درختوں کو کاٹ کر، معصوم مکینوں کے گھونسلے برباد کرکے جدید طرزِ تعمیر میں کسی گھونسلے کا امکان تک نہ چھوڑ کر، بے رحم اور وحشیانہ انداز سے شکار کرکے جب پرندوں کا قتلِ عام کیا جائے گا تو پھر بستی میں کوئلیں اور بلبلیں نہیں، ٹڈی دَل ہی اتریں گے۔ ہمارا اپنا نامہ اعمال ہے جو ٹڈی دل کی صورت ہمارے سامنے رکھا ہے۔ میرؔ نے کہا تھا : ’’دریا دریا روتا ہوں میں، صحرا صحرا وحشت ہے‘‘۔ برڈ واچرز کلب کی ایک رپورٹ پڑھ رہا ہوں کہ 1960ء میں لاہور میں پرندوں کی 240 اقسام تھیں، 1992ء میں ان میں سے 139 اقسام ختم ہوچکی تھیں اور صرف 101 اقسام کے پرندے تھے۔ اوّل جی چاہا تھوڑی سی مزید تحقیق کرکے دیکھ لیا جائے کہ 2020ء میں لاہور میں پرندوں کی کتنی اقسام باقی رہ گئی ہیں، ڈیڑھ درجن یا اس سے بھی کم؟ پھر خیال آیا لاہور میں کیا ہوگا، پرندے تو اب اپنے گائوں سے بھی روٹھ چکے۔ ایک زمانہ تھا، شکار کا بہت شوق تھا۔ اس آوارگی میں ایسے ایسے پرندے نظر آتے تھے کہ ان کا حسن حیران کردیتا تھا۔ معلوم نہیں شکار کرتے کرتے کب اس معصوم مخلوق سے پیار ہوگیا۔ شاید یہ محض وقت کا پھیر تھا۔ ہماری جگہ اب کسی اور نے لے لی، ننھے پرندوں کے سر پر منڈلاتا عذاب ختم نہیں ہوسکا۔ اب گائوں جانا ہو تو پرندے کم ہی نظر آتے ہیں۔ کہاں بچپن کی گرمیوں کی وہ شامیں کہ گھر کے صحن میں لیٹ کر آسمان سے گزرتے پرندوں کے ڈار گننے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا، اور کہاں یہ عالم کہ آسمان بھی خالی، راستے بھی اجاڑ اور درختوں کی شاخیں بھی اداس۔ وہی بات کہ:۔
شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی
کوچ کردہ دستہ دستہ آشیان عندلیباں
باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہمارے حصے کی ساری بلبلیں دستہ دستہ کوچ کر گئیں، باغ باغیچے، شاخیں اور گھونسلے سب خالی پڑے ہیں۔ نانی سے ملنے ان کے گائوں وجھوکہ جاتے، تو سارے راستے سیم کے کنارے درختوں پر فاختہ بولتی تھی۔ صبح گھر میں چڑیوں کے شور سے آنکھ کھلتی تھی۔ چڑیا وہ پرندہ تھا، ماں کے پیار کی طرح جسے ہم نے ہمیشہ ’’فارگرانٹڈ‘‘ لیا کہ چڑیا کا کیا ہے، اسے تو آنگن میں آکر چہکنا ہی ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ چڑیا بھی کم ہی نظر آتی ہے۔ خطرہ ہے لندن اور دِلّی کی طرح یہاں بھی اگلے چار سال میں چڑیا نایاب پرندہ نہ بن جائے، جس کی بقاء ہی خطرے میں ہو۔ 1996ء میں مَیں اسلام آباد آیا، پھر کون سا گائوں اور کیسا گائوں! وقت دھول کی صورت اڑائے پھرتا ہے، گائوں کی اب یاد ہی باقی ہے۔ کبھی کبھار ہی جانا ہوتا ہے۔ پانچ سات سال کی بات ہے گائوں جاتے راستے میں دو تین چڑیاں مری ہوئی ملیں۔ میں نے برادرِ عزیز قاسم گوندل سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ قاسم نے بتایا کہ کسانوں کا خیال ہے یہ چڑیاں ان کے بیج کھا جاتی ہیں، وہ زہر ملا دیتے ہیں، چنانچہ پرندے مر جاتے ہیں۔ صدمے کی کیفیت میں بیٹھا مَیں سوچتا رہا یہ معصوم مخلوق کسانوں کے کتنے بیج کھا جاتی ہوگی؟ زرعی ماہرین اور ادویہ فروشوں کے مسلط کردہ اس واہیات کلچر سے پھوٹتے اس لالچ اور وحشت نے اپنے ہاتھوں پرندے مار دیے۔ اب ٹڈی دَل اترا ہے، بچا لیجیے اپنی فصلیں اور اپنے بیج۔ گائوں کی تہذیب کی کچھ روایات تھیں۔ تلیر کا گوشت بہت لذیذ ہوتا تھا مگر بڑے بوڑھے اس کے شکار سے منع کرتے تھے کہ یہ نقصان پہنچانے والے کیڑوں کو کھاتا ہے۔ ہمارے لالچ نے جب زہر ڈالا تو کیا چڑیا کیا تلیر، سب پرندے مرتے گئے۔ ہم نے ماحولیات کے قدرتی تناسب کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا۔ درخت کاٹے، آلودگی پھیلائی، پرانے طرزِ تعمیر میں گھروں کے اندر پرندے گھونسلے بنا لیا کرتے تھے، جدید طرزِ تعمیر میں یہ بھی ممکن نہیں۔ جدید طرزِ تعمیر میں مگر یہ ممکن تھا کہ گھر کے کسی گوشے میں دو چار گھونسلے لٹکا دیے جاتے کہ ننھی مخلوق کو کوئی جائے امان مل جاتی۔ گھروں کے ڈرائنگ روم تو ہم نے تعیشات سے بھر لیے لیکن ہمیں اس کی توفیق نہ ہوسکی کہ پرندوں کے لیے لکڑی کے دو پیارے سے گھونسلے بنواکر لٹکانا بھی گھر کی تزئین کا حصہ سمجھ لیں۔ موٹر وے ہم نے سفیدے سے بھر دیے اور سفیدے میں گھونسلہ بن ہی نہیں سکتا۔ ماحولیات میں گدھ کا ایک اپنا مقام تھا۔ ہم نے گدھ ختم کردیے۔ اب تناسب بگڑ رہا ہے تو یہ اپنا ہی نامۂ اعمال ہے۔ اپنے ہاتھوں، اپنے لالچ اور وحشت میں ہم نے پرندے ختم کردیے اور اب بیٹھے حساب لگا رہے ہیں کہ تلیر ایک گھنٹے میں280 ٹڈی مار کھاتا ہے اور کال چیٹ ایک گھنٹے میں 160 کیڑے مکوڑے کھا جاتی تھی۔ کال چیٹ کی تو پوری ایک کہانی ہے، آپ ذرا نام پر غور کیجیے۔کال یعنی Call اور چیٹ یعنی Cheat۔ اس کے بولنے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کے اس عمل میں کیا ہی ماحولیاتی حسن چھپا تھا۔ امکان ہے اس کا نام انگریز نے کال چیٹ اس کی اسی آواز سے دھوکہ دینے والی صلاحیت سے متاثر ہوکر رکھا۔ ٹڈی دَل کا جو طوفان امڈ پڑا ہے یقیناً اس سے نبٹنا محض پرندوں کے بس کی بات نہ ہوتی، لیکن پرندوں کا معدوم ہوتے چلے جانا یوں ہی ہے گویا لشکر حملہ آور ہو تو آپ کی فصیلیں منہدم ہونا شروع ہوجائیں۔ ہمیں اپنے پورے طرزِ زندگی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ یہ دنیا اللہ نے صرف بے ہنگم ہائوسنگ کالونیاں بنانے کے لیے پیدا نہیں کی۔ اس میں پرندوں کا بھی حق ہے۔ اس معصوم مخلوق کو بچانا ہوگا کہ انسان کی زندگی ان کی زندگی سے جڑی ہے۔ یہ تناسب بگڑے گا تو وائرس بھی آئیں گے اور ٹڈی دل بھی۔ سائنسی انداز سے تو جانے کیا کیا وجوہات سامنے آتی رہیں گی، لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے اس سب میں کہیں فطرت کی بغاوت اور ردعمل بھی شامل ہو۔ کیا ہم غور کرسکتے ہیں؟
۔(آصف محمود۔ روزنامہ 92، منگل 2 جون 2020ء)۔
پاکستانی لبرل کی بوکھلاہٹ
ترک ڈرامے کی ناقابلِ یقین مقبولیت نے پاکستانی لبرل کو بوکھلا دیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو اترسوں کمیونسٹ تھے، پرسوں سوشلسٹ، کل سیکولر اور آج لبرل۔کل سوویت یونین کے فکری کارندے، آج امریکہ بہادر کے۔ انہی کے لیے لبرل فاشسٹ کی اصطلاح تراشی گئی اور انہی کو عمران خان خونیں لبرل کہتے ہیں۔ افغانستان پر سوویت یونین حملہ آور ہو تو یہ اُس کے حامی۔ امریکہ افغانیوں کا قتلِ عام کرے تو یہ اُس کے ہم نوا۔ احساسِ کمتری کے مارے ہوئے بے چارے۔ فرانزز فینن نے کہا تھا: غلام اپنے آقا کے ذہن سے سوچتا ہے۔ ہیرو کیا مقامی اور غیر مقامی ہوتا ہے؟ ابراہم لنکن ایک لہکتا ہوا اخلاقی استعارہ ہیں۔ اگر ان پر ڈھنگ کی فلم بنے تو کیا ساری دنیا انہماک اور شوق سے نہیں دیکھے گی؟ کیا ایشیا والے چرچل اور ڈیگال کے قائل نہیں؟ کیا شیکسپیئر کے بارے میں اقبالؒ نے یہ نہیں کہا تھا: ۔
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی ایسا پیدا
اہلِ عظمت تمام بنی نوعِ انسان کو عزیز ہوتے ہیں۔ سات صدیاں بیت چکیں، ہر دس بیس برس کے بعد صلاح الدین ایوبی پر مغرب میں کوئی کتاب لکھی جاتی ہے، کوئی فلم بنتی ہے یا ڈراما سیریل۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کا آغاز ہوا تو دنیا کے جن ممتاز مفکرین کا انتخاب ہوا، امام غزالیؒ ان میں شامل تھے۔ مدتوں پڑھائے جاتے رہے۔کتنی ہی مغربی زبانوں میں مولانا رومؒ کا ترجمہ ہوا اور ساری دنیا کے اہلِِ دل انہیں عزیز رکھتے ہیں۔ خلیل جبران عالمِ عرب سے زیادہ مغرب میں مقبول ہیں۔ دستوفسکی اور گورکی روس کے فرزند تھے مگر ادب کی دنیا میں ہر طالبِ علم کے ہیرو۔ کوئلو پائلو لاطینی امریکہ کے ہیں مگر ساری دنیا کے بھی۔ اقبالؒ سیالکوٹ کی خاک سے اٹھے مگر تمام عالمِ اسلام کی متاع ہیں۔ مغرب بھی ان سے مرعوب ہے۔ اہلِ کشمیر ان کے گیت گاتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ ان کے ہم نسل تھے؟ مگر انقلابِ ایران میں بھی وہ ایک اہم ترین کردار تھے۔ اتنے کہ کوئی دوسرا ایرانی شاعر نہیں۔ علی شریعتی انہی کی شاخ پہ کھلا پھول ہیں۔ کوئی کہیں کا مکین ہو، کسی بھی زمانے اور کسی بھی قوم کا فرزند، بلند عزمی اور اخلاقی عظمت کے ساتھ جرات و شجاعت آدمؑ کے ہر فرزند کے لیے مشعل ہے۔ بدنصیب ہیں جو ادراک نہ کرسکیں۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں۔
۔(ہارون رشید۔ روزنامہ 92، منگل 2 جون 2020ء)۔