زمین کے قریب ترین ایک نیا بلیک ہول دریافت

یورپی سدرن رصدگاہ (آبزرویٹری) کے سائنس دانوں اور دیگر اداروں کے ماہرین نے یہ بلیک ہول دریافت کیا ہے جس کے گرد دو ستارے محض آنکھوں سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ماہرین نے انہی دو ستاروں کو ایم پی جی، ای ایس او 2.2 قطر دوربین سے دیکھا ہے۔ یہ دوربین لاسیلا آبزرویٹری کے نام سے چلی میں قائم ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تو ایک جھلک ہے اور ایسے کئی بلیک ہول مستقبل میں دریافت کیے جاسکیں گے۔ ماہرین کے مطابق یہ بلیک ہول کے ساتھ دہرے ستارے کا نظام ہے جو ٹیلی اسکوپیم نامی ایک جھرمٹ (کانسٹلیشن) میں دریافت ہوا ہے۔ اگر مطلع صاف اور رات گہری ہو تو اس کے ستارے کسی دوچشمی دوربین کے بغیر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس پورے نظام کو ای ایس او کے ماہر تھامس ریوینیس نے ایچ آر 6819 کا نام دیا ہے۔ پہلے خیال تھا کہ یہ دہرے (بائنری) ستارے کا ایک نظام ہے۔ لیکن بعد میں اس میں بلیک ہول دریافت ہوا جو ایک اہم دریافت ہے۔اس دوران ایف ای آر او ایس طیف نگار (اسپیکٹروگراف) نے انکشاف کیا کہ دکھائی دینے والے دونوں ستارے ہر 40 روز بعد ایک اَن دیکھے جسم کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ پھر کئی ماہ تک مسلسل اس کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ پہلا بلیک ہول بھی ہے جو اپنے ماحول سے بہت تیزی سے عمل نہیں کررہا اور یوں مکمل طور پر تاریک دکھائی دیتا ہے۔ اس کی کمیت ہمارے سورج سے 4 گنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے عام ستارے والے حجم کا بلیک ہول قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ہماری کہکشاں میں بھی چند درجن بلیک ہول دریافت ہوئے جو اپنے ماحول سے عمل کرکے طاقتور ایکس رے کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایچ آر 6819 میں ایک خاموش، قدرے تاریک اور پُرسکون بلیک ہول کی یہ پہلی دریافت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خود ہماری ملکی وے کہکشاں میں ایسے لاکھوں کروڑوں بلیک ہول موجود ہوسکتے ہیں۔

امریکی صدرکے سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیئے ہیں جس میں اس قانونی تحفظ کو ہدف بنایا گیا ہے جو انٹرنیٹ کمپنیاں صارفین کے بنائے گئے مواد کی ذمہ داری سے خود کو بچانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ قانون جسے کمیونی کیشنز ڈیکنسی ایکٹ کے سیکشن 230 کا نام سے جانا جاتا ہے، بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں جیسے ٹویٹر، یوٹیوب اور فیس بک کے لیے ضروری ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’’مواد کو ایڈٹ، بلیک لسٹ، شیڈو بین کرنے کے ادارتی فیصلوں کے لیے ٹویٹر کا انتخاب خالص اور سادہ ہونا چاہیے، ان مواقع پر ٹویٹر ایک غیرجانب دار عوامی پلیٹ فارم کی جگہ ایک نکتہ نظر رکھنے والا ایڈیٹر بن جاتا ہے، اور میرے خیال میں ہم دیگر جیسے گوگل اور فیس بک کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں‘‘۔ ٹیکنالوجی کمپنیوں اور انٹرنیٹ کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا ماننا ہے کہ یہ ایگزیکٹو آرڈر قانون کی اصل روح کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیکشن 230 انٹرنیٹ کمپنیوں کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا تھا تاکہ وہ اُس مواد پر ہرجانے سے بچ سکیں جس کی میزبانی ان کا پلیٹ فارم کرتا ہے، جبکہ فیصلوں کی ذمہ داری سے بچتے ہوئے مواد میں تبدیلی کا اختیار بھی ملتا ہے۔ ٹویٹر نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو ’’تاریخ ساز قانون کے لیے قدامت پسند اور سیاسی سوچ‘‘ قرار دیا ہے۔ فیس بک نے بھی اپنے بیان میں زور دیا کہ ’’کمپنی اپنی سروسز میں اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ پر یقین رکھتی ہے، مگر اس کے ساتھ اپنی کمیونٹی کو نقصان دہ مواد سے بھی بچانا چاہتی ہے‘‘۔ گوگل نے اس پر کہا کہ ’’مواد کے حوالے سے ہماری پالیسیاں واضح ہیں اور ان پر عمل درآمد کسی سیاسی نکتہ نظر کے بغیر ہوتا ہے، ہمارا پلیٹ فارم لوگوں اور اداروں کو آواز دینے کے ساتھ لوگوں تک پہنچنے کے نئے ذرائع فراہم کرتا ہے، سیکشن 230 کو نقصان پہنچانے سے امریکی معشیت اور انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے عالمی قیادت متاثر ہوسکتی ہے‘‘۔ ٹویٹر نے ٹرمپ کے ٹویٹس کے نیچے ایک لنک دیا جس میں تحریر کیا گیا کہ ’’میل ان بیلٹس کے بارے میں حقائق جانیے‘‘، اور صارفین کو ان دعووں کے جھوٹے ہونے کی نشان دہی کرنا پڑی اور میڈیا کی رپورٹس کا حوالہ بھی دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں ٹویٹر کو جانب دار قرار دیتے ہوئے اس نوٹس کو مسترد کردیا۔امریکی صدر نے کہا کہ ’’ٹویٹر اب 2020ء کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کررہا ہے‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف کارروائی کا انتباہ بھی دیا اور بدھ کو ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’’ریپبلکنز کو محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قدامت پسند آوازوں کو مکمل خاموش کررہے ہیں، ہم اپنے ساتھ ایسا ہونے سے پہلے ان کو سختی سے ریگولیٹ یا بند کردیں گے، ہم نے دیکھا تھا کہ انہوں نے 2016ء میں بھی ایسی کوشش کی اور ناکام رہے‘‘۔ سیکشن 230 کو ختم کرنے کا خیال انٹرنیٹ کمپنیوں کے لیے خطرہ سمجھا جارہا ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ کیا واقعی وائٹ ہاؤس کے پاس اس کے نفاذ کا اختیار بھی ہے یا نہیں۔ ماہرین کے خیال میں اس ایگزیکٹو آرڈر سے سوشل میڈیا کمپنیوں کو دبانا ممکن نہیں ہوگا بلکہ الٹا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ان پالیسیوں کا نفاذ سختی سے کرنے لگیں جن کے خلاف امریکی صدر نے اسے جاری کیا۔
اس ایگزیکٹو آرڈر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ ٹویٹر کی جانب سے کیے جانے والے اقدام کا ردعمل ہے۔

کورونا وائرس اب پہلے جیسا جان لیوا نہیں رہا، اطالوی ڈاکٹروں کا دعویٰ

اٹلی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ نیا کورونا وائرس اب اتنا جان لیوا نہیں رہا جتنا عالمی وبا کے آغاز پر تھا۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق میلان کے سان ریفایلی ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر البرٹو زینگریلو نے اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا ’’حقیقت تو یہ ہے کہ طبی لحاظ سے یہ وائرس اب اٹلی میں موجود نہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا ’’گزشتہ 10 دن کے دوران سواب ٹیسٹوں میں جو وائرل لوڈ دیکھا گیا وہ ایک یا دو ماہ قبل کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے اطالوی حکومت پر لاک ڈاؤن کی پابندیاں اٹھانے کے عمل کو جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وائرس کی دوسری لہر کا انتباہ اٹلی میں غیرضروری خوف پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ خیال رہے کہ میلان اٹلی کے خطے لمبارڈی میں واقع ہے جو اس وبائی مرض سے بہت بری طرح متاثر ہوا تھا۔ شمال مغربی اٹلی کے شہر جینوا کے سان مارٹینو ہسپتال کے وبائی امراض کے مرکز کے سربراہ میٹیو باسیٹی نے بھی ڈاکٹر البرٹو کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس اب اتنا جان لیوا نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔