بجٹ کی تیاری
کورونا وائرس کے باعث لاتعداد ادارے بند اور ملک میں دو کروڑ افراد بے روزگار ہونے جارہے ہیں
اقتصادی بحران کے سبب عالمی سطح پر سخت معاشی اقدامات تجویز کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کا مالی میزانیہ بھی ہر سال جون میں پیش کیا جاتا ہے، حکومت رواں ماہ بجٹ کا اعلان کرنے جارہی ہے۔ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے۔ آئندہ وفاقی بجٹ 7 ہزار 600 ارب روپے کا ہوگا جو 12 جون کو پیش کیا جائے گا۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ خسارہ شرح نمو کا 6.6 فیصد رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم یہ خسارہ آٹھ سے نو فیصد تک جاسکتا ہے، اور حکومت کو آئندہ بجٹ میں بیرونی قرضوں پر انحصار بڑھانا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایف بی آر کی وصولیوں کا طے شدہ ہدف بھی ایک مشکل ٹاسک ہے۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ایف بی آر کے لیے مالی وصولیوں کا ہدف 5103ارب سے کم کرکے 4800 ارب روپے تک لانے کے لیے آئی ایم ایف سے رابطے میں ہیں۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال کے دوران شرح نمو کا ہدف 3 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔ کورونا وائرس کے باعث تمام اہداف کم رکھے جارہے ہیں۔ بجٹ میں قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے 3 ہزار 2 سو ارب سے زائد رقم رکھی جائے گی۔ دفاع کے لیے ایک ہزار 4 سو ارب روپے سے زائد مختص کیے جاسکتے ہیں۔ مختلف اشیاء پر سبسڈیز اور پنشن کی ادائیگی کے لیے 700 ارب سے زائد مختص کرنے کی تجویز ہے۔ آئندہ سال ایف بی آر کے لیے 51 سو ارب روپے کا ہدف مقرر کیا جائے گا۔ وزارتوں اور ڈویژنز کے سالانہ بجٹ میں کٹوتی ہوگی۔ وفاقی حکومت کے اخراجات کے لیے 490 ارب روپے سے زائد مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ سب فیصلے اس بنیاد پر کیے جارہے ہیں کہ مالی سال 2020ء کے اختتام تک لاک ڈائون مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ حالیہ بحران کے باعث مالی سال 2021ء میں سالانہ شرح نمو 2.16 فیصد رہ سکتی ہے اور مہنگائی 5 سے 7 فیصد کے درمیان رہے گی۔ ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے 8 کروڑ 70 لاکھ افراد غربت کے دھارے میں چلے جائیں گے۔ کورونا وائرس سے قبل مالی خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 8 فیصد لگایا گیا تھا، لیکن اب یہ جی ڈی پی کا 14 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ بجٹ خسارے کا تخمینہ 17 فیصد لگایا گیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اقتصادی سرگرمیاں آئندہ مالی سال میں بحالی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گی، جبکہ شرح مبادلہ 160 روپے سے 175 روپے فی ڈالر رہنے کا امکان ہے۔
یہ بجٹ ایک ایسے معاشی اور اقتصادی بحران میں پیش کیا جارہا ہے کہ جب حکومت خود اس بات کا اعتراف کرچکی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث لاتعداد ادارے بند اور ملک میں دو کروڑ افراد بے روزگار ہونے جارہے ہیں۔ پاکستان پچھلے کئی سال سے بحران در بحران کا شکار ہے، اور بری حکمرانی کے ساتھ گزر رہا ہے۔ بلاشبہ ملکی معیشت پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ہے، لیکن کورونا کے باعث دنیا کی معیشتوں کی طرح ہماری معیشت بھی بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ محتاط تخمینے کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کا ابتدائی معاشی نقصان ایک سو تیس ارب کے لگ بھگ ہے۔ پلاننگ کمیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ ملک کی جی ڈی پی کا حجم 44 کھرب روپے اور ایک چوتھائی 11 کھرب روپے تھا۔ وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہونے والے معاشی بحران میں امریکہ، یورو علاقے اور جاپان میں کساد بازاری، چین میں سب سے کم شرح نمو، اور مجموعی طور پر 72.7 ٹریلین کا نقصان ہوچکا ہے جو برطانیہ کے پورے جی ڈی پی کے برابر ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں اور صوبوں میں اب اس وبا کے نمایاں آثار موجود ہیں۔ معاشی حقائق یہ ہیں کہ مارچ 2019ء تک پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ 105 بلین ڈالر تھا اور ہماری کرنسی ڈالر کے مقابلے میں بے حد کم ہورہی تھی۔ سال 2019ء میں 13 بلین ڈالر سے زیادہ کا قرض شامل ہوا، جو گزشتہ 10 سال میں شامل کُل قرض کا 40 فیصد سے زیادہ ہے۔ ہمارا زیادہ تر قرض ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب کا ہے۔ ہمارے قرض کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو کُل ذمہ داری کا تقریباً 5 فیصد ہے۔ ملکی معیشت کے ان واضح اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کے لیے وفاقی بجٹ کے معاشی اشاروں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وبا مزیدکچھ مہینوں تک جاری رہی تو ہماری معیشت دھڑام سے زمین پر آگرے گی۔ یہ معاشی منظرنامہ حکومت اور کسی بھی نجی ادارے کے لیے سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ سنجیدہ رویہ اپناکر مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکیں۔
پاکستان جیسا ملک، جسے اندرونی مشکلات بھی ہیں اور جنوب ایشیا کے حالات کے تناظر میں سرحدوں پر خطرات کا بھی سامنا ہے، ایف اے ٹی ایف، پاک بھارت تعلقات، کشمیر کی صورتِ حال میں کورونا وائرس کے اثرات کا جائزہ لینا قومی ذمہ داری ہے۔ اس وقت ملک میں افراطِ زر کی شرح 12.93 تک جا پہنچی ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے، اور یہ اس بات کا بڑا اشارہ ہے کہ قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی بے قابو ہوجائے گی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن گندم اور چینی جیسی معمول کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ پریشان کن ہے۔ افراطِ زر میں اضافہ بھی اسی وجہ سے ہوا ہے۔ رہی سہی کسر ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی شرائط نے نکال دی ہے۔ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود نچلی سطح پر عام صارفین کو فائدہ نہیں ملا۔ ملکی معیشت کے عدم استحکام کے پیچھے ایک اور بحران سرمایہ کاری کا بحران ہے، کیوں کہ بیشتر صنعتیں حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بند ہیں اور کوئی بھی امکانی نقصانات کے ڈر اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔بڑی عالمی معیشت کے حامل ملک اپنے بحران کے باعث ہمیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے، یہ مشکل ترین صورتِ حال ہمیں کن کن شرائط کو تسلیم کرنے اور سمجھوتا کرنے پر مجبور کرے گی؟ پارلیمنٹ میں اب تک یہ نکتہ زیربحث ہی نہیں آیا۔
ایف بی آر کے حالیہ تخمینے سے پتا چلتا ہے کہ کراچی میں لاک ڈاؤن سے آمدنی کے بڑے نقصانات ہونے والے ہیں جو اگر جون 2020ء تک برقرار رہے تو ٹیکسوں کا خسارہ 3 سو ارب روپے ہوجائے گا۔وفاقی وزارت تجارت کی اپنی رپورٹ ہے کہ برآمدات کو 2 سے 4 بلین ڈالر نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ برآمدات کے احکامات منسوخ ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے 80 بلین بیرل تیل خریدا ہے جس سے ایف بی آر کی وصولی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور اگر کھپت میں کمی واقع ہوگی تو پیٹرولیم ٹیکس بھی کم ملے گا۔
دوسری طرف ابھی تک لاک ڈاؤن نہ ہونے کے باوجود بازاروں، ریستورانوں کے علاوہ آٹوموبائل اور پیٹرولیم منصوبوں کو سیل کرنے سے مقامی کاروبار کو کم از کم 40 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہ نقصانات کی ابتدا ہے، کیونکہ ابھی ہمارے شہریوں کو مزید چیلنجوں کا مقابلہ کرنا باقی ہے اور ہمارے پاس کورونا کے مریضوں کے علاج معالجے کے لیے کوئی ذریعہ اور سامان نہیں ہے۔ ملکی معیشت کا یہ وہ پس منظر ہے جس میں حکومت اپنا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ آمدنی کے منفی عوامل ختم کیے بغیر کوئی بھی حکومت کم وسائل کے ساتھ بہتر فلاح وبہبود نہیں کرسکتی۔
غیرقانونی تجارت، اسمگلنگ منفی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اور ملکی معیشت میں یہی سب سے بڑی لیکیج بھی ہے۔ گھی، چینی، آٹا اور سگریٹ کی غیر قانونی تجارت قومی خسارے کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہر بجٹ میں سگریٹ پر ٹیکس لگتا ہے مگر یہ ٹیکس قومی خزانے میں کتنا جاتا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ گزشتہ مالی سال میں سگریٹ ٹیکس چوری سے حکومت کو ہونے والے ٹیکس محصولات کا نقصان 70 ارب روپے سے زائد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ معمولی رقم نہیں ہے۔ سگریٹ کی بڑی کمپنیاں ہی سگریٹ کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ اپنے ہی سگریٹ کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کرکے یہ بڑی کمپنیاں ٹیکس بچاتی ہیں۔ وزیراعظم کو انتظامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سگریٹ ساز کمپنیاں کس طرح بیوروکریسی اور ہر حکمران سیاسی جماعت کی مضبوط لابیوں میں داخل ہوجاتی ہیں۔ ہر حکومت کو کسی بھی منصوبے میں چند لاکھ کے فنڈز دے کر یہ کس طرح ملکی خزانے پر ڈاکہ ڈالتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا حالیہ حالات خصوصاً کورونا وبا کے حوالے سے جو بیانیہ سامنے آیا، اُس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ انہیں ملک کے محروم طبقات کا بہت خیال ہے، اور وہ اگر دہاڑی دار مزدوروں کے خیال سے پریشان ہیں تو ان کو سفید پوش طبقے کی بھی فکر ہے، اور وہ بار بار ان کا حوالہ دیتے رہتے ہیں، لیکن ان کا یہ ویژن یا بیانیہ حکومت کے مختلف محکموں پر اثرانداز نہیں ہوسکا۔ ان کے منصوبوں سے عوام کو ریلیف ملنا تو کجا، اُلٹی تکلیف پہنچی ہے۔ اِس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ محکمہ خوراک اور اس کے سربراہوں کو آٹے کے نرخوں اور بحران سے کوئی غرض نہیں۔ فلور مل مالکان نے 20کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت ازخود805روپے سے بڑھاکر875روپے کردی اور عذر پیش کیا کہ بازار میں گندم کے نرخ 1600روپے من ہوچکے، سرکاری نرخ 1400 روپے من تھے۔ یوں فی کلو آٹے کے نرخوں میں ساڑھے تین روپے فی کلو کا اضافہ ہوگیا۔ یہ براہِ راست عام آدمی پر بوجھ ہے۔
پنجاب حکومت آئندہ سال گندم کی خریداری کا حجم اور طریقہ کار تبدیل کرنے جارہی ہے کہ گندم کی خریداری پر بھاری رقم خرچ ہوتی ہے، اب اس پر نظرثانی کی جائے گی۔ فیصلہ ہوا ہے کہ فلور ملز اور سیڈ کمپنیاں جتنی چاہیں گندم خرید سکتی ہیں۔ ماضی میں بھی کہا گیا اور اب بھی یہی کہا جارہا ہے کہ پنجاب گندم میں خودکفیل ہے، کوئی قلت نہیں ہوگی۔ لیکن آٹے کا بحران ہر سال آجاتا ہے۔ اِس سال بھی بحران آیا تو یہ فیصلہ صوبائی وزیر علیم خان کے لیے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔
وزیراعظم مہنگائی کے معاملے پر حساس ہیں مگر نیپرا میں بجلی کے نرخ بڑھانے کی درخواست دے دی گئی ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو بجٹ سے پہلے کئی بجٹ آچکے ہوں گے اور صارفین پر مزید بوجھ بجٹ کے ذریعے ڈال دیا جائے گا۔ اطلاعات و نشریات کے متعلق وزیراعظم کے معاونِ خصوصی اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے بھی عندیہ دیاکہ بجلی کی قیمت کم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ بجلی کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام تیز رفتاری سے جاری ہے، اِس وقت دریاؤں میں پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے ہائیڈل بجلی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور تیل کی عالمی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باعث تھرمل بجلی بھی سستی بن رہی ہے، لیکن ابھی تک بجلی کی فی یونٹ قیمتیں کم کرنے کا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا، اس لحاظ سے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کا اعلان کسی حد تک خوش آئند ہے، تاہم حتمی فیصلہ بھی ہونا چاہیے۔ حیرت انگیز طور پر بجلی کے بلوں پر نیلم جہلم سرچارج ابھی تک وصول کیا جارہا ہے، حالانکہ یہ پاور پراجیکٹ طویل عرصے سے مکمل ہوکر پیداوار بھی دے رہا ہے اور بجلی پر منافع بھی حاصل کررہا ہے، اِس لیے اب یہ سرچارج وصول کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔ معاونِ خصوصی برائے اطلاعات اِس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرائیں اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے سے پہلے نیلم جہلم سرچارج کی وصولی ختم کرا دیں۔
حکومت نے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے لیے گئے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے کورونا وائرس امدادی فنڈ میں سے 10 ارب روپے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے اور بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کے لیے قرضوں کی تنظیم ِنو کے لیے مذاکرات کی شرائط کی منظوری دے دی ہے۔ سودے کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کرکے وزیراعظم کی بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کی خواہش کے برخلاف، سرکاری دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ کوئی معنی خیز ریلیف نہیں ملے گا، اور اس کے بجائے طویل مدت تک صارفین پر دبائو ڈالا جائے گا۔ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی اسپیشل اکنامک زون کے قیام کے لیے اضافی مالی مراعات کی منظوری مؤخر کردی ہے۔ وزیراعظم کے کورونا ریلیف فنڈ سے 10 ارب روپے عارضی انتظام کے طور پر 6 ماہ کے عرصے کے لیے پاکستان انرجی سکوک دوئم کے سود کی ادائیگی یا نیپرا ایکٹ میں ترمیم کے لیے مختص کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حکومت اب نیپرا ایکٹ میں ترمیم کرکے بارِ قرض کی لاگت صارفین پر لاگو کرنے اور ان سے وصول کرنے کا تہیہ کر چکی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ یہ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اٹھائے گئے چار سوالات کے بعد نہایت فیصلہ کن اور دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ حالیہ ہفتے میں ہونے والی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان کی جانب سے ان چار سوالوں کے جواب کے لیے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے کچھ اہم سوالات کیے گئے ہیں اور وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کی گئی ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا ہے کہ قانون دکھایا جائے جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائداد کو ظاہر کرنا ضروری ہے؟ سیکشن پانچ کے تحت جج کے لیے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائداد ظاہر کرے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔ اس معاملے پر اب تک طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کررہے تھے، تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔ 24 فروری کو ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے لیے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد وفاق کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، اور اب وہ اس کیس میں پیش ہورہے ہیں۔ عدالت نے حکومتی وکیل سے 4 سوالوں پر جواب طلب کیے تھے۔ فروغ نسیم نے ساتھ ہی ایک ’گمشدہ‘ دستاویز پیش کی ہے کہ اس کی بنیاد پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بدعنوانی پر مبنی پورا صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا۔ لیکن یہ دستاویز نہ تو ریفرنس اور نہ ہی عدالتِ عظمیٰ کے پاس موجود تھی۔ اب تک کی آخری اہم ترین سماعت کے دوران فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ 10 اپریل 2019ء کو عبدالوحید ڈوگر نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت بھیجی کہ صحافی عبدالوحید نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) میں 10 اپریل 2019ء کو ایک درخواست دائر کی تھی، 8 مئی کو عبدالوحید ڈوگر نے لندن کی جائدادوں کے حوالے سے اے آر یو کو خط لکھا، جس میں لندن کی جائدادوں کی قیمتِ خرید اور مارکیٹ ویلیو کے بارے میں بتایا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ فروغ نسیم یہ بتائیں کہ لندن کی جائدادوں کی معلومات کس طرح سے انٹرنیٹ پر شائع کی گئیں؟ وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کردیا؟ فروغ نسیم نے بتایا کہ 1988ء کے بعد برطانیہ میں جائداد کا ریکارڈ اوپن ہے اور اے آر یو کو قانون کی مدد حاصل ہے۔ بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں، بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے، اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الزام ہے کہ لندن کی جائداد ظاہر نہیں کی گئی جو ظاہر کرنا چاہیے تھی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ حکومتی وکیل کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی جائداد ظاہر نہیں کی، معزز جج کی اہلیہ نے 2014ء میں اپنی آمدن 9285 روپے ظاہر کی، جبکہ 2011ء اور 2013ء میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی جائداد خرید سکتے تھے؟ 2011ء اور 2013ء میں بچوں کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی؟ فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ جسٹس مقبول باقر نے پھر بات دہرائی کہ ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کرسکتے ہیں؟ فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر حکام کو خوف تھا کہ جج کے خلاف کارروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا۔ اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں کہ ہر ایک کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا حق ہے، مقدمے کے حوالے سے ہر چیز کا جائزہ لیا جائے گا، کسی نقطہ کو بغیر جائزہ لیے نہیں چھوڑا جائے گا، یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیرکفالت تھے یا نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کا پتا کیسے چلا؟ اسی دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ کہا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کی اسپیلنگ نہیں آتی، تو جب نام کی اسپیلنگ درست نہیں ہوتو ویب سائٹ پر کیسے سرچ ہوسکتا ہے؟ جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ وحید ڈوگر کس میڈیا کے لیے کام کررہے ہیں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ غیر ملکی جائداد کو ٹرسٹ کے ذریعے چھپایا گیا۔ فروغ نسیم بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، میرا ایک سطر کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ اگر پیسے بینکوں کے ذریعے گئے ہیں تو منی لانڈرنگ کی تعریف کیا ہوگی؟ جسٹس یحییٰ نے پوچھا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس مسترد کرسکتی ہے؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل ریفرنس کو مسترد کرسکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں کے تحت جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر صدرِ مملکت کے عمل کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی ہے، ٹیکس قانون کا آرٹیکل 116 زیر کفالت کی بات کرتا ہے، کسی کے خلاف مناسب مواد کی موجودگی کو قانون سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ ریفرنس میں دونوں ججوں پر اثاثوں کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ اس ریفرنس کی اب تک کی سماعت سے اس بات کا عندیہ مل رہا ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ حیران کن ہوگا۔
بے روزگاری کا خوف
حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں 58فیصد یعنی ہر پانچ میں سے تین پاکستانی خود کو حکومتی امداد کا مستحق سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں 66 فیصد، سندھ میں 60 فیصد، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 58 اور 57 فیصد لوگوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے۔ گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ڈگری رکھنے والے 37 فیصد نوجوان بھی حکومتی امداد چاہتے ہیں۔ سروے کے مطابق آئندہ آنے والے 6 ماہ کے دوران ہر دو میں سے ایک پاکستانی اپنا روزگار یا نوکری ختم ہونے کے حوالے سے خوف کا شکار ہے۔ یوں 51 فیصد پاکستانی آئندہ آنے والے 6 ماہ کے دوران بے روزگار ہونے کے خوف کا شکار ہیں۔ دیہی علاقوں کے 57 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اگلے چھے ماہ میں اپنا روزگار کھو دیں گے، سندھ اور پنجاب میں 52 فیصد، خیبر پختون خوا میں 50 فیصد، جبکہ سروے کے مطابق بلوچستان کے 46 فیصد عوام اپنا ذریعہ معاش کھونے کے ڈر میں مبتلا ہیں۔ وبائی مرض سے بچاؤ کے لیے68 فیصد لوگوں کے مطابق وہ گھروں میں داخل ہونے کے بعد ہاتھوں کو دھوتے ہیں، 79 فیصد باہر جاتے وقت ماسک کا استعمال کرتے ہیں،50 فیصد ہاتھ ملانے سے گریز کرتے ہیں، جبکہ 35 فیصد لوگ ہجوم والی جگہوں میں جانے سے اجتناب برتتے ہیں، 25 فیصد اشخاص نے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے کھانے ترک کردیئے ہیں، 17 فیصد افراد نے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا کم کردیا ہے۔ ہر پانچ میں سے تین لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کی وجہ سے کورونا کیسز اور اموات میں مزید اضافہ ہوگا۔ 69 فیصد کا کہنا تھا کہ دن میں پانچ وقت وضو کرنا انہیں اس وبا سے بچا سکتا ہے۔ 58 فیصد کا یہ ماننا ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے سے یہ مرض نہیں پھیل سکتا۔ لاک ڈاؤن میں نرمی پر ہر دو میں سے ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور کاروبار میں بہتری آئے گی۔ 50 فیصد لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ہر دس میں سے چھے پاکستانی اپنے بچوں کو دوبارہ اسکول بھیجنے پر تیار نہیں ہیں لیکن 50 فیصد افراد دوبارہ اپنے کاموں پر جانا چاہتے ہیں۔