شفا انٹرنیشنل اسپتال اسلام آباد کی ڈاکٹر اجالا سے انٹرویو
ڈاکٹرسیدہ فرزانہ
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن خواتین ونگ کے شعبہ عوامی آگاہی کے تحت کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے وارڈ میں کام کرنے والی ڈاکٹر اجالا سے انٹرویو لیا گیا، جو قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ ڈاکٹر اجالا شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے میں پوسٹ گریجویٹ ریزیڈنٹ ہیں۔ اور پیما راولپنڈی کی رکنِ مشاورت بھی ہیں۔
…..٭…..٭…..٭……
سوال:آپ ملکی سطح کے موقر ہسپتال سے منسلک ہیں۔ یہ بتائیے آپ کے ہسپتال میں کووڈ۔19 کے مریضوں کی تشخیص کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟
جواب: ہمارے ہسپتال کی ایمرجنسی کو ریڈ اور گرین زون میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کووڈ کی علامات کھانسی، نزلہ، بخار، سانس کی خرابی وغیرہ ہیں، نیز بخار اور ڈائریا والے افراد کو بھی ریڈ زون میں دیکھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے HRCT کرواتے ہیں۔۔ جس پر Peripheral ground glass opacities…اور کووڈ کی مخصوص نشانیاں دیکھی جاتی ہیں۔پھر nasopharyngeal swab لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خون کے مزید کچھ ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں ۔ کووڈ کے مریضوں میں عام طور پر complete blood count میں Lymphopenia پایا جاتا ہے۔ یہ سفید خلیوں کی ایک خاص قسم ہوتی ہے جو اس انفیکشن میں کم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں میںFerritin LDH D dimer کے لیولز بھی دیکھے جاتے رہتے ہیں۔ stable مریض کووڈ فلور پر منتقل کیے جاتے ہیں، جبکہUnstable کو Covid ICU میں منتقل کیا جاتا ہے۔ گرین زون میں ایسے مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن میں کووڈ کا شبہ نہیں ہوتا۔ ایسے مریضوں کو اگر داخلے کی ضرورت ہو، اسکریننگ کے طور پر ان کا nasopharyngeal swab بھیجا جاتا ہے۔
سوال: ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب: اس وقت ہمارے ہسپتال کا کووڈ فلور اور آئی سی یو دونوں بھر چکے ہیں۔ اور یہ صرف ہمارے ہسپتال کا حال نہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر اب یہی صورت حال ہے۔ یہ وہ مریض ہیں جن میں کم یا زیادہ کسی بھی طرح کی علامات پائی جاتی ہیں۔ جن مریضوں میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا بہت معمولی علامات ہوتی ہیں انہیں صرف آئیسولیٹ کرنا ہوتا ہے، ان کو ہسپتال میں رکھا ہی نہیں جاتا۔ پھر یہ کہ کمیونٹی میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں کووڈ کی کوئی علامت نہیں ہوتی، اور ایسے لوگ اگر احتیاط نہ کریں تو بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مریض کو کسی اور تکلیف پر داخل کیا جاتا ہے مگر پھر اس کا کووڈ ٹیسٹ بھی مثبت آتا ہے۔ اب ہسپتال کے عملے میں بھی بہت سے لوگ اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ تو اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ مرض اب بہت حد تک ہمارے ملک میں پھیل چکا ہے۔
سوال: پاکستان میں مریضوں کا prognosis کس طرح کا دیکھا جارہا ہے؟
جواب: اس وائرس کی مختلف strains یعنی اقسام ہیں جن پر ابھی تحقیق جاری ہے۔ وائرس کی کچھ اقسام دوسری کی بنسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کووڈ کی اقسام کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اتنی خطرناک نہیں ہیں، مگر اس بارے میں ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیکھا گیا ہے کہ شرح اموات بڑی عمر کے افراد میں زیادہ ہے۔ تاہم نوجوانوں میں بھی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے ان کی شرح اموات زیادہ ہے۔ لیکن ابھی اس کے prognosis یعنی حالتِ مرض کی پیشگوئی کے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ وائرس صرف respiratory system یعنی سانس کے نظام پر ہی اثرانداز نہیں ہوتا بلکہ جسم کے باقی اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اور یہ بات اس مرض کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
سوال: پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں عالمی ادارئہ صحت کی طرف سے اجازت کے بعد کئی آزمائشی تحقیقی پروگرام چل رہے ہیں۔ یہ تھراپیز کس حد تک مؤثر ہیں؟
جواب:ابتدائی عرصے میں Hydroxychloroquine اور Azithromycin کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ استعمال کیا جارہا تھا۔ پاکستان میں بھی کووڈ سے متاثرہ افراد کو یہی ادویہ استعمال کروائی جاتی رہیں، تاہم ان کا رسپانس اس وقت نظر نہیں آرہا۔ جب کہ ان ادویہ کے منفی اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر اب ان کا استعمال روک دیا گیا ہے۔
Tocilizumab, Convalescent plasma
therapy, Rimdesivirکا بھی رول ہے، تاہم ان پر تحقیق ابھی جاری ہے۔
سوال: لوگوں میں ایک عام رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ کووڈ کی علامات کو چھپایا جائے، ٹیسٹ نہ کروایا جائے۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: جی 14 دن تک مسلسل آئیسولیشن کا خوف ہے، اس لیے لوگ اس مرض کو چھپاتے ہیں۔ اب چونکہ حکومت نے گھر پر آئیسولیٹ ہونے کی اجازت دی ہے تو لوگوں کے اندر سے یہ خوف ختم ہوجانا چاہیے۔ گھر پر آئیسولیٹ ہوتے ہوئے مرض کے متعلق کچھ بنیادی معلومات ہونی چاہیے۔ علامات شروع ہونے کے بعد 5 سے 8 دن خطرناک ہیں، اس دوران خصوصی نگہداشت کی جائے۔ گھر میں آکسجن ناپنے کا آلہ pulse oximeter موجود ہونا چاہیے۔ 94 ٪ سے کم کے لیول پراسپتال سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔ کسی بھی مسئلے کی صورت میں فوری ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔ اس سارے عرصے کے دوران باقی گھر والوں کو محفوظ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں ۔ کووڈ کے مریض کو stable سے unstable ہونے میں بالکل وقت نہیں لگتا۔ لہٰذا بزرگوں اور ایسے افراد جن میں اور بیماریاں بھی پائی جاتی ہیں جیسے بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ۔۔۔ تو ایسے افراد کو ہسپتال میں ضرور داخل کرلینا چاہیے۔
سوال: کیا ڈاکٹر کو فراہم کردہ حفاظتی سہولیات مناسب ہیں؟
جواب:Personal Protective Equipment کی قلّت اب پورے ملک کو درپیش ہے، اور اس کی ایک وجہ ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے کیسز ہیں۔ ہمارے ہسپتال میں ہر شفٹ پر ایک PPE فراہم کیا جاتا ہے۔
hazmet suit اور blue surgical gown دونوں فراہم کیے جاتے ہیں جو کہ disposable ہوتے ہیں۔ تاكید کی جاتی ہے کہ ایک ڈیوٹی میں ایک ہی گاؤن کا استعمال کیا جائے، تاہم اگلی شفٹ پر نیا گاؤن دیا جاتا ہے۔ ایک N95 ماسک فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسک کی کمی کی وجہ سے ہدایت کی جاتی ہے کہ اسے خراب ہونے سے بچانے کے لیے اس کے اوپر ایک سرجیکل ماسک بھی استعمال کریں۔ اور اسے کچھ وقفے کے بعد پھینک دیا جائے اور نیا سرجیکل ماسک پہن لیا جائے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہسپتال کے ریڈ زون میںHeppa filters, negative suction بھی لگے ہیں جو ہوا کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔
سوال: عوام کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: عوام سے میری درخواست ہے کہ اس وائرس کو سازش نہ سمجھیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کی قیمتی جانیں یہ وائرس لے چکا ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کی وجہ سے کووڈ سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، اور یہ عوام کے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کے سبب ہورہا ہے۔ خدارا اپنی اور اپنے پیاروں کی خاطر ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ اللہ ہمیں جلد اس وبا سے نجات دے اور سب کو اپنی امان میں رکھے۔آمین