کورونا میں مسلمانوں کے لئے سبق

ڈاکٹر محمد ممتاز علی
اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس سے شدید طور پر متاثر ہوچکی ہے۔ کورونا سے متاثر ہونے والوں میں ہم تمام مسلکوں کے مسلمان یعنی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، قادری، چشتی، صوفی، روایت پسند، جدت پسند اور امیر و غریب سے لے کر سربراہانِ مملکت تک سب شامل ہیں۔ پوری دنیا کے ہر شہر اور گاؤں میں عبادت گاہوں پر روک لگا دی گئی۔ یہاں تک کہ رمضان کے بابرکت مہینے میں مسلمان مساجد میں نماز ادا کرنے سے قاصر رہے۔ حج جو کہ اسلام کا ایک عظیم رکن ہے، اِس سال اس کی منسوخی کا امکان ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ کیا کورونا وائرس کوئی ایسی طاقت ہے جو ہر شے پر غالب آگئی ہے؟ ہم اس صورتِ حال کی کیا توجیہ پیش کریں گے؟ حکومت کے تمام ادارے اور مختلف شعبۂ ہائے حیات کے ماہرین مسلسل غور و فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ اس وبا پر کیسے قابو پایا جائے؟ سوشل میڈیا پر سیکڑوں پیغامات اور ویڈیوز نظر سے گزر رہی ہیں، جن میں اس وائرس سے خود کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں احتیاطی تدابیر کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ بعض مسلم اسکالر وائرس کے اس خطرناک حملے کو عذابِ الٰہی کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خدا انسانوں کو ان کی نافرمانی اور دنیا میں ہونے والے ظلم و ناانصافی کے نتیجے میں یہ سزا دے رہا ہے۔
مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بروز جمعہ مساجد نمازیوں سے بھری رہتی ہیں۔ رمضان المبارک میں مسلمانوں کا جذبۂ ایمانی اور عبادات کا ذوق و شوق دیدنی ہوتا ہے۔ ہر سال مسلمان لاکھوں کی تعداد میں حج و عمرہ کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں۔ پابندی کے ساتھ سالانہ زکوٰۃ ادا کرکے غربا و مساکین کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ ہم مسلمان عبادات و وظائف کو ادا کرنے کی وجہ سے دیگر تمام مذاہب کے برعکس صحیح معنوں میں توحید کے علَم بردار کہلائے جا سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کو نہ اس وبا کا شکار ہونا چاہیے اور نہ انھیں اس کے پھیلنے کا ذمہ دار ٹھیرایا جا سکتا ہے۔
لیکن جب ہم اپنے مذکورہ بالا دعوے کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالتے ہیں تو فی الحقیقت ہمیں کوئی دوسرا ہی منظرنامہ نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک کی مجموعی صورتِ حال خاصی مختلف ہے۔ وہاں مسلمان فرائض و عبادات سے انحراف کی روش پر گامزن ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت روزوں کا اہتمام نہیں کرتی۔ یہ درست ہے کہ مساجد خدا کے بندوں سے بھری رہتی ہیں، مگر کتنے فی صد مسلمان مسجدوں کا رُخ کرتے ہیں؟ بے جا اسراف کرنے میں مسلمان دوسری اقوام سے کہیں آگے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی اور قتل و غارت گری میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ سود کھانا ان کے لیے حرام نہیں رہا۔ آج بوڑھے والدین اور بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کوئی گناہ یا معیوب بات نہیں رہی۔ سب جانتے ہیں کہ اپنے مسلک کی شدت پسندی میں بریلوی علما تبلیغی جماعت کی، اور سلفی اکابرین دیگر جماعتوں کی کس طرح تحقیر و تذلیل کرتے نظر آتے ہیں۔ بحیثیت امت ِ مسلمہ دوسروں کو نیکی کی دعوت دینا اور برائیوں سے روکنا ہماری اوّلین ذمہ داری تھی، لیکن برخلاف اس کے ہم خود تمام برائیوں میں برابر کے شریک بن گئے۔ دیگر مسلم ممالک کی طرح عرب ممالک میں آج الکحل کا استعمال عروج پر ہے۔ نائٹ کلب اور بے حیائی کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کررہے ہوتے تو نہ دنیا کی مساجد ہمارے لیے بند ہوتیں اور نہ مقدس سرزمین پر حج و عمرہ کی پابندی لگتی۔

اسلام کو مذہب کی سطح تک گھٹانا

دو سو سال قبل دہلی کے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور سے ہم پر واضح ہوا کہ اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ دین ہے۔ اسی دور میں اور بھی کئی مسلم دانشور اور مفکرین جو مذہبی نظام تعلیم اور ماڈرن مغربی سیکولر نظام تعلیم پر گہری نظر رکھتے تھے، موجود تھے، جنھوں نے اسلام کو پوری قوت کے ساتھ عالمی حالات کے تناظر میں ایک مکمل نظام حیات اور ضابطۂ اخلاق کے طور پر پیش کیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح کوئی مذہب نہیں بلکہ دین، یعنی طریقۂ زندگی ہے، جو براہِ راست انسان اور سوسائٹی کو مخاطب کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ کائنات اور حیاتِ انسانی کی حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے۔ یہی انسانی تہذیب و تمدن کا ماخذ بھی ہے۔ لیکن نیویارک شہر کے ٹوِئن ٹاورز پر حملے کے بعد مغربی طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے عام مسلمان اور مسلم اسکالرز کی سوچ میں بڑی تبدیلی آگئی۔ اور پھر اسلام کو صرف ایک مذہب ثابت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں کتابیں اور مضامین لکھے گئے، اور مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا کی گئی کہ اسلام ایک مذہب، یعنی چند رسوم و روایات کا نام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انفرادی حیثیت میں خدا کی بندگی اور نیکی و پرہیزگاری اختیار کرنا بھی لازم ہے، لیکن اس پیغام اور اس طرح کے طرزِعمل سے اسلام کے حقیقی تصور کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔
ہم یہ کیسے بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی تعلیمات، اصولوں اور احکامات کے ذریعے معاشرے، ریاست اور حکومت کی یکساں طور پر ترقی اور فلاح و بہبود کی ضمانت دیتا ہے۔ کئی ایسی اسلامی اقدار و قوانین ہیں، جن پر شخصی حیثیت میں عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک سوشل سسٹم اور نظمِ اجتماعی کی ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر کئی دہائیوں پہلے مسلم ممالک میں مہم شروع کی گئی تھی کہ نظریۂ تعلیم میں اسلامی خطوط پر تبدیلی ناگزیر ہے۔ چنانچہ اسے اسلامی بنیادوں پر ترقی دینے کے لیے مزید اقدامات روبۂ عمل لائے گئے۔ مگر بدقسمتی سے دنیا کی وہ قومیں جو انسانی حقوق اور اظہارِ خیال کی آزادی کی چیمپئن بنی ہوئی ہیں انھوں نے امتِ مسلمہ کی ان مثبت کاوشوں کو نہ صرف لائقِ اعتنا نہ سمجھا بلکہ اس نظریۂ تعلیم کو بلاجواز ماضی پرستی کا طعنہ دے کر مسترد کردیا۔ اپنی طاقت، وسائل اور دولت کا استعمال کرکے دنیا میں وہی مادیت پرستانہ نظریۂ تعلیم کو جاری رکھا جو دنیا کو بلاشبہ مادی ترقیوں سے ہم کنار تو کرسکتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ انسانوں میں اخلاقی پستی، خدا بیزاری اور خودغرضی کی نفسیات کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔ افسوس کہ بحیثیت ِ مجموعی اُمت ِ مسلمہ نے بھی اس صورتِ حال کو قبول کرلیا۔

فریضہ شہادتِ حق میں کوتاہی

امت ِ مسلمہ کا دوسرا بڑا گناہ اور ناکامی یہ ہے کہ اس نے خدا کی کتاب قرآن حکیم کی حقیقی دعوت کو جیسا کہ قرآن میں بیان ہوئی ہے، دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا:۔
”ہم نے تمھاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں، جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں، اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔“ (البقرہ 2۔99)۔
یعنی کائنات کا سارا نظم انسانی عقل و فہم سے ماورا ہے، یہاں تک کہ ان پوشیدہ حقیقتوں کا مشاہدہ و احاطہ طاقت ور ترین سائنس اور ٹیکنالوجی کے آلات سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کے لیے ناممکن ہے کہ خدا کی ذات و صفات اور اس کی ماہیت کو سمجھ سکے کہ وہ کائنات کا خالق ہے، مالک ہے، رب ہے۔ وہی علم اور عقل کا ماخذ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ماورائے عقل حقیقتیں بڑے بڑے حکماء و مفکرین، فلسفیوں، سائنس دانوں یا اولیاء وغیرہ کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کے حوالے کردینا ہی دانش مندی ہے۔ اسی کی رہنمائی میں انسانیت کی ترقی اور بھلائی مضمر ہے۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا یہی یقینی راستہ ہے۔
مسلمان اس کام کے مکلّف ہیں کہ دنیا کے سامنے مکمل حق کے پیغام کو پیش کریں، نہ کہ اس کے صرف کچھ حصے کو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ وہ یہ غلطی نہ دُہرائیں، یعنی وہ اپنی قوم کو اللہ کی پوری شریعت کی تعلیم نہیں دیتے تھے۔ مسلمانوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کی ہدایت دی گئی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے سخت تنبیہ کے باوجود اسی غلطی کا اعادہ کررہے ہیں جو بنی اسرائیل نے کی:۔
”تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو، اور میرے غضب سے بچو، باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ، اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو (البقرہ2:41-42)۔
بنی اسرائیل کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ اس عمل سے باز رہیں:۔
”تو کیا تم کتاب کےایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔“ (البقرہ2:85)۔
مسلمانوں کے موجودہ منظر نامے کوقرآن کی ان آیات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے:۔
” ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی،جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمائش کریں گے، ان حالات میں جو لوگ صبر کریں ان کو خوشخبری دیں، جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔“ (البقرہ2:155-156)۔
آج امت ِمسلمہ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے قرآن کی تعلیمات کو جو اس کتاب میں بیان کی گئی ہیں، دنیا کے سامنے بے خوف و خطر پیش نہیں کیا۔ صرف اپنے تک محدود رکھا۔ حالانکہ دین کےاس فریضے کو پوری انسانیت تک جرأت مندی کے ساتھ پہنچانا مقصود ہے:۔
”اے اہلِ کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو‌۔ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو۔“ (آل عمران3:71)۔
”اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو، سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“ (آل عمران3:102-103)۔
بہرحال یہ ایک منظرنامہ مسلمانوں کا ہے اور ایک منظرنامہ کورونا وائرس کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ قرآن کی رُو سے ہمیں خبردار کردیا گیا ہے کہ ہم دین ِاسلام کو دین کے تصور کے ساتھ دنیا پر واضح کریں۔ انسان کی زندگی میں ترقی اور تمدنی و ثقافتی پاکیزگی کا سرچشمہ اسلام ہی ہے۔ اس بات کا یقین بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کورونا جیسے قہر سے محفوظ رہیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے اللہ کے دین کے بارے میں نقطۂ نظر کو درست کرنا ہوگا اور اخلاص کے ساتھ اسلام کے مکمل احکامات اور ہدایات کو اپنانا ہوگا، نیز دنیا کے سامنے قولی و فعلی ہر لحاظ سے حق کی شہادت کو پیش کرنا ہوگا۔