سلجوقی خاندان کا پہلا نامور حکمران
حکیم سید محمود احمد برکاتی شہید
سلجوقی بادشاہوں کی تاریخ اسلام کی عظمت اور بزرگی کے ایک نہایت اہم دور کی تاریخ ہے۔ خلافتِ عباسیہ کے سیاسی زوال کے بعد جس سلطنت نے اسلامی ممالک کے بیشتر حصے کو ایک مرکز پر جمع کیا وہ یہی سلجوقی سلطنت تھی۔ اس نے چین کی سرحد سے بحرالابیض کے ساحل تک اور عدن سے لے کر جیہوں (خوارزم) اور انجاز (جارجیا) تک تمام مسلمان قوموں کو ایک کردیا، اور ایشیا کے اس بہترین خطے کو جو اُس وقت نہ صرف اسلامی تہذیب کا بلکہ تمام عالم کی تہذیب کا علَم بردار بنا ہوا تھا، سیاسی انتشار و پراگندگی کی حالت سے نکال کر پھر اس قابل بنادیا کہ وہ انسانی تمدن کی تعمیر میں اپنے حصے کا کام پورا کرے۔ سلجوقیوں کی تاریخ اسلام کے آخری عہد ِ زریں کی تاریخ ہے، اور تاریخِ عالم میں وہ اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
اسلامی حکومت کے سب سے پہلے حاکم خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور مرکز مدینہ منورہ تھا۔ آپؐ کے وصال کے بعد آپؐ کے چار خلفاء حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ حکمران ہوئے اور 30 سال کے اس دور کو ’’خلافتِ راشدہ‘‘ کہتے ہیں۔ خلفائے راشدین کے بعد 41ھ سے 132ھ تک بنی امیہ تختِ حکومت پر فائز رہے۔ 132ھ میں عباسی خاندان کی حکومت کا 26 واں خلیفہ القائم بامراللہ حجاز، عراق، شام، ایران، افغانستان، روسی ترکستان وغیرہ پر حکمران تھا۔ خلیفہ کو قانونی اور دنیاوی اقتدار کے ساتھ دینی مقام بھی حاصل ہوتا تھا۔ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ ’’خلیفۂ رسول اللہ‘‘ ہونے کی بنا پر مرکزِ عقیدت بھی ہوتا تھا اور اس کی اطاعت صرف قانوناً نہیں بلکہ شرعاً بھی واجب ہوتی تھی۔ دو صدیوں تک یہی صورت رہی اور پورے عالم اسلام کا واحد حکمران خلیفہ ہوتا تھا۔ مگر تیسری صدی کے وسط سے یہ صورت نہیں رہی اور خلیفہ عالم اسلام کے بہت سے علاقوں میں رفتہ رفتہ واحد حکمران نہ رہا، بلکہ خلیفہ کے مقرر کیے ہوئے حاکم اپنے اپنے علاقوں کے حاکم بن گئے اور مرکزِ خلافت (بغداد) سے بغاوت کرکے خودمختار ہوگئے، اور پوری دنیا میں صرف ایک اسلامی حکومت کے بجائے رفتہ رفتہ بہت سی چھوٹی چھوٹی حکومتیں بن گئیں۔ ان حکومتوں کو تاریخ میں طاہریہ، طولونیہ، صفاریہ، علویہ، سامانیہ، ساجیہ، زیائیہ، خشیدیہ، آل بویہ، فاطمیہ، غزنویہ، ایلیکیہ، بنی کاکویہ، بنی عقیل، بنی مرداس، بنی مرواں، بنی یزید کی حکومتیں کہا جاتا ہے۔
ان حالات میں پانچویں صدی ہجری (گیارہویں صدی عیسوی) میں سلجوقیوں نے اقدام کیا اور ایک ایسی حکومت بنا ڈالی جس کے زیراثر عالمِ اسلام کا بہت بڑا حصہ آگیا، اور تقریباً اٹھارہ چھوٹی چھوٹی مسلم حکومتوں میں سے زیادہ تر کو ختم کرکے ایک مستحکم مرکزی مسلم حکومت بنالی۔ یوں بیشتر اسلامی ممالک ایک حاکم، ایک قانون اور ایک سیاسی نظام کے تابع ہوگئے۔ پورے عالمِ اسلام میں امن و سکون ہوگیا۔ تجارت و صنعت کو فروغ ہوا۔ علوم و فنون کے چشمے ابلنے لگے اور تھوڑی سی مدت میں عالمِ اسلام کی کایا پلٹ گئی۔ دنیا کی قوموں میں اسلام کی ہیبت پھر قائم ہوگئی۔
سلجوقی خاندان کا پہلا نامور بادشاہ ’’طغرل‘‘ تھا۔ طغرل نے صرف 26 سال کے مختصر عرصے میں روسی ترکستان، افغانستان، ایران، عراق وغیرہ کی تقریباً 15 چھوٹی چھوٹی مسلم حکومتوں کو ایک عظیم تر اور وسیع تر مرکزی حکومت میں ضم کرکے انتشار اور اس کے نتائجِ بد سے نجات دلائی اور دو سو سالہ طوائف الملوکی کا خاتمہ کرکے ازسرِنو ملت کی شیرازہ بندی کی۔ بین الاقوامی سیاست میں مسلمانوں کا رعب قائم کیا۔ رومی (عیسائی) حکومت پر اپنی دھاک بٹھائی اور مرکزِ خلافت کو ایک بار پھر مرکزِ حکومت بنادیا۔ بغداد کی روٹھی ہوئی بہار پھر لوٹ آئی اور عالمِ اسلام ایک بار پھر متحد و مضبوط اور غیروں کے لیے ’’خطرہ‘‘ بن گیا۔
طغرل کا دادا ’’سلجوق‘‘ ایک جواں ہمت ترک سردار تھا جس نے ایک سو سات سال کی عمر پائی، اور 382ھ میں اس کی وفات ہوئی۔ طغرل کے باپ کا نام ’’میکائیل‘‘ تھا جو کافروں کے ہاتھوں شہید ہوا۔ طغرل 385ھ میں پیدا ہوا۔ ابتدائی عمر ہی سے اپنے باپ، دادا اور بھائیوں کے ساتھ فوجی مہمات میں نمایاں حصہ لینے لگا اور 429ھ میں محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود سے لڑ کر خراسان پر قبضہ کرلیا۔ پھر مرو، نبست، ہرات، قہستان، سیستان، کرمان، فارس اور عراق کے علاقے فتح کیے۔ 431ھ میں بلخ فتح کیا۔ اسی سال رے (تہران) اور ہمدان کے علاقے فتح کیے۔ 437ھ میں دینور، قرمیسین، حُلواں اور سیرواں فتح کرلیے۔ 442ھ میں اصفہان فتح کیا۔ 446ھ میں آذربائیجان اور آرمینیا فتح کیے۔
۔447ھ میں وہ بغداد گیا اور خلیفۂ وقت قائم کے دربار میں نیاز مندانہ حاضری دے کر خلافت کی اہمیت اور تقدس کا عملی اعتراف کیا اور اپنی حقیقت شناسی، تدبیر، ہوش مندی، مرکزیت پسندی اور اپنے جذبۂ ایمانی کا ثبوت پیش کیا۔ پھر حرمین شریفین میں حاضری اور حج و زیارت سے فارغ ہوا۔ بغداد میں خلیفہ نے اسے تاج، عمامہ، طوق اور ہار پہنایا، خلعت دی، تلوار دی اور ’’بادشاہِ مغرب و مشرق‘‘ کا خطاب دیا۔ 454ھ میں خلیفہ نے طغرل کے عقد میں اپنی بیٹی دے کر اسے اپنا داماد بنالیا، اور اس طرح خاندانِ خلافت سے اس کا رشتہ استوار ہوگیا۔ 455ھ میں ستّر سال کی عمر میں اس عظیم فاتح نے وفات پائی۔
۔26 سال کے مختصر سے عرصے میں مسلسل فتوحات اور اتنی وسیع و عظیم حکومت کے قیام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ درحقیقت نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کی، اور نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخِ عالم کی غیر معمولی اور عظیم شخصیات میں سے تھا، اور مؤرخ بجا طور پر اسے ’’طغرل اعظم‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل انسان تھا۔ اس نے شرق اوسط کو زیر کرکے ایک طاقت ور سلطنت 26 سال میں قائم کردی۔ یہ بات اس کی سیاست و تدیبر، جرأت و بسالت اور اعلیٰ درجے کی قائدانہ صلاحیتوں پر دلالت کرتی ہے۔ 30 سال پہلے وہ اپنے قبیلے کے چند ہزار خانہ بدوشوں اور بے سروسامان افراد کے ساتھ خراسان آیا تھا۔ 5 سال کے مختصر عرصے میں اس نے غزنوی حکومت کو شکست دی اور سلطنت کی توسیع کا سلسلہ شروع کیا، اور مسلسل فتوحات کرکے ایک بہت بڑے علاقے اور عالم اسلام کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ خلیفہ کی حفاظت کا ذمہ لے کر مرکزی حیثیت حاصل کی اور ترکوں کے ایک قبیلے کے ایک معمولی سردار نے چوتھائی صدی میں جو طاقت حاصل کی وہ اس کی خداداد صلاحیتوں کی دلیل ہے۔
طغرل ایک انسان کی حیثیت سے بھی بہت سی خوبیوں کا مالک تھا۔ اس کی سیرت میں بردباری، رازداری کی صفات بہت نمایاں تھیں، وہ دشمنوں کے لیے بہت فیاض اور دریا دل تھا۔ وہ نماز کا بہت پابند تھا، نماز ہمیشہ باجماعت پڑھتا تھا، تہجد کبھی ناغہ نہیں کرتا تھا، ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتا تھا۔ صدقات و خیرات بکثرت دیتا تھا۔ اسے مسجد کی تعمیر کا خاص شوق تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ کوئی عمارت بنے اور اس کے پہلو میں مسجد نہ ہو۔
طغرل جب پہلی بار خلیفہ کے پاس گیا تو قصرِ خلافت کی دہلیز سے سواری سے اتر کر پاپیادہ ایوانِ خلافت تک گیا اور خلیفہ کے سامنے زمین کو بوسہ دے کر کھڑا رہا، بیٹھا نہیں۔
ایک بار سلطان مسعود غزنوی نے اس کی سرگرمیوں کے پیش نظر اسے ایک خط لکھا جس میں نافرمانی کے برے نتائج سے ڈرایا تھا اور فرماں برداری کے اچھے نتائج کا لالچ دیا تھا۔ طغرل نے یہ خط پڑھ کر اپنے امامِ صلوٰۃ سے کہا کہ اس کے جواب میں صرف قرآن مجید کی یہ آیات لکھ دیجیے:۔
قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شی قدیر
سلطان مسعود پر اس جواب کا یہ اثر ہوا کہ اُس نے طغرل کو کئی خلعت اور جاگیریں عطا کیں اور ’’دہقان‘‘ کا لقب عطا کیا۔ جب وہ خراسان کے دارالسلطنت نیشاپور میں پہلی بار ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو ایک شہر کے لوگ بڑی تعداد میں اس کے استقبال کے لیے شہر سے باہر نکل آئے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ ایک فاتح پوری شان و شکوہ اور جلال و جبروت، اور ایک بڑے مسلح لشکر اور سازوسامان کے ساتھ آئے گا۔ مگر وہ اس انداز سے آیا کہ صرف تین ہزار زرہ پوش سوار ساتھ تھے اور خود سلطان طغرل کی دھج یہ تھی کہ کمر میں ترکش، بازو میں کمان، سر پر پگڑی، بدن پر قبا، پائوں میں نمدے کے جوتے تھے۔ اس دھج سے وہ نیشاپور میں داخل ہوا اور دوسرے روز سلطان محمود غزنوی کے جانشین سلطان مسعود کے تخت پر دربار آرا ہوا۔ دربار میں کوئی ترتیب نہیں تھی۔ ادنیٰ و اعلیٰ جہاں چاہا بیٹھ گئے، جس کا جی چاہتا تھا خود سلطان طغرل سے بات کرلیتا تھا۔ نیشاپور کے قاضی صاعہ اٹھے اور سلطان سے مخاطب ہوئے: ۔
’’خداوند کی عمر دراز ہو، یہ سلطان مسعود کا تخت ہے جس پر آپ بیٹھے ہیں، پردۂ غیب میں بہت سی چیزیں پوشیدہ ہیں، نہیں معلوم ابھی اور کیا ہونا ہے۔ ہوشیار رہیے، اللہ سے ڈریے، انصاف کیجیے، ستم رسیدوں اور درماندوں کی بات سنیے، لشکر کو ظلم کرنے کی آزادی نہ دیجیے کہ بے انصافی منحوس ہوتی ہے‘‘۔
سلطان طغرل نے قاضی صاحب کی یہ باتیں بڑے غور سے سنیں اور جواب دیا:۔
’’آپ نے جو کچھ فرمایا وہ میں نے قبول کیا، اس کے مطابق کام کروں گا۔ ہم نووارد ہیں، یہاں کی رسموں سے ناواقف ہیں، نصیحت کی بات کہلا بھیجنے میں دریغ نہ کیجیے گا‘‘۔
طغرل کے فوجیوں نے مفتوحہ علاقے کو لوٹنا چاہا تو پہلے تو وہ ٹالتا رہا اور سمجھاتا رہا، مگر سلجوقی فوج بضد ہوئی تو طغرل نے خنجر ہاتھ میں لہرا کر کہا ’’اگر تم نہ مانے اور لوٹ مار کی تو میں اس خنجر سے اپنا کام تمام کرلوں گا‘‘۔ اس دھمکی کے بعد سلجوقی فوج نے لوٹ مار کا ارادہ ملتوی کردیا۔
طغرل سے خلیفہ نے اپنی بیٹی کا عقد کردیا تو وہ حجلۂ عروسی میں داخل ہوا، مگر دلہن نہ اس کے استقبال کو اٹھی، نہ اپنے چہرے سے نقاب اٹھائی، ایک زریں تخت پر بیٹھی رہی۔ سلطان نے تخت کے پاس کھڑے ہوکر زمین کو بوسہ دیا، ہدیے پیش کیے اور چلا آیا۔ اسی طرح مسلسل ایک ہفتے تک دلہن کی خدمت میں حاضری دیتا رہا اور خاندانِ خلافت سے اپنے رشتے اور اپنی عزت افزائی کی خوشی میں بکثرت انعامات تقسیم کرتا رہا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادارہ خلافت کا کس قدر احترام اور کیسی عقیدت اس کے قلب میں تھی۔
طغرل کی کثرتِ فتوحات اور اس کے تدبر کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے:۔
وہ طغرل و سنجر کا آئینِ جہاں بانی
طغرل کے جانشین الپ ارسلان، ملک شاہ سلجوقی اور سنجر وغیرہ ہوئے۔ انہوں نے طغرل کی حدودِ سلطنت کو مزید وسعت دے کر سلجوقی سلطنت کو وسیع تر کردیا تھا۔ ملک شاہ کے عہد میں اس سلطنت کی حدود مغرب میں بحر روم کے ساحل اور مشرق میں چین تک، جنوب میں یمن تک اور شمال میں کبوہ اور جارجیا تک پھیلتی چلی گئیں۔ بغداد کا مشہور ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ بھی ملک شاہ کے عہد میں اس کے نامور وزیراعظم نظام الملک طوسی نے قائم کیا تھا۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، شیخ شہاب الدین سہروردیؒ، فرید الدین عطارؒ جیسے بزرگانِ دین، امام غزالیؒ، امام الحرمینؒ، عبدالکریم شہرستانیؒ، ابوالحسن فرغانیؒ، ابوبکر شاشیؒ، ابواسحاق شیرازیؒ، سیف الدین آمدیؒ، علم الدین سخادیؒ، رشید الدین البھریؒ، عمر خیامؒ، ابن جوزیؒ، عبدالقاہر جرجانیؒ جیسے علما و حکما اسی سلجوقی عہدِ حکومت میں پیدا ہوئے تھے۔