متعصب سفید فام پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی شہری کا بہیمانہ قتل
امریکی ریاست مینیسوٹا (Minnesota)کے سب سے بڑے شہر منیا پولس (Minneapolis) میں پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام کے بہیمانہ قتل سے پھوٹنے والا ہنگامہ تادم تحریر جاری ہے۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص24 مئی کو منیاپولس کے مرکزی علاقے میں کھانے پینے کی ایک دکان پر آیا اور چیزیں خریدنے کے بعد اس نے 20 ڈالر کا نوٹ پیش کیا، جس پرکیشئر کو جعلی ہونے کا شک گزرا۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح امریکہ میں جعلی سکے چلانا بہت بڑا جرم ہے، اور جعل سازی کا شبہ ہوتے ہی پولیس کو اس کی اطلاع اور مشکوک کرنسی فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو جعلی کرنسی رکھنے کے الزام میں مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ کیشئر نے پولیس کو فون کردیا۔کپ فوڈ (Cup Food) کے نام سے قائم یہ 31 سال پرانی دکان ایک عرب محمود ابومیالہ کی ہے، جہاں کھانے پینے کی دوسری حلال چیزوں کے ساتھ ذبیحہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ اس کے تہ خانے یا basement میں ایک مسجد بھی ہے۔
پولیس کے چار افسر جب کپ فوڈ آئے تب تک مبینہ ملزم دکان سے باہر جاچکا تھا۔ افسران نے کیشئر سے ملزم کا حلیہ پوچھا اور دکان سے چلے گئے۔ دکان کے باہر ایک 40 سالہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کھڑا تھا جس کو افسران نے دبوچا اور مشکیں کسنے کے بعد اسے پولیس گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ ہتھکڑیاں لگانے تک جارج نے کوئی مزاحمت نہیں کی، لیکن وہ باربار پوچھ رہا تھاکہ اسے گرفتار کیوں کیا گیا ہے؟ اس کا کہنا تھا کہ میری جیب اور بٹوے کی پہلے تلاشی تو لے لو، میرے پاس جعلی نوٹ نہیں ہے۔ اس ’’سرکشی‘‘ پر پولیس افسر ڈیرک شاون (Derek Chauvin) کا مزاج برہم ہوگیا۔ اس نے جارج کو زمیں پر گراکر اُس کی گردن اپنے گھٹنے سے دبادی۔ اس کے باقی تین ساتھی قریب کھڑے لوگوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہ دن کا وقت تھا، اس بارونق علاقے میں درجنوں لوگ موجود تھے۔ کپ فوڈ کے ملازمین بھی شور سن کر باہر آئے اور کئی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے سارا منظر فلم بند کرنا شروع کردیا۔
جارج گھٹی گھٹی آواز میں چیخ رہا تھا “I can’t breath” یعنی میں سانس نہیں لے سکتا۔ یہ فریاد بعد از مرگ اس مظلوم کا علامتی نشان اور مظلومیت کا استعارہ قرار پائی۔ بے بسی کی ان چیخوں پر ڈیرک کو منع کرنے کے بجائے ساتھ کھڑا ایک افسر جو چہرے مہرے سے ایشیائی نژاد لگتا تھا، جارج کو relaxکی تلقین کرنے لگا۔ بے نیازی سے اپنا ایک ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈالے ڈیرک اس کی گردن پر سوار رہا۔ پانچ منٹ کے بعد I can’t breathکی چیخیں مدھم ہوئیں اور چھے منٹ بعد جارج کا جسم بے حس و حرکت ہوگیا۔ وہاں موجود لوگوں نے افسر سے کہا یہ مرچکا ہے اس کو چھوڑ دو۔ لیکن ڈیرک نے مجمع کی طرف فخریہ انداز میں دیکھتے ہوئے اس کی گردن پر دبائو برقرار رکھا، اور جب 9 منٹ بعد ڈیرک کھڑا ہوا تو جارج کا جھاگ سے بھرا منہ ایک طرف کو ڈھلک گیا۔
ہمیں یقین ہے کہ یہ پیراگراف پڑھتے ہوئے قارئین کی آنکھیں بھیگ گئی ہوں گی۔ لیکن یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اسرائیلی مقبوضہ عرب علاقوں میں گلا گھونٹنے کا یہ انداز بہت عام ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خیال ہے کہ زمین پر لٹاکر محدود دورانیے کے لیے گلا دبانے سے دماغ کو وقتی طور پر خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جس کی بنا پر سر چکرانے لگتا ہے اور خوف و گھبراہٹ کے علاوہ عضلات بھی کمزور پڑجاتے ہیں جس سے بغاوت کا سودا کافور ہوجاتا ہے۔ غالباً اسی تکنیک سے یہ افسر جارج کا مزاج درست کررہا تھا اور سرِ راہ ’’آپریشن‘‘ سے وہاں موجود لوگوں کو عبرت دلانی مقصود تھی کہ اس علاقے میں سیاہ فاموں کی اکثریت ہے۔
منیا پولس میں بہت بڑی تعداد میں صومالی پناہ گزین آباد ہیں۔ امریکی تاریخ کا پہلا مسلمان رکن کانگریس منیاپولس سے ہی منتخب ہوا تھا جب جناب کیتھ ایلیسن 2006ء میں 56فیصد ووٹ لے کر واشنگٹن پہنچے، اور ان کے ووٹروں نے مسلسل پانچ بار ان پر اپنے اعتماد کی تجدید کی۔ 2018ء میں جب کیتھ ایلیسن نے ریاست کا اٹارنی جنرل بننے کا فیصلہ کیا تو ان کی خالی کردہ نشست پر صومالی نژاد الحان عمر رکنِ کانگریس منتخب ہوگئیں۔
یہ امریکہ میں کسی سیاہ فام کی ہلاکت کا پہلا واقعہ نہیں۔ پولیس و نسل پرست عناصر کے ہاتھوں سیاہ فاموں کی موت روزمرہ کا معمول ہے۔ امریکہ کے مشہور ماہر عمرانیت ڈاکٹر فرینک ایڈورڈز نے ان اعداو شمار پر بہت عرق ریزی سے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ رجرز (Rutgers university) سے وابستہ ہیں جس کا سماجی علوم میں بڑا مقام ہے۔ انھوں نے 2013ء سے 2018ء تک پولیس مقابلوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکہ میں سیاہ فام مرد کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان 1 فی ہزار ہے۔ اس حوالے سے پولیس کے ہاتھوں سفید فاموں کے مارے جانے کا امکان ڈھائی گنا کم ہے۔ تجزیے کے مطابق ہسپانویوں، امریکی فرزندانِ زمین المعروف ریڈ انڈین اور سیاہ فام خواتین کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کا امکان بھی گوروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ایک سیاہ فام کے لیے لاٹری جیتنے سے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ اس موقع پر امریکی سیاہ فاموں کی تاریخ پر ایک نظر سے اس مظلوم لیکن جفاکش و تنومند قوم کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
امریکہ میں افریقیوں کی آمد کا آغاز1619ء میں ہوا، جب افریقہ کے ساحلوں سے ہزاروں کی تعداد میں غلام پکڑ کر لائے گئے۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام غلاموں کی امریکہ آمد کا سلسلہ 1555ء میں شروع ہوا جب سیرالیون سے پکڑے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کیے گئے۔ افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے ہوئے غلام ’گلوں‘ کی صورت میں پہلے ہالینڈ کی بندرگاہوں پر پہنچائے جاتے، جہاں سے بحر اوقیانوس کے راستے انھیں امریکہ لایا جاتا تھا۔ اسی بنا پر یہ گھنائونا کاروبار Atlantic Slave Trade کہلاتا تھا۔ افریقہ سے براہِ راست امریکہ آنے والا غلاموں سے لدا پہلا جہاز 1619ء میں ورجینیا میں لنگرانداز ہوا۔ اس کے بعد سے ’افریقیوں کا شکار‘ ایک قومی کھیل بن گیا۔ غلاموں کی تجارت اور ہلاکو و تیمور جیسے غارت گروں کے ہاتھوں مفتوحہ آبادیوں کو غلام بنانے کی مثالیں موجود ہیں، مگر یہاں طریقہ واردات بالکل ہی انوکھا تھا کہ جہاز ساحل پر لنگرانداز ہوتے اور مسلح قزاق بستیوں کو منہ اندھیرے گھیرلیتے، اور عورتوں، بچوں سمیت سارے لوگ ہانک کر جہاز پر لاد دیے جاتے۔ دورانِ سفر مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرکے یہ قزاق کمسن بچیاں آپس میں تقسیم کرلیتے، اور پھر ان کے درمیان ’کثرتِ اولاد‘ کا مقابلہ ہوتا، تاکہ غلاموں کی نئی کھیپ حاصل کی جائے۔
۔1898ء تک ایک کروڑ افریقی ہالینڈ لے جائے گئے۔ سفر کے دوران تشدد، بیماری اور دم گھٹنے سے 20لاکھ سے زیادہ غلام ہلاک ہوگئے، جبکہ ’’گڑبڑ‘‘ کرنے والے بہت سے سرکش غلاموں کو اُن کے پیروں میں وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ زیادہ تر غلام بحر احمر اور افریقہ کے مغربی اور وسطی ساحلوں سے پکڑے گئے۔ ان غلاموں کی نصف تعداد نائیجیریا کے علاقے بیافرا، گبون اور سیرالیون کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ سینیگال، لائبیریا، کانگو اور گھانا کے لوگ بھی پکڑے گئے۔ بحراحمر سے آنے والے قزاقوں نے سوڈانیوں اور حبشیوں کا شکار کیا۔ عمدہ خدوخال کی بنا پر حبشی بچیاں ان اوباشوں کو بہت محبوب تھیں۔ پکڑے جانے والے افریقی غلاموں کی ایک تہائی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی، تاہم شمالی امریکہ میں اسلام کولمبس کے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکا تھا اور قدیم انڈین قبائل میں بھی مسلمان موجود تھے۔
ان غلاموں کی فروخت کے لیے ورجینیا، شمالی کیرولینا، جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئیں۔ اُس وقت امریکہ بحراوقیانوس کے ساحل پر واقع اُن 13 کالونیوں پر مشتمل تھا جنھوں نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ 1776ء میں انھی 13 کالونیوں نے ریاستوں کی شکل اختیار کرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا USAکی شکل اختیار کرلی۔ امریکہ کے پرچم پر 13 سرخ و سفید پٹیاں انھی ابتدائی ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ 1625ء میں ان کالونیوں کی مجموعی آبادی 1980 نفوس پر مشتمل تھی، جبکہ 1660ء تک غلاموں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہوگئی، یعنی عددی اعتبار سے غلام مالکوں سے زیادہ تھے جنھیں قابو میں رکھنے کے لیے بدترین ہتھکنڈے اور ظلم کے ضابطے وضع کیے گئے۔ سرکشی کی فوری سزا پھانسی تھی۔ جلادی کا کام ’مجرم‘ کے خونیں رشتے دار سے لیا جاتا تھا، یعنی بھائی اپنے بھائی کو، یا باپ اپنے بیٹے کو پھندا لگاتا۔ اس دور میں get the rope یعنی (پھانسی کے لیے) رسّی لائو دھمکی کا استعارہ تھا جو اب بھی یہاں ضرب المثل ہے۔ پھانسی کے علاوہ بورے میں بند کرکے ڈنڈوں کی ضربات سے مارڈالنا، خنجر گھونپ کر ہلاک کرنا، زندہ جلانا، غلاموں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دینا اور پیروں میں وزن باندھ کر دریابرد کردینا بھی اس دور کی عام سزا تھی۔ بس یوں سمجھیے کہ افریقہ سے پکڑکر امریکہ لائے جانے والے غلاموں پر جو مظالم توڑے گئے اس کا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
کم آبادی کی وجہ سے پولیس کا انتظام نہ تھا، چنانچہ غلاموں کی نگرانی کے لیے خونخوار کتے سدھائے گئے۔ رات کے وقت ان غلاموں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا، لیکن دن کو کام کے دوران بیگاری کے وقت ان کی نگرانی کتے کرتے تھے۔ یہ کتے ان غلاموں کے چوکیدار تھے اور حکم عدولی کی صورت میں ’مجرم‘ کو کاٹ اور بھنبھوڑ کر جلادی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ پولیس نہ تھی اور رات کو گلیوں میں گشت کرتے تربیت یافتہ کتے اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ کوئی غلام بھاگنے نہ پائے۔ ایک زمانے تک سیاہ فاموں میں کتوں کی دہشت تھی۔ اب بھی امریکہ میں کئی جگہ گھروں کے عقبی دروازوں پر Beware of Dogکے بورڈ لگے ہوتے ہیں۔ اس کا آغاز اسی مفروضے پر ہوا تھا کہ چور و ڈاکو سیاہ فام ہوتے ہیں جن کو خوف زدہ کرنے کے لیے کتے کا بورڈ ہی کافی ہے۔ جمعہ کو جب مظاہرین وہائٹ ہائوس کے سامنے جمع ہوئے تو صدر ٹرمپ بھی کتے چھوڑنے کی دھمکی دے کر سیاہ فاموں کے لیے ذلت کا یہ استعارہ زبان پر لے آئے۔
زیادہ تر سیاہ فام تنومند، مضبوط اور محنتی تھے اور امریکہ کی تعمیر انھی غلاموں کے خون پسینے کی مرہونِ منت ہے۔ یہ افرادی قوت بالکل مفت میسر تھی اس لیے تعمیراتی منصوبوں کی لاگت بہت کم رہی اور امریکہ میں تعمیراتی منصوبے تیزی سے مکمل ہوئے۔ صدارتی محل یا وہائٹ ہائوس کی تعمیر کے لیے ٹھیکیداروں نے سیاہ فام غلام فراہم کیے۔ ریکارڈ کے مطابق 1792ء سے 1800ء تک یہاں جن 307غلاموں نے کام کیا اُن کے مالکان کو بھاری معاوضہ دیا گیا۔ 2016ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی پہلی سیاہ فام خاتونِ اوّل مشل اوباما نے کہا کہ ’’ہر صبح جب میں بیدار ہوتی ہوں تو درودیوار دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ عظیم الشان عمارت بیگار میں لائے گئے سیاہ فام غلاموں نے تعمیر کی ہے جنھیں اُن کی محنت کا کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔‘‘
سیاہ فام 1619ء سے 1863ء تک کامل غلامی میں رکھے گئے، اور 1863ء میں غلامی کے خاتمے کے بعد بھی ’غیر قانونی‘ غلامی کا سلسلہ جاری رہا۔ سیاہ فام بدترین نسلی تعصب اور حقارت کا نشانہ بنائے گئے اور ان کی کئی نسلیں بدترین ناانصافی کا شکار رہیں، جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔
منیا پولس میں جو ہوا اس کی بنیادی وجہ پولیس کی فکری اٹھان ہے۔ قیام امریکہ کے بعد جب پولیس کی تشکیل ہوئی اُس وقت اس شعبے کی بنیادی ذمہ داری غلاموں پر نظر رکھنا تھا۔ مٹر گشت کرنے والا ہر سیاہ فام مشکوک سمجھا جاتا، جس سے پوچھ گچھ پولیس افسر کی ذمہ داری تھی۔ اس دوران ہلکی سی مزاحمت پر گولی مار دی جاتی تھی۔ سیاہ فاموں کے بارے میں یہ تاثر پولیس کے دماغ میں آج بھی راسخ ہے۔ حتیٰ کہ پولیس کے سیاہ فام افسران بھی اسی انداز میں سوچتے ہیں۔ افریقی امریکیوں پر بلااشتعال فائرنگ میں گوروں کے ساتھ سیاہ فام افسران بھی پیچھے نہیں۔ اپنی نسل کے بارے میں منفی تاثر کا ذکر کرتے ہوئے سابق صدر اوباما نے کہا کہ میں بھی جب سڑک پر چلتا ہوں تو قریب سے گزرنے والی سفید فام خواتین اپنے پرس مضبوطی سے تھام لیتی ہیں۔
امریکی معاشرے نے سیاہ فاموں کو اب تک برابر کا شہری تسلیم نہیں کیا۔ افریقی امریکیوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا تناسب 75 فیصد سے زیادہ ہے، لیکن ڈیموکریٹس کو بھی بلیک کے بجائے بیلٹ سے دلچسپی ہے۔ نسلی امتیاز و ناانصافی کی بنا پر سیاہ فام دنیا کے امیر ترین ملک کے غریب ترین شہری ہیں۔ ان کی آبادیاں تعلیم و صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے ساٹھ فیصد سے زیادہ سیاہ فام ہیں۔ غربت و ناداری کے ساتھ پولیس کے متعصبانہ رویّے نے ان بدنصیبوں کی زندگی مزید مشکل بنادی ہے۔
جارج فلائڈ کے قتل پر ملک گیر مظاہرے کے باوجود اس مسئلے کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی، کہ اب تک اس واقعے کے تمام ملزمان گرفتار نہیں ہوئے، اور بڑے ملزم پر جو مقدمہ بنایا گیا وہ تیسرے درجے کا قتل ہے، یعنی غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کی بنا پر موت یا قتل خطا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ’’(لاش کے معائنے سے) ایسے شواہد نہیں ملے جس سے اندازہ ہوتا ہوکہ جارج فلائڈ کی موت سانس رکنے یا گلا گھٹنے سے ہوئی ہے۔ مقتول کی پہلے سے خراب صحت (فشارِ خون) اور ممکنہ خمار کی حالت میں مضبوط گرفت اس کی موت کا سبب معلوم ہوتی ہے۔‘‘
مظاہروں کے دوران لوٹ مار اور تشدد کے الزام میں سینکڑوں نوجوان حراست میں ہیں۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف بلوہ، آتشزنی اور قیمتی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ قائم کرکے عدالتوں سے دس سال قید کی درخواست کی جائے۔ اس وقت بھی امریکی جیلوں میں بند ساٹھ فیصد سیاہ فام ضمانت پر رہائی کے مستحق ہیں، لیکن رقم نہ ہونے کی بنا پر یہ لوگ جرمِ بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس سلسلے میںCNNکے نمائندے وین جونز (Van Jones) کی ایک چشم کشا بلکہ روح فرسا روداد نذرِ قارئین ہے:۔
’’ایک 16 سالہ سیاہ فام بچہ دکان سے چند ڈالر کی کوئی چیز چوری کرنے کے الزام میں گرفتار ہوا۔ عدالت نے اسے 3000 ڈالر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا، لیکن اس رقم کا بندوبست نہ ہوسکا اور یہ غریب جیل میں بند رہا۔ اس دوران اُس سے جنسی زیادتی کی گئی۔ جانوروں کی طرح پیٹا گیا۔ اس غریب نے ہولناک قیدِ تنہائی کا عذاب جھیلا اور 3 سال بعد عدالت نے اسے باعزت بری کردیا۔ جیل کے تشدد نے بچے کو نفسیاتی مریض بنادیا تھا، اور رہائی کے دو سال بعد اس نے خودکشی کرلی۔ امریکی جیلوں میں نظربند ایسے بے گناہوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، اور لگتا ہے کہ حالیہ مظاہروں میں گرفتار ہونے والے سینکڑوں نوجوانوں کو قید و بند کا ایسا ہی عذاب سہنا پڑے گا۔‘‘
…٭…
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔