ملک کے معروف افسانہ نگار، مترجم، نقاد، پبلشر آصف فرخی اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے۔ آپ کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ وہ کئی سال سے ذیابیطس کے مرض کا شکار تھے۔ ان کی نمازِ جنازہ جامعہ مسجد کراچی یونیورسٹی میں ادا کی گئی، جبکہ تدفین کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں ہوئی۔ بڑا ادیب، بڑا نام، اور کئی حوالوں سے منفرد شخصیت کے مالک آصف فرخی سے کئی سال پہلے کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کے ایک بنگلے میں طے شدہ وقت کے مطابق ملاقات ہوئی تھی، مقصود طالب علمانہ سوالات کے ذریعے کچھ جاننا، سیکھنا اور تبادلہ خیال تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اس انٹرویو کی پہلی نشست جو بیالیس منٹ کی تھی کچھ سوالات پر تلخی کے باعث مکمل نہیں ہوسکی تھی، اور مجھے انٹرویو مکمل کیے بغیر واپس آنا پڑا، لیکن ابھی آفس پہنچا ہی تھا کہ آصف صاحب کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ آپ کے تمام سوالات کے میں جوابات دینے کو تیار ہوں۔ بعد میں ان کی زبانی ہی معلوم ہوا کہ کچھ عرصے سے ان کے خلاف مہم چلائی گئی ہے، شاید کوئی پمفلٹ وغیرہ تقسیم کرنے کا بھی بتایا تھا۔ اور جب میں نے پہلا سوال کیا تو انہیںغصہ اس لیے آگیا تھا کہ وہ شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ انٹرویو بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جب کہ میرے وہم وگمان میں بھی ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن کہتے ہیں ادیب و دانشور ذرا حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، اس لیے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی۔ بنیادی طور پر آصف فرخی رکھ رکھائو والے، میٹھی طبیعت کے آدمی تھے۔ لیکن کچھ سوالات پر ماحول شروع میں ہی خراب ہوگیا۔ یہ میری نااہلی بھی کہی جاسکتی ہے جس کا آج مجھے زیادہ افسوس ہے۔ لیکن پھر فون کے بعد اگلے دن نشست طے ہوئی، اس میں بھی پچھلی نشست کی تلخی کی بازگشت موجود رہی، لیکن انٹرویو مکمل ہوا اور بعد میں پرنٹ ہونے کے بعد اُن سے فون پر بات ہوئی تو وہ خود بتانے لگے کہ مجھے بہت فون آرہے ہیں، اور شکریہ ادا کیا۔ پھر بعد میں کئی ملاقاتیں فیسٹول وغیرہ میں رہیں لیکن ذرا دور دور سے ہی۔ مثلاً میں نے اُن سے انٹرویو کے پہلے دن کی نشست میں پہلا سوال یہ کیا کہ ’’میں آپ کے گھر ڈیفنس کے پوش علاقے میں پہنچا تو میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ عام طور پر ادب اور معاشی خوش حالی… یہ دو متضاد چیزیں ہیں، لیکن آپ سے اور اکا دکا دوسرے ادیبوں سے مل کر یہ تاثر بالکل زائل ہوجاتا ہے کہ ادب اور معاشی خوش حالی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ براہ مہربانی اس پر اپنا نکتہ نظر بیان فرمادیں۔ پہلے دن تو وہ بھڑک اٹھے، لیکن جب دوبارہ نشست ہوئی اور میں نے پھر یہ سوال کیا تو ڈاکٹر آصف فرخی نے ہنستے ہوئے کہا: آپ نے خوب سوال پوچھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ انٹرویو کے ساتھ ساتھ آپ انکم ٹیکس کے محکمے کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ آپ کہیں تو انکم ٹیکس کے محکمے کی فائل بھی پیش کردوں۔ اصل میں ادیب کے مفلس ہونے یا مفلوک الحال ہونے کا تصور رومانوی ہے۔ آپ کو شاید اس شہر کے بہت سے ادیبوں سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا، کاش کہ ہوتا۔ آپ نے اُن کے گھر دیکھے ہوتے! لیکن میں اس حوالے سے کوئی دفاعی بیان نہیں دینا چاہتا۔ میں ایک درمیانے طبقے کی زندگی گزار رہا ہوں۔ اب اگر آپ یہ سوال کریں کہ جو کچھ ہے وہ کیسے حاصل کیا؟ تو آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ سب کچھ میں نے اور میری اہلیہ نے برسوں کی محنت سے حاصل کیا ہے۔ آپ کو میں نے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلائی ہے، شاید اس شہر کے بہت سے ادیبوں کے گھر آپ کو اس سے زیادہ آسودگی ملے گی۔ اس کے بارے میں کیا بات کی جائے؟ یہ تو ایک عمومی سا سوال ہے۔ آپ وضاحت کے ساتھ کوئی بات پوچھ لیجیے۔
میں نے اسی تسلسل میں ذرا وضاحت کے بعد پھر پوچھا کہ ’’کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ ایک ادیب کو ایک ادیب کی طرح زندگی گزارنی چاہیے، کیونکہ اس کی ترجیح میں ادب ہوتا ہے، اور ادب کے بعد اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ مال کمانے یا اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے وقت نکالے۔‘‘
ڈاکٹر آصف فرخی نے جواب دیا: ’’دیکھیے! ہم لوگوں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ادیب بہت مفلوک الحال ہو۔ ساری زندگی روتا پیٹتا رہے۔ اس لیے کہ معاشرہ ادیب کی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا۔ یہ بات میرؔ و سوداؔ سے لے کر غالب، اقبال اور پھر آج کے عہد تک آتی ہے۔ ہم ادیب سے یہ مطالبہ تو کرتے ہیں کہ فلاں چیز لکھو، فلاں رویہ ہونا چاہیے، فلاں نظریے پر کاربند ہونا چاہیے، لیکن معاشرے نے کبھی سوچا ہے کہ اس نے ادیب کو کیا دیا ہے؟ معاشرہ ادیب کو لکھنے کی فراغت اور قلم سے روزی روٹی کمانے کی سہولت بھی نہیں دیتا۔ جس آدمی نے قلم سے روزی روٹی کمائی، وہ بڑا قابلِ عزت نام ہے، مجھے امید ہے آپ اس کا نام لکھیں گے۔ کیونکہ میں اسے بہت لائقِ احترام سمجھتا ہوں۔ وہ سعادت حسن منٹو ہے اور اس معاشرے نے سعادت حسن منٹو کے ساتھ جو سلوک کیا، اسے بھی یاد کریں تو ہم معاشرے کے طور پر ایسے لوگوں سے آنکھ بند کرلینا چاہتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیںکہ معاشرہ انہیں قلم کے ذریعے روزی روٹی بھی نہ کمانے دے اور وہ مفلوک الحال نظر آئیں۔ میرا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ زندگی میں میرا پیشہ ادب نہیں رہا۔ ادب سے محفوظ میں مختلف راہ پر کاربند رہا۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ محفوظ رہا۔ میں نے اپنی زندگی ادب کے ذریعے نہیں بنائی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے آسودگی مل گئی اور نقصان یہ ہوا کہ میں ارتکاز کے ساتھ کچھ نہیں لکھ پایا۔ آپ کو میری جو سماجی صورتِ حال نظر آرہی ہے وہ میرا المیہ ہے، میری مجبوری ہے۔ یہ میری ناکامی ہے۔ It’s my tragic failure یہ خوش ہونے کی بات نہیں بلکہ اس پر افسوس ہونا چاہیے۔‘‘
پھر انٹرویو کاسلسلہ آگے بڑھا ،اور میں نے پوچھاــ’’ آپ افسانہ نگار ہیں، مترجم، نقاد اور مدیر بھی ہیں، کبھی کبھی آپ ہمیں اینکر بھی نظر آتے ہیں۔ آپ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بیک وقت لکھتے ہیں۔آخر آپ کی شناخت کیا ہے؟‘‘
ڈاکٹر آصف فرخی کا جواب تھا ’’میری بنیادی شناخت اگر کوئی ہے، جس پر ایک سوالیہ نشان ہے، وہ پہلی شناخت ہے اور جس پر مجھے اصرار ہے، وہ ایک پڑھنے والے کی ہے۔ ادب کے ایک قاری کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو ادب میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ایسا شخص جس کے لیے ادب زندگی کا بہت اہم حصہ ہے، جس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مجھے اپنے پڑھنے پر بہت اصرار ہے۔ یہ میرا شوق ہے۔ اس کے بعد تھوڑا بہت اپنی بساط کے لحاظ سے لکھنا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ میں نے کئی اصناف میں کوشش کی۔ شاید اس لیے کہ یہ اپنا راستہ ڈھونڈنے، اپنے طرزِ اظہار کی جستجو، اپنی دریافت کا ایک عمل ہے۔ اس حوالے سے اصناف سامنے آتی رہی ہیں۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ وفاداری بشرط استواری کے قائل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اگر آپ افسانہ نگار ہیں تو تنقید نہ لکھیں، اور تنقید نگار ہیں تو ڈراما نہیں لکھنا چاہیے۔ چونکہ میں سب چیزیں پڑھتا ہوں اور ان میں دلچسپی لیتا ہوں، اس لیے کوشش یہ کرتا ہوں کہ خود کو آزما کر دیکھوں۔ لیکن ہر بار اس آزمائش میں پورا نہیں اترا۔ ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے۔ یہی چیز مجھے لکھتے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ میں چونکہ ایک بہت کمزور اور بے بس ادیب ہوں اسی لیے کسی ایک صنف پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکا۔ ہر بار یہ کوشش کی کہ صنف مجھے وہ طاقت دے دے جو میرے لکھنے میں نہیں۔ ابتدا میں نے شاعری سے کی، مگر شاعری میرے پلے میں زیادہ تھی نہیں۔ پھر نثر کی طرف آیا۔ افسانے لکھے۔ کچھ تھوڑی بہت تنقید لکھی۔‘‘
کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کمی کی صورتِ حال کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے تھوڑے بہت ایسے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملتا ہے جن میں کتابوں یا ادب کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے، جہاں میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ جوق در جوق آتے ہیں، کتابیں خریدتے ہیں، مصنفوں سے دستخط کراتے ہیں، ان سے ملتے ہیں اور یہ شکایت کرتے ہیں کہ جناب ایسے مواقع کم ملتے ہیں۔ اب ساری بات لوگوں پر ڈال دینے کے بجائے یہ بھی تو دیکھیے کہ خود اس شہر میں، میں جب چھوٹا تھا یا طالب علم تھا تو صدر کے علاقہ میں کتابوں کی بے انتہا دکانیں تھیں۔ 20،25 دکانوں کے نام تو میں گنوا سکتا ہوں کہ جہاں میں جاتا تھا، کتابیں دیکھتا تھا، دیکھتا زیادہ تھا کیونکہ میری قوتِ خرید کم تھی۔ طالب علم تھا۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ بہت شوق سے ان کے چکر لگایا کرتا تھا۔ اب صدر کے علاقہ میں کتابوں کی کتنی دکانیں ہیں؟ دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کتابوں کی فروخت اور ان کی مارکیٹنگ کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا گیا۔ کراچی کتنی بڑی آبادی کا شہر ہے۔ اس میں اردو کتابوں کی دکانیں کتنی کم ہیں۔ اس شہر میں چرس اور ہیروئن خریدنا آسان ہے لیکن کتابیں خریدنا بہت مشکل ہے۔ مجھے اردو کی کتابیں خریدنا ہوتی ہیں تو میں لاہور یا اسلام آباد سے آسانی سے خرید لیتا ہوں، کیونکہ کراچی میں کتابوں کی دکانیں اردو بازار کے علاقہ تک محدود ہیں۔ اردو بازار آنا جانا، وہاں رکنا، ٹھیرنا بے انتہا مشکل ہے۔ (ہنستے ہوئے) مشتاق یوسفی صاحب مجھ سے کہتے ہیں کہ اردو بازار جانے کے لیے ایک ہی سواری مناسب ہے، وہ ’’ٹینک کی سواری‘‘ ہے۔ اس لیے ہم نے کتابوں کی ترویج، ان کی فروخت اور انہیں دوسرے لوگوں تک پہنچانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا۔ الٹا یہ گلہ کرتے ہیں کہ ادیب مفلوک الحال نہیں رہا۔ کتاب پڑھنے والے کم ہوگئے۔ اس المیے کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم اپنے گریبان میں بھی تومنہ ڈال کر دیکھیں۔‘‘
پھر اسی تسلسل میں جب پوچھا کہ ’’کیا ٹیلی ویژن اور بعد ازاں انٹرنیٹ کا آنا بھی کتابیں کم پڑھنے اور چھپنے کی وجہ بنا ہے؟ یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے، حالانکہ مغربی دنیا جہاں سے یہ چیزیں آئی ہیں وہاں تو پڑھنے کا رجحان آج بھی وہی ہے؟‘‘
ڈاکٹر آصف فرخی کا کہنا تھا کہ ’’اب مغرب میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع ابلاغ کو ہم نے کتاب سے دوری کا ایک بہانہ بنا لیا ہے۔ وہ جو غالب نے کہا تھا کہ:
واماندۂ شوق تراشیدہ پنائے
کیونکہ اصل مسئلہ شوق ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ جب ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نہیں تھا تو پڑھنے والے لوگوں کی تعداد کیوں کم ہوتی جارہی تھی؟ ایک تو یہ بات ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ میں ٹیلی ویژن کی بات نہیں کرتا، انٹرنیٹ کی بات کرتا ہوں۔ انٹرنیٹ پر بھی بنیادی عمل ریڈنگ ہی ہے۔ انٹرنیٹ پر آپ جو صفحہ دیکھتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پڑھ رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کتابوں سے ہمارا تعلق ہے، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن سے نہیں۔ بعض جگہ ایسی صورت حال بھی ہوتی ہے کہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کتاب کے فروغ کا بھی سبب بنتے ہیں۔‘‘
یہ ایک طویل انٹرویوتھا جس میں فرخی صاحب نے کئی اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی تھی۔ اب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، اگر کچھ موجود ہے تو اُن کی باتیں اور اُن کا کام موجود ہے۔ ان کا سانحۂ ارتحال ادبی دنیا کا ایک بڑ ا نقصان ہے.
آصف فرخی ’’شہرزاد‘‘ نام کے ادارے کے مالک اور پبلشر ہونے کے ساتھ معروف ادبی مجلہ ’’دنیا زاد‘‘ کے مدیر بھی رہے ہیں۔ آپ کا شمار اُن خوش نصیبوں میں رہا جنہوں نے ادبی خاندان میں آنکھ کھولی۔ والد صاحب کی طرح بچپن سے ہی اعلیٰ علمی، ادبی اور کتابی ماحول ملا۔ ان کے والد مشہور استاد، خاکہ نگار، نقاد، محقق، ادیب ڈاکٹر اسلم فرخی ادب کی دنیا کا ایک معتبر نام تھے۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ جب بڑے ہوئے تو اپنے والد صاحب کے پاس فرخ آباد کے صدر مقام فتح گڑھ آگئے۔آصف فرخی کے پرنانا اور پردادا دونوں کا خاندانی کام کتابوںکی اشاعت تھا۔ اسلم فرخی ستمبر 1947ء میں کراچی آئے اور یہیں مقیم ہوگئے۔ اپنے زمانے کی ترقی پسند تحریک کے کام میں فعال رہے۔ معروف ادیب، صحافی اور شاعر انور احسن صدیقی آپ کے چچا ہیں۔ آپ کو اپنے والد کی ادبی وراثت کے ساتھ والدہ کی ادبی وراثت سے بھی حصہ ملا ہے۔ والدہ بیگم تاج اسلم فرخی خود بھی ادیبہ ہیں۔ آصف فرخی کے نانا شاہد احمد دہلوی ہیں جو ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے تھے۔آپ کی والدہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی ہیں۔
میں نے ایک ملاقات میں ڈاکٹرآصف اسلم سے پوچھا کہ آصف فرخی کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ آصف فرخی ایک فرضی شخصیت کا نام ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ وہ شاید ایک افسانوی کردار ہے۔ اس نام کا کوئی آدمی شاید نہیں ہے جو حکومتِ پاکستان کا شہری ہو، جو شناختی کارڈ کا حامل ہو، جو کہیں موجود ہو۔ یہ میرا قلمی نام ہے اور میں اپنے آپ کو کردار بنا کر خوش ہوں۔ ڈاکٹرآصف اسلم 16 ستمبر 1959ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک ہائی اسکول کراچی سے حاصل کی۔ بعد ازاں ڈائومیڈیکل کالج سے طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے صحتِ عامہ میں ڈگری حاصل کی۔آغا خان یونیورسٹی میں ملازمت کی۔ انہوں نے 1985ء سے 1993ء کے درمیان پروفیسر جان ایچ برینٹ کی نگرانی میں آغا خان یونیورسٹی میں پبلک ہیلتھ فیکلٹی کے قیام میں بھی حصہ لیا تھا۔
آپ نے انگریزی زبان کی متعدد کتابیں اردو زبان میں منتقل کی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف پاکستانی مصنفین کی کتابوں کی تدوین کی ہے۔ آصف فرخی انگریزی اور دیگر اخبارات اور مجلوں میں ادب کے موضوع پر لکھتے رہے ہیں۔ 2010ء میں انہوں نے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس اور برٹش کونسل کے تعاون سے کراچی لٹریچر فیسٹول شروع کیا اور جس کے وہ بانیوں میں سے ہیں۔ فرخی صاحب نے 1995ء میں وزیراعظم پاکستان سے لٹریچر کا ایوارڈ وصول کیا اور 2010ء میں صدرِ پاکستان سے تمغاے امتیاز حاصل کیا۔
آصف فرخی کی تصنیفات اور ادبی کاوشوں میں آتش فشاں پر کھِلے گلاب (افسانے)، اسمِ اعظم کی تلاش (افسانے)، چیزیں اور لوگ (افسانے)، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا (افسانے)، شہر ماجرا (افسانے)، حرفِ من و تُو (انٹرویوز)، ایک آدمی کی کمی (افسانے)، عالم ایجاد (تنقیدی مضامین)، انتظار حسین: شخصیت اور فن (پاکستانی ادب کے معمار: اکادمی ادبیات پاکستان)، منٹوکا آدمی نامہ، پاکستانی افسانے کے پچاس سال، قید مقام (سفرنامہ)، میرے دن گزر رہے ہیں (افسانے)، نگاہِ آئینہ ساز میں (تنقیدی مضامین)، مرحلے شوق کے (ضمیر نیازی کے ادبی مضامین کی تدوین)، الحمرا 2000ء کے بہترین مضامین (مرتب)، Look at the City from Here شامل ہیں۔ سن 1995ء میں ان کو ادب کے لیے وزیراعظم کا ایوارڈ ملا، جبکہ سن 2005ء میں انہیں صدر پاکستان نے تمغاے امتیاز سے بھی نوازا تھا ۔
کراچی لٹریچر فیسٹول اور ادب فیسٹول کی بانی اور آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی سابق ڈائریکٹر امینہ سید بتاتی ہیں کہ آصف فرخی سے ان کا تعلق اور دوستی تقریباً 25 سال پرانی تھی۔ وہ آکسفرڈ پریس کے لیے ایڈیٹنگ اور تراجم کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ وہ رہنمائی کیا کرتے تھے کہ کون کون سی کتابیں شائع کرنی چاہئیں۔
’کراچی لٹریچر فیسٹول کے بارے میں ہم نے 2009ء سے سوچنا شروع کیا اور اگلے سال 2010ء میں اس کا آغاز ہوا، اس کے بعد 2013ء میں ہم نے اسلام آباد لٹریچر فیسٹول منعقد کیا اور 10 سال تک ہم یہ فیسٹول کرتے رہے۔ اس کے بعد دو سال ہم نے ادبی فیسٹول کیا۔
امینہ سید کے مطابق ڈاکٹرآصف فرخی کی خواہش تھی کہ پاکستان میں جو ادیب اور ادب ہے اس کو فروغ دیا جائے، کسی طرح ادیبوں کو پلیٹ فارم اور شہرت ملے اور وہ اپنے قارئین سے ملاقات کریں۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ابھرتے ہوئے لکھاریوں کو سامنے لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل ہم اگلے ادب میلے کی تیاریاں کررہے تھے اور اس سلسلے میں زہرہ نگاہ سے ملاقات کرنے گئے تھے، لیکن سب رہ گیا اور وہ اچانک چلا گیا۔ اس کے جانے سے ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے ایک بیوہ، دو بیٹیاں اور ہزاروں لکھاریوں اور ادب کے شائقین کو سوگواروں میں چھوڑا ہے۔
آصف فرخی ہماری ادبی روایت کا بڑا سرمایہ تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔