو۔ پراکرت بقول اہلِ تحقیق کے سوقیانہ زبان، اور اردو اس کے مقابلے میں اہلِ قلم اور اہلِ علم کی زبان۔ آج بھی اگر ہندوستان کے پراکرت بولنے والے علاقوں کی خالص پراکرت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اردو کے خادم ایک بولی ٹھولی کو کہاں سے کہاں لے آئے۔ اردو کے عالموں نے زبان تو زبان حروف ِ تہجی میں بھی ہندوستان کی اس مشترکہ زبان کو لکھنے کے لیے اہم اور مناسب تبدیلیاں کیں۔ خ، غ، ق، ط، ظ، وغیرہ حروف کو چھوڑ کر میں ایک معمولی سے حرف کا ذکر یہاں کرنا چاہتا ہوں، اور وہ حرف ہے ’’ڑ‘‘۔
اردو کے علما کی توجہ سے پہلے ’’ڑ‘‘ کی صوت کو بھی ’’ڈ‘‘ ہی کے ذریعے ادا کیا جاتا تھا، چنانچہ پرانی تحریروں میں آپ کو ’’علی گڑھ‘‘ کے بجائے ’’علی گڈھ‘‘ لکھا ہوا ملے گا۔ اسی طرح ’’جونا گڑھ‘‘ کے بجائے ’’جونا گڈھ‘‘، ’’گاڑی‘‘ کے بجائے ’’گاڈی‘‘۔
ایک ہندوستانی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ کے نام سے نکلی تھی۔ بمبئی کے گجراتیوں نے اس کے انگریزی اشتہار میں ’’گھڑی‘‘ کو جی اے ڈی آئی لکھا یعنی ’’گاڈی‘‘۔ میں اس اشتہار کو پڑھ کر کئی دن تک چکر میں رہا کہ ’’انمول گاڈی‘‘ کیا معنی!۔
اس ’’ڑ‘‘ اور ’’ڈ‘‘ کا فرق ایک مرتبہ تو خوب ہی رنگ لایا۔ ہمارے ایک گجراتی کرم فرما ایک گجراتی فلم کمپنی میں پبلسٹی کا کام کرتے تھے۔ گجراتی زبان کے تو مشہور اہلِ قلم تھے مگر اردو بولنے کا تو خیر، اردو لکھنے کا علم ان کا واجبی تھا۔ ایک دن ان کے مالک نے انہیں اپنی فلم کا اشتہار انگریزی میں لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کا اردو ترجمہ کل تک اخباروں میں شائع کرادو۔ فلم کا نام تھا ’’چوڑیاں‘‘۔ ہمارے اس کرم فرما نے پرانی فلموں کے اشتہار دیکھے اور جس طرح بھی بن پڑا ’’شاہکار‘‘، ’’ہدایت کار‘‘، ’’موسیقار‘‘ وغیرہ لکھ کر اشتہار اخبارات میں بھجوا دیا۔ اگلے دن جو اشتہار بمبئی کے تمام اردو اخبارات میں آب و تاب سے شائع ہوا، یہ تھا:۔
آرہا ہے، آرہا ہے، آرہا ہے
فلاں، ابنِ فلاں، فلم کمپنی
کا شاہکار، ’’چڈیاں‘‘
آئیے ’’چڈیاں‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔
وہ صاحب بھی کیا کرتے، گجراتی میں ’’ڑ‘‘ ہے ہی نہیں، حرف ’’ڈ‘‘ ہی سے کام چلایا جاتا ہے۔ وہاں ’’چوڑیاں‘‘ کو ’’چڈیاں‘‘ لکھنا ہی پڑتا ہے۔
یہ تمام ذکر ہمارے آزاد ہونے سے پہلے کا ہے۔ جب ہم آزاد ہوئے اور بھارت بھی آزاد ہوا تو معاف فرمائیے، ہم کچھ بہک گئے۔ اپنے عظیم الشان ثقافتی سرمائے کی طرف سے بے پروا ہوگئے۔ خیال یہ کیا کہ اب تو یہاں ہم ہی ہم ہیں، اب ہمارے ثقافتی سرمائے پر کون حملہ کرے گا۔ اب اس کا تحفظ کیا معنی! اِدھر ہماری یہ حالت اور اُدھر بھارت والوں کی یہ حالت کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی انہوں نے لنگر لنگوٹ کس لیے اور ہاتھ دھوکر اس بات کے پیچھے پڑگئے کہ مسلمان پاکستان میں چلے گئے تو کیا ہوا، ہم اپنی ہندوانہ تہذیب اور ہندوانہ ثقافت کے گولے ہندوستان میں بیٹھ کر پاکستان پر برسائیں گے۔ چنانچہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہوں نے شروع شروع میں ہر طریقے سے اپنے یہاں کا بنا ہوا کپڑا ہمیں دکھایا، اور دس روپے کی چیز کو جھوٹ موٹ دو روپے بتایا تاکہ یہاں کے لوگوں میں بددلی پیدا ہو کہ دیکھو ہمارے ملک میں کپڑا کس قدر گراں ہے اور ہندوستان میں کس قدر ارزاں۔ یہاں کے سفارتی حلقوں کے ذریعے ہندوستانی فلمیں بھیجیں اور سفارت خانے میں مفت دکھائیں۔ انہوں نے تو یہاں تک بندوبست کیا کہ فلم دکھانے کا پردہ کوٹھی کے احاطے کی دیوار کے اوپر لگایا تاکہ کوٹھی کے چمن میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی فلم دیکھ سکیں اور باہر سڑک پر کھڑے ہوئے لوگ بھی۔
اس زمانے میں پاکستان میں گراموفون کمپنی قائم نہیں ہوئی تھی۔ تمام ریکارڈ ہندوستان سے بن کر آتے تھے۔ یہ ریکارڈ کیا تھے۔۔۔ ہندو تہذیب، ہندو مذہب اور ہندو فلموں کا مرقع تھے۔ خدا خدا کرکے ہمیں ہوش آیا اور ہم نے گراموفون کمپنی پر زور دیا کہ ایک شاخ یہاں بھی قائم کی جائے۔ بڑی مشکل سے یہ کمپنی یہاں شاخ قائم کرنے پر آمادہ ہوئی، مگر اب بھی اس کمپنی کے زیادہ تر ریکارڈ وہی ہیں جن کا چربہ ہندوستان سے بن کر آتا ہے۔ چربہ وہاں کا اور ریکارڈ کی ساخت یہاں کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھارت کے ثقافتی گولوں سے بچنے کے لیے، چاہے وہ گولے موسیقی کی شکل دھار کر آئیں یا فلم کا روپ۔۔۔ خود اپنی ثقافت، اپنی موسیقی اور اپنی فلموں کا ایک حصار قائم کریں تاکہ ہلاکت سے بچ سکیں۔
پاکستان میں یہ ہندوستانی تہذیب کے گولے درآمد کرنے والوں کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے اور ان سے دست بستہ درخواست کرنی چاہیے کہ اے ہماری ثقافتی اور تہذیبی ہلاکت کا سامان درآمد کرنے والو، تم ہندو ہو یا مسلمان، آخر پاکستانی ہو، تم کیوں پاکستان کے نوجوان طبقے کو اخلاقی اعتبار سے موت کے گھاٹ اتار رہے ہو؟ آخر خدا کو کیا منہ دکھائوگے؟ یا پھر اس قوم کو کیا منہ دکھائو گے جو آج نہیں تو کل ضرور بیدا ہوگی۔
۔(سرگزشت:زیڈ اے بخاری)۔
بیادِ مجلسِ اقبال
مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد
اس شعر میں علامہ اپنی شاعری کی حقیقت و اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملّت کے درد و الم کی داستان بھی ہے، اور اس میں حیاتِ نو کا پیغام بھی ہے۔ درد و الم سے معمور، اقبال کا دل ملّت کی غم خواری کے جذبوں کی نمائندگی کررہا ہے۔ ملّت کے تاریخی عروج و زوال کی تفصیلات سے آگاہ مردِ خود آگاہ اقبال کا کلام، بھٹکے ہوئے آہو کی رہنمائی اور رہبری کے لیے وقف ہے۔ ایسا دل اور ایسا کلام، ایسی اپنائیت اور ایسی وفا اقبال سے ہٹ کر کسی اور کے ہاں سے نہیں مل سکتی۔