شہباز شریف کی گرفتاری کا ڈراما

سیاست کی رونق بڑھانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے رچایا گیا

شاعرنے کہا تھا ؎۔

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نغمۂ شادی نہ سہی نوحۂ غم ہی سہی

کوچۂ سیاست کی رونق بحال رکھنے کے لیے بھی ملک میں آئے روز مختلف تماشے لگائے جاتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تماشا 2 جون کو لاہور میں بھی لگایا گیا۔ قومی احتساب بیورو نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صدر، سابق وزیراعلیٰ اور بقول خود خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے کیس میں تفتیش کے لیے ذاتی حیثیت میں طلب کررکھا تھا، تاہم وہ پیش نہیں ہوئے اور اپنے نمائندے کے ذریعے احتساب بیورو کے سوالات کے جوابات بھجوا دیئے، اپنی عدم حاضری کے لیے میاں شہبازشریف نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ 69 برس کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور کینسر کے مریض ہیں، اس وجہ سے قوتِ مدافعت بھی کم ہوچکی ہے، لاہور سمیت ملک بھر میں کورونا وائرس پھیل رہا ہے جب کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نیب کے کچھ افسران بھی کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں، اس لیے ان حالات میں وہ ذاتی طور پر نیب کے روبرو پیش نہیں ہوسکتے، البتہ نیب حکام ان سے تحقیقات کے لیے ویڈیو لنک اور اسکائپ وغیرہ کے ذریعے سوال جواب کرسکتے ہیں۔
میاں شہبازشریف کے اس جواب کا مطالعہ کرنے کے بعد نیب حکام نے اپنا اجلاس منعقد کیا جس میں تمام تر صورتِ حال اور جواب کے مختلف پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ میاں شہبازشریف کو اس سے پہلے بھی کئی بار اس کیس میں تحقیقات کے لیے بلایا گیا ہے مگر وہ پیش نہیں ہوئے، جو تازہ نوٹسِ طلبی انہیں ارسال کیا گیا تھا اس میں انہیں آگاہ کردیا گیا تھا کہ عدم تعاون کی صورت میں نیب اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف شیڈول II کے تحت کارروائی کرسکتا ہے، مگر میاں شہبازشریف اس کے باوجود تحقیقات میں تعاون کے لیے پیش نہیں ہوئے، چنانچہ نیب حکام نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا فیصلہ کیا۔ تاہم نیب ترجمان نے اس ضمن میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ نیب کا سیاست کی اونچ نیچ سے کوئی تعلق نہیں، اس کی کارروائیوں کا مقصد بدعنوانی کے بڑے بڑے معاملات کو جلد از جلد انجام تک پہنچانا ہے۔
نیب حکام اپنے فیصلے کے مطابق پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ فوری طور پر ماڈل ٹاؤن میں میاں نوازشریف کی رہائش گاہ ایچ 96 پر پہنچے، جہاں موجود گارڈز نے گیٹ بند کردیئے۔ نیب حکام نے مقامی متعلقہ تھانے سے مزید نفری اور انسدادِ فسادات فورس کے جوان بھی طلب کرلیے اور علاقے کا محاصرہ کرلیا، اور آمدورفت روک دی گئی، مگر اس کے باوجود مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب، سابق صوبائی وزیر رانا مشہود، ملک احمد خان، عظمیٰ بخاری، سمیع اللہ خان اور خواجہ عمران نذیر جیسے دوسرے درجے کے قائدین سمیت کارکنان کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں پہنچ گئی جنہوں نے احتجاج شروع کردیا، دھرنا دیا اور نعرے بازی کرتے رہے۔ مسلم لیگ(ن) کے قائدین کے مطالبے پر نیب حکام نے میاں شہبازشریف کی گرفتاری اور سرچ وارنٹ انہیں دکھائے اور رہائش گاہ میں داخل ہوکر میاں شہبازشریف کو تلاش کرتے رہے، مگر انہیں ملنا تھا نہ ملے۔ یہاں سے ناکامی کے بعد نیب حکام نے ماڈل ٹائون میں ان کے دوسرے گھر ایچ 180، جاتی عمرہ رائے ونڈ، ماڈل ٹائون میں میاں شہبازشریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کی رہائش گاہ اور رکن اسمبلی سہیل شوکت بٹ کے ڈیرے پر بھی میاں شہبازشریف کی تلاش میں چھاپے مارے، مگر ہر جگہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نیب حکام بھی محض تماشا لگانا چاہتے تھے جو انہوں نے لگایا، دنیا کو دکھایا اور خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ ورنہ اگر وہ گرفتاری میں سنجیدہ ہوتے تو کیا میاں شہبازشریف جیسی شخصیت کی نقل و حرکت متعلقہ سرکاری اداروں کی نظروں سے اوجھل رہ سکتی تھی؟ پھر طرفہ تماشا یہ بھی کہ میلوں پر محیط شریف خاندان کے جاتی عمرہ کے محلات کی تلاشی کا مرحلہ بھی منٹوں میں مکمل کرکے یہ فیصلہ سنا دیا گیا کہ وہ یہاں نہیں ہیں، اسی طرح ماڈل ٹائون وغیرہ میں ان کے اہلِ خانہ کے قیام کے حصوں کو خواتین اہلکاروں کے ذریعے دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی، حالانکہ ایسے موقع پر اس بات کا امکان کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ مطلوب ملزم گھر میں خواتین کے کسی کمرے میں موجود ہو۔ تاہم شاید یہ ملزم کی شخصیت کی اہمیت کا تقاضا تھا کہ نیب حکام نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، یا انہیں اس کی ہمت ہی نہ ہوسکی۔
میاں شہبازشریف کو طلبی کا نوٹس ملنے کے بعد شاید اندازہ ہوگیا تھا، یا انتظامیہ اور بیوروکریسی میں موجود ان کے چاہنے والوں نے پہلے سے اطلاع کردی تھی، بلکہ بزبانِ خود میاں شہبازشریف کے عمران خان کی کابینہ میں موجود دوست وزیر ریلوے شیخ رشید تو عید سے ہفتہ عشرہ قبل ہی کھلے بندوں پریس کانفرنس میں یہ اعلان کر چکے تھے کہ عید کے بعد میاں شہبازشریف کو پسِ دیوارِ زنداں جانا ہوگا۔ چنانچہ ان تمام حالات و اطلاعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے میاں شہبازشریف نے 2 جون کو نیب حکام کی بار بار کی طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے کے فیصلے کے ساتھ ہی عدالتِ عالیہ لاہور میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کردی تھی، جس کی سماعت بدھ 3 جون کو عدالت کے مسٹر جسٹس محمد طارق عباس اور مسٹر جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔ اس موقع پر بھی عدالت کی جانب جانے والے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس نے عوام کی آمد و رفت مشکل بنائے رکھی، جس سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ شاید میاں شہبازشریف کو عدالت پہنچنے سے قبل ہی گرفتار کرکے ان کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری کو غیر مؤثر بنا دیا جائے گا، اور انہیں ضمانت کے لیے بعد از گرفتاری کی نئی درخواست دائر کرنا پڑے گی۔ مگر یہاں بھی عجیب تماشا ہوا کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود مسلم لیگی کارکنوں اور قائدین کو عدالت کے احاطے میں پہنچنے کا موقع مل گیا اور میاں شہبازشریف کی آمد سے کچھ دیر قبل ’’غیبی اشارے‘‘ پر سڑکوں سے رکاوٹیں بھی ختم ہوگئیں اور میاں شہبازشریف نامعلوم مقام سے اپنی لش پش گاڑی میں عدالتِ عالیہ میں تشریف لائے، جہاں کارکنوں کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا اور ’’آیا آیا، شیر آیا‘‘کے پُرشور نعروں میں انہیں کمرۂ عدالت تک پہنچایا۔ میاں شہبازشریف نے نیب میں عدم حاضری کے لیے لاہور میں کورونا وائرس کے پھیلائو اور اپنے کینسر کا مریض ہونے کے جواز پیش کیے تھے، مگر جب ہجوم نے انہیں گھیرا ہوا تھا تو نہ ہی کسی کو کورونا کے خطرے کا احساس تھا، نہ ہی میاں صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی نقاہت یا ضعف عمری کے آثار تھے۔ شاید یہ ہجوم اور مجمع ’’کورونا فری زون‘‘ قرار دلوالیا گیا تھا۔
عدالت میں حاضری کے بعد بمشکل چند منٹ کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے لمبے چوڑے دلائل اور طول طویل بحث کے بغیر ہی نیب کو 17 جون تک میاں شہبازشریف کو گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے 14 روز کی عبوری ضمانت عطا کردی، بالکل اسی طرح میاں نوازشریف اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کو خرابیِ صحت کی بنا پر پہلے جیل سے رہائی دی گئی اور پھر صحت کی نازک صورتِ حال کے جواز ہی پر میاں نوازشریف کو لندن جاکر علاج کرانے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی، مگر یہاں جانکنی کی صورتِ حال سے دوچار محسوس کرائے گئے اور ائر ایمبولینس میں لندن لے جائے گئے میاں نوازشریف کا علاج مہینوں گزر جانے کے باوجود ابھی شروع ہی نہیں ہوسکا، البتہ پاکستان میں آخری سانس لیتا مریض آج کل کورونا کے باوجود لندن کی خوشگوار فضائوں میں چہل قدمی اور ہوا خوری کرتے اور ریستورانوں میں کھابے اڑاتے اور چائے پیتے اکثر دیکھا جاتا ہے۔
افسوس کا مقام یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ’نئے پاکستان‘ یا مدینہ کی اسلامی ریاست میں ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کے نعروں کے باوجود قانون آج بھی ملزم کی شکل اور حیثیت دیکھ کر فیصلے سناتا ہے۔ ورنہ آج بھی ملک کی جیلوں میں سینکڑوں ایسے لاغر و لاچار، مجبور و بے بس قیدی موجود ہیں جو معمولی جرائم میں سزا پانے اور شریف خاندان سے کہیں زیادہ خراب صحت کے باوجود ضمانت سے محروم اور جیلوں کی ناقابلِ بیان اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں… میاں شہبازشریف کی گرفتاری کا ڈراما بھی ہماری رائے میں سیاست کی رونق بڑھانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے رچایا گیا تھا، اور دکھ یہ ہے کہ عوام خود بھی بخوشی بے وقوف بننے پر ہمیشہ آمادہ اور تیار پائے جاتے ہیں…!!!۔