جوہری دھماکہ اور کریڈٹ کا جھگڑا

اصل ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر ہیں

پاکستان کا 22 واں یوم تکبیر اس ماحول میں گزرا ہے کہ ایک جانب دنیا بھر میں کورونا کے شدید خوف اور وبا کے باوجود چین نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت پر لداخ سیکٹر میں چڑھائی کررکھی ہے جہاں بھارت کو بری طرح ہزیمت کا سامنا ہے، اور دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر پاکستان بھارت کے کئی طیارے اور ہیلی کاپٹر گرا چکا ہے جو پاکستانی حدود میں داخل ہونے کے بعد مار گرائے گئے۔ ملکی صورت ِحال میں قومی فخر اور وقار کا یہ دن ایسے ماحول میں آیا ہے جب ایٹمی دھماکہ کرنے والے وزیراعظم نوازشریف پہلے مزاحمت اور پھر مفاہمت کے بعد لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کی یہ خودساختہ جلاوطنی یا بیماری کے باعث وہاں قیام جس کا حکومت اور حکومتی اتحادی نت نئی تصاویر اور خبریں لگا کر روز مذاق اڑاتے ہیں، کب تک جاری رہتا ہے اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ جس طرح انھیں پہلے مزاحمت اور پھر معنی خیز طویل خاموشی کے بعد ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی تھی جس کی ملکی تو کیا شاید غیر ملکی عدالتی تاریخ میں بھی کوئی نظیر ملنا مشکل ہے، اسی طرح ان کی واپسی بھی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتوں کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ ان کا سارا دبائو اور مزاحمت بھی اسی لیے ہے کہ اس کے ذریعے وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے سیاسی سمجھوتے کرسکیں، ورنہ ان کی سزا اور مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں جو دبائو بنا تھا اُسے تو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی گھاس نہیں ڈالی البتہ شہبازشریف کے ذریعے انھیں اقتدار میں لانے کے نام پر مذاکرات اور کابینہ کے ناموں تک پر غور کے ذریعے ہوشیار اسٹیبلشمنٹ نے مزاحمت کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔ رہی سہی کسر نوازشریف اور ان کے خاندان کے بیرونِ ملک جانے سے پوری ہوگئی، جب یہ بات اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کارندوں کے ذریعے واضح کردی تھی کہ یہ خاندان کسی دبائو کے نتیجے میں نہیں بلکہ سمجھوتے اور مفاہمت کے نتیجے میں باہر جارہا ہے جیسا کہ وہ ماضی میں بھی کرچکا ہے۔ اُس وقت آخری لمحوں تک یہ خاندان یہی کہتا رہا کہ وہ کوئی مفاہمت نہیں کرے گا، اور پھر اپنے نوکروں، چاکروں اور ٹنوں وزنی سامان کے ساتھ سعودی عرب اور وہاں سے لندن منتقل ہوگیا۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ یہ خاندان سعودی عرب اور لندن میں قیام کے دوران اور پھر پاکستان واپسی کے بعد بھی یہی کہتا رہا کہ وہ کسی سمجھوتے کے ذریعے بیرونِ ملک نہیں گیا تھا۔ مگر بعد میں عدالتی کارروائی اور دوسرے شواہد سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک باقاعدہ سمجھوتے کے بعد ہی اس خاندان کی سعودی عرب روانگی ہوئی تھی، اور ان کی وطن واپسی بھی ڈیل کا نتیجہ تھی۔
تو ایک طرف ایٹمی دھماکے کا ایک کردار نوازشریف بیرونِ ملک تھے اور دوسری جانب اس کارنامے کے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک تکلیف دہ آزمائش کے بعد گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر قوم کے نام ایک وڈیو پیغام جاری کیا جس میں ایٹمی تحقیق کے لیے کی جانے والی کوششوں کے علاوہ ایک بار پھر اپنے عزم اور حوصلے کا اعادہ کیا اور پوری قوم کو امید دلائی کہ دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صحت و ایمان کے ساتھ لمبی عمر دے۔ انھوں نے ماضی کی تلخیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا، یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر ان کا یہ شعر ان کی تصویر کے ساتھ بہت زیادہ وائرل ہوا:۔

گزر تو خیر گئی ہے حیات اپنی قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

اس سادہ سے شعر میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی ساری تلخی سمٹ آئی ہے کہ جس شخص کو پلکوں پر بٹھایا جانا چاہیے تھا وہ ایک بے نام سی زندگی گزار رہا ہے، اور جس فوج کو ان کا مرتے دم تک احسان مند رہنا چاہیے تھا اسی فوج اور اس کے ایک سربراہ نے اپنے اس محسن کو مہینوں بلکہ برسوں تک نظربند رکھا۔ ایک جانب ہمارے دشمن نے اپنے ایٹم بم کے خالق کو مسلمان ہونے کے باوجود (بھارتی حکومتوں کا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ ان کی مشترکہ میراث ہے) ملک کا صدر بنایا اور مرتے دم تک اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھا، اور دوسری جانب ہم نے محسنِ پاکستان کو نہ صرف نظربند رکھا بلکہ یہ بحث شروع کرا دی کہ یہ کریڈٹ تو کسی اور کا ہے، ڈاکٹر صاحب کا تو محض نام چل نکلا ہے۔ یہ بے اعتنائی قومی سطح پر کسی جرم سے کم نہیں کہ اب کوئی بھی شخص کوئی بڑا قومی کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے ضرورسوچے گا کہ کہیں اس کا انجام بھی ڈاکٹر قدیر جیسا نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک یہ ایٹمی کام ہوتا رہا ڈاکٹر صاحب کو وی وی آئی پی پروٹوکول حاصل تھا، ان کی حفاظت کے لیے انتہائی خصوصی اقدامات کیے گئے تھے۔ قومی سطح پر ان کی عزت و تکریم کسی سربراہِ حکومت کے برابر ہی تھی، لیکن پھر وہ بدنصیب دن بھی آئے جو کاش نہ آتے تو شاید ہم بھی اپنی تاریخ کے اس باب پر فخر کرسکتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری تاریخ کا یہ باب بھی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بے اعتنائیوں، شخصی تنازعات اور کریڈٹ کے جھگڑوں سے آلودہ ہے۔ اِس بار بھی یومِ تکبیر پر کریڈٹ کے یہ جھگڑے خاصے وائرل رہے۔ ریٹائرڈ عسکری حلقوں اور عسکری دانش وروں نے یہ کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے کھاتے میں ڈالا۔ شاید اب یہی کرنا چاہیے تھا کہ ان میں سے تین حکمرانوں کے ساتھ کافی کچھ کیا جا چکا ہے، اب تھوڑا سا کریڈٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے اصل کریڈٹ نوازشریف کو دیتے ہوئے یہ سہرا انہی چار حکمرانوں کے سر باندھا، البتہ بعض غیر جانب دار حلقوں نے اس میں صدر غلام اسحاق خان کا اضافہ کردیا جو شاید مسلم لیگی حلقوں نے اپنے ماضی کے زخموںکی وجہ سے گول کردینا ضروری سمجھا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے یہ کریڈٹ دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کوئی ذکر نہیں کیا، البتہ ایک چھوٹے سے حلقے نے اس میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ان کے رفقا اور ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کو بھی شامل کیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ کسی نے بھی سردار فاروق خان لغاری اور ریٹائرڈ جسٹس رفیق تارڑ کا تذکرہ تک نہیں کیا، حالانکہ فاروق لغاری کے دور میں بھی اس میدان میں خاصی پیش رفت ہوئی تھی، اور جناب رفیق تارڑ تو ایٹمی دھماکے کے وقت ملک کے صدر تھے، اور کہا جاتا ہے کہ ایٹمی ریسرچ منصوبے کا کنٹرول صدر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا معاملہ دوسرا ہے۔ انھوں نے اس منصوبے کا آغاز کیا اور اس کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بیرونِ ملک سے بلا کر تمام وسائل فراہم کیے جس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اپنے حالیہ وڈیو پیغام میں بھی کیا ہے۔ ان کے بعد یہ صدر کا خصوصی مشن رہا ہے، لیکن چونکہ ہمارے سیاسی دانش وروں اور دوستوں کو سہرا نوازشریف یا بے نظیر کے سر باندھنا تھا اس لیے ضروری ہوگیاکہ فاروق لغاری، جسٹس (ر) رفیق تارڑ بلکہ غلام اسحاق خان اور جنرل ضیاء الحق کا نام نہ لیا جائے۔ حالانکہ ایٹمی دھماکہ کے معاملے میں جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کا کردار اس قدر واضح تھا کہ دنیا اس کی معترف ہے۔ پھر اس ملک کے فوجی حلقے کبھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ ایٹمی ریسرچ اور دھماکے کے پراجیکٹ سے فوجی سربراہ ضیاء الحق یا اُن کے جانشین غلام اسحاق خان کا نام نکال دیا جائے۔ عوامی سطح پر بھی یہ بات ممکن نہیں۔ لیکن ہماری سیاسی بددیانتی ملاحظہ فرمایئے کہ 1998ء میں ایٹمی دھماکہ کرتے وقت وزیراعظم نوازشریف نے سارا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالا اور ذوالفقار علی بھٹو سے رفیق تارڑ تک کسی کا ذکر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس معاملے میں وہ اپنے محسن اور اپنی سیاسی کامیابیوں کے معمار ضیاء الحق کو بھی فراموش کرگئے۔ یہ تو جب جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف کو اقتدار سے فارغ کیا اور نوازشریف کو سیاسی حمایت کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کا نام بادلِ نخواستہ لینا شروع کیا۔ جناب نوازشریف نے تو چاغی دھماکے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی لے جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ چاغی میں سارے انتظامات فوج کی انجینئرنگ کور کے جنرل ذوالفقار علی کی قیادت میں کیے گئے تھے اور تکنیکی معاونت کے لیے ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کے ساتھیوں کو ساتھ رکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بے چارے تو اسلام آباد میں بیٹھ کر دھماکے کا انتظار کرتے رہے۔ اس کی تصدیق الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے اپنے حالیہ مضمون میں بھی کی ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ پاکستان میں 1950ء کی دہائی میں ایٹمی توانائی پر کام شروع کردیا گیا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ماہر طبیعات ڈاکٹر رفیع چودھری نے جو اُس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ طبیعات کے سربراہ تھے، جوہری توانائی کے حصول کے لیے وزیراعظم لیاقت علی خان کے زمانے میں کام شروع کیا۔ راقم کو ذاتی طور پر علم ہے کہ ڈاکٹر رفیع چودھری نے بھی اپنی ایک ہونہار شاگردہ اورلاہور کالج برائے خواتین میں شعبہ طبیعات کی سربراہ ڈاکٹر ہاجرہ خان کو اس مقصد کے لیے برطانیہ بھجوایا۔ اس خاتون سائنس دان نے دو سال مسلسل کام کرکے ابتدائی خاکہ تیار کرلیا۔ وہ پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والی خاتون سائنس دان تھیں۔ بعد میں ان کا سارا خاندان برطانیہ منتقل ہوگیا مگر وہ وطن کی محبت میں پاکستان ہی میں رہیں۔ 2000ء کی دہائی میں شدید بیماری کے باعث ان کے بچے انھیں انگلستان لے گئے لیکن انھوں نے یہ شرط رکھی کہ انھیں برطانیہ میں نہیں پاکستان میں دفن کیا جائے گا۔ چنانچہ ان کی موت پر پورا خاندان میت لے کر پاکستان آیا، قبرستان میانی صاحب لاہور میں ان کی تدفین کی اور واپس برطانیہ چلا گیا۔ کاش ہم ڈاکٹر رفیع چودھری سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک ایٹمی دھماکہ جیسے قومی مقصد کے لیے کام کرنے والے تمام سائنس دانوں، سہولت کاروں اور معاونین کا کھلے دل سے اعتراف کرتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اپنے وڈیو پیغام میں ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کا تذکرہ بڑی محبت سے کیا ہے مگر باقی کا ذکر نہیں کیا۔ کاش ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں کبھی تفصیلی بات کرسکیں۔ ماضی میں ڈاکٹر صاحب کہہ چکے ہیں کہ صدر ضیاء الحق نے اپنے اسٹاف کو کہہ رکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب جب بھی ان سے ملنے آئیں تمام اپائنمنٹ منسوخ کرکے ان کی فوری ملاقات کا بندوبست کیا جائے۔ جب کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ صدر ضیاء الحق کے برعکس وہ ایک بار وزیراعظم بے نظیر سے ملاقات کے لیے گئے، ظاہر ہے کہ گفتگو جوہری پروگرام پر ہی کرنا ہوگی، لیکن ایک گھنٹے سے زیادہ انتظار کے بعد ان کی ملاقات ہوسکی۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے ایک انٹرویو اور کالم میں واضح طور پر کہا تھا کہ نوازشریف ایٹمی دھماکہ نہیں کرنا چاہتے تھے، انھیں اس کام کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہی بات نوائے وقت کے بانی ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم بھی کہتے تھے، اور شیخ رشید نے بھی کہی ہے کہ نوازشریف کی پوری کابینہ میں سے صرف تین ارکان دھماکوں کے حامی تھے جن میں سے ایک وہ خود تھے، مگر انھوں نے سادگی میں یہ بھی بتادیا ہے کہ وہ دھماکے والے دن خوف کے باعث اچانک بیرونِ ملک چلے گئے اور دھماکے کی اطلاع ملنے پر پہلی فلائٹ سے واپس آگئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس انکشاف کے بعد کہ نوازشریف دھماکہ کرنے کی جرأت نہیں کررہے تھے، مسلم لیگی حلقوں نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کرلیا تھا۔ اس طرح ہماری یہ قابلِ فخر تاریخ ذاتی پسند و ناپسند، سیاسی ضرورتوں اور شخصی تنازعات کے باعث خاصی گہنا گئی ہے۔ کاش کوئی مردِ حق پاکستان کی جوہری تاریخ پوری دیانت داری کے ساتھ سپردِ قلم کرے، اور اس منزل تک پہنچانے والے ہر نامور اور گم نام سپاہی کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرے۔