امریکہ میں غلاموں کی بغاوتیں

ہاورڈزن /ترجمہ:ناصر فاروق
سن 1676ء، ریاست ورجینیا کے قیام کوستّر برس گزر چکے ہیں، امریکی انقلاب میں سوسال باقی ہیں، قیادت اسی ریاست سے اُبھرے گی، تاہم یہاں ان دنوں سفید فام سرحدی محافظوں کی بغاوت برپا ہوگئی ہے، سیاہ فام غلام ان کی مدد کررہے ہیں۔ یہ بغاوت اس قدر شدید ہے کہ گورنر کو جلتے ہوئے دارالحکومت جیمس ٹاؤن سے بھاگنا پڑتا ہے۔ انگلینڈ بحر اوقیانوس کے اس طرف ایک ہزار فوجی کمک بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، تاکہ کسی طرح یہاں کے چالیس ہزار نوآبادکاروں کو پھر سے منظم کیا جاسکے۔
یہ ’بیکن کی بغاوت‘ کہلائی۔ جب شورش کچلی گئی، اس کا قائد نتھانیل بیکن طبعی موت مرچکا تھا، اس کے جانشینوں کو سرِعام پھانسی دی گئی۔ بیکن کا ذکر شاہی کمیشن رپورٹ میں کچھ یوں ہوا:
کہا جاتا ہے وہ تیس سال کا جوان تھا، قد ذرا نکلتا ہوا مگر دبلا تھا، بال سیاہ تھے، ڈرا دینے والا مگر پژمردہ سا تھا۔ اُس کا بیانیہ منطقی سا تھا، بغاوت پر قائل کرنے والا… وہ آوارہ بدمعاشوں کو ورغلاتا تھا، وہاں کے جاہل ترین لوگوں (یعنی وہاں کی ہر کاؤنٹی کی دوتہائی آبادی) میں یقین پیدا کررہا تھا، ان لوگوں کی امیدیں اور دل بیکن پر ٹک گئے تھے۔ بیکن نے اس کام کے بعد، گورنر پرغفلت، نااہلی، اور ظلم وزیادتی کے الزامات لگائے، ٹیکساس کے قوانین کو غیر منصفانہ اور ظالمانہ قرار دیا، اور ان کی درستی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ یوں بیکن نے بغاوت بھڑکائی، اور خاموش ہجوم اُس کے پیچھے چل پڑا۔ وہ انھیں سنتا اور سب کاغذ پر اپنا نام دائرے کی صورت میں لکھتے جاتے، تاکہ گروہی قیادت خفیہ ہی رہے۔ پھر وہ برانڈی کے جام بھرتے، نظم بہرصورت قائم رکھنے پر قسمیں اٹھاتے، اور عزم کا اعادہ کرتے تھے۔ اُس نے نیوکینٹ کاؤنٹی کو سب سے زیادہ متاثر کیا، اور بغاوت کے لیے تیار کرلیا تھا۔
بیکن کی بغاوت کا آغاز اراواکس سے زمین کے تنازعے پر ہوا، جو جیمس ٹاؤن کے مغربی علاقوں میں آباد تھے، اور مزدوروں اور غلاموںکے لیے خطرہ بنے ہوئے تھے۔ جیمس ٹاؤن کی اشرافیہ نے انھیں اس صورت حال کی جانب دھکیلا تھا، اور ایسا لگ رہا تھا کہ دیسیوں سے ان کی مڈبھیڑ ناگزیر ہوچکی تھی۔ اس صورت حال سے ان کی بغاوت کی وضاحت ہوتی ہے، یہ کچھ ایسا ہوا کہ اشرافیہ نے دو مظلوم طبقوں کو زمین اور آبادکاری کے تنازعے پر آمنے سامنے کردیا، یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ اصل دشمن اور بغاوت کا اصل ہدف اشرافیہ تھے یا دیسی؟ یہ دونوں ہی پر غصہ تھے۔ جبکہ گورنر ولیم برکلے اور جیمس ٹاؤن کے لوگ دیسیوں (وہ اُن میں سے بہت سوں کو جاسوسی اور مخبری پر مائل کرچکے تھے) کی حمایت میں تھے، یہی وجہ تھی کہ اشرافیہ نے مشرقی زمینوں پر اجارہ داری قائم کرلی تھی، اور اب سفید فام مزدوروں اور غلاموں کو مغرب کی طرف نکال کر، بظاہر امن وامان سے رہنا چاہتے تھے۔ بغاوت کچلنے میں حکومت نے دوہری چال چلی: ایک جانب وہ دیسیوں کو تقسیم کررہی تھی (یہ وہ دور تھا کہ جب نیو انگلینڈ میں میٹاکوم کی قیادت میں دیسی منظم ہورہے تھے، وہ کنگ فلپ جنگ میں پیوریٹن نوآبادیوں کو خاصا نقصان پہنچا چکے تھے)، اور دوسری جانب ورجینیا کے سفید فام مزدوروں کو اس بات پرقائل کررہی تھی کہ بغاوت کا کچھ حاصل نہیں۔ اس کے لیے اُس نے اپنی طاقت کا بڑھ چڑھ کر مظاہرہ کیا، انگلینڈ سے فوجیں بلوائیں، باغیوں کو سرِعام اجتماعی پھانسیاں دیں، خوف اور دہشت پھیلائی۔
بغاوت سے پہلے سرحدی علاقوں میں پُرتشدد واقعات شروع ہوچکے تھے۔ سفید فام مزدوروں اور غلاموں نے دو دیسی ہندیوں کو مار ڈالا تھا، پھر دیسیوں نے ایک سفید فام چرواہے کو قتل کردیا، اس کے بعد سفید فام ملیشیا نے چوبیس دیسیوں کو ٹھکانے لگایا۔ ان واقعات کے بعد دیسیوں کے حملے بڑھ گئے، اور یوں گوریلا جنگ چھڑ گئی۔ ہاؤس آف برجیسس نے جیمس ٹاؤن میں دیسیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا، تاہم جو اراواکس تعاون کررہے تھے انھیں استثناء دیا گیا۔اس صورت حال نے سرحدوں پر موجود جنگجوؤں کو مزید مشتعل کردیا، وہ مکمل جنگ چاہتے تھے مگر ساتھ ہی جنگی محصولات سے خائف بھی تھے۔
سال 1676ء میں حالات بہت بگڑ گئے تھے: ’’ماحول میں شدید تناؤ اور کشیدگی تھی… اور شدید غربت چھائی ہوئی تھی۔ سارے ہم عصر ذرائع کہتے ہیں کہ لوگوں کی معاشی حالت دگرگوں ہوچکی تھی۔‘‘ Wilcomb Washburn نے لکھا، اُس نے یہ جاننے کے لیے برطانوی نوآبادیاتی ریکارڈکی چھان بین کی، اُس نے بیکن کی بغاوت کا گہرائی سے مطالعہ اور تحقیق کی۔ وہ ایک خشک اور گرم موسم تھا، مکئی کی فصل برباد ہورہی تھی، خوراک کی شدید ضرورت پیدا ہوچکی تھی، اور تمباکو کی فصل، جسے برآمد کرنے کی ضرورت تھی۔ گورنر برکلے کی عمر ستّر کی دہائی میں تھی، اب اس بوڑھے سے معاملات سنبھالے نہ جاتے تھے، اپنی حالتِ زار کے بارے میں خود لکھتا ہے: ’’اُس شخص کی بدقسمتی کا کیا ٹھکانہ کہ جو ایسے لوگوں پر حکمران ہو، جن کے سات میں سے چھے حصے شدید غربت اور عدم اطمینان کا شکار، اور مسلح ہوں‘‘۔ اُس کا ’’سات میں سے چھے حصے‘‘ کہنا غالباً طقبۂ اشرافیہ کی جانب اشارہ ہے، جو ان حالات سے براہِ راست متاثر نہیں تھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بیکن خود بھی اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتا تھا، اُس کے پاس زمین کا ایک بڑا ٹکڑا تھا، اور بڑھ چڑھ کر دیسی امریکیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہا تھا، وہ مزدوروں اور غلاموں کے دکھوں کا مداوا چاہتا تھا۔ وہ ورجینیا کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ناراضی کی علامت بن گیا تھا، اور ہاؤس آف برجیسس کے انتخابات جیت کر رکن بھی منتخب ہوا تھا۔ جب اُس نے اس بات پر زور دیا کہ دیسیوں کے خلاف لڑائی کے لیے ایک مسلح گروہ منظم کیا جائے، گورنر برکلے نے اُسے باغی قرار دے کرگرفتار کروا دیا، اس پر جیمس ٹاؤن کے دوہزار باشندوں نے بیکن کی حمایت میں مارچ کیا، جس پر برکلے نے بیکن کوجانے کی اجازت دے دی اور معافی کا مطالبہ کیا، مگر بیکن نے معافی مانگنے سے صاف انکار کردیا، اور اپنی ملیشیا مستحکم کی، اور دیسیوں پر حملے شروع کردیے۔ بیکن نے جولائی 1676ء میں ’’اعلان ِ عوام‘‘ جاری کیا، جس میں اشرافیہ اور دیسیوں کے گٹھ جوڑ کی مذمت کی گئی تھی۔ اس اعلان میں برکلے انتظامیہ کے غیر منصفانہ محصولات کی مذمت کی گئی تھی، اقربا پروری اور پسندیدہ لوگوں کی اونچے عہدوں پر تعیناتی کی مخالفت کی گئی تھی، اور مغربی علاقے کے کسانوں کو دیسیوں سے تحفظ فراہم نہ کیے جانے پرغم و غصے کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ بیکن نے سب سے پہلے بے ضرر سے’ پامونکے دیسیوں‘ پر دھاوا بولا، آٹھ کو مارڈالا، دیگر کو قیدی بنالیا، اور اُن کی املاک تباہ کردیں۔ شواہد کہتے ہیں کہ باغیوں اور حکام کی فوجیں اتنی پُرجوش نہ تھیں، جتنے پُرجوش اُن کے رہنما تھے۔ دونوں طرف سے بڑی تعداد میں فوجی لڑائی سے دست بردار ہوئے۔ واش برن کے مطابق خزاں کے موسم میں جب بیکن کی عمر ابھی انتیس سال تھی، وہ بیمار پڑا اور مرگیا، اُس کے جسم میں کیڑے پڑگئے تھے۔ ایک وزیر جو بظاہر بیکن کا ہمدرد نہیں لگتا، لکھتا ہے: ’’بیکن مرگیا ہے، مجھے دلی دُکھ ہے، اور اس کے بعد بغاوت زیادہ نہ چل سکی۔ ایک دن ایک مسلح کشتی، جس میں تیس گنیں نصب تھیں، دریائے یارک پر آلگی، اور پھر علاقے میں نظم قائم ہونے لگا، کشتی کے کپتان تھامس گرانتھم نے بھرپور طاقت اور دھوکہ دہی سے کام لیا، اور باغیوں کو غیر مسلح کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ چار سو گورے مزدور اور سیاہ فام غلام تھے، اُس نے انھیں معافی کی ضمانت دی، آزادی کا وعدہ کیا، اور انھوں نے ہتھیار ڈال دیے، وہ منتشر ہوگئے، سوائے 80 نیگروز اور 20 سفید فام باغیوں کے، انھوں نے ہتھیار نہ ڈالے۔ تاہم وہ مکاری سے انھیں کشتی پر لے گیا، اورگنوں کا رخ اُن کی جانب کرکے ہتھیار ڈلوائے، بعد میں وعدہ خلافی کی گئی، اور انھیں آقاؤں کے حوالے کردیا گیا۔ باقی باغیوں کو ایک ایک کرکے زیر کیا گیا۔ 23 باغی رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ ورجینیا میں ظلم کی ایک الجھی ہوئی کہانی ہے۔ سفید فام مزدوروں نے دیسیوں کو برباد کیا، اور ان سفید فام مزدوروں پر جیمس ٹاؤن اشرافیہ نے مظالم ڈھائے، اور پوری آبادی انگلینڈ کے ہاتھوں ستم کا شکار ہوئی۔ یہاں کی فصلوں کا بڑا حصہ انگلینڈ کے بادشاہ کو بھجوا دیا جاتا تھا، صرف تمباکو کی برآمد سے حاصل ہونے والے ایک لاکھ پاؤنڈ سالانہ انگلینڈ کے لیے وقف تھے۔ برکلے نے ایک بار خود انگلینڈ جاکر بھرپور احتجاج کیا تھا، اور انگلش نیوی گیشن قوانین ناجائز قرار دیے تھے، ان قوانین کے تحت نوآبادیاتی تجارت پر انگریز تاجروں کی اجارہ داری تھی۔ اُس نے کہا تھا:
’’ہم کچھ نہیں کرسکتے مگر اس بات پر غم وغصے کا اظہار تو کرسکتے ہیں کہ چالیس ہزار لوگوں کو صرف اس لیے غربت میں دھکیل دیا گیا ہے تاکہ صرف چالیس تاجر زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرسکیں! یہ وہ تاجر ہیں جو صرف تمباکو خریدتے ہیں، اور اس کے عوض دیتے ہیں جوکچھ وہ چاہتے ہیں، اور اس کے بعد وہ جیسے چاہے اُسے بیچتے ہیں، درحقیقت انھیں ہماری صورت میں چالیس ہزار سستے غلام میسر ہیں…‘‘
گورنر کی اپنی گواہی واضح کرتی ہے کہ بغاوت کو ورجینیا کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ کاؤنسل کا ایک رکن رپورٹ کرتا ہے کہ ’’منحرف ہونا‘‘(defection) تقریباً عام تھا۔ کاؤنسل کے ایک اور رکن رچرڈ لی نے نوٹ کیا کہ بیکن بغاوت کی حمایت کا بنیادی سبب ’ہندی پالیسی‘ (دیسیوں کی حمایت اور غلاموں کا استحصال) تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثریت شدت سے ’برابری‘ چاہتی تھی، ’برابری‘ سے مراد شمالی امریکہ میں تمام انگریز نوآبادیوں میں دولت کی برابر تقسیم تھی، یکساں انسانی سلوک تھا۔ اس ضمن میں سفید فام آقاؤں کے خلاف اٹھنے والی ہر بغاوت کا ہدف یہی ’برابری‘ تھی۔ یہ سب کچھ امریکی انقلاب سے ڈیڑھ صدی پیچھے ہورہا تھا۔
بیکن بغاوت کا حصہ بننے والے سفید فام مزدور وہ لوگ تھے، جن سے اُن کی یورپی حکومتیں جان چھڑانا چاہتی تھیں۔ سولہویں صدی کے انگلینڈ میں تجارت اور سرمایہ دارانہ نظام نے مزدوروں کی جگہ مشینیں نصب کردی تھیں، شہروں میں مزدوروں کے ہجوم بے مصرف گھومتے نظر آتے تھے، یہ انتہائی غریب اور کسمپرسی میں تھے۔ وہ اس آوارگی میں بھکاری اور ’مجرم‘ بن گئے تھے۔ چنانچہ ایلزیبتھ حکومت میں چند قوانین منظور کیے گئے، جن کے تحت انھیں کڑی سزائیں دی جاتیں، اور بڑی تعداد میں شمالی امریکہ جلا وطن کردیا جاتا تھا۔ ان ’’بدمعاشوں اور آوارگان‘‘ کی ایلزیبتھن تعریف کچھ یوں تھی: وہ تمام افراد جو بھکاری ہوں، مچھیرے وغیرہ، جو اپنے نقصان کا رونا روتے رہتے ہوں، سارے بے روزگار افراد، راستوں پر کھیل تماشے دکھانے والے، سارے آوارگان جن کا کوئی باقاعدہ روزگار نہ ہو، اور محصولات کی زد میں نہ آتے ہوں…
ایسے افراد جہاں بھی بھیک مانگتے یا بے کار گھومتے نظرآتے، انھیں برہنہ کیا جاتا اور کوڑے برسائے جاتے، شہر سے بے دخل کردیا جاتا، یا ملک سے ہی (شمالی امریکہ کی نوآبادیوں کو) منتقل کردیا جاتا تھا۔
سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں جبری جلا وطنی یا وعدوں اور جھانسوں سے سارے غریب مزدوروں کو انگلینڈ سے صرف اس لیے دیس نکالا گیا، تاکہ امراء مزے سے زندگی بسر کرسکیں۔ یہ سارے غریب نئی ریاست امریکہ جانا چاہتے تھے، سو انھیں وہاں بھیج دیا گیا۔ یوں یہ غریب، تاجروں، جہاز کے کپتانوں، اور آقاؤں کے لیے سستی مزدوری اور بیگار کا اہم ذریعہ بن گئے۔ ایبٹ اسمتھ، غلامی کے مطالعہ میں، بونڈیج کے نوآبادکاروں کی بابت لکھتا ہے: ’’طاقت وروں کا ایک پیچیدہ نظام تھا جو امریکہ کی نوآبادیوں میں تارکینِ وطن کی کھپت کررہا تھا، یہ ایک ایسا طویل المدت منافع تھا، جو ان غلاموں کی امریکہ منتقلی سے برآمد ہورہا تھا۔‘‘
مزدوری کے راضی نامہ پر دستخط کے بعد، جس میں تارکین وطن مزدوروں سے لکھوایا جاتا تھا کہ امریکہ تک کے سفری اخراجات کی ’’کٹوتی‘‘ پانچ سے سات سال تک ایک آقا کے لیے مسلسل ’’کام‘‘ کی صورت میں کی جائے گی۔ انھیں جہاز کی روانگی تک قید رکھا جاتا تھا، یہ یقینی بنایا جاتا تھا کہ وہ کسی طور فرار نہ ہوسکیں۔ سال 1619ء میں ورجینیا ہاؤس آف برجیسس بطور نمائندہ اسمبلی امریکہ منظر پر ابھری تھی (یہی سیاہ فام غلاموں کی تجارت کا بھی پہلا سال تھا)، اس نمائندہ اسمبلی نے ہی سب سے پہلے آقاؤں اور غلاموں کے درمیان جبری راضی نامہ کی سہولت اور اطلاق ممکن بنایا تھا۔ ان راضی ناموں میں کاغذات فریقین کو ’برابر‘ ظاہر کرتے تھے، جبکہ حقیقت میں یہ جبری معاہدہ ہوتا تھا جس میں غلام کی زندگی آقا کو گروی رکھ دی جاتی تھی۔ امریکہ کا سفر آٹھ سے بارہ ہفتوں پر پھیلا ہوتا تھا، مگر ان سفید فام مزدوروں کو بھی غلاموں کی طرح باڑوں میں بھردیا جاتا تھا، منافع خوری کا جنون ان جہازوں پر بھی وحشت انگیز نظر آتا تھا۔ اکثر موسم بگڑ جاتا، سفر طویل ہوجاتا، اور خوراک ختم ہوجاتی تھی۔
ایک چھوٹا جہازSea-Flowerبلفاسٹ سے سن 1741ء میں روانہ ہوا۔ سولہ ہفتے سمندر میں رہا۔ جب وہ بوسٹن پہنچا، 106 مسافروں میں سے 46 بھوک سے مرچکے تھے، ظاہر ہے یہ مزدور تھے۔ ان میں سے 6 کی لاشیں بچ جانے والے افراد کھا گئے تھے۔ ایک اور سفر میں 32 مزدور بچے بھوک اور بیماری سے مرگئے تھے، ان کی لاشیں اٹھاکر سمندر میں پھینک دی گئی تھیں۔ سن 1750ء کے آس پاس ایک موسیقار Gottlieb Mittelberger، جو جرمنی سے امریکہ کا سفر کررہا تھا، لکھتا ہے:
’’سفر کے دوران جہاز کی حالت بہت خراب تھی۔ ہر طرف پریشانی، تنگی، خوف، الٹیاں، بیماریاں، گرمی، خارش، سرطان، اور قبض کی شکایتیں تھیں۔ یہ سب انتہائی ترش خوراک اور گندے پانی کے سبب ہورہا تھا۔ بھوک، پیاس، اور شدید سردی، گرمی، خوف، پژمردگی، اور دیگر مشکلات نے زندگی محال کردی تھی۔ اس دوران جس دن سمندری طوفان سے سامنا ہوا، ایک عورت جو حاملہ تھی اور بچہ جننے والی تھی، اُسے ایک شگاف سے سمندر میں دھکا دے دیا گیا۔‘‘
راضی نامہ والے یہ مزدور امریکہ لائے جاتے، اور غلاموں کی طرح خریدے اور بیچے جاتے تھے۔ 28 مارچ 1771ء کو، ورجینیا کے ایک گزٹ میں اعلان کیا گیا کہ: لیڈس ٹاؤن تشریف لائیے، جہاز جسٹیٹیا پر سو ہٹے کٹے غلام لائے گئے ہیں، ان میں مرد، عورتیں، بچے سب شامل ہیں، نیلامی منگل 2 اپریل سے شروع ہوگی۔
امریکہ میں اعلیٰ معیارِ زندگی اور خوش کن کہانیوں کے ساتھ ساتھ تلخ تاریخی حقائق ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں، ایک غلام مزدور امریکہ سے خط لکھتا ہے: ’’جو یورپ میں گزربسر کرسکتا ہے اُس کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہیں رہے، یہاں امریکہ میں حالات بہت دگرگوں ہیں، ہر جگہ پریشانی اور ناداری ہے، یورپ کے مقابلے میں یہاں کے حالات زیادہ غیر یقینی ہیں‘‘۔
غلاموں پر تشدد اور کوڑے برسانا عام بات تھی، غلام عورتوں کی عصمت دری کی جاتی تھی۔ ایک عینی شاہد کہتا ہے: ’’میں نے ایک غلام پر تشدد ہوتے دیکھا، اُس کے سر پر لوہے کی سلاخ سے ضربیں لگائی جارہی تھیں، یہاں تک کہ وہ خون میں نہاگیا، اور اُس کا جرم کیا تھا؟ بتائے جانے کے لائق بھی نہیں…‘‘
میری لینڈ کا عدالتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ بہت سارے غلاموں نے خودکشی کرلی تھی۔ سن 1671ء میں ورجینیا کے گورنر برکلے نے رپورٹ کیا کہ گزشتہ برسوں میں چار پانچ ہزار مزدور بیماریوں سے مرگئے۔ ان میں اکثر وہ غریب بچے تھے، جنھیں انگلش شہروں کی سڑکوں اور شاہراہوں سے سینکڑوں کی تعداد میں اکٹھا کرکے ورجینیا کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ آقا پوری کوشش کرتا تھا کہ ان غلاموں کی جنسی زندگی مکمل طور پر اپنی گرفت میں رکھے۔ یہ اُس کے معاشی مفاد میں تھا، کہ ملازم خواتین کو شادی یا کسی بھی طرح کے جنسی تعلقات سے باز رکھے، بچوں کی پیدائش اور پرورش سے ’’کام‘‘ کا بہت حرج ہوتا تھا۔ بینجمن فرینکلن 1736ء میں بطور ’’غریب رچرڈ‘‘ لکھتا ہے، قارئین کو مشورہ دیتا ہے :’’اپنی ملازمہ کو دیانت دار، طاقت ور اور گھریلو رہنے دو‘‘۔ ملازم بغیر اجازت شادی نہیں کرسکتے تھے، وہ مالک کی ایما پر اپنے خاندانوں سے الگ کیے جاسکتے تھے، انھیں کوڑے مارنے جیسی سزائیں دی جاسکتی تھیں۔
سترہویں صدی میں ریاست پنسلوانیا کا قانون کہتا تھا، کہ آقاؤں کی مرضی کے بغیر ملازمین کی شادیاں ’’زنا‘‘ شمار کی جائیں گی، اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، اور ان شادیوں سے پیدا ہونے والے بچے ناجائز اولاد قرار دیے جائیں گے۔ جو قوانین ملازمین پر زیادتی سے روکتے تھے، وہ عملاً نافذ نہیں کیے گئے تھے۔
ابتدائی عدالتوں کے ریکارڈ سے چھان پھٹک کے بعد، رچرڈ موریسن ہمیں Government and Labour in Early Americaکے عنوان تلے چھپے حقائق بتاتا ہے کہ ملازمین جیوری میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتے تھے۔ سن 1666ء میں، نیوانگلینڈ کی ایک عدالت میں ایک جوڑے پر ملزم کے قتل کا الزام لگا، جیوری نے بڑی آسانی سے جوڑے کو بری کردیا۔ اسی دور میں ورجینیا کی عدالت میں ایک مقدمہ آیا، آقا نے دو خادماؤں کی عصمت دری کی تھی، اُس پر اپنی بیوی بچوںکو مارنے پیٹنے کا بھی الزام تھا، اُس نے ایک خادم کو تشدد کرکے جان سے بھی مار ڈالا تھا۔ عدالت نے اُسے ڈانٹ ڈپٹ کی، مگر عصمت دری کے الزام میں صاف بری کردیا، جبکہ ٹھوس ثبوت موجود تھا۔ کبھی کبھی یہ ملازم منظم ہوکر بغاوت بھی برپا کرتے، مگر کامیابی ہاتھ نہ آتی تھی۔
مختلف موقعوں پرچھوٹی موٹی بغاتیں ہوئیں، باغی بہت سے لوگوں کو مارنے میں کامیاب بھی ہوئے، مگر آخرکار دھر لیے گئے۔ ان بغاوتوں سے یہ ضرور ہوا کہ انگریز آقا محتاط رہنے لگے تھے۔ جب یہ جبری مزدور اجتماعی کوششوں سے مایوس ہوئے، توانفراد ی طریقوں سے ردعمل ظاہر کرنے لگے۔ آقاؤں پر حملوں کے اکا دکا واقعات سامنے آتے رہے، جو عدالتوں کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔
فرار بغاوت کی نسبت آسان تھا۔ سن 1700ء کے اخبارات کی چھان بین سے معلوم ہوا، ’’جنوب کی نوآبادیوں میں سفید فام مزدوروں کے فرار کی بہت ساری مثالیں سامنے آئیں۔‘‘ رچرڈ موریسن رپورٹ کرتا ہے کہ ’’سترہویں صدی کے ورجینیا کا ماحول غلاموں اور مزدوروں کی ملی بھگت، اور فرارکے واقعات سے بھرپور تھا‘‘۔ میری لینڈ کی عدالت کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ 1650ء میں درجن بھر سفید فام مزدوروں نے منصوبہ بندی کی، ایک کشتی پر قبضہ کیا، اور مزاحمت کی صورت میں ہتھیاروں سے مقابلے کا انتظام بھی کیا۔ تاہم وہ پکڑے گئے، انھیں کوڑوں کی سزا ہوئی(1)۔ ان غلاموں اور مزدوروں کو قابو میں رکھنے کا نظام بہت دہشت ناک تھا۔ خود کوآزاد ثابت کرنے کے لیے اجنبیوں کو باقاعدہ ’پاسپورٹ‘ یا ’سرٹیفکیٹ‘ دکھانا پڑتا تھا۔ نوآبادیوں کے درمیان تحویلِ ملزمان کے معاہدے طے تھے۔ یہ مفرور غلاموں کو پکڑ پکڑ کرایک دوسرے کے حوالے کرتے تھے۔ یہ بعد میں نوآبادیاتی امریکی آئین کی باقاعدہ شق بنی کہ ’’خدمت اور ملازمت پر مامور فرد اگر ایک ریاست سے دوسری ریاست فرار ہوتا ہے، تواُسے پکڑ کر واپس کیا جائے گا‘‘۔
نوآبادیاتی عہد میں شمالی امریکہ کے ساحلوں تک پہنچنے والے نصف سے زائد نوآبادکار مزدور یا ملازم تھے۔ سترہویں صدی میں یہ زیادہ تر انگریز تھے، اور اٹھارہویں صدی میں آئرش اور اور جرمن تھے۔ غلاموں نے زیادہ سے زیادہ ان کی جگہ پُر کی، باقی زیادہ تر فرار ہوئے یا راضی نامہ کی مدت پوری کرگئے، تاہم 1755ء تک، سفید فام مزدور میر ی لینڈ کی آبادی کا دس فیصد تھے۔ جب یہ آزاد ہوئے، تب ان کا کیا بنا؟ کیا یہ خوب پھلے پھولے، زمیندار بنے اور اہم عہدوں تک پہنچے؟ لیکن ایبٹ اسمتھ، ایک محتاط مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ نوآبادیاتی معاشرہ ’’جمہوری نہیں تھا اور یقینی طور پر عدم مساوات کا بدترین نمونہ تھا، اس پر سرمایہ کاروں کی حاکمیت قائم تھی‘‘۔
سن 1700ء تک ورجینیا میں پچاس امیر خاندانوں کی حکمرانی تھی، ان کی دولت پچاس ہزار پاؤنڈ کے لگ بھگ تھی (یہ اُس زمانے کی بہت خطیر رقم ہے)، یہ سب سیاہ فام غلاموں اور سفید فام مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی تھی۔ بڑے بڑے باغات اور چراگاہیں ان امراء کی ملکیت میں تھیں، یہ گورنر کی کاؤنسل میں اعلیٰ نشستوں پر براجمان رہتے تھے، مقامی مجسٹریٹ بھی یہی لوگ تھے۔ ریاست میری لینڈ میں نوآبادکاروں پر انگریز بادشاہ کا نمائندہ حکمران ہوا کرتا تھا۔ سن 1650ء سے 1689ء تک، اس ترجمان کے خلاف پانچ بار شورش برپا ہوئی۔ کیرولائنازمیں، جان لاک نے بنیادی آئینی ڈھانچہ سن 1660ء کے آس پاس تحریرکیا۔ جان لاک کوامریکہ کے نظام اور بانیان کا فلسفیانہ باپ سمجھا جاتا ہے۔ لاک کے آئین نے ایک جاگیردارانہ نوعیت کی اشرافیہ قائم کی، جس کے تحت آٹھ انگریز نواب نوآبادی کی چالیس فیصد اراضی کے مالک تھے، اور صرف وہی گورنر بھی لگائے جاسکتے تھے۔
غریب مزارع ذاتی زمین کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ یوں قبل از انقلاب کا سارا زمانہ جاگیرداروں اورکسان مزدوروں کے مابین نفرت اور بغاوت کی کوششوں میں گزرا۔ Carl Bridenbaugh نوآبادیوں کے مطالعے میں اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ: یہ ایک طبقاتی نظام تھا۔ وہ لکھتا ہے: بوسٹن کے ابتدائی رہنما بڑے دولت مند لوگ تھے، جو پادری کے تعاون سے دھرتی ماں پر معاشرتی انتظام و انصرام قائم رکھتے تھے۔ خود وہ تجارت اور کاروبار میں مصروف رہتے تھے، چرچ اور ٹاؤن اجلاس کے ذریعے آبادی پر سیاسی بالادستی قائم رکھتے تھے، اور باہم شادیوں کے ذریعے بالائی طبقے کا اتحاد اور حاکمیت مستحکم رکھتے تھے، اس چھوٹے بالادست طبقۂ امراء نے ہی بعد ازاں سترہویں صدی میں بوسٹن میں اشرافیہ کے طبقے کی راہیں استوار کیں۔
نیوپورٹ، جزیرہ رہوڈ، بریڈن باف میں بوسٹن کی طرح قصبے کے اجلاس (ٹاؤن میٹنگز) ہی بالواسطہ طور پر طریقہ حکمرانی تھے، جو بظاہر جمہوری سے لگتے تھے، مگرحقیقت میں تاجروں کے ایک ہی گروہ کے ہاتھوں میں گردش کرتے رہتے تھے۔ اسی گروہ کے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز کیے جاتے تھے، اور سارے معاملات اپنی گرفت میں رکھتے تھے۔
نیویارک کی اشرافیہ سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔ سونے کے فریم میں لگے شیشوں کے پیچھے سے جھانکتے، چاندی کے برتنوں میں دعوتیں اڑاتے، مہنگے اور کندہ نقش ونگار سے مزین فرنیچر استعمال کرتے، سیاہ فام غلاموں کے درمیان چمکتے دمکتے یہاں کے اشرافیہ کی شان ہی نرالی تھی۔ نوآبادیاتی دور میں نیویارک ایک ’’جاگیردارانہ بادشاہت‘‘ کی مانند تھا۔ دریائے ہڈسن کے کنارے ڈچ نوابوں نے اپنی راجدھانی قائم کررکھی تھی، یہاں بڑی بڑی جاگیریں تھیں، جہاں مزارعوں اور غلاموں کی زندگیوں پر نوابوں کا مکمل اختیار مستحکم تھا۔ یہاں جیکب لیسلر کی قیادت میں کسانوں کی بغاوت بہت مشہور ہوئی۔ بغاوت میں ناکامی کے بعد جیکب کو ٹکٹکی پر لٹکادیا گیا تھا۔ گورنر بنجامن فلیچر کے دور میں نیویارک کی اراضی کا تین چوتھائی صرف تیس امراء کی ملکیت میں دے دیا گیا تھا۔ اُس نے اپنے ایک دوست کو سالانہ تیس شلنگ ادائیگی کے عوض پانچ لاکھ ایکڑ زمین عنایت کردی تھی۔ سن 1700ء میں نیویارک شہر کے غریبوں کی بھوک اور آہ وبکا نے وہ حالت کردی تھی کہ چرچ کے نگہبانوں کو عوامی کاؤنسل سے ریلیف فنڈ مانگنے پڑے تھے۔ 1730ء تک یہ حال ہوچکا تھا کہ بھکاری عوام کے لیے جو سڑکوں پر بھٹکتے پھرتے تھے، خیراتی اداروں کے قیام کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تھا۔ ایک سٹی کاؤنسل کی قرارداد کہتی ہے: ۔
’’اب جب کہ بہت ضروری ہوچکا ہے، غریبوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ پورا شہر ہی بھکاری معلوم ہوتا ہے، یہ بے کار بے روزگار زندگی گزارتے ہیں، اب چوری چکاری اور راہزنی کرنے لگے ہیں، ایسی صورت حال پر قابو پانے کے لیے یہ قرارداد کہتی ہے کہ ایک مستحکم ’کفالت گھر‘ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اینٹوں پر اٹھایا گیا دومنزلہ یہ ڈھانچہ ’’غریب گھر، مزدور گھر، اور اصلاح گھر‘‘ کہلایا۔ سن 1737ء میں پیٹر زینگر کے نیویارک جرنل کو لکھے گئے ایک خط میں سڑکوں پر ایک غریب کی حالت یوں بیان کی گئی ہے ’’ایک انسان نما شے، فاقہ زدہ اورسردی سے ٹھٹھرائی ہوئی، چیتھڑوں سے ڈھکی ہوئی، کہنیاں اور گھٹنے ننگے، بے ہنگم سے بال… چار سال سے چودہ سال کی عمر تک یہ سڑکوں پر ہی زندگی بسر کرتے ہیں، پھر چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اٹھالیے جاتے ہیں…‘‘
(جاری ہے)
حواشی
1)عجیب اتفاق ہے کہ آج بھی سفید فام افراد کی ایک تعداد سیاہ فام طبقے (ماضی کے سفید فام مزدور اورسیاہ فام غلام کی مانند)کی ہمدرد ہے، اور مظاہروں میں ان کے شانہ بہ شانہ ہے، نسل پرست پولیس اہلکاروں سے دست و گریباں بھی ہے۔ کس قدر واضح ہوچکا ہے کہ خلا میں قدم رکھنے والا امریکہ آج تک انسانوں کی زمین پر قدم نہیں جما سکا ہے، دلوں کا فاتح نہیں بن سکا ہے، اور وقت کی غریب ترین قوموں کے آگے پسپا ہوا ہے۔