ائیرٹریفک کنٹرول سسٹم کیا ہے
عید سے دو روز قبل پی آئی اے کی پرواز 8303 کے المناک حادثے میں 97 افراد جان سے گئے۔ طیارے کے حادثے کی تحقیقات جاری ہیں، تاہم ہر روز طرح طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ حکومت نے جون میں اس طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم یہ رپورٹ حتمی نہیں ہوگی، بلکہ اسے ابتدائی رپورٹ ہی سمجھا جائے گا، کیونکہ طے شدہ عالمی اصولوں کے مطابق کسی بھی فضائی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
پی آئی اے کا تباہ ہونے والا طیارہ اپنی انشورنس کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ یہ طیارہ پی آئی نے طیارہ ساز کمپنی سے ڈرائی لیز پر لیا تھا۔ ایسی لیز عموماً ایئرکرافٹ بزنس میں ان دنوں مقبولِ عام ہیں۔ اس طرح کے معاہدوں میں طیارہ ساز کمپنی طیارہ لیز پر دیتے ہوئے اپنا عملہ فراہم نہیں کرتی، اور انتظامی امور بھی لیز پر لینے والے فریق کے ذمے ہوتے ہیں۔ تاہم طیارہ کسی حادثے کا شکار ہوجائے تو انشورنس کی رقم لیز پر لینے والے فریق کے بجائے طیارہ ساز کمپنی کو ملتی ہے، اس لیے یہاں بھی یہی اصول لاگو ہوگا۔ مسافروں کی انشونس پی آئی اے اور طیارے کی انشورنس طیارہ ساز کمپنی کو ملے گی۔ اس طیارے کے حادثے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرولرز گلڈ میدان میں اتری ہے اور طیاروں کے پائلٹس اور ایئرکنٹرول ٹاور کے پروفیشنل تعلق پر رہنما اصول سامنے لے کر آئی ہے، لیکن تحقیقات کے نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے اِس بار ملبہ صرف پائلٹ پر نہیں ڈالا جاسکے گا، اس حادثے کے چھینٹے اِس بار ایئر ٹریفک کنٹرول پر بھی پڑیں گے۔ یہ سوال حتمی رائے تک موجود رہے گا کہ جہاز کی پہلی لینڈنگ کوشش اگر ہوئی تو اس کی ویڈیو کہاں ہے؟ ملک میں اب تک مسافر طیاروں کے 12حادثات پیش آچکے ہیں جن میں سے 10حادثے پی آئی اے اور 2 نجی ایئرلائن ائر بلیو اور بھوجا کے طیاروں کے ہیں۔ آج تک کسی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اس حادثے کی تحقیقات کے لیے ایئربس کمپنی کے 11ماہرین فرانس سے پاکستان آئے تھے اور 5 دن تحقیقات کرکے واپس لوٹ چکے ہیں، یہ ماہرین حادثے کی حتمی رپورٹ تیار کریں گے۔ طیارے کے ملبے سے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر مل چکا ہے جس کی پاکستانی ماہرین کی نگرانی میں ڈی کوڈنگ کی جائے گی۔ پی کے8303 کے حادثے کی وجوہات کے تعین کے لیے تحقیقاتی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان میں بھی ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ نامی خودمختار ادارہ کسی بھی ہوائی حادثے کی صورت میں وفاقی حکومت کے احکامات کے تحت اس کے اسباب کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کرتا ہے۔ اس وقت بھی وفاقی حکومت نے اسی ادارے کے ملازمین پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ جامع تحقیقات کررہی ہے۔ لیکن اس نازک موقع پر قیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ کسی بھی فضائی حادثے کی تحقیقات کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہوا باز کمپنیوں اور ایئرٹریفک کنٹرول کے باہمی تعلق کو سمجھا جائے، اس کے بعد ہی فضائی روٹس کے لیے اور کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کی باہمی ذمہ داریوں سے آگاہی مل سکتی ہے۔ اگرچہ اس بارے میں پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرولرز گلڈ نے بھی بدقسمت طیارے کے مسافروں کے لواحقین کے علاوہ ہوابازی کے شعبے میں کام کرنے والوں یا دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کچھ رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اصل حقائق تک پہنچا جاسکے، اس کے لیے سب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ ایئرٹریفک کنٹرول نظام سے آگاہی حاصل کی جائے۔ پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرولرز گلڈ قومی سطح پر سول ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی واحد رجسٹرڈ، اور منتخب نمائندہ تنظیم ہے جوبین الاقوامی سطح پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئر ٹریفک کنٹرولرز ایسوسی ایشنزکی ممبر بھی ہے اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر ایئرٹریفک کنٹرولرز کی ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ اس نے کوشش کی ہے کہ تحقیقات کے کچھ بنیادی رہنماء اصول بتادیے جائیں تاکہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں لہٰذا ٹویئٹر، فیس بک، ویٹس ایپ کے ذریعے جو کچھ بھی سامنے آرہا ہے اس پر یقین کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کسی بھی طیارے کے حادثے کے بعد ہونے والے تحقیقات کے لیے ضروری ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرول کا کردار سمجھا جائے۔ ایئر ٹریفک کنٹرول کا بنیادی مقصد زمین اور فضا میں طیاروں کو آپس میں ٹکرانے سے بچانا، ہوائی اڈے کی حدود میں جہازوں کو مختلف رکاوٹوں سے دور رکھنا اور ایک انتہائی منظم انداز میں تیزترین فضائی ٹریفک کو رواں دواں رکھنا ہوتا ہے اس کے علاوہ جہازوں کی سلامتی سے متعلق پائلٹ کو تجاویز اور ہدایات جاری کرنا اور بوقت ضرورت سرچ اینڈ ریسکیو کے لیے اسے اور متعلقہ اداروں کو خبردار کرنا ہوتا ہے ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر صرف کنٹرول ٹاور پر ہی خدمات فراہم کرتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے یہ ایئر ٹریفک کنٹرولر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مطلوبہ تجربے اور تربیت کے بتدریج مراحل طے کرنے کے بعد کنٹرول ٹاور، اپروچ کنٹرول یا ایریا کنٹرول سینٹر میں اپنے امور سرانجام دیتے ہیں ایک طیارہ اپنے سفر کا آغاز کرنے سے پہلے کنٹرول ٹاور پر موجود ایئر ٹریفک کنٹرولر سے انجن سٹارٹ کرنے اور ٹیکسی اور رن وے پر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے جو کہ اپروچ کنٹرول یونٹ اور ایریا کنٹرول سینٹر سے مشاورت اور زمین اور فضا میں دیگر جہازوں اور گاڑیوں کی آمدورفت کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہی ٹاور کنٹرولر، اپروچ کنٹرولر کی مشاورت سے جہاز کو اڑنے کی اجازت دیتا ہے کنٹرول ٹاور پر موجود ایئر ٹریفک کنٹرولر اپنی آنکھ یا دوربین سے دیکھ کر کر ایئرٹریفک کا جائزہ لیتا ہے اور فیصلہ سازی کرتا ہے عمومی طور پر ٹاور کنٹرولر ایئرپورٹ کی حدود میں پانچ ناٹیکل میل تک جہاز کو کنٹرول کرتا ہے،فضا میں بلند ہوتے ہی جہاز کا رابطہ اپروچ کنٹرول یونٹ میں تعینات ایئر ٹریفک کنٹرولر سے ہو جاتا ہے اسے اپروچ کنٹرولر کہتے ہیں۔ جو اپنے دائرہ کار میں اسے دیگر جہازوں سے علیحدہ رکھتے ہوئے ممکنہ بلندی کا تعین کرتے ہوئے اڑان جاری رکھنے کی تاکید، ہدائت اور تلقین کرتا ہے اپروچ کنٹرولر ایک بند کمرے میں ریڈار اسکرین کے سامنے بیٹھ کر فیصلہ سازی کرتا ہے لیکن بعض اوقات ریڈار کوریج نہ ہونے یا ریڈار کی کسی بھی تکنیکی مسئلہ کی وجہ سے بندش کی صورت میں وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق کام کرتا ہے تقریبا تمام بڑے ایئر پورٹ پر ایک علیحدہ اپروچ کنٹرول یونٹ قائم کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر اپروچ کنٹرول یونٹ ہوائی اڈے کی حدود سے لے کر 50 ناٹیکل میل تک ہوائی جہازوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے پھر تیسرے مرحلے میںاپروچ کنٹرول یونٹ کے بعد جہاز کا کنٹرول ایریا کنٹرول سینٹر میں تعینات ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ ایریا کنٹرول سینٹر طیارے کے سفر کے زیادہ بڑے حصے کو کنٹرول کرتا ہے۔ اپروچ کنٹرولرکی طرح ایریا کنٹرول یونٹ میں موجود ایئر ٹریفک کنٹرولر بھی ریڈار کی کوریج کے ایریا میں، بند کمرے میں بیٹھ کر کر ریڈار سکرین کے سامنے جہازوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ لیکن ریڈار کوریج سے باہر کے علاقوں میں یا کسی بھی تکنیکی مسئلے کی وجہ سے ریڈار کی بندش کے باعث پروسیجر کنٹرول کرتے ہیں۔پاکستان میں تقریبا 95 فیصد علاقہ اور سمندر ریڈار کوریج کے ایریا میں واقع ہیں پاکستان میں دو ایریا کنٹرول سینٹر لاہور اور کراچی میں کام کر رہے ہیں جبکہ تیسرا اسلام آباد میں اس وقت زیر تکمیل ہے۔ایریا کنٹرول سینٹرز کو مزید سیکٹرز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ان پر متعین ایئر ٹریفک کنٹرولرز اپنے اپنے متعین دائرہ کار میں فضائی ٹریفک کو منظم کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد جہاز کا کنٹرول ہمسایہ ایریا کنٹرول سینٹر یا منزل قریب آنے کی صورت میں متعلقہ اپروچ کنٹرولر کے سپرد کردیتے ہیں۔ جو کہ اپنے دائرہ اختیار میں جہاز کو زمین پر اترنے کے لیے ہدایات جاری کرتے ہیں اور پرواز کے آخری مرحلے میں منزل مقصود پر ٹاور کنٹرولر کے حوالے کردیتے ہیں۔ایئر ٹریفک کنٹرولر کا کام بہت ہی حساس ہوتا ہے یہ انتہائی سادہ نظر آنے والا کام حقیقت میں انتہائی گمبھیر اور پیچیدہ ہوتا ہے طیارے کے سارے سفر کے دوران کنٹرول ٹاور، اپروچ کنٹرول یونٹ اور ایریا کنٹرول سینٹر مسلسل نہ صرف آپس میں ضروری معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں بلکہ ہمسایہ ریاستوں اور فضائی دفاع سے متعلقہ اداروں کو بھی باخبر رکھتے ہیں۔ فضا میں طیارے مختلف بلندیوں پر صرف طے شدہ روٹس پر ہی سفر کرتے ہیں۔ایک ہی روٹ پر مختلف فضائی بلندیوں پر دونوں سمت میں طیارے محو پرواز ہوتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح جس طرح زمین پر سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے طیارے فضا میں بھی مختلف فضائی روٹس ایک دوسرے کو قطع کر رہے ہوتے ہیں۔فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ فضا میں مختلف روٹس اور فضائی بلندیوں پر درجنوں طیارے مختلف سمتوں میں بیک وقت محو پرواز ہوتے ہیں فضا میں طیارے کو محفوظ رکھنا ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ تمام جہازوں کو ہر ممکن طور پر مطلوبہ فضائی بلندی پر پہنچنے میں مدد کرتی ہے اور رفتار کا تعین کرتے ہوئے دیگر جہازوں سے ٹکرانے سے بھی بچاتی ہے یہ سارا کام وائرلیس سیٹ کے ذریعے ہوتا ہے،ایئر ٹریفک کو منظم کرنے کا پیچیدہ عمل مقامی ملکی اور بین الاقوامی قوانین اور قواعد و ضوابط اور طریقہ ہائے کار (SOPs) کے مطابق سرانجام دیا جاتا ہے۔ اور یہ بہت ذہنی دباؤ والا کام ہے، ہالیہ طیارے کے حادثے کے حوالے سے بہت سی باتیں کی جارہی ہیں کہ انفارمیشن لیک کی جارہی ہے، جب کہ ایسا ہرگز نہیںہے بہت سی ویب سائٹس ایسی ہیں جس سے کوئی بھی ایئرپورٹس کی رکارڈنگ ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے، کراچی میں حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے بارے میں کہا گیا کہ بیلی لینڈنگ کی کوشش کی گئی، جب اس کا بھی ایک طے شدہ طریق کار ہے اگر جہاز میں کسی تکنیکی خرابی کے باعث لینڈنگ گیئر (جہاز کے پہیّے) نہ کھل سکیں تو تمام ضروری طریق کار اختیار کرتے ہوئے جہاز کا کپتان ایئر ٹریفک کنٹرول کو اس بات سے آگاہ کرتا ہے اور کنٹرول ٹاور کے سامنے سے نسبتا کم بلندی پر پرواز کرتے ہوئے گزرتا ہے تاکہ ایئر ٹریفک کنٹرولر براہ راست خود اس بات کا دوربین سے جائزہ لے سکے کہ آیا لینڈنگ گیئر واقعتاً نہیں کھلے یا کھل تو گئے ہیں لیکن کسی خرابی کے سبب کاک پٹ میں موجود آلات اس کو کپتان کو ظاہر کرنے سے قاصر ہیںاگر لینڈنگ گیئر نہ کھلے ہو تو جہاز کا کپتان ایک بار پھر چکر لگا کر دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کرتا ہے ایسی صورت میں ایئر ٹریفک کنٹرولر شعبہ ریسکیو اینڈ فائر فائٹنگ کو پیشگی خبردار کرتے ہوئے رن وے کے دونوں جانب فائر کریش ٹینڈرزتعینات کرنے کا حکم دیتا ہے اس طرح کی لینڈنگ کو بیلی لینڈنگ کہتے ہیں.بیلی لینڈنگ میں جہاز کا نچلا حصہ رن و ے کے ساتھ رگڑ کھا کر گزرتا ہے جس سے جہاز میں آگ لگ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے سول ایوی ایشن کا شعبہ ریسکیو اینڈ فائرفائٹنگ،کی بنیادی ذمہ داری صرف ایئرپورٹ کی حدودکے اندر کسی بھی طرح کی ہنگامی حالت سے نبٹنا ہوتا ہے۔ ایئرپورٹ کی حدود سے باہر کسی حادثے کی صورت میں فائر اینڈ ریسکیو کی بنیادی ذمہ داری متعلقہ شہری ادارے کے ریسکیو اینڈ فائر ڈیپارٹمنٹ کی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود سول ایوی ایشن کا ریسکیو اینڈ فائر سروسز ڈیپارٹمنٹ محدود تعداد میں اپنے فائر کریش ٹینڈرز اور ریسکیو اہلکاروں کو ایئرپورٹ کی حدود سے باہر بھی فائر اینڈ ریسکیو آپریشن کے لیے بھیجتا ہے سول ایوی ایشن کا ریسکیو اینڈ فائر ڈیپارٹمنٹ کسی بھی ہوائی حادثے کی صورت میں جو کہ ایئر پورٹ کی حدود سے باہر ہو، ریسکیو آپریشن کو لیڈ نہیں کرتااس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے ہوائی اڈے پر مطلوبہ معیار کے مطابق فائر سروس دستیاب نہ ہونے پر ایئرپورٹ کیٹگری ڈاؤن ہو جاتی ہے اور تمام ایئرپورٹ آپریشن بند کرنا پڑتا ہے اس سارے عمل کے پیچھے منطق یہ ہے کہ فضا میں موجود دیگر جہازوں کی آمدورفت بند نہ ہوسکے تاکہ ان کو مزید کسی حادثے سے سے بچایا جا سکے یہ بنیادی بات سمجھنی چاہیے کہ جس قدر جہاز اڑانا مشکل ہے اس کے کسی حادثے کی تحقیقات بھی ایک مشکل امر ہوتا ہے، لہٰذا چوبیس گھنٹوں میں تحقیقات مکمل کیے جانے کی بات عملی طور پر درست نہیں ہوتی۔