خدا کی پکڑ

کرونائی وبا کے عالمی پھیلائو اور اس کی تباہ کاریوں کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے اقوام عالم اور ان کے قایدین کی توجہ جنگوں اور تنازعات کے ختم کرنے پر دلائی تھی۔ یہ اپیل اس تناظر میں بھی کی گئی تھی کہ مہلک عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اقوام عالم کا تعاون ایک ضروری تقاضا ہے۔ وبائی ہلاکت خیزی کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں تھی بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہو چکی تھی، کیا ترقی یافتہ دنیا ہو، کیا غریب اور پسماندہ ممالک سب عالمی وبا سے یکساں طورپر متاثر تھے۔ اگر یہ وبا اور اس کی ہلاکتیں اقوام عالم کے قایدین اور حکمرانوں کے دلوں کو نرم کرنے کا سبب بنتیں تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی یہ اپیل ضائع نہ جاتی، لیکن افسوس یہ ہے کہ کسی بھی حکمراں کے دل و دماغ میں جنگوں اور فساد سے متاثرہ انسانوں کے دکھ کا احساس نہیں ہوا۔ کرونائی وبا نے انسانوں کی بے بسی اور لاچاری کو نمایاں کر دیا ہے۔ اس کا سبب آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ اگر معلوم ہے تو دنیا کو بتایا نہیں گیا۔ اسی طرح اس کے علاج بھی کے بارے میں بھی عالمی طبی اداروں کی جانب سے دعوے ہی دعوے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مہلک عالمی وبا نے قوموں اور ان کے قایدین کے دلوں کو نرم کرنے اور اپنے اجتماعی اعمال کے احتساب اور جائزے کا جو موقع دیا تھا اس کو ضائع کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ جو قوموں کے درمیان جنگوں اور تنازعات کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے بنائی گئی تھی، اس کا سربراہ یعنی سیکرٹری جنرل اتنا بے بس ہے کہ وہ صرف ایک اپیل کرکے رہ جاتا ہے۔ قوموں کے قایدین اور حکمرانوں کی سفاکی اور سنگ دلی میں اضافہ ہی ہوا۔ اس عرصے میں جنگوں اور تنازعات میں کوئی کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہی ہوا اور نئی جنگیں انسانوں کے سر پر کھڑی ہوئی ہیں۔ بھارت کے متعصب اور نسل پرست حکمرانوں نے تو اس وبا کو بھی اپنے منفی عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بھارت نے طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ بھارتی فوج ریاستی جبر وظلم اور دہشت گردی کے لیے اپنی حکومت کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی نہ کسی کشمیری جوان کی شہادت نہ ہوتی ہو۔ گذشتہ برس کے ماہ اگست سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل لاک ڈائون ہے ،بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری کرکے نہتے شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور افواج پاکستان کے سالار جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے خلاف بھارت کے جنگی عزائم پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ صورت حال صرف ہند و پاکستان کی ہی نہیں ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر اور چین کی سرحد پر بھی کشیدگی اور تنائو میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے چین اور بھارت کے درمیان فوجی تصادم کے خطرات بھی منڈلانے لگے ہیں۔ اس تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی ہے، جسے دونوں ممالک نے مسترد کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے حکمرانوں کی بے حسی اور سنگدلی کی ایک علامت امریکہ کا منظرنامہ بھی ہے۔ امریکہ کے سفید فام پولیس اہلکار نے ماورائے قانون ایک سیاہ فام امریکی شہری کو تشدد کرکے ہلاک کر دیا، جس کے بعد پورے امریکہ میں نسلی فسادات پھیل گئے ہیں۔ پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ احتجاج ردعمل میں اتنی شدت آگئی ہے کہ واشنگٹن اور نیویارک میں کرفیو لگانا پڑا ہے۔ دنیا کی سب سے بری جمہوریت میں فساد کا سبب نسلی تقسیم اور تعصب ہے۔ حکومت کا فرض تھا کہ وہ اپنی پولیس کے ماورائے قانون تشدد کو روکنے کے اقدام کرتی۔ ذمے داران کو سزا دیتی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے تیسری دنیا کے جابر ڈکٹیٹروں کی طرح اپنی ہی قوم اور اپنے شہریوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور پولیس تشدد کے خلاف مظاہرے کو اندرون ملک دہشت گردی قرار دے دیا ہے۔ امریکی حکومت، پولیس اور فوج اپنے شہریوں کے خلاف جس طرح طاقت استعمال کر رہی ہے۔ اس نے نسلی فسادات کی آگ کو اور بھڑکا دیا ہے۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی نصیحت کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مظاہرین سے تحمل سے نمٹیں اور پولیس تشدد کے الزامات کی تحقیقات کرائیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے امریکی پولیس کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ دنیا بھر میں پولیس اہلکاروں کو انسانی حقوق کی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ملک اپنے پولیس اہلکاروں کہ مہذب بنانے میں ناکام ہے، اس کے پولیس اہلکار نسل پرست اور سفاک ہیں اوروہ شبے میں بھی ماورائے عدالت اپنے شہریوں کو قتل کر سکتے ہیں۔ جب دنیا میں امن قائم کرنے کی صلاحیت رکھنے والی حکومتیں امن قائم کرنے میں ناکام ہیں تو باقی دنیا کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ کرونائی وبا نے پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کا صرف ایک علاج بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے لاک ڈائون جو خود ایک عذاب ہے ۔ کرونائی وبا انسانوں کو بیمار کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بے روزگار کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا لاک ڈائون ختم کرنے اورکورونا کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی عادت قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کرونا کی وبا نے عالمی اقتصادی بحران میں پوری انسانیت کو دکھیل دیا ہے۔ اسی کے ساتھ افریقہ، مشرق وسطیٰ، ایران، پاکستان اور بھارت کے بعض علاقوں میں ٹڈی دل کی مصیبت بھی آگئی ہے۔ تمام مصائب کے باوجود دنیا بھر کے حکمرانوں کے دلوں میں نرمی کی کوئی صورت پیدا نہیں ہورہی ہے۔ وہی پرانے رویے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ’’خدا کی پکڑ‘‘ پر ان کو ایمان نہیں ہے۔