تخلیق، ارتقا اور تہذیب

جناب ناصر فاروق ان اصحاب میں سے ہیں جو مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے مطالعے میں دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں۔ ان کے مضامین اور مقالات تسلسل سے جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انھی کو اب کتابی شکل میں مرتب کردیا گیا ہے۔ زیرنظر کتاب نہایت ہی اہم موضوعات پر مشتمل سترہ ابواب میں منقسم مختصر اور فکری عنوانات کے تحت گراں قدر معلومات کی حامل ہے۔
محترم شاہنواز فاروقی تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام مسلمانوں سے صرف یہی تقاضا نہیں کرتا کہ وہ حق کو پہچانیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان حق کے ساتھ باطل کا بھی شعور حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حق و باطل کی کشمکش ابتدا سے جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گی۔ حق و باطل کی کشمکش میں کردار بدلتے رہیں گے، مگر یہ کشمکش کبھی ختم نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں انبیاء نے یہ بتایا کہ حق کیا ہے، وہیں انھوں نے اپنے زمانے کے باطل کی بھی نشاندہی کی اور اسے چیلنج کیا۔ انبیاء کی سنت کو اسلامی مفکرین نے بھی سینے سے لگایا ہے۔ چناں چہ غزالی ہوں یا اکبر الٰہ آبادی، اقبال ہوں یا مولانا مودودی… سب نے باطل کو سمجھا بھی، سمجھایا بھی، اور اسے چیلنج بھی کیا۔ عہدِ حاضر میں اگر اکبر الٰہ آبادی، اقبال اور مولانا مودودی نے باطل فکر اور باطل نظاموں کی تنقید نہ لکھی ہوتی تو مسلم امہ اس سے کہیں زیادہ باطل کے نرغے میں ہوتی جتنی کہ وہ اِس وقت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم دنیا میں مغربی فکر کی تفہیم اور اس کی تنقید ایک اہم کام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کام کے بغیر مسلمان کبھی نوآبادیاتی تجربے کی گرفت سے نہیں نکل سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مغرب کو سمجھنے اور اس کی تنقید لکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ نوجوانوں میں تو ایسے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں جو مغرب کو پڑھتے اور اس پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوں۔ ناصر فاروق ایسے ہی نایاب نوجوانوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی زیادہ توجہ مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی پر مرکوز ہے۔ وہ اس حوالے سے مترجم کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں اور طبع زاد تحریریں تخلیق کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ناصر فاروق کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ سے محبت ہے، اور وہ مغرب کو پڑھتے ہوئے مسلم تناظر کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس سے ان کی طبع زاد تحریروں اور ترجمے دونوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے آپ مغرب کی سائنسی اور تکنیکی فکر کو سمجھنے کے قابل ہوسکیں گے۔ مغرب کی سائنسی اور تکنیکی ترقی نے انسانیت کو ایک ایسے بحران سے دوچار کردیا ہے جس کا اعتراف مغرب کے مفکرین بھی کرنے لگے ہیں۔ ایلون ٹوفلر نے اپنی تصانیف میں صاف کہا ہے کہ مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ٹرین انسان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور اس کا حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ ناصر فاروق کے زیر نظر مضامین مغرب کی تکنیکی ترقی کے کئی اہم پہلوئوں کو سامنے لاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ناصر فاروق مغربی فکر کی تفہیم اور ابلاغ کے حوالے سے جتنی محنت کریں گے اُن کی تحریروں کی قدروقیمت بڑھتی جائے گی‘‘۔
جناب ناصر فاروق تحریر فرماتے ہیں:
’’زیر نظر مضامین کا مجموعہ ایک سلسلہ تحریک ہے، جو جدید مغرب کی چند کتابوں کے مطالعے سے پیدا ہوا۔ ان مضامین میں اسرائیلی مؤرخ یوول نوح ہراری صاحب کی تین مقبول کتابوں
1.Sapiens: A brief hostory of Humankind.
2.21 Lessons for the 21st century.
3.Homo deus: A History of tomorrow.
کے حوالے متواتر استعمال ہوئے ہیں۔ یہ کتابیں جدید سائنس پرست مغرب کا علمی مؤقف ہیں۔ یہ مؤقف مذہب، روایت اور تہذیب سے متصادم ہے۔ یہ مغربی مؤقف مستقبل کی دنیا میں الٰہیات کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتا۔ زیرنظر کتاب کے مضامین مغرب کے اس مؤقف کا سامنا کرنے کی کوشش ہے۔ کتاب کے عنوان ’’تخلیق، ارتقا اور تہذیب‘‘ کی وجۂ تسمیہ مغرب اور مذہب کی تاریخی و عقائدی تفصیل کو چند اصطلاحوں میں سمیٹنے کی سعی ہے۔ تخلیق، ارتقا اور تہذیب کے مغربی و مذہبی تصورات کا بُعد واضح کرنا، اور ان کی تصحیح یا تغلیط ان مضامین کا مقصد ہے۔ اس کے علاوہ ’مغربی اسلام‘ یا مغرب میں اسلام سازی، استشراقیت، تہذیبوں کا تصادم اور اسلام کا احیا جیسے اہم موضوعات اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔
یہ مضامین فرائیڈے اسپیشل، جسارت، دلیل اور دانش بلاگ سائٹس پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب یہ موضوعی ترتیب سے کتابی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہیں۔ آپ کی تنقید و تحسین باعثِ افتخار ہوگی‘‘۔
یہ ایک عمدہ فکری کتاب ہے جو جدید موضوعات کو زیر بحث لاتی ہے اور ہمارے دین و ایمان کے حوالے سے ان کی حیثیت کو واضح کرتی ہے۔ سترہ ابواب کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلا باب: مغرب کے تصورِ تاریخ کا اختتام؟
دوسرا باب: بائیولوجیکل تصورِ انسان کا مستقبل؟
تیسرا باب: جدید علمِ حیاتیات، تخیلاتی احکامات اور وضع کردہ صحیفے
چوتھا باب: سائنس پرست مغرب کا نیا ایجنڈا؟
پانچواں باب: سائنس پرستوں کا مسئلہ ’خدا‘
چھٹا باب: مغرب کا مسئلہ شانِ محمدیؐ
ساتواں باب: اسلام کو درپیش سابقے اور لاحقے
آٹھواں باب: مغرب معنی کی تلاش میں…
نواں باب: آرٹیفیشل انٹیلی جنس ورلڈ آرڈر؟
دسواں باب: ڈیجیٹل ڈکٹیٹر شپ کا عہد؟
گیارہواں باب: نیا آدمی اور ٹیکنالوجی کی افیون
بارہواں باب: سائنس پرستوں کے تاریخی جھوٹ
تیرہواں باب: حکمت ِ تہذیب: ازمنۂ وسطیٰ کا تاریخی سچ
چودھواں باب: اسلام کا احیا… اور اکیسویں صدی؟
پندرہواں باب: تہذیبوں کا تصادم: علامہ اسد کا کلیہ
سولہواں باب: نیولبرلزم اور نظریے کا مستقبل
سترہواں باب: انسانی تہذیب کا مستقبل؟
یہ کتاب تمام صحافیوں، اساتذہ، طالب علموں اور ادیبوں کو پڑھنی چاہیے تاکہ دنیا میں پیدا ہونے والے علمی خیالات سے آگاہی ہو۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے، جاذبِ نظر سرورق سے مزین ہے۔