ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن
۔2005ء میں اغلباً اکتوبر کا قصہ ہے، اکادمی ادبیات کراچی کی جانب سے معروف محقق، نقاد، اقبال شناس، صوفی بزرگ، استاد الاساتذہ حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں کا تعزیتی پروگرام سٹی کلب خالد بن ولید روڈ کراچی میں ہے، ڈاکٹر جمیل جالبی اور سرشار صدیقی جیسے ادیب اور شاعر اسٹیج پر موجود ہیں، میں بھی سامع کی حیثیت سے اسٹیج کے قریب ہی ہوں۔ مقررین میں پروفیسر انوار احمد زئی بھی ہیں، جن سے پہلے سے شناسائی ہے، مگر سننے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ پروفیسر صاحب کی باری آتی ہے، بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ عصر سے مغرب کا مختصر سا دورانیہ ہے، ماہ رمضان ہے، اس لیے تقریب کو بہرصورت وقت پر ہی ختم ہونا ہے، اس لیے چند ہی لمحوں میں بات کرنی ہے۔ بات کی اور اس طرح کہ ناموں کے حجم اور عہدوں کی ضخامت سے قطع نظر اس نشست کی اصل اور حاصل گفتگو تو آپ کی ہی رہی۔ پروفیسر انوار احمد زئی سے تو نہیں، ان کی خطابت سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔
پروفیسر انوار احمد زئی انڈیا کے شہر جے پور میں 18 ستمبر 1944ء کو پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد حیدرآباد ان کا مستقر ٹھیرا، اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم کا بڑا حصہ حیدرآباد میں ہی مکمل ہوا۔ انوار احمد زئی نے انگلش، اردو اور فارسی میں ماسٹر کیا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور قانون کی اسناد کے بھی حامل تھے۔ یوں ان کے موضوعات کا تنوع حیران کن ہے، پھر اپنے وسعتِ مطالعہ کے سبب مذہب اور متعلقاتِ مذہب کے بارے میں اس قدر مہارت کے حامل تھے کہ ہر ایک موضوع پر بے تکان بولتے۔
پروفیسر انوار احمد زئی نے 1980ء کی دہائی میں شعبۂ تعلیم سے وابستگی کے ساتھ اپنا سلسلہ ٔ ملازمت شروع کیا، اور تھرپارکر میں تعینات ہوئے۔ 1984ء میں کراچی منتقل ہوگئے۔ کراچی میں شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہتے ہوئے مختلف ذمے داریوں پر فائز رہے، 1990ء کی دہائی میں ایڈیشنل پلاننگ اینڈ کوآرڈی نیشن سیکریٹری مقرر ہوئے، مقامی حکومتوں کے نظام متعارف ہونے کے بعد 2000ء کی دہائی کی ابتدا میں ڈی ای او مقرر ہوگئے۔
۔2003ء میں آپ میرپور خاص تعلیمی بورڈ کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے میرپورخاص منتقل ہوگئے۔ 2007ء میں آپ کو اعلیٰ تعلیمی ثانوی بورڈ کراچی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آپ 2015ء تک فائز رہے۔ اس کے بعد مختصر عرصے کے لیے میٹرک بورڈ کراچی کے چیئرمین بھی رہے۔
گزشتہ چند برسوں سے وہ ڈاکٹر ضیاء الدین تعلیمی بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے مصروفِ عمل تھے۔ یہ بورڈ بھی آپ ہی کی کاوشوں سے منظور اور فعال ہوا۔ گویا اس کے بھی بانی ڈائریکٹر کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔
۔2009ء میں جب راقم ریجنل دعوۃ سینٹر کراچی (دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) سے منسلک ہوا تو پروفیسر انوار احمد زئی سے رابطے مزید بڑھ گئے، ہمیں ایسے افراد کی تلاش تھی جو اچھی تعمیری اور معلوماتی گفتگو بھی کرتے ہوں اور اچھی گفتگو کا سلیقہ بھی رکھتے ہوں۔ اس سے قبل ہم 2007ء میں دارالعلم والتحقیق کا بھی آغاز کرچکے تھے، اس کے بنیادی مقاصد میں بھی تربیت (Training) شامل تھی، اس لیے ہمارے لیے پروفیسر انوار احمد زئی بہترین انتخاب تھے، یوں گزشتہ کم و بیش گیارہ برسوں میں ایسے مواقع سو سے زائد ہوںگے، جب ہم نے کسی بھی جگہ انہیں بلایا اور انہوں نے ہمارے کسی بھی پروگرام میں گفتگو فرمائی۔ صرف یہی نہیں ان کے ساتھ دوسرے اداروں میں بھی پروگرام کیے اور بیرونِ شہر سفر بھی۔ خاص طور پر سندھ یونیورسٹی حیدرآباد اور گورنمنٹ کالج میرپورخاص کے پروگرام یادگار رہیںگے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پروفیسر انوار احمد زئی کی گفتگو بھی مربوط، موضوع کے مطابق اور دل چسپ ہوتی اور انہیں بلانے میں بھی ہمیں کوئی دقت پیش نہ آتی۔ اگر وہ کراچی میں موجود ہوتے تو پھر انہیں مدعو کرنا ایک ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کے فاصلے پر ہوتا۔ یوں بھی ہوتا کہ کسی روز وہ بہت مصروف ہوتے، اور ہمیں بھی درکار ہوتے، تب بھی اکثر ہم انہیں آمادہ کرلیتے، بس تھوڑا سا پروگرام تبدیل کرنا پڑتا۔ بعد میں ہم نے یہ طے کرلیا تھا کہ جوں ہی کوئی تربیت گاہ قریب آتی چند روز پیشتر ہی ان کے پاس حاضر ہوجاتے، چائے بھی پیتے، کھانے کا وقت ہوتا تو اس میں بھی شریک ہوتے اور اُن کا اُس وقت تک کا طے شدہ تحریری شیڈول دیکھ کر اپنا موضوع اور وقت نوٹ کرادیتے۔
ایک بار یوں ہوا کہ الحمد اکیڈمی خالد بن ولید روڈ میں سیرت طیبہ پر پروگرام طے ہوا، اس کے پرنسپل برادر ڈاکٹر اظہر سعید نے مشورہ کیا، بلکہ فرمائش کی کہ پروفیسر انوار احمد زئی بھی آجائیں تو لطف دوبالا ہوجائے۔ میں نے اسی وقت فون کیا، بات ہوئی، وقت، جگہ اور موضوع طے ہوگیا، بعد میں تحریری دعوت نامہ بھی اکیڈمی کی جانب سے اُن تک پہنچادیا گیا، مگر شاید مصروفیات کے سبب یہ پروگرام ان کے تحریری شیڈول میں درج نہ ہوسکا۔ مقررہ وقت پر میں اکیڈمی پہنچ گیا، جب طے شدہ وقت ہوچکا تو صرف یہ جاننے کے لیے کہ انہیں اندر اکیڈمی تک آنے میں دشواری نہ ہو انہیں فون کیا تو فون تو اٹھالیا، مگر انہیں پروگرام یاد ہی نہیں تھا۔ میں نے یاد دلایا تو بولے: اب کیا ہوگا، میں تو اے آر وائی پر ریکارڈنگ کراکر نکل رہا ہوں۔ فاصلہ خاصا ہے۔ میں نے فوراً کہا کہ بسم اللہ کریں، آجائیں، گفتگو شروع کرتا ہوں آپ آجائیے۔ بولے کہ میں سوٹ ٹائی میں ملبوس ہوں، یہ سیرت کا پروگرام ہے۔ میں نے کہا آجائیے کوئی حرج نہیں۔ بہرکیف چالیس پچاس منٹ میں وہ یہ سفر طے کرکے پنڈال میں پہنچ گئے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس وقت وہ جناح کیپ، قمیص شلوار اور واسکٹ میں ملبوس تھے، یہ الگ بات کہ ان کپڑوں پر استری نہیں تھی۔ ہوا یوں کہ وہ اس خیال سے کہ یہ سیرت کا پروگرام ہے، پہلے دفتر گئے، وہاں جو کپڑے بھی موجود تھے، انہیں زیب تن کرکے تشریف لائے۔ احترام اور وضع داری کی یہ مثال میرے ذہن پر نقش ہے۔
سرکاری پروگراموں میں مہمانوں کو عام طور پر اعزازیہ بھی پیش کیا جاتا ہے، جو عام طور پر اشکِ بلبل کے بہ قدر ہی ہوتا ہے، مگر آپ ہمیشہ ہم سے اصرار مگر نہایت احترام کے ساتھ منع فرمادیتے، بلکہ یہ بھی فرمایا کہ پی ٹی وی کے سوا کسی سے میں کسی مذہبی پروگرام کا اعزازیہ وصول نہیں کرتا۔
پروفیسر انوار احمد زئی کی نشست میں ہم جیسوں کو اس لیے بھی لطف آتا کہ وہ اچھے جملے باز اور جملہ شناس بھی تھے۔ یہ صفت اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ یوں بھی بارہا ہوا کہ آپ نے کسی پر جملہ چست کیا، پھر ہماری جانب دیکھا، ہم دونوں مسکرا دیے، یا ہم نے اس پر گرہ لگادی اور صاحبِ معاملہ میں ہلکی جنبش تک نہ ہوئی۔ اس صورت حال سے ہم مزید لطف لیتے۔ افسوس اب یہ محفل ہمیشہ کے لیے اجڑ گئی۔
پروفیسر صاحب انٹر بورڈ کمیٹی (آئی بی سی) کے چیئرمین بھی کئی بار ہوئے، اس دوران ان سے طویل طویل مشاورت ہوتی رہی۔ اب یہ بات کہنے میں شاید مضائقہ نہ ہو کہ اس دوران میں نے انہیں توجہ دلائی کہ مدارس کی اسناد کا معاملہ محض ایم اے تک محدود ہے، ثانویہ عامہ اور ثانویہ خاصہ کا معادلہ اس کمیٹی کے تحت بالترتیب میٹرک اور انٹر سے ہوجائے تو طلبہ کے لیے نہایت مفید ہوگا۔ اصولی طور پر وہ آمادہ ہوگئے۔ پھر یہ طے پایا کہ کمیٹی کی کسی میٹنگ میں، میں بھی شرکت کروں اور تمام ارکان کو اس موضوع کی حساسیت اور اہمیت پر بریفنگ دوں۔ مجھے کیا اشکال ہوتا، چناں چہ 2015ء کے غالباً ستمبر اکتوبر یا اس سے قبل کا ذکر ہے کہ بھوربن میں ایک میٹنگ طے ہوئی، مجھے بہ طور مبصر اس میں شرکت کرنی تھی۔ مگر اس سے قبل کوئی دشواری پیش آئی۔ پہلے یہ اجلاس ملتوی ہوا، پھر پروفیسر انوار احمد زئی کا دورانیۂ صدارت ہی ختم ہوگیا، وہ بات جہاں تھی وہیں رہ گئی۔
دوسری بار ایک اور مشورہ ہوا، جب وہ ضیاء الدین بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور اسے فعال کرنے کے لیے انہوں نے مختلف اقدامات اٹھائے تو ان کے سامنے راقم نے ایک بار پھر مدارس کا مقدمہ پیش کیا اور عرض کیا کہ اب جب کہ مدرسے کے ہر طالب علم کے لیے میٹرک لازم ہوگیا ہے، تو ان کے لیے درمیانی راہ نکالی جائے، اور انہیں کوئی معقول پیکیج آفر کیا جائے۔ بہت سی تجاویز ذہن میں تھیں، وہ ان کے سامنے رکھیں، اکثر کے بدلے میں ان کا رویہ ہمدردانہ اور پسندیدگی کا تھا، انہوں نے ایک بار تو اپنی ٹیم کو بلاکر انہیں بھی مشاورت میں شریک کیا۔ مزید ملاقاتیں طے تھیں، مگر کچھ عرصے وہ مصروف رہے، پھر کچھ مدت تک میں ان کی طرف نہ جاسکا، پھر کورونا اور اس کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک آگیا، اور پھر عید کرتے ہی پروفیسر انوار احمد زئی اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔
۔31 مارچ کی صبح برادرم نورالرحمان صدیقی کے فون سے علم ہوا کہ آپ دنیا سے رخصت ہوچکے۔ افسوس یہ کہ عرصے سے روزانہ کا تعلق ہونے کے باوجود رمضان المبارک کی مصروفیات اور پھر وسط رمضان سے اپنی قدرے طویل ہوجانے والی علالت کے سبب ان سے کیا بہت سوں سے رابطے میں نہیں رہا، اور پروفیسر صاحب کی کئی روز سے جاری علالت کے باوجود یہ خبر میرے لیے اچانک تھی اور سب کی طرح انتہائی دکھ بھری بھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور سیئات کو حسنات سے تبدیل فرمادے۔
انتہائی درجے کے فاضل ہونے کے باوجود حد درجے انکسار اور ہر نوعیت کے کارِخیر کے لیے ہمہ وقت آمادگی ایسے اوصاف ہیں جن پر بڑی سے بڑی کمزوری بھی قربان کی جاسکتی ہے، اور ہمارے معاشرے سے تیزی سے مفقود ہوتی ہوئی یہ صفات وہ ہیں، جن کا متبادل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
آپ نے قلمی اور تحریری نشانیوں میں خاکے، افسانے، تعلیم اور سماجیات پر مضامین کے ساتھ ساتھ درجنوں کتب پر دیباچے اور تبصرے چھوڑے ہیں۔ اپنے آخری برسوں میں نعت پر بھی خوب لکھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خاص طور پر تعلیم اور نعت کے حوالے سے ان کے مضامین یک جا کرکے انہیں کتابی صورت دینے کا اہتمام کیا جائے۔