قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیؐ سے کہا مجھ کو کچھ وصیت فرمائیں، فرمایا غصہ مت کیا کر۔ اس نے بار بار یہی بات کہی، ہر بار آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ غصہ نہ کیا کر۔ (بخاری) مسند احمد میں ہے کہ اس شخص نے دل میں غور کیا اور کہاکہ اس سے اسے معلوم ہوا کہ غصہ ساری برائیوں کی جڑ ہے۔
سید طاہر رسول قادری
ترجمہ: ”میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو۔ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے بارشیں برسائے گا۔ تمہیں مال و اولاد سے نوازے گا۔ تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا۔ اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے۔“
۔(سورہ نوح 10 تا 14۔۔۔۔ تفہیم القرآن۔ جلد ششم۔ ص 100)۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں کچھ کمزوریاں رکھ دی ہیں۔ پھر اس کا کھلا دشمن شیطان بھی اس کی گھات میں ہے۔ اس لیے انسانوں سے اُس کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ گناہ ہی نہ کریں۔ بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ وہ خدا فراموش نہ بنیں۔ اور کسی انسان سے زندگی کی راہوں میں چھوٹا یا بڑا جو گناہ ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرے۔ اللہ کو گناہوں پر پیہم اصرار اور بغاوت کی روش ناپسند ہے۔
ان آیات میں اور قرآن میں متعدد دوسرے مقامات پر اسی کو واضح کیا گیا ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش اور توبہ استغفار سے غفلت صرف آخرت ہی میں نہیں، دنیا میں بھی انسان کی زندگی کو تنگ کردیتی ہے۔ اور اس کے برعکس اگر کوئی قوم نافرمانی کے بجائے ایمان و تقویٰ اور احکامِ الہٰی کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرلے تو یہ آخرت ہی میں نافع نہیں ہے، بلکہ دنیا میں بھی اس پر نعمت کی بارش ہونے لگتی ہے۔ جیسا کہ سورہ المائدہ آیت 66 میں ارشاد ہے:۔
’’اگر ان اہل کتاب نے توراۃ اور انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں، تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا۔“
٭ سورہ اعراف آیت 96 میں اس طرح فرمایا گیا ہے کہ ”اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔“
سورہ ہود آیت 52 میں حضرت ہود علیہ السلام اپنی قوم کو سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو۔ پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔“
خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسی سورہ ہود آیت نمبر 3 میں اہلِ مکہ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی گئی ’’اور یہ کہ اپنے رب سے معافی چاہو۔ پھر اس کی طرف پلٹ آئو تو وہ ایک مقررہ وقت تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا۔‘‘
واضح رہے کہ غیر مسلموں کا توبہ و استغفار بت پرستی کو چھوڑ کر خدا پرستی قبول کرلینا اور کلمہ طیبہ کا اقرار کرلینا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں سے فرمایا کہ ’’ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہوجائو تو عرب و عجم کے فرماں روا ہوجائو گے۔ اور وہ کلمہ لاالہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے۔‘‘
قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمرؓ بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں۔ فرمایا: میں نے آسمان کے اُن دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے۔ اور پھر سورہ نوح کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصریؒ کی مجلس میں ایک شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی، آپ نے اس سے کہا استغفار کرو۔ ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی، آپ نے اس سے بھی کہا کہ اللہ سے استغفار کرو۔ ایک تیسرا شخص مجلس میں تھا اُس نے عرض کیا: جناب میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ آپ نے اُس سے بھی کہا کہ استغفار کرو۔ اتفاق کی بات کہ چوتھے شخص نے بھی اپنی مالی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری زمین کی پیداوار کم ہورہی ہے۔ آپ نے اُس سے بھی یہی کہاکہ استغفار کرو۔ غرضیکہ ہر سائل سے آپ یہ کہتے چلے گئے کہ استغفار کرو۔ حاضرینِ مجلس میں سے کچھ لوگوں نے عرض کیا ”جناب یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہیں!“ انہوں نے جواب میں سورہ نوح کی یہ آیات سنا دیں۔
ان آیات پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ گناہوں سے توبہ کرکے راست روی اختیار کرلی جائے، تو اس سے نہ صرف یہ کہ آخرت بنتی ہے، بلکہ دنیا بھی سدھر جاتی ہے۔ آخرت کی طرح اس دنیا کی حقیقی عزت و کامیابی بھی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے جو سچی خدا پرستی کے ساتھ صالح زندگی بسر کریں۔ جن کے اخلاق پاکیزہ، جن کے معاملات درست ہوں اور جن پر ہر معاملے میں بھروسا کیا جا سکے۔اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ و استغفار سے صرف افراد ہی کو دنیا اور آخرت نہیں ملتی، بلکہ قوموں کی زندگیاں بھی بن جاتی ہیں۔ کیونکہ اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھائو اخلاقی بنیادوں پر ہوتا ہے۔
جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعے خدا کا پیغام پہنچتا ہے، جیسا کہ قوم نوح پر حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعے خدا کا پیغام پہنچا، تو اس قوم کی قسمت اس پیغام کے ساتھ معلق ہوجاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کرلیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کردیتی ہے تو اسے تباہ کرڈالا جاتا ہے، جو رد کردینے کی صورت میں قوم نوح کے ساتھ ہوا۔
آگے کی صرف ایک آیت میں قومِ نوح کی تمام اخلاق باختگی اور بغاوت پسندی کو بیان کردیا جاتا ہے کہ تم ایسے گرے ہوئے اخلاق باختہ لوگ ہو کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے رئیسوں اور سرداروں کے بارے میں تو تم یہ سمجھتے ہو کہ ان کے وقار کے خلاف کوئی حرکت کرنا خطرناک ہے، مگر وہ خدا جو تمہیں عدم سے وجود میں لایا اور تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا جوانی کی توانائی اور بڑھاپے کے خرد و شعور میں لایا، اس کے خلاف تم بغاوت کرتے ہو۔ اس کی خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہو۔ اس کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہو اور اس سے تمہیں اندیشہ لاحق نہیں ہوتا کہ وہ تمہیں سزا دے گا۔
۔(52 دروس قرآن، انقلابی کتاب۔ حصہ دوئم)۔